قدیم ایران کا نظریہ طب(2)
قدیم ایران کا نظریہ طب(2)
ہزاروں سال پرانی ایرانی طبی تاریخ کا مخفی پہلو
معالجاتی نظریہ
تحریر: حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی :سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور
پجاری طبیب کے اطوارا اور ان کی فیس کے متعلق بھی قانون موجود تھے۔مریض کو جو فیس ادا کرنی ہوتی تھی، اس کی مقدارکاتعين علاج کی مشکلات کے مطابق یا طبیب کے معیار کے مطابق نہیں ہوتا تھا بلکہ مریض کی استطاعت کے مطابق ہوتا تھا۔
یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ جس طریقہ علاج کو آج تک طب یونانی کہا جاتا ہے، اس کی بنیادی باتیں یونانیوںنے ایرانیوں سے سیکھی تھیں۔ سات سو سال قبل مسیح
میں یونانیوں میں تمدن کے کوئی آثار موجود نہ تھے اور سائنس کے اصول بالکل ناپید تھے ، لیکن ان کے دو سو سال بعد ان کی سائنس اس قدر ترقی یا فتہ ہوچکی تھی کہ بقراط اس قابل ہوگیا کہ وہ ایسے طبی مقالے لکھے جن سے اس کو ابو الطب کا خطاب حاصل ہو۔ یہ ممکن نہیں معلوم ہوتا جس طریقہ علاج کر بقراطی یا یونانی طریقہ علاج کہتے ہیں ، اس میں یونانیوں نے بذات خود صرف دو صدیوں کے اندر اتنی ترقی کرلی ہو۔ اس کے علاوہ بقراط نے جوالفاظ استعمال کیے ہیں، ان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حال ہی میں وضع کیے گئے تھے ۔اس طب میں جسمانی اعضا کو جونام دیے گئے ہیں وہ انڈریورپین بنیاد پر ہیں ۔ دوسری چیزوں کے نام صاف بابلی زبان کے ہیں۔خود یونانیوں نے یہ تسلیم کیا کہ اخلاط سے متعلق ان کے نظرات ایران سے اخذ کیے گئے ہیں۔
نظریہ اخلاط کے موجد
جن نظریات کو یونانی سمجھاجاتاہے،کہا جا تا ہے کہ وہ بہت پہلے دریائے فرات کے کنارے پڑھائے جاچکے تھے اوراس سے بھی قبل ہندوستان میں موجود تھے۔
اخلاط کے اصول ہندوئوں کی ان متبرک کتابوں میں واضح طورپر موجود ہیں جو دو ہزار سال قبل مسیح مرتب ہوئی ہیں۔ ایسامعلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان سے یہ نظریات ایران پہنچے اور وہاں سے اور آگے بڑھے۔ اگراس طرح ایران نے اخلاط کے نظریات کو پھیلانے میں حصہ لیا توان کا اس سے بھی بڑا حصہ عا لم اصغرمیں کا نظریہ قائم کرنے میں تھا، جو بنیاد نظریہ ہے اور اخلاط کا نظریہ اس کی محض ایک شاخ ہے۔ اس دوسرے نظریہ کے مطابق انسان میں چھوٹے پیمانہ پروہ تمام مظاہرموجود ہیں جو پورے عالم میں پائے جاتے ہیں۔ بندا ہزم میں، جو زرتشتی انجیل کا ایک حصہ ہے،کہا گیا ہے جسم انسانی پوری دنیا کا ایک عکس ہے. انسان کےجسم کا ہر عضو زمین کے کسی نہ کسی حصے سے مشابہ ہے، پیٹھ آسمان کی طرح ہے ، پیٹ زمین کی سطحوں کی طرح ہیں ،ہڈیاں پہاڑوں کی طرح ہیں۔ رگیں دریاوں کی طرح،جسم میں خون اسی طرح ہے ، جیسے سمندر میں پانی، جگر نباتات کی طرح ہے جسم کے وہ مقامات جہاں گئے بال اگتے ہیں ، جھاڑیوں سے مشابہ ہیں اورجسم کے اندر مغز کی وہی حیثیت ہے جو زمین کے اندر سیال معدنیات کی۔
