You are currently viewing لا محدود طاقت
لا محدود طاقت

لا محدود طاقت

لا محدود طاقت

لا محدود طاقت
لا محدود طاقت

 

بادشاہوں کی پسندیدہ شے

زندگی کا اعلی ترین مقصد علم نہیں، بلکہ عمل ہے۔ تھامس ہنری ہکسلے میں نے اس کے بارے میں کئی ماہ سے سُن رکھا تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ نوجوان ہے، دولت مند ہے، صحت مند اور خوش باش ، غرض کامیاب آدمی ہے۔ مجھے اسے خود دیکھنا تھا۔ وہ ٹیلی ویژن سٹوڈیو سے نکلا تو میری نظروں میں تھا۔ اگلے چند ہفتے میں اس کا قریبی مشاہدہ کرتا رہا۔ وہ ملک کے صدر سے لے کر ایک عام خوف زدہ فرد تک ہر کسی کو مشورے دے رہا تھا۔ میں نے اسے ماہرین غذا اور ریلوے انتظامیہ سے بحث و مباحث میں اُلجھے، کھلاڑیوں کے ساتھ کام کرتے اور ننھے معذور بچوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے دیکھا۔

ملک کے طول وعرض میں اور پھر پوری دنیا کے گرد سفر کرتے ہوئے ، وہ نا قابل یقین حد تک خوش دکھائی دیتا تھا اور اس کے ہر عمل سے اپنی بیوی کے لیے شدید محبت ظاہر ہوتی تھی۔ اس سفر کے اختتام پر وہ سان ڈیاگو واپس آئے تا کہ بحر الکاہل کے ساحل پر واقع اپنے شان دار محل میں، اپنے خاندان کے ساتھ کچھ دن گزار سکیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا کہ ایک پچیس سالہ نوعمر انسان نے ، صرف اپنی ہائی سکول تعلیم کے ساتھ ، ایک مختصر سی مدت میں اتنا کچھ حاصل کر لیا؟

بہر حال یہی آدمی، تین سال پہلے 400 مربع فٹ کے پچھلکر اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا اور اپنے باتھ ٹب میں، خود ہی اپنے برتن دھویا کرتا تھا۔ ایک انتہائی پریشان حال شخص، عمومی وزن سے تمہیں پونڈ زیادہ بھاری، واجبی سے تعلقات اور محدود امکانات کی صورت حال سے نکل کر ایک مجتمع ، صحت مند، سماجی عزت واحترام اور لامحدود کامیابی کے مواقع کا حامل شخص کیسے بن گیا؟
یہ سب کچھ بے انتہا نا قابل یقین لگ رہا تھا اور سب سے زیادہ حیرت انگیز احساس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لا محدود طاقت
بادشاہوں کی پسندیدہ شے
یہ تھا کہ وہ آدمی کوئی اور نہیں بلکہ میں خود ہوں اور یہ میری اپنی کہانی ہے۔ میرے کہنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ میری زندگی کامیابیوں کی انتہا ہے۔ ظاہر ہے ہم سب کے اپنے کچھ خواب ہوتے ہیں، کچھ نظریات ہوتے ہیں، جنہیں ہم اپنی زندگی میں حقیقی وجود دینا چاہتے ہیں۔ مزید برآں، میں یہ بھی اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ آپ کی جان پہچان، آپ کا اُٹھنا بیٹھنا، آپ کی رسائی اور آپ کی مادی ملکیت آپ کی ذاتی کامیابی کے حقیقی عکاس نہیں ہوتے۔ میرے نزد یک کامیابی، زیادہ سے زیادہ کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ یہ بندباتی ماجی، روحانی ? مانی عقلی اور مالی طور پر آگے بڑھنے کا وہ موقع ہے جس میں آپ دوسروں کے لیے بھی مثبت طریقے سے کچھ نہ کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔ کامیابی کا راستہ ہمیشہ زیرتعمیر رہتا ہے۔ یہ آگے بڑھنے کا ذریعہ ہے، بذات خود کوئی مقصد نہیں۔

