قدیم ہندوستانی طب کی نظری بنیاد
اور طب یونانی سے اس کا تعلق
قدیم ہندوستانی طب کی نظری بنیاد
اور طب یونانی سے اس کا تعلق
از
ڈکٹرالبرٹ ایسر، ڈی، فل۔
پیش کردہ
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
قدیم ہندوستانی طب کےدو قطب مدار ہیں، جن کا نام دوشا اوررسا ہے۔ قدیم ہندوستانی اطبا اصطلاح میں روشا سے مرادانسانی جسم کے بنیادی سیال ہیں بہ حالت صحت و بہ حالت مرض واگبھٹ وغیرہ نے اس کی تصریح کر دی ہے۔ روشا کے معنی نقص سے صاف ظاہر ہے کہ ان سے مرضی سیال بھی مرادہیں۔ تین بنیادی سیال ہوتے ہیں۔ واتا، پتا اورکفا،واتا خود بہ خود پیدا ہوتی ہے ( آتمایو ،آتما سنسکرت)پتا گر می اور خشکی کے مادے(اگنی) سے پیدا ہوتی ہے اور کفاسردتر (سومیا)سے سرد و خشک اورہلکی ہوتی ہے ، پتا گرم تر اورچر پری ،کفاسردچکنی اور بھاری۔ ان تین دوشوں کے صحیح امتزاج سے صحت قائم رہتی ہے اوران کے خلل سے مرض پیدا ہوتا ہے، واتا کا زور بڑھاپے کےزمانہ میں ،پتا کا درمیانی عمر میں اور کفا بچپن میں ہوتا ہے۔ ایسا ہی دن کے کے حصوں میں بھی ہوتا ہے ، شام کے وقت واتا کا اوردوپہر کے وقت پتا کا اورصبح کفاکا زور ہوتا ہے ،گویہ بنیادی سیال تمام جسم میں ساری ہوتے ہیں مگر ان کے خاص مقام ، و انا ناف کے نیچے ،پتاکاناف اور دل کے درمیان اور کفا کا دل کے اوپر ہوتے ہیں۔
قدیم ہندی نظریہ امراض کا دوسراقطب رس ہے جس کے معنی ذئقہ کے ہیں۔ اس کی چھےقسمیں ہیں میٹھا(مدھر)کھٹا،املا،نمکین(لادنا)، چرپرا( کاٹو) ، کڑوا(تکتا) اورکسیلا(کسایا) بعض لوگوں کے نزدیک اوربھی قسمیں زائقہ کی ہوتی ہیں۔ ان رسوں کی باپمی ترکیب سے 63قسمیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ مٹھاس کا تعلق خاک(بھومی) ، اورآب (امبو) کے خواص سے ہوتا ہے،کھٹاس کا بھومی اور اگنی (اتش) سے ،نمکین کا تویا(آب) اوراگنی سے چر پرے کا اگنی سے۔کڑوے کا دا یو اور آکاش(فضا) سے اور کیلے کا پرتھوی اور انیلا (باد) سے ہوتا ہے۔ دوشا اورسار میںحسب ذیل خواص ہوتے ہیں؛ سرد یا گرم خشک یا چکنا ،پلکا یا بھاری وغیرہ –
ووشااو ررشا میں گہرا تعلق ہوتا ہے جن رسوں کے خواص ووشوں کے خواص سے تمام تریا کسی قدریکساںہوتے ہیں ان کا عمل مثبت ہوتا ہے یعنی اس دوش کو پیدا کرنے یا اس کا زور بڑھاتے اور وہ جن کے خواص کی دوشوں سے بالکل مشابہت نہیں ہوتی یا بہت کم مشابہت ہوتی ہے تووہ ان ووشوں پر منفی عمل کرتےہیں، یعنی ان کو نیست کرديتےیاکمزور کر دیتے ہیں۔ اس طرح دوایومثبت عمل ہوتا ہے، کڑوےکسیلے چر پرے کا ارور منفی عمل ہوتا ہے میٹھے ،کھٹےاورنمکین کا ، پتاپرمثبت عمل،کھٹے چرپرے کا اور منفی میٹھے ،کڑوے اور کسیلے پر،کفا پر مثبت عمل،میٹھے کھٹے اور نمکین کا اور منفی عمل چرپرے،کڑوے اور کسیلے کا ہوتاہے۔ ان تعلقات کی بنیاد پر میں نے تین نتائج اخذ کئے ہیں ۔
