قربانی کا قبل از اسلام تصور
قربانی کا قبل از اسلام تصور
از حیم قاری محمد یونس شاہد میو۔
روایات کے مطابق انسانی زندگی کی اتبداء ہی قربانی سے ہوئی۔افرادی لحاظ سے دنیا میں دوچار انسان ہی تو تھے،لیکن ان کی جانچ کے لئے قربانی کی کسوٹی رکھی گئی ۔دنیا میں پہلے قبل کا سبب قربانی کی عدم قبولیت تھی۔ایک نے قربانی دی ،قبول ہوگئی دوسرے نے قربانی دی تو رد کردی گئی۔
یہی عدم قبولیت حسد اور انتقام کا سبب بنی اور تاریخ میں پہلا انسان قتل ہوا۔شاید انسانی تاریخ میں پہلی موت کاسبب قتل ہونا تھا ،طبعی موت نہ تھا۔اس کی وجہ مفسرین و مورخین نے نیت کا کھوٹ لکھا ہے۔جس کی قربانی قبول ہوئی اس میں اخلاص بھرا ہوا تھا اور جس کی قربانی رد کی گئی تھی اس کی نیت میں فرق تھا یوں کہہ سکتے ہیں۔ دل سے آمادہ نی تھا لیکن طے شدہ معاہدہ کی پابندی ضروری تھی۔کہ جس کی قربانی قبو ل ہوگئی وہ جیتا، جس کی رد کردی گئی وہ ہارا۔
آج بھی یہی قانون رائج ہے کہ قربانی تواخلاص اور نیک نیتی کی بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔بصورت دیگر قبولیت کے بارہ میں شکوک گھیرے رکھتے ہیں۔سورہ الحج میں ا س کی غرض و غایت بیان کردی گئی ہے۔چند سطور میں فلسفہ قربانی بیان کردیا گیا ہے۔
لَنْ يَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَاۗؤُہَا وَلٰكِنْ يَّنَالُہُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ۰ۭ(الحج:۳۷)
’’ نہ ان کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون ، مگر اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ‘‘۔
قربانی کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ قربانی سے مومن روح کی پاکیزگی حاصل کرتا ہے، نفسانی خواہشات اور جبلتوں سے چھٹکارا پاتا ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد کاجائزہ لیں تو ہمیں روزمرہ زندگی میں بھی بہت سی قربانیاں نظر آئیں گی۔ وہ قربانیاں بہت سی صورتوں میں ہوتی ہیں۔ ان قربانیوں سے کوئی خوش ہوتا ہے تو کسی کی زندگی سنور جاتی ہے تو کسی کی زندگی اجڑ جاتی ہے ۔
٭ فرزندان آدم اور قربانی
قرآن حکیم نے جس قدیم ترین قربانی کا ذکر کیا ہے وہ بہت دلچسپ ہے۔ یہ قربانی حضرت آدمؑ کے دو فرزندوں ہابیل اور قابیل نے پیش کی تھی چنانچہ اس واقعہ کی طرف قرآن نے سورۃ مائدہ آیت ۲۷،۲۸ میں ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:
ان سے آدم کے دونوں بیٹوں کی خبر سچائی سے بیان کردیں کہ جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ایک کی قربانی قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی، جس کی قبول نہ ہوئی، اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ میں تمھیں قتل کردوں گا۔ بھائی نے (قربانی کی قبولیت کی وجہ بیان کرتے ہوئے) کہا کہ اللہ صرف متقیوں کی قربانی قبول کرتا ہے اگر تو میری طرف میرے قتل کیلئے ہاتھ بڑھائے گا تو میں تیرے قتل کیلئے تیری طرف ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔
ان آیات میں یہ نہیں بیان کیا گیا کہ قربانی کس چیز کی کی گئی تھی اور اس کی قبولیت کی علامت کیا تھی۔ اس سلسلے میں جو کچھ منقول ہے وہ زیادہ تر اسرائیلیات پر مبنی ہے۔ تاہم ان آیات سے یہ ضرور ظاہر ہو گیا کہ اول قربانی کی قبولیت کی شرط تقویٰ ہے، ثانیاً متقی شخص کسی کو ناجائز قتل کرنے کیلئے اپنا ہاتھ نہیں بڑھا سکتا۔ اس لیے انسانی خون کا بہایا جانا اور وہ بھی اللہ کی خوشنودی کے نام پر، اللہ کو منظور نہیں۔
عرب میں اسلام سے پہلے قربانی کا تصور