میری کہانی کا مرکزی نکتہ سیدھا سادا ہے۔ کچھ اُصولوں پر (آپ جن سے اس کتاب میں آگاہ ہوں گے ) عمل کر کے میں نہ صرف اپنے بارے میں، اپنے محسوسات کو بدلنے بلکہ اپنی زندگی میں خود پیدا کردہ نتائج کو تبدیل کرنے کے قابل ہوا اور وہ بھی انتہائی زبر دست اور واضح انداز میں بہتری کے لیے، میری زندگی میں تبدیلی لانے والے عوامل کیا تھے، اسی آگہی میں آپ کی شرکت، اس کتاب کا حقیقی مقصد ہے۔ یہ میری مخلصانہ توقع ہے کہ ان صفحات میں بتائی جانے والی ٹیکنالوجیز ، حکمت عملیوں، مہارتوں اور فلسفوں کو آپ اپنے لیے بھی اتنا ہی قوت بخش، طاقت ور پائیں گے ، جتنا انہیں میں اپنے لیے محسوس کرتا رہا ہوں، اپنے عظیم خوابوں کے مطابق، اپنی زندگی میں طلسماتی تبدیلی کی طاقت، ہم سب کے اندر موجود، ہماری منتظر ہے۔ اس طاقت کو آزاد کرنے کا یہی وقت ہے۔

اپنی زندگی کے خوابوں کو جب انتہائی تیز رفتاری سے، حقیقی شکل اختیار کرتے دیکھتا ہوں تو شکر اور خوف کی ملی جلی ناقابل یقین کیفیت محسوس کرتا ہوں اور یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ مثالی عروج ابھی مجھ سے بہت دُور ہے۔ دراصل ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں بہت سے لوگ راتوں رات حیران کن کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسی کامیابیوں کا حصول پرانے زمانے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ سٹیو جابز ہی کو دیکھیے ۔ نیلی جینز پہنے، خالی جیب، ایک لڑکا، جس نے گھریلو کمپیوٹر کا تصور دیا اور انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ سرعت کے ساتھ فار چون 500 کمپنی (Fortune 500 Company) تعمیر کر ڈالی۔

ٹیڈ ٹرنز کی طرف نظر ڈالیے، جس نے ایک بے نام سے میڈیم کیبل ٹیلی ویژن کو اُٹھایا اور ایک بےمثال ایمپائر تشکیل دے ڈالی۔ انٹرٹین منٹ کی صنعت میں سٹیون شمیل برگ یا برنس شہر نگ شین جیسے لوگ یا لی لیکو کا یار اس پیرٹ جیسے کاروباری افراد سامنے آتے ہیں۔ ان میں حیرت انگیز اور عقل کو دنگ کر دینے والی کامیابی کے علاوہ اور کیا شے مشترک ہے۔ اس کا جواب
بلا شبہ ہے ۔ طاقت۔ طاقت، بہت ہی جذباتی قسم کا لفظ ہے۔ اس کے بارے میں لوگوں کے تاثرات مختلف انداز کے ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک ، اپنے معنوی اعتبار سے، طاقت ہمیشہ منفی ہوتی ہے۔ بعض لوگ طاقت کے دیوانے ہوتے ہیں۔

کتنی طاقت چاہتے ہیں آپ؟ خود کفالت یا ترقی کے لیے آپ کے خیال میں کتنی طاقت صحیح ہو گی؟ آپ کے نزدیک طاقت کی حقیقی معنویت کیا ہے؟ میں طاقت کو ، لوگوں پر فتح حاصل کرنے کی معنوں میں نہیں لیتا۔ میں اسے کوئی ایسی چیز نہیں سمجھتا جسے زبردستی لوگوں پر مسلط کر دیا جائے۔ میں اپنی رائے آپ پر ٹھونس نہیں رہا کہ آپ بھی اسی طرح سوچیں۔ ایسی طاقت کبھی بھی زیادہ دیر قائم نہیں رہتی۔ لیکن یہ ضرور محسوس کریں کہ طاقت، دُنیا میں، ایک مستقل شے ہے، آپ اپنے تصورات کو تشکیل دیں یا کوئی اور انہیں آپ کے لیے تشکیل دے۔ آپ جو چاہیں خود کرتے ہیں یا اپنے لیے کسی اور کے بنائے ہوئے منصوبوں سے متاثر ہوتے ہیں۔