اول یہ کہ رس کے لحاظ سے وایوا ورکفا میں تضاد کا رشتہ ہوتا ہے۔ ان کا عمل ایک دوسرے کے خلاف ہوتا ہے جن کا اظہاراس مشہورامر سے ہوتا ہے کہ بڑھاپے اور شام کے وقت وایوکا زور ہوتا ہے اورجوانی اورصبح کے وقت کفا کا اور مقامات کے متعلق جو مشہور ہے کہ و ایو ناف کے نیچےاور کفادل سے اوپر زیا دہ ہوتے ہیں.۔
2 پتاکا رشتہ رسا لحاظ سے وایو سےدُ گنا ہے اورکفا سے چوگنا۔ اس کے یہ معنی کہ پتا کارشتہ رسا کے لحاظ سےوایو سے دُگنا ہے اور کفا سے چگنا اس کے معنی ہیں کہ پتاکا رشتہ کفا سے زیادہ ہے بہ نسبت وایوکے ۔3- پتاکا رشتہ رسا کے لحاظ سے وایواورکفا سے نصف مثبت اورنصف منفی قسم کاہے۔
روشا اور ورساکے درمیان تعلقات ہیں، ان ہی پر آیوردید کے علاج کے اصول کی بنیادہے .جو چیزیں دواََء استعمال ہوتی ہیں ان میں بھی دوشا اوررسا کے خواص ہوتے ہیں مثلا تلوں کا تیل گرم چکنا اوربھاری ہوتا ہے۔ اگریہ وایومیں استعمال کیاجائے جوسرد خشک اور ہلکی ہے ، یعنی ان دونوں کے خواس بالکل الگ الگ ہیں تو اسکافعل ویو پر منفی ہوگا یعنی یہ وایو کمزور کرے گا یا نکال دے گا،لہذاتلوں کا تیل ان بیماریوں کی حالت میں استعمال ہونا چاہے جووایو کی زیادتی سے پیداہوتی ہیں اور جن میں اس کی زیادتی کرطبعی مقدار پر واپس لانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک اور مثال ہے گھی کی جوسرد اور میٹھا ہے چوں کہ اگرپتا گرم ہے اور میٹھا نہیں ہے ۔لہذا گھی کا فعل پتا پر منفی ہوتا ہے یعنی اس کوکمزور کردیتا یا نکال دیتا ہے۔ اس ک وجہ سے گھی کوان حالات میں استعمال کرنا چاہیے جن میں پتا زیادہ پیدا ہوتا ہے۔
الغرض اصولی یہ ہے کہ مرض کا علاج ایسی چیزوں سے کیا جائے جن کی خاصیت بدن کے اندرپیداشدہ دوشوں کی مخالف ہوں۔ ایسی چیزوں کے استعمال سے دو شوں کواپنی حالت پر لاکرمرض کو ختم کرنے کی کوشش مقصود ہوتی ہے۔چونکہ طبعی توازن ووشوں کا بنیادصحت پرہوتا ہے
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدیم ہندی نظر یہ ادریونانی اخلاط کانظریہ اور ایلو پیتھی بہت کچھ یگانگت رکھتے ہیں۔ یونانی نظریہ اخلاط چارسیال کا قائل ہے خون بلغم ، صفرا اور سودا(سیاہ سودا) پت کی اس میں تقسیم ہوگئی ہے مگر بقراط کی تصانیف میں یہ تقسیم مستق؛ نہیں رہی ہے
