قبل از تاریخ طب، بخار کی حقیقت
قبل از تاریخ طب، بخار کی حقیقت
از مجدد الطب
ناقل حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی: سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور پاکستان
قبل از تاریخ طب میں امراض کوجن اور بھوتوں کا عمل دخل خیال کیا جاتا تھا یا جادو اورٹونا کا اثر سمجھا جاتا تھا اس لئے ان کے علاج کے لئے بھی پجاریوں اور کاہنوں کی طرف رجوع کیاجاتا تھا۔ وہ معالجہ کے طورپر مندروں اور بتوں کے سامنے پوجاپاٹ اور ہون اور قربانی وغیرہ کرتے تھے اور کبھی دم، جھاڑ اور تعویذ اور گنڈہ کرتے تھے۔ ان اعمال سے مریضوں پرکیا اثر ہوتاتھا اس کا اندازہ ان جاہل مریضوں سے لگایاجاسکتا ہے جو آج بھی امراض کوجن بھوتوں کا دخل اور جادو ٹونے کا اثر سمجھتے ہیں۔اس دور میں بخاربھی دیگر امراض کی طرح جن بھوتوں کا دخل خیال کیا جاتا تھا اورجادو ٹونے کااثر سمجھا جاتاتھا۔ اگر اس حقیقت کو صحیح مان لیں۔ ارتقاء کی کڑیاں دنیا کے دورآور زمانے میں پائی جاتی ہیں تو تسلیم کرنا پڑے گاکہ آج بھی ایسےذہن کے لوگ پائے جاتے ہیں جو بخاروں کو وہی کچھ خیال کرتے ہیں جو قبل از تاریخ سمجھا جاتا تھااور وہ بخاروں کے علاجات کو ادویات اور پرہیز کی بجائے پوجاپاٹ اور دم جھاڑو، تعویذ گنڈہ اور خیرات و دعا سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ہندوستان کی طرح اگر پاکستان میں مندراور پجاری دیوی دیوتا کے بت، ہون اور ارتی نہیں پائے جاتے تو ان کی جگہ مزار اور پیروں اور بھوپے اندر سیدوں کے مرکز پائے جاتے ہیں۔ گویا انسان اپنے ذہن اور فطرت کے لحاظ سےاور عقائد اور تصورات کی تسکین ضرور چاہتا ہے۔
لیکن اگر سائنسی اور علمی نگاہ سے دیکھاجائےاور بخاروں کو ان کے اپنے رنگ میں دیکھا جائےکہ بخار دراصل تعفن اور خمیر کی حرارت کے لطیف اور غیر مرئی بخارات کو عربی زبان میں اگرجن کہتے ہیں تو تسلیم کرنا پڑےگاکہ بخار کو اگر جن کا نام دے دیاجائےتو کچھ غلط فہمی نہیں ہے۔ رہا ان کے نکالنے اور دور کرنے کا علاج وہ کچھ ہی کیوں نہ ہو ہرزمانے میں طریق علاج بدلتا رہتا ہے جوں جوں حقیقت سامنے آتی گئی ہے، عمل بھی علم کے تحت بدلتے رہتے ہیں۔ اسی طرح اگر بھوتوں کے خوف اور جادو ٹونے کے وسواس اور خدشات کو بھی اگر موثر اور مہیج خیال کرلیاجائے تو امراض خصوصاً بخاروں کا پیداہوجانا کوئی بعید از قیاس نہیں بلکہ روزانہ کے تجربات سے یہ امر ثابت ہوتے رہتے ہیں۔ان حقائق کی طرف اس لئے اشارہ کیاگیا ہے کہ تاکہ بخار کی تاریخ کے ساتھ اس کی وسعت کا اندازہ بھی ہوسکے۔ دوسرے نفسیاتی قسم توہم پرست مریضوں کے احساسات اور ادراکات کوبھی ضرور مدنظر رکھنا چاہیئےجب کہ توہم اور جذبات کے ڈانڈے وجدان اور عقل سے جاملتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بخار دراصل جن ہی ہیں۔لیکن اس امر سے انکار نہیں ہے۔ جن ضرور ایسی لطیف غیر مرئی طاقت اور مخلوق ہے جس کی مشابہت سادہ قسم کےبخاراور دھواں سے بیان کی جاتی ہے۔ قبل ازتاریخ جس قسم کے مریضوں کی زیادتی معلوم ہوتی ہے کہ بخاروں میں مبتلا ہیں۔ممکن ہے بخارکانام جن ہی باقی امراض کو دے دیا گیا ہو۔ آج بھی اچھے اچھے سمجھ دار لوگ تپ دق اور دردوں سے آنے والے مسلسل بخاروں کو جن بھوت کا اثر خیال کرتے ہیں۔ ہم اس امر سے انکار نہیں کرتے کہ وہ لوگ حقیقت کے کس قدر قریب ہیں۔ لیکن اس امر کاہمیں پختہ یقین ہے کہ وہ لوگ حقیقت سے بے خبرہیں۔ ان کو نہ ہی بخار کی ماہیت کا علم ہے اور نہ ہی جن کی حقیقت کا علم ہے۔ لیکن اس امر کوتسلیم کرنا پڑے گا ہزاروں سالوں کے بعد بھی انسان تحت الشعور کا اثر اس کی نسل میں برابر منتقل ہورہاہے یا یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی ہر مرض کو غیب کی طاقت کی طرف لے جاتاہے جس کی ابتدا جن ہیں اور جس کی انتہا وحدہ لاشریک ہے۔ جنات کی طرح انسانی جذبات خصوصاً خوف اور غم بھی اپنے اندر اس قدر طاقت رکھتے ہیں جن سے جسم و روح پر غیر معمولی اثر پڑتا ہے۔ ان سے امراض خصوصاً بخار ہوجانا تو معمولی بات ہے۔ شدت خوف اورغم سے اکثر موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جادوٹونااور بھوت پریت کا خوف و اثر اور وسواس و حدثہ انسان میں شدیدخوف اور غم کا باعث بن کر اس کو امراض خصوصاً بخار میں مبتلا کردیتا ہے۔
روزانہ زندگی میں دیکھاجاتاہےکہ ڈر اور غم کی وجہ سے بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں ایسے بچوں کا علاج اکثر دم، جھاڑ اور تعویذگنڈوں سے کیا جاتا ہے۔ خصوصاً ایسے بچوں کے علاج توضرور اسی قسم کے کرائے جاتے ہیں جوخواب میں یا کسی تنہائی اور سنسان جگہ میں ڈر کربخار میں مبتلا ہوگئے ہوں۔ اکثر کمزور دل عورتوں اور کم عقل مردو ں میں بھی ایسا دیکھاگیا ہے جب بھی کبھی ایسے مردوں اور عورتوں کا گزر قبرستان ، ومسان اور غیر معمولی تنہائی اور سنسان جنگل سے ہوتا ہے تو وہ ڈر جاتے ہیں یاان کے مسرت و لذت کے جذبات کی تسکین نہ ہویاان کے خواہشات نفسانی کی تکمیل نہ ہوتویقیناً غم وغصہ میں مبتلاہوکر مسلسل امراض خصوصاً بخار میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ حیرت کا مقام یہ ہے کہ ان کاعلاج جس قدر جلد دم جھاڑ اور تعویذ گنڈوں اور دعا و صدقات سے ہوتا ہے علاج معالجہ سے نہیں ہوسکتا بلکہ بعض دفعہ علاج و معالجہ سے امراض اور بخاروں میں شدت پیداہوجاتی ہے اس کی وجہ صرف یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان لوگوں میں اعتقاد اور یقین اسی قسم کے علاج پرہواکرتا ہے، اور یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ روحانی علاج کو مادی علاج کے مقابلے میں ایک بہت بڑی طاقت سمجھاگیاہے۔ جب تک روحانی علاج کو ایک بہت بڑی طاقت سمجھا جائے گا عوام کیاخواص بھی مادی علاج کی نسبت روحانی علاج کو افضلیت اور فوقیت دیتے رہیں گے۔