میرے نزدیک حقیقی طاقت وہ صلاحیت ہے جو آپ کے لیے پسندیدہ نتائج پیدا کرنے کے ساتھ ، دوران عمل، دوسروں کے لیے بھی قدر (value) کو جنم دیتی ہے۔ طاقت وہ صلاحیت ہے جو آپ کی زندگی بدل ڈالتی ہے، آپ کے تصورات کو تشکیل دیتی ہے۔ چیزوں کو آپ کی مخالفت کے بجائے ، آپ کی حمایت میں کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ حقیقی طاقت تھوپی نہیں جاتی بلکہ اس میں اشتراک کیا جاتا ہے۔ یہ انسانی ضروریات سے آگاہی اور ان کی تحمیل کی صلاحیت کا نام ہے یہ ضروریات آپ کی اور آپ کے زیر کفالت افراد، دونوں ہی کی ہوتی ہیں۔

یہ آپ کی اپنی ذاتی سلطنت آپ کے اپنے خیالات کے پراکس، آپ کے اپنے رویے کو صحیح طرح چلانے کی صلاحیت ہے تا کہ آپ ممکنہ حد تک اپنے من پسند نتائج پیدا کر سکیں۔ پوری تاریخ میں، ہماری زندگیوں کو کنٹرول کرنے والی طاقت کئی مختلف اور متضاد شکلیں اختیار کرتی رہی ہے۔ ابتدائی زمانے میں طاقت محض جسمانی قوت سے عبارت تھی۔

لا محدود طاقت۔۔۔بادشاہوں کی پسندیدہ شے

زیادہ طاقت ور اور تیز رفتار مشخص، نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر گزار نے بلکہ اپنے ارد گرد موجود دوسروں کی زندگیوں پر بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ طاقت وراثت کے نتیجے میں حاصل ہونے لگی۔ اپنے جاہ وجلال کی علامتوں میں گھرا ہوا بادشاہ واضح اختیارات کے ساتھ حکمرانی کرنے لگا۔ دوسرے لوگ شاہی قربت کے نتیجے میں طاقت حاصل کر سکتے تھے۔ پھر صنعتی عہد کی ابتدا میں سرمایہ طاقت بن گیا۔ سرمایہ جن کی پہنچ میں تھا، وہ صنعتی عمل پر قابض ہو گئے۔ یہ سب چیزیں آج بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ سرمائے کا ہونا، سرمائے کے نہ ہونے سے بہر حال بہتر ہے۔ جسمانی توانائی کا ہونا، اس کے نہ ہونے سے یقیناً اچھا ہے۔ تاہم ، آج طاقت کے عظیم سرچشموں میں سے ایک خصوصی علم کا مرہونِ منت ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ اب اس حقیقت سے آشنا ہو چکے ہیں کہ ہم انفارمیشن کے دور میں رہ رہے ہیں۔ ہم بنیادی طور پر اب صنعتی ثقافت کا حصہ نہیں رہے بلکہ اطلاعاتی ثقافت کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہم ایک ایسے زمانے میں زندہ ہیں جہاں نئے تصورات تحریکیں اور نظریات جنم دیے جا رہے ہیں۔ چاہے یہ نظریات Quantum Physics جیسے اہم مضمون سے متعلق ہوں یا ہیم برگر کی اعلی مارکیٹنگ کا عام سا معاملہ۔

آج کی جدید دنیا کی خصوصیت اگر کوئی ہے تو وہ اس کی اطلاعات کا بھر پور اور تقریباً نا قابل تصور بہاؤ ہے اور نتیجتا تبدیلی کا بہاؤ بھی۔ کتابوں، فلموں، ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر چپس کے ذریعے یہ ساری انفارمیشن کسی زبر دست طوفان کی طرح، دیکھی سنی اور محسوس کی جاسکتی ہے۔

