قانون قدرت اور سنت اللہ میں فرق۔
قانون قدرت اور سنت اللہ میں فرق۔
تحریر ::۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
خالق کائنات کا اختیار ہے وہ جو چاہے حکم دے اپنی کائنات میں جوچاہےتصرف کرےاس سے سوال نہیں کیا جاسکتا۔لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ [الأنبياء/23]
یہ اس کاحق قدرت ہےجسے کہیں بھی چیلنج نہیں کیاجاسکتا۔البتہ کائناتی معاملات قدرت یایکبارگی کے حکم سےنہیںچلائےجاتےاسے چلانے کے لئے کچھ قوانین بنادئے ہیں جنہیں ہر ایک پر لاگو کردیا گیا ہے ، ان کانفاذہر قوم وملت نیک وبدبڑے چھوٹےپرہوتا ہے،ان کانفاذ غیر محسوس طریقے سے ہوتاہے،مگر تنائج دواور دو چار والے جواب کی طرح مکمل ہوجاتا ہے،آگ جلاتی ہے،پانی ڈبوتا ہے،غذا سے خرچ ہونے والی توانائی بحال ہوتی ہے وغیرہ۔ہمیں جو ذمہ داری سونپی گئی ہے وہ قدرت کو پرکھنے کی نہیں بلکہ ان فطری قوانین کی پابندی اور عمل پیراہونے کی ہے،جو انہیں سمجھے گاوہ زیادہ صحت سے لطف اندوزہوسکے گا،جو ان قوانین کا لحاظ نہیں کرےگا وہ غیر محسوس طریقے سے صحت جیسے انمول نعمت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔طب کہاں سے آئی اہل دنیا نے اسے کن ذرائع سے حاصل کیاانہیں کئی معتقیدات کی بنیاد پر تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
جو لوگ مذہب پے ایمان رکھتی ہیںان کا کہناہےیہ علم اللہ نے بطور وحی انسانیت کےلئے بطور تحفہ اتارا تاکہ بوقت ضرورت انسان اپنے دکھوںوتکالیف کامدواکرسکے۔اس موضوع پر لکھی ہوئی کتب میں واضح طورپر لکھا ہےیہ علوم ابنیاءسےہےان سےعلماءنےاخذ کرکے عوام کو فائدہ پہنچاتےہیں۔دوسراطریقہ یہ بھی کہ کچھ لوگ اس میدان میںاتریںاور تجربات کریں ان تجربات کی روشنی میں جو مفید نتائج سامنے آئیں انہیں فلاح انسانیت کےلئےوقف کردیں۔طب کسی ایک قوم یافرد کی جاگیر نہیںیہ تووہ شاہراہ ہے،جس پرہرقوم و تہذیب کو چلناپڑتا ہے ( البحار ج 62 ص 75.: عيون الانباء ص 13 فما بعدها والبحار ج 62 ص 75 وطب الامام الصادق ، حديث الاهليلجة ص 43 ـ )
طب ایک مشترکہ ورثہ ہےاس میںناموروہی قومیں ہوتی ہیں جو اپنے وسائل اور قیمتی وقت اس لئےوقف کرتی ہیں۔تاریخ میں جن قوموں کو پزیرائی ملی ہے،یہ وہی قومیںہیںجنہوںنےمیدان طب میں اپنےوسائل کووقت کووقف کیا،وہی اوراق تاریخ میںسینےچوڑا کئے امتیازی شان کےتخت پربراج مان ہیں۔سلطنتیںمٹ گئیں۔ سردار یاںخاک ہوئیں۔ہوئےناموربےنشان کیسےکیسے۔لیکن طب کامیدان وہ میدان ہے جس میں محنت کرنے والا ہر ایک کی آنکھ کا تارابن جاتاہے۔خدمت ایک ایساجذبہ ہے جس کی کشش کسی بھی قوم و ملت کو اپنے حصار میںلینے کی طاقت رکھتا ہے۔
جو بھی اس دنیا میں سانس لیتا ہے اس نے سانسیں برقرار رکھنے کے لئے غذا و خورک کھانی ہے جو کھائے گا وہ لامحالہ بیمار بھی ہوگا،کوئی کم ہوگاتوکوئی زیادہ۔ لیکن ہوگاضرور۔ جب بیمار ہوگاتوطبیب کی ضرورت محسوس کرے گا۔جو بھی اس کی ضرورت پورا کرے وہ اس کی آنکھ کا تاراٹہرے گا،مریض طبیب سےیاطبیب مریض سےسوائے مرض و شفاء کے کوئی سوال نہیں کرتے طبیب یا مریض کا کوئی بھی ملک و قوم ہو کسی بھی مذہب ومسلک سے تعلق رکھتاہو حتی کہ اگران کےاندر انسانی فطرت کی وجہ سے باہمی شکر رنجی بھی ہوتوجب مریض طبیب کا دروازہ بجاتاہےتوطبیب کودروازہ کھولناپڑتاہے۔اساتذہ کرام نےاطباء کے لئےجوقواعدمقررکئےہیںیاجوعہد وہ اپنےشاگردوںسے لیا کرتےتھےکا مطالعہ کرکے دیکھ لیں طبیب کبھی ذاتی سوچ،پسند نا پسند کی بنیادپر فیصلہ نہیں کرتا،جو راستہ وہ منتخب کرچکا ہے اس سے انحراف کرنا اس کے فن کی موت ہے۔جب طبیب اس بارہ میںاپنی انا کو گھیسڑتا ہے تووہ فن کے راستہ سے بھٹک جاتاہے۔اس سے فن کی چاشنی سلب کرلی جاتی ہے۔