اسلام سے پہلے بھی عرب کے لوگوں میں قربانیوں کا رواج تھا یہ قربانی سنتِ ابراہیمی کے مطابق جانوروں یعنی اونٹ، بھیڑ، بکریوں وغیرہ کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ عرب میں خصوصی منتیں مان کر بھی اپنی اولاد کو قربان کرنے کا رواج تھا جیسا کہ آپﷺ کے والد حضرت عبداﷲ کی قربانی کا واقعہ ہے۔ ’’ جب حضرت عبدالمطلب زمزم کا کنواں جو گمنام ہو چکا تھا اسے الہام الٰہی سے نشاندہی ملنے کے بعد کھودنے لگے تو انہیں دشواری ہوئی تو انہوں نے منت مانی کہ اگر میرے دس بیٹے ہوں تو میں ان میں سے ایک کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دوں گا۔ ان کے بیٹے ہوئے تو انہوں نے قرعہ اندازی کی جس میں حضرت عبداﷲ کا نام نکلا جو کہ ان کے چہیتے بیٹے تھے۔
حضرت عبدالمطلب انہیں قربان گاہ کی طرف لے گئے تو ان کے بھائیوں اور قبیلے کے دوسرے لوگوں کے اصرار پر حضرت عبداﷲ اور دس اونٹوں پر قرعہ ڈالا گیا مگر نام حضرت عبداﷲ کا ہی نکلا پھر اونٹوں کی تعداد بڑھائی گئی مگر ہر بار قرعہ میں نام حضرت عبداﷲ کا ہی نکلتا آخر کار سو اونٹوں پر قرعہ ڈالا گیا تو اونٹ پر قرعہ نکلا اس کے بعد حضرت عبداﷲ کی جگہ سو اونٹوں کی قربانی کی گئی۔‘‘ (طبقات ابن سعد، سیرت ابن ہشام جلد اول)
اس کے علاوہ قربانی کی ایک قسم ’’انصاب‘‘ تھی جس کا ذکر ’’سورہ مائدہ‘‘ میں ہوا ہے ’’عرب کے لوگ کوئی ایک نشانی بنا لیتے تھے کوئی لکڑی وغیرہ زمین میں دبا کے اس کے قریب جانوروں کی قربانی کرتے تھے‘‘ یہ قربانیاں بھی بتوں کی خوشنودی کے لیے کی جاتی تھیں۔ دین ابراہیمی ؑپر ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھی اصل قربانی کے طریقے سے منحرف تھے وہ لوگ قربانی کرنے کے بعد قربانی کا گوشت خانہ کعبہ کی دیواروں پر ملتے تھے۔ رسول اﷲ ﷺ کی آمد کے بعد سورہ براۃ میں اﷲ تعالیٰ نے حج اور قربانی کے تمام سابقہ طریقوں کو منسوخ کیا۔ ان کی تصحیح کر کے لوگوں کو سیدھی راہ دکھائی۔
قربانی ایک عظیم عبادت ہے ، جو تمام ادیان میں کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے تاہم اسلام نے جس مقصد کے لئے قربانی کے اس عظیم فریضہ کو ہمارے لئے باقی رکھا ہے اگر اس مقصد اور طریقہ کار کے مطابق قربانی نہ کی گئی تو شاید دیگر ادیان کی طرح ہماری یہ قربانی بھی قابل قبول نہیں ہوگی۔ ہمیں قربانی کرتے وقت سنت ابراہیمی ؑ کو ادا کرتے ہوئے اسلامی طور طریقوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا، تب کہیں جا کر ہم اس قربانی کی حقیقت کو پاسکیں گے۔
۔
قربانی کے مقاصد عام طور پر اس طرح سے رہے ہیں:
۱
۔ اللہ کی حمد اور شکر کے اظہار کیلئے
۲۔ طلب حاجت کیلئے
۳۔ حصول رضا کیلئے
۴۔ خدا یا خداؤں کے غضب کو ٹالنے کیلئے
۵۔ گناہوں کے کفارے کیلئے
۶۔ دنیا کی بہتری کیلئے
۷۔ خداؤں کے ساتھ مل کر غذا کھانے کیلئے
۸۔ مستقبل کے واقعات کی پیش بینی کیلئے
۹۔ مجالس کی برکت کیلئے، وغیرہ
گاہے ایک قربانی کے متعدد مقاصد بھی ہوتے تھے۔
آخر مین قران کریم کی یہ پڑھنے سے قربانی کامقصد واضح ہوجائے گا۔۔۔
وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ لَكُمْ فِیْهَا خَیْرٌ ﳓ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ عَلَیْهَا صَوَآفَّۚ-فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُهَا فَكُلُوْا مِنْهَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّؕ-كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۳۶)
اور قربانی کے ڈِیل دار (بھاری جسامت والے)جانور اونٹ اور گائے ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے کیے تمہارے لیے ان میں بھلائی ہے تو اُن پر اللہ کا نام لو ایک پاؤں بندھے تین پاؤں سے کھڑے پھر جب ان کی کروٹیں گرجائیں تو اُن میں سے خود کھاؤ اور صبر سے بیٹھنے والے اور بھیک مانگنے والے کو کھلاؤ ہم نے یونہی اُن کو تمہارے بس میں دے دیا کہ تم احسان مانو