اس سماج میں، انفارمیشن اور مراسلاتی ذرائع کے حامل ، در اصل اس لامحدود طاقت کے مالک ہیں، جو پہلے صرف بادشاہوں کا خاصا تھی۔ جان کینتھ گیلبرتھ کی رائے کچھ ہوں ہے، “زر صنعتی سماج کا ایندھن تھا لیکن اطلاعاتی معاشرے میں یہ ایندھن یا طاقت “علم” ہے۔ ایک نیا طبقاتی ڈھانچا سامنے آ رہا ہے، جو انفارمیشن کے حامل اور لاعلم کارکنوں میں منقسم ہے۔

اس نئے طبقے کی طاقت زر اور زمین سے نہیں بلکہ علم سے ابھرتی ہے۔” قابل ذکر بات یہ ہے کہ آج طاقت کی کنجی تک رسائی ہم سب کے بس میں ہے۔ اگر آپ زمانہ وسطی میں بادشاہ نہ ہوتے تو بادشاہ بننے کے لیے آپ کو بے پناہ تگ و دو کرنا پڑتی۔ صنعتی انقلاب کے آغاز میں، اگر آپ کے پاس زبر دست سرمایہ نہ ہوتا تو آپ کے راستے کی رُکاوٹیں آپ کی کامیابی کا راستہ مسدود کر دیتیں۔ لیکن نیلی جینز پہنے ایک نوجوان،آج ایک ایسی کارپوریشن کو جنم دے سکتا ہے جو پوری دنیا کو ہی بدل ڈالے۔ جدید دنیا میں انفارمیشن بادشاہوں کی چیز ہے۔

تخصیصی علم کی بعض بیٹوں تک رسائی کے ذریعے ، لوگ نہصرف اپنا آپ بلکہ بہت سی صورتوں میں پوری دُنیا تک کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہاں ایک اہم سوال سامنے آتا ہے۔ امریکا میں ہماری زندگی کی کوالٹی کو بدلنے کے لیے ضروری تخصیصی علم کی مختلف اقسام ہر کسی کی رسائی میں ہیں۔ یہ سب کتابوں اور وڈیو کی ہر دکان اور ہر لائبریری میں موجود ہے۔ تقریروں، سیمیناروں اور تعلیمی نصابوں سے آپ ات حاصل کر سکتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ ہم سب ہی کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔

ذاتی کامیابی کے نسخوں سے پُر کتابیں، سب سے زیدہ بکنے والی فہرست میں سب سے زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔ ایک منٹ کا منتظم، کامرانی کی تلاش میں عظیم رجحانات، وہ کچھ جو ہارورڈ بزنس سکول میں پڑھایا جاتا ہے، پیشگی سے پرے رسائی ۔۔ غرض یہ فہرست ختم ہونے پر نہیں آتی انفارمیشن موجود ہے۔ پھر بعض لوگ حیرت انگیز نتائج کس طرح دکھاتے ہیں جب کہ بعض محض گزارا ہی کر پاتے ہیں۔ ہم سبھی لوگ طاقت ور، خوش ، دولت مند ، صحت مند اور کامیاب کیوںنہیں ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ اس اطلاعاتی دور میں بھی پوری (کافی) انفارمیشن نہیں ملتی ۔ اگر صرف نظریات اور مثبت سوچ کا ہونا ہی کافی ہوتا تو اپنے بچپن میں ہم سب کے پاس چھوٹے گھوڑے ہوتے اور اس وقت ہم کبھی اپنی من پسند ” مثالی زندگی گزار رہے ہوتے۔ ہر زبردست کامیابی عمل کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ عمل ہی سے نتائج پیدا ہوتے ہیں۔

موثر عمل کی اہمیت پہچاننے والے شخص کے ہاتھ میں آنے سے پہلے، علم محض ایک امکانی قوت رہتا ہے۔ دراصل قوت” کے لفظ کی لغوی تعریف عمل کرنے صلاحیت ہے۔ ہمارا خود اپنے آپ سے ارتباط (communication) یہ متعین کرتا ہے کہ ہم زندگی میں کیا کچھ کرتے ہیں۔ جدید دنیا میں ارتباط کی کوالٹی ہی دراصل زندگی کی کوالٹی بناتی ہے۔