کلیات بقراط کی ایک کتاب جس کا نام (Peri Haldonadon)ہے ، اسی موضوع پر مندرجہ بالا | ایرانی کتاب سے ااس قدر ملتی ہے کہ یہ قیاس کرنابڑا مشکل ہےان میں ابتدائی حیثیت کس کی ہے اور کس نے اس کو اخذ کیا کیونکہ ان دونوں کا سن تصنیف یقینی طور پر معلوم نہیں ہے۔ افلاطون یونانی متن سے واقف تھا۔ بنداہزم اپنی موجودہ شکل میں اسلام سے پہلے کی نہیں ہے، لیکن لسانی طور پر سمجھنے کی تمام وجوہ موجود ہیں کہ یہ ساسانیوں کی اوستاکے بعد کا انداز بیان ہے اور ساسانیوں کی اوستا اس سے بہت پہلے کی تحقیق سے ماخوذہے۔
انسانی جسم سے کائیناتی تعلق
بنداہزم کے اس جملہ کو کہ جسم کے اندر مغز کی وہی حیثیت ہے جو زمین کے اور سیال معدنیات کی، یونانیوں جن الفاظ میں اپنایا ہے ، اس سے ظاہرہوتاہے کہ یہ ابتدا ایرانیوں کا تھا، کیوں کہ اسی کے لیے بقراط نے جو الفاظ لکھے ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔ : مغز گرم اور تر ہوتاہے اور یہ فقرہ متذکرہ بالا عمارت کے ہم پلہ نہیں ہے۔
لفظ، تر، یونانی لفظ ‘ اوئی پو،سے لیا گیا ہوگا جس کے معنی بھی رقیق کے ہیں معدنیات کے لیے وسطی ایرانی زبان اوراوستانے ایسا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی گرم بھی ہو سکتے ہیں۔ اس مفروضہ کےتحت کہ یونانیوں نے ایرانیوں الفاظ اخذ کیے ا ور ان کا غلط مفہوم نکا لا جس کو بعد میں نقل کرنے والوں نے ٹھیک کیا ، یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ یہ اختلاف کیسے پیدا ہوا۔ اس کے علاوہ کوئی اوروجہ آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی۔نتیجہ یہ کہ۔ یہ اعزاز ایرانیوں کوحاصل ہوتا ہے کہ انہوں نے دنیاکی ایک ایسا فلسفیانہ نظریہ دیا جس پر یونانیوں نے علم الاعضا علم التشریح اور معالجات کی بنیادیں قائم کیں ۔
کائناتی اثرات اور مرض کی پیدائش :
مختلف بیماریوں میں مد وجزر اوربحر ان کے متعلق ایران کے قدیم طبیبوں نے پورے اہتمام کے ساتھ جالینوس اودر بقراط کے اصولوں کی پیروی کی۔ انہی کی طرح قدیم ایرانی طبیبوں نے بھی یہی سمجھا تھا کہ غیرمعمولی واقعات اس تصادم کے نتیجہ میں جو قوت مدبرہ بدن اور امراض کے تدریجی عمل میں جاری ہے ظہور پزیرہوتے ہیں
اسماعیل جریانی نے اپنی کتاب :ذخیرہ خوارزم شاہی” میں اس تصا وم کودوحریفوں کی کشکش قراردیا ہے جن میں مرض کی طاقت جارح حملہ آورہے دوسری طاقت فطرت کی ہے جوبچائو کرتی ہے۔ اسی طرح ایران کے قدیم اطبا کا عقیدہ ہے کہ بیماریوں کے بحران کے ایام ، خاص کربیماری کے شروع ہونے کے ساتویں ، چودھویںاور اکیسویںروزہوتے ہیں ،ان لوگوں نے بحرانی اور غیربحرانی ایام کا نقش مرتب کیا ہے اورمزمن امراض میں توبحرانی مہینوں اوربحرانی سالوں کابھی حساب لگایا گیاہے اس حسابی قاعدہ میں۔ دو اور دو چار کی طرح کوئی کلیہ پیش نہیں کیا جا سکتا، لیکن علم نجوم سے ایرانیوں کی بڑھتی ہوئی دل چسپی کواس کے ثبوت میںپیش کیا جا سکتا ہے کر ایرانی طب یونانی طب پر اثرانداز ہے خاص کر بیماریوں کی کمی و زیادتی اورچاند کی گردش کے متعلق۔
علاج میں ستاروں سے تشخیص