اور ان دونوں پتوں کی قسموں میں بین فرق ہر جگہ پر قائم نہیں رکھا ہے جس سے اکثر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کی ان دونوں قسموں کی اصلیت میں کوئی بنیادی فرق تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہندی نظریہ تین دوشوںکا بھی علی العموم تسلیم نہیں ہے۔ چنانچہ بالی نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ باوروالے
(باورسکرپٹ)،قلمی نسخہ میں دوسرے دوشوں کے ساتھ خون کو چوتھا دوش شمار کیا گیا ہے
۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یونانی چار اخلاط اورہندی تری دوش کے نظریے بہ کمال وتمام غیر مبہم نہیں ہیں، البتہ یونانی اور ہندی نظریوں میں یہ فرق ضرور ہے کہ یونانی وایو(ہوا) کوخلط نہیں مانتے۔
ایک بات قابل غور یہ ہے کہ ہندی نظریہ کے مطابق پتا گرم خشک اور کفاسردترما دہ سے پیدا ہوتاہے اس میں انٹی ڈوکل کے نظریہ عناصر ،پانی،آگ ،خاک اور ہوا کی جھلک ملتی ہے، آگ گرم ،ہواسرد، پانی تر،اودر خاک خشک ہوتی ہے۔بقراطی نظریہ میں بھی خون بلغم ،صفرا اور سودا کے خواص میں گرمی سردی خشکی اور تری کا فرق ہوتا ہے۔ ان چاروں عناصرکاجاندارکی پیدائش کے لیے صحیح تناسب میں ہونا ضروری ہوتا ہے جس طرح ہندی نظر یہ میں رس یعنی ذائقہ کے اقسام داخل ہیں، اسی طرح یونانی میں بھی ذائقہ کا مفہوم لفظ کیموا میں پایاجاتا ہے۔ ارسطو کی تحریر میں ذائقہ کی قسمیں کسیلی،میٹھی،پھیکی،کھٹی،چکنی اور کڑوی پائی جاتی ہیں ۔ افلاطون کہتا ہے کہ طبیب کی لیاقت اس میں ہے کہ وہ جسم کی اس کوشش میں معاون ہو جو صحت بخش اجزاءکو حاصل کرنے اور مضر دفع کرنے کی کرتا ہے۔ جوشخص صحت مندی کے رجحان کو برھانےاور بیماری کو نابودکرنے کی سمجھ رکھنا ہے وہی بہترین طبیب ہے۔ ان دونوں مخالف رجحانوں میں یگانگت پیداکرنا ضروری ہوتا ہے۔ جو چیز سب سے زیادہ مخالف ہوتی ہے، وہی سب سے زیادہ دشمن ہوتی ہے ،مثلاگرمی، سردی، مٹھاس کی کڑواہٹ ،تری کی خشکی اوراس قسم کی اور چیریں۔
ارسطو نے بھی اپنی تحریر میں چکنے اور میٹھے زائقہ کو ایک کردیا ہے۔
اخلاط کے توازن کوصحت سے اور عدم توازن کو مرض سے دونوں جگہ یکساں تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اس بات کے تعین کی طرف کشش پیدا ہوتی ہے کہ ان دونوں میں سے کس نے کس سے سیکھا ہے ، یا دونوں نے کسی تیسرے قدیم تر معلم سے سیکھاہے۔ اس کا فیصلہ اب تک نہیں کیا جاسکا۔ بعض لوگ یونانیوں کو زیا دہ قدیم مانتے ہیں مگر یہی غور طلب ہے کہ قدیم یونا نی فلاسفر مثلافیثا غورث اورڈیماکرٹس نے مشرق بعید کا سفر اختیار کیا تھا۔ بہر حال اس مسئلہ کا
کا فیصلہ جب تک مزید معلومات حاصل نہ کی جائیں، ممکن نہیں ہے۔