ہم اپنے ارد گرد کو کیسے تصویر کرتے ہیں اور خود سے کیا کہتے ہیں۔ ہمارے اجسام کی حرکات و سکنات، ان کا استعمال اور ہمارے چہرے کے تاثرات، یہ سب مل کر متعین کرتے ہیں کہ ہمارے اپنے استعمال کے لیے ہمارے علم و آگہی کی حدود کیا ہیں۔ بسا اوقات ہم انتہائی کامیاب لوگوں کو دیکھ کر ذہنی الجھاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ اس اعلیٰ مقام تک محض اپنی خصوصی فطری صلاحیتوں کے بل پر جا پہنچے ہیں، لیکن ان کا قریبی جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عام آدمی کی نسبت، ان غیر معمولی لوگوں کے پاس کوئی عطیہ خداوندی اگر ہے تو محض ان کی فعالیت ہے اور یہ وہ عطیہ ہے جو ہم میں سے ہر شخص خود میں پیدا کر سکتا ہے۔

آخر سٹیو جابز نے جس علم کے برتے پر کرشمہ دکھایا، وہ علم تو اور بہت سے لوگوں کے پاس بھی تھا۔ ٹیڈ ٹرنر کے علاوہ دوسرے لوگ بھی کیبل کے زبر دست معاشی امکانات کا اندازہ لگا سکتے تھے۔ لیکن ٹرنر اور جابز میں عمل کرنے کی صلاحیت تھی اور اسی عمل کے ذریعے انہوں نے دُنیا کو وہ شکل دے ڈالی جو آج ہمارے سامنے ہے۔ ہم سب دو طرح کے رابطے پیدا کرتے ہیں جن سے ہماری زندگی کا تجربہ تشکیل پاتا ہے۔ پہلا یہ کہ ہم اندرونی رابطے قائم کرتے ہیں: وہ چیزیں، جو ہم اپنے اندر تصویر کرتے ہیں

، خود سے کہتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔ اور دوسرا ہے ہمارے بیرونی رابطوں کا مشاہدہ: الفاظ، لہجوں کا اُتار چڑھاؤ، چہرے کے تاثرات، جسمانی رویے اور طبعی اعمال، یہ سب دُنیا سے رابطوں کا ذریعہ ہیں۔ ہمارا ہر رابطہ ایک عمل ہے، ایک متحرک مقصد ہے اور ہر طرح کے رابطوں کا ہماری اپنی ذات پر اور دوسروں پر کوئی نہ کوئی اثر ہوتا ہے۔

ارتباط ہی طاقت ہے۔ اس کے موثر استعمال کی آگاہی رکھنے والے، نہ صرف دُنیا سے متعلق اپنا مشاہدہ بدل سکتے ہیں بلکہ اپنے بارے میں دُنیا کا مشاہدہ بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ تمام رویے اور احساسات اپنی حقیقی جڑیں کسی نہ کسی ارتباطی شکل میں تلاش کر سکتے ہیں۔

ہماری اکثریت کے خیالات، احساسات اور افعال پر اثر انداز ہونے والے وہی لوگ ہیں جو طاقت کے اس ہتھیار کا بخوبی استعمال جانتے ہیں۔ ہماری دنیا کو تبدیل کر دینے والے افراد کو ذرا تصور میں لائے جان ایف کینیڈی تھامس جیلسن، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر ، فرینکلن ڈیلانو روز ویلٹ ، ونسٹن چرچل ، مہاتما گاندھی۔ ذرا سے سنگ دل ہو کر ہٹلر کا خیال ذہن میں لائے۔

ان سبھی شخصیات میں واحد مشترک نظر آنے واں خصوصیت ہے ان کا زبر دست ارتباط ۔ مقصد چا ہے لوگوں کو خلا میں لے جانا ہو یا نفرت سے بھری تیسری جمہوریہ کا قیام۔ ایک تصور کی تخلیق اور اس کی لوگوں تک انتہائی باکمال انداز میں ترسیل یا ارتباط ہی ان کی وہ صلاحیت تھی جس کے ذریعے انہوں نے عوامی سوچ اور عمل کو بُری طرح متاثر کیا۔