ابن سینا نے اپنی تصنیف قانون کے ایک باب میں بیماریوں کے ابھار کے ایام واسباب کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ چاند سے قریب ترین سیارہ ہونے کی وجہ سے ہم پر زیادہ اثر انداز ہے اورہمارے اخلاط پراس کے اثرات بہت واضح ہیں ۔ چاند کے جائے وقوع کا تعین اس کے انفرادی محور کی مناسبت سے، یا بروج یانظام شمسی کی مناسبت کیا جا سکتا ہے۔ اگرچاندسے اس وقت بیماریاں پیدا ہوں جب کہ اس کا محور هم 45 کے درجہ کے زاویہ پر جھکا ہو۔اس وقت مریض کے لیے بحران کادن چوتھاہوگا۔ اگربیماری اس وقت شروع ہوا جب کہ جھکائو ۹۰ درجہ پر ہو توبحران ساتویں روزہوگا۔اگرجھکائو 135 ڈگری پر ہوتو گیارھویں روز، ۸۰ادرجہ چودھویں روز اور 160 درجہ پر اکیسویں روز جوبہماریاں طویل میعا وکی ہوتی ہیں اور جن کے بحرانی ایام اکیسویں اور چالیسویں روز ہوتے ہیں توان کے بحرانی ایام کاحساب سورج سے بھی لگایا جاسکتاہے، اسی طرح مزمن امراض میں سیارہ سنیچرکی پوزیشن سے حساب لگایا جا تا ہے۔بیماریوں کی عام پیش بینی کے لیے نظام شمسی میں چاند کی پوزیشن سے اندازہ لگایاجاتاہے۔ خاص طور پر جب بیماریاں کروٹ بدلتی ہیں، اس وقت نظام شمسی میں چاند کی جو پوزیشن ہے ، وہ قریب ترین سیارہ کی تاثر کی مناسبت سے اثرانداز ہوتی ہے۔ ۔
علاج بالنجوم
نظزیہ قرون وسطی کے علم نجوم کے مطابق ہے جس کو مشہور تاریخ شہدء” میں اپنایا گیا ہے جو میں چھاپی گئی۔ اس طرح اگر ورم دماغ اس وقت ظہورمیں آئے ، جب کہ چا
ند برج حمل میں ہوشدیدبحران کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اسی طرح درم حلق میں اس وقت شدت ہوتی ہے ، برج حوت میں نقرس اور میزان میں اسقاط حمل واقع ہوتے ہیں
چاندسے اتصال سیارگان کا بھی اثر پڑتا ہے جس روزبیماری کروٹ لے ، اس روز اگرچاند کا اتصال کسی سعد سیارہ سے ہو مثلا مشتری ،زہرہ یا عطاردسے توبیماری شدید نہ ہوگی اور اس کے برعکس مرض شدید طویل اور تکلیف دہ ہوگا۔ اگرچاند کا اتصال منگل یا سنیچر جیسے خراب سیاروں سےہوتو خاص خاص بیماریوںکے پھیلنے اور بڑھنے پر انسیاروں کےاثرات بڑی حد پڑتے ہیں۔ مثال کے طور پرعطا ر د،اور سنیچرسرد سیارے ہیں اور جب ان کے اثرات اشخاص پرپڑتے ہیں تومزمن امراض مثلا،دق سوزش، مہلک بخار اور دیر تک قائم رہنے والی بیماریاں۔ اس کے برعکس سورج اور مریخ گرم طبع ہیں اوران کے زیراثر گرم بخار، ا ورام اورجریان خون وغیرو ہوتے ہیں ۔یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ایرانی اطباکائیناتی اثرات کواہم سمجھتے ہیں، یہ بیان کافی ہے۔ یہ تصور اس مفروضہ کا نتیجہ ہے کہ انسان انہی عناصر سے بنا ہے جن سے کائینات کی تشکیل ہوتی ہے۔ موخرالذکرایک ضابطہ نظام ہے جس سے تمام نقل و حرکت ضابطوں اورمقررہ گردش کے تحت انجام پارہی ہیں تمام قدیم اطبانے یہ چیزیںاہمیت کے ساتھ بیان کی ہیں لیکن ایران میں جہاں روح انسان کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ، ان بنیادوں کو بہت نمایاں کیا گیا۔ اسی کی دجہ سے سترھویںاوراٹھارویں صدی میں بھی وہاں ایساطبی نظام ابھرا جس کی اساس فلکیات اور ساحرانہ قوتوںپر قائم تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