اپنی ارتباطی طاقت کے ذریعے انہوں نے دنیا کو تبدیل کر ڈالا۔ کیا حقیقتا یہی وا قوت نہیں جو شپیل برگ، شیر جنگ سٹائن، لاکو کا، فونڈا یا ریگن جیسے افراد کو دوسروں سے ممتاز کر ڈالتی ہے۔ کیا یہ لوگ انسانی ارتباط اور اپنی اثر انگیزی میں کمال کی مہارت کے حامل نہیں؟ جس طرح یہ لوگ ارتباط کے ذریعے عوام کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بعینہ ہم بھی اس ہتھیار کو خود کو متحرک کرنے میں استعمال کر سکتے ہیں۔

بیرونی دنیا میں، ارتباط پر آپ کے عبور کی سطح، ذاتی ، جذباتی ، سماجی اور مالی طور پر دوسروں کے ساتھ آپ کی کامیابی کی سطح کو متعین کرتی ہے۔ اور اس سے کہیں اہم آپ کی کامیابی کی سطح کا اندرونی مشاہدہ خوشی ، لطف، وجدانی، چاہت یا آپ کی کوئی بھی خواہش آپ کی خود ارتباطی (self communication) کا براہ راست نتیجہ ہوتا ہے۔

آپ کے احساسات آپ کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کا نتیجہ نہیں ہوتے ۔ انہیں واقعات کے متعلق محض آپ کی رائے یا تشریح کہا جا سکتا ہے۔ کامیاب لوگوں کی زندگی کے بار بار مشاہدے سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ ہماری زندگی کی کوالٹی کا تعین ہمیں در پیش واقعات کے بجائے، ان واقعات کے رونما ہونے میں ہمارے اپنے عمل اور کارگزاری سے ہوتا ہے۔ زندگی کے بارے میں آپ کے تصورات کیا ہیں، انہیں بنیاد بنا کر سوچنا اور اس پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ خود آپ کو ہی کرنا ہوتا ہے۔

کسی بھی چیز کی کوئی معنویت نہیں ہوتی ، دراصل اسے معنویت ہم دیتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگوں نے معنویت یا تعبیر کے اس عمل کو خود کار بنا کر رکھ دیا ہے، لیکن ہم اس طاقت کو واپس لے کر دنیا کے بارے میں اپنے مشاہدات کو فوری طور پر بدل سکتے ہیں۔ یہ کتاب ایسے زیر دست مرتکز، اور مبزوں اعمال (actions) کی مختلف قسموں کے بارے میں ہے جو محیر العقول نتائج کی سمت لے جاتے ہیں۔ اگر مجھے صرف دو لفظوں میں اس کتاب کے بارے میں بتانا پڑے تو میں کہوں گا

: نتائج پیدا کرنا! ذرا اس کے بارے میں سوچیے ۔ کیا حقیقتا یہی وہ چیز نہیں جس میں آپ دلچپسی رکھتے ہیں؟ ممکن ہے آپ اپنے متعلق اور دنیا کے بارے میں اپنا انداز فکر بدلنا چاہتے ہوں۔ ممکن ہے آپ بہتر رابطہ کار communicatod) بننا چاہتے ہوں، زیادہ گہرا تعلق پیدا کرنا، تیزی سے سیکھنا، زیادہ صحت مند ہونا یا خوب پیسا کمانا، ان میں سے کوئی بھی مقصد آپ کے سامنے ہو۔

آپ نہ صرف یہ ساری خوبیاں (اس کتاب میں دی گئی معلومات کے موثر استعمال کے ذریعے) بلکہ ان سے کہیں زیادہ اپنے لیے پیدا کر سکتے ہیں۔ نئے نتائج کو جنم دینے سے پہلے، آپ کے ذہن میں لا ز ما یہ واضح احساس ہونا چاہیے کہ آپ پہلے بھی نتائج پیدا کرتے رہے ہیں

۔ ممکن ہے یہ نتائج آپ کی خواہش کے مطابق نہ ہوں۔ ہم میں سے اکثر لوگ اپنی دینی حالت اور ذہن میں پیدا ہوئی کیفیات کو عموماً ایسی اشیا سے تعبیر کرتے ہیں جن پر ہمارا کوئی بس نہیں چلتا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ آپ اپنی ذہنی سرگرمیوں اور اپنے رویوں کو نا قابل یقین انتہا تک اپنے کنٹرول میں کر سکتے ہیں

بادشاہوں کی پسندیدہ شے ہیں۔ اگر آپ اداس ہیں تو یہ صورت حال جسے آپ اُداسی یا آزردگی کا نام دیتے ہیں، آپ کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ اگر آپ بے پناہ خوش ہیں تو اس کیفیت کو بھی آپ ہی نے جنم دیا ہے۔ یہ ذہن نشین رہے کہ اُداسی یا پریشانی جیسے جذبات خود بخود آپ کے سامنے نہیں آ جاتے۔ آپ اُداسی کا شکار نہیں ہوتے بلکہ اسے جنم دیتے ہیں

، اپنے مخصوص ذہنی اور جسمانی اعمال کے ذریعے اپنی زندگی کے دوسرے تمام نتایج کی طرح۔ اداس اور پریشان ہونے کے لیے آپ کو اپنی زندگی کا ایک مخصوص انداز میں مشاہدہ کرنا ہوتا ہے۔ بعض باتوں کے بارے میں، خورے ایک خاص لہجے میں بات کرنا ہوتی ہے۔ آپ کو ایک مخصوص شکل اور سانس لینے کا انداز اختیار کرنا پڑتا ہے ۔ مثلا: اگر آپ افسرود، یا اداس ہونا چاہتے ہیں، ذرا کند ھے انکا لیجیے اور نگاہیں نیچے گاڑ لیجیے اور آپ کی کوشش کامیاب۔ اداس لہجے میں بات کرنا اور اپنی زندگی کے ممکنہ بدترین مناظر ذہن میں لانا بھی خاصا فائدہ مند رہتا ہے۔

اگر آپ معمولی غذا، یا حد سے زیادہ شراب نوشی یا منشیات کے استعمال کے ذریعے اپنی صحت کے دشمن بن جائیں تو آپ اپنے جسم میں لو بلڈ شوگر کو جنم دینے کا باعث بنتے ہیں اور نتیجتا ڈ پریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ڈیپریشن پیدا کرنے کے لیے کوشش کرنا پڑتی ہے۔ یہ خاصا مشکل کام ہے اور اس کے لیے مخصوص انداز کے اعمال اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض لوگوں نے اتنی دفعہ یہ کیفیت پیدا کی ہے کہ ان کے لیے اس کیفیت کو جنم دینا بالکل آسان ہوتا ہے۔

در حقیقت، وہ عام طور پر، اندرونی ارتباط کے اس انداز کو ہر طرح کے بیرونی واقعات سے جوڑ ڈالتے ہیں۔ اپنی زندگی میں یہ طرز ارتباط اختیار کر کے بعض لوگ بہت سے فوایک دوسروں کی توجہ، ہمدردی، محبت و غیر حاصل کرتے ہیں۔ بعض لوگ ایک طویل عرصہ اس کیفیت میں رہنے کی وجہ سے خود کو اسی حالت میں زیادہ خوش و خرم محسوس کرتے ہیں۔ یہ کیفیت ان کی پہچان بن جاتی ہے۔ تاہم ہم اپنی پہنی اور جسمانی عمد نی ملیت میں تبدیلی لا کر اپنے جذبات اور رویوں میں فوری تبدیلی لا سکتے ہیں۔

آپ خود میں خوشی کا احساس جگائیں تو آپ خوش و خرم ہو سکتے ہیں۔ آپ ایسے احساسات کو جنم دینے والی تصویر اپنی ذہنی سکرین پر لائیں، یہ بالکل آپ کے بس میں ہے۔ آپ اپنے ساتھ اپنے اندرونی ڈائیلاگ کے مندرجات اور لجھے میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اپنی جسمانی کیفیات میں خصوصی وضع قطع اور سانس لینے کے انداز اپنا کر آپ بلاشبہ جوش و خروش اور حد درجہ خوشی کا احساس پیدا ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ خدا ترس اور رحم دل بننا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی جسمانی اور دینی عملیت میں کچھ اس طرح کی تبدیلی

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply