فراہیدی عربی ادب کا سرخیل
فراہیدی عربی ادب کا سرخیل
پیش کردہ
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
جدید تحقیقات اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ مشرق کے لوگ فن معاجم میں سب سے آگے تھے۔ سب سے پہلے اہل چین نے معجم لکھی جو چالیس ہزار الفاظ پر مشتمل تھی۔یہ معجم گیارہ صدی قبل مسیح میں لکھی گئی اور اس معجم کو لکھنے والے باونشی تھے۔
اہل بابل نے ایسی لغات کو بھی تیار کیا جو اس خوف سے لکھی گئیں کہ کہیں ان کی زبان مکمل ضائع نہ ہو جائے۔یہ سب انہوں نے اس وقت کیا جب رسم الخط تبدیل ہو رہا تھا اور رموز پر مبنی قدیم ترین نظام کی جگہ اشارات پر مشتمل الف بائی نظام صوتی رائنج ہو رہا تھا۔انہوں نے قدیم نظام کو ختم کر دیا اور اور جدید نظام کو قدیم نظام کی جگہ پر رائنج کر کے اسی سے متعارف ہو گئے۔
ان کی قدیم سامری زبان کاہنوں کی مذہبی رسومات کے طور پر تھی جو ختم ہو گئی۔ انہوں نے زبان کے الفاظ کی عمودی فہرستوں میں درجہ بندی کی اور انہیں مٹی کے برتنوں پر نقش کر دیا۔انہوں نے آشور بانیبا ل کی لائیبریریوں میں نینوا میں اسے محفوظ کیا۔یہ چھ صدی قبل مسیح میں ہوا ،کھدائی کرنےو الوں کو یہ لائبریریاں ملی اور انہی کے ذریعے آشوریوں کے بارے میں معلومات دنیا تک پہنچیں۔
اس کے بعد یونانیوں کا دور آتا ہے ہومر نے ایک خاص لغت تیار کی،جس کو اپولوونیس گرامیٹک نے مرتب کیا۔اسی طرح یونانیوں نے شاعروں، خطباء اور بقراط کی خاص معاجم تیار کیں۔ایک سو ستر قبل مسیح میں یونانی زبان کی مکمل لغت یولیوس بولکس نے تیار کی۔
جہاں تک عربوں کی بات ہے تو سب سے پہلی عربی لغت عین ہے، جسے خلیل بن احمد فراہیدی نے دوسری صدی ہجری میں تحریر کیا۔ماہرین نے اس پر اعتماد کیا اور اہل لغت نے اس کی تائید کہ یہ لغت کا ایک بہت بڑا انسائیکلوپیڈیا ہے۔
العین عربی زبان کی پہلی لغت ہے جسے خلیل فراہیدی نے اس وقت لکھا جب محققین کے ذہن اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔یہ ایک نیا کام تھا اور خلیل نے یہ منفرد کام انجام دیا اسی لیے یہ باقی ہے۔اسی لیے وہ سلفیوں کی زبان سے باہر رہے،کسی کو ایسی کتاب مرتب کرنے کا خیال نہیں آیا جس کی بنیاد عربی الفاظ اور کلام عرب ہو۔ان کے مطابق اس طرح کے کام کا کوئی نتیجہ نہ تھا اس لیے ان کے ذہن اس طرف متوجہ نہیں ہوئے کہ ان کی توجہ اس فن کی طرف ہوتی۔ابن درید نے جمھرۃ کے مقدمہ (ص۳) پر لکھا ہے کہ ابو عبدالرحمن الخلیل بن احمد الفراہیدی ؒ نے کتاب عین تالیف کی ،وہ ان لوگوں سے تنگ تھے جنہوں نے اسے قبول نہ کیا لیکن آخر کار وہ مان گئے اور اس کی اہمیت مان لی گئی اور جو کوئی بھی خلیل کے بعد آیا اس نے اس فن میں اسی کی پیروی کی۔ام جحد نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی ذہانت کی بنیاد پر ایک کتاب لکھی ہے ۔
جب کتاب العین بصرہ پہنچی تو ایک بڑا ہنگامہ کھڑا ہو گیا اس کی تعریف و تنقیص میں دو گروپ بن گئے۔اسی طرح انہوں نے اس بات میں اختلاف کیا کہ یہ خلیل کی کتاب ہے بھی یا نہیں؟ ایک گروپ نے اس کا خلیل کی کتاب ہونے سے ہی انکار کر دیا اور تیسرے گروپ نے درمیانی راہ لی ۔
وہ لوگ جنہوں نے اس کی خلیل کی طرف نسبت کو مانا ان میں: ابوالعباس المبرد بن درستویہ ،زجاجی،اب درید،ابن فارس،ابن عبدالبر،ابن خیر،ابن الانباری اور ابن خلدون شامل ہیں۔ یہ وہ مقام نہیں جہاں ان تمام کے اقوال کو تفصیل سے بیان کیا جائے۔
جنہوں نے اسے خلیل کی کتاب نہیں مانا :ابوحاتم سجستانی،نضربن شمیل،نصر بن علی ،ابوالحسن الاخفش،ابن جنی،ابو علی القالی اور ازہری شامل ہیں۔ان میں جن کا انکار شدید ہے ان میں ابی حاتم سجستانی اور اس کے ساتھی ہیں جب بھی کتاب العین کا نام آجاتا تو یہ اس کتاب پر اور اس کے مولف پر شتم کرتے۔
ہمارے لیے ان کے سب اقوال کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے لہذا ہم فقط بعض اقوال کے ذکر پر اکتفا کریں گے کیونکہ یہی بعض کا تذکرہ سب اقوال کے ذکر کرنے سے بے نیاز کر دے گا کیونکہ یہ اقوال ملتے جلتے ہیں۔یہ اس کتاب کی خلیل کی طرف نسبت کا انکار اس لیے کرتے ہیں کیونکہ کوئی روایت نہیں بتاتی یہ کتاب خلیل نے لکھی ہو،اسی طرح روایات میں بھی ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ یہ خلیل نے لکھی ہو۔عین کے مقدمہ میں ہم واضح طورپر دیکھتے ہیں کہ اس کتاب یعنی عین کی نسبت خلیل کی طرف دی گئی ہے۔اسی میں اس کے عمل کی وضاحت کی گئی ہے اور اس کی غرض و غایت،اس کے منہج اور اس کے حروف کی ترتیب کو بیان کیا گیا۔
اس کی خلیل کی طرف نسبیت کی روایت بھی کئی گئی ہے جو درست بھی ہے اس کی صراحت ابن فارس نے کی ہے۔ وہ مقایس(ج۱ ص ۳) پر لکھتا ہے کہ یہ کتاب العین روایت ہوئی ہے کہ علی بن ابراہیم القطان سے وہ چند اور لوگوں سے کہ جن کا ذکر لیث نے کیا ہے وہ خلیل سے نقل کرتے ہیں۔اسی طرح کی ایک روایت ابن درستویہ نے فہرست (ص ۴۳) میں لکھی ہے،سیوطی نے المزھر(ج۱ ص ۴۶) میں لکھی ہے جو ابی علی الغسانی سے شروع ہوتی ہے اور اس کا اختتام خلیل پر ہوتا ہے۔
ان کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اس کتاب کو خلیل کے معاصرین نے نقل نہیں کیا ہے،وہ لوگ جو ہر نئی چیز کو پسند نہیں کرتے جیسے اخفش کا نام لیا جاتا ہے ۔وہ خلیل کا معاصر تھا اس نے خلیل سے کچھ استفادہ نہیں کیا ،نہ ہی اس سے کچھ نقل کیا ہے جب دیگر امور میں اس کا خلیل سے یہ رویہ تھا تو اس نے عین اس سے کیسےنقل کر لینی تھی؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کسی ہم عصر کو علم نہ ہونا اس بات کی دلیل تھوڑی ہے کہ کتاب عین تھی ہی نہیں؟یہ انکار کرنے والے اسی طرح کے اسباب کو ذکر کرتے ہیں جن کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ ہم اس کتاب کی نسبت کو قبول نہیں کرتے۔ ازہری اور قالی جیسے لوگ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے عین کی فراہیدی کی طرف نسبت کا سب سے زیادہ شدت سے انکار کیا ہے۔لغت لکھنے والوں نے سب سے زیادہ استفادہ فراہیدی کی عین سے ہی کیا ہے۔
انہوں نے مقدمہ تہذیب (ص۲۸) پر اس انکار کی صراحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ کتاب خلیل کی نہیں ہے بلکہ لیث بن مظفر کی ہے جس کو خلیل نے اپنا نام کر لیا۔
یہ بات خلیل جیسے آدمی سے ممکن نہیں ہے جو صاحب تقوی انسان تھا اور ہمیشہ زاہدوں اور فقیروں کی طرح زندگی کی اور بصرہ کے مضافات میں رہتا تھا۔ایک روز اسے گورنر نے اپنے بیٹے کو پڑھانے کے لیے طلب کیا جب گورنر کا قاصد اس کے پاس آیا تو اس نے ایک خشک روٹی نکال کر کہا جب تک یہ میرے پاس ہے مجھے گورنر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ازہری خلیل کے زہد کا انکار کرتا ہے اور اسے دکھاوا قرار دیتا ہے یہ اسی طرح ہے کہ آنکھ کے گرد اتنا دھواں کر دو جس سے اردگرد کی فضا آلودہ ہو جائے یعنی یہ اس کا دکھایا تھا جس کے ذریعے وہ لوگوں کو دھوکہ دیتا تھا۔ازہری اس بات کو بھول گیا ہے کہ خلیل کا کام آنکھوں کے گرد پڑے دھویں کو صاف کرنا تھا جس سے حقیقت واضح ہو جاتی ہے ناکہ حقیقت چھپ جاتی ہے۔ازہری نے مقدمہ میں بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی معجم میں خلیل کی آراء کو خود نقل کیا ہے جس میں عربی کے حروف،ان کے مخارج اور ان کی صفات کو ذکر کر کے ان کو خود اپنی طرف نسبت دےدی ہے۔ازہری نے خلیل سے کلمات کی درجہ بندی کے اصول،اسی طرح ان کے آوازوں کے اصول کو خلیل سے اپنی معجم میں نقل کیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ازہری نے جب کتاب تہذیب اللغہ لکھی جس میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے لغت کی کتب تحریر کی ہیں تو اس نے خلیل کا ذکر نہیں کیا۔اس نے لغات کے تذکرے کا آغاز عمرو بن العلاء سے کیا ہے اور اس کا اختتام ابن فطویہ پر کیا ہے۔اس نے ابن سلام کے اس خلیل کے علم کے بارے میں اس قول سے تجاہل اختیار کیا ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ اس نے علم عروض ایجاد کیا اور اس کو پھیلایا ۔خلیل سے پہلے کسی نے اس کو نہیں جانا اور تمام علما سے پہلے اس نے علم عروض کو جانا۔
یہ بات اس پر تلوار سے زیادہ سخت ہے کیونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ وہ ایک کتاب لغت پر لکھ رہا ہے اور اس میں خلیل کی کتاب کا ذکر نہ ہو۔یہ اس کی کتاب کا عیب ہے ڈاکٹر عبداللہ درویش نے اس طرف توجہ دلائی ہے وہ معجم (ص۵۶) میں لکھتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ازہری نے تہذیب میں کچھ اہم امور کو ترک کیا ہے جیسا کہ خلیل کا تذکرہ اس نے اسے اسی طرح ترک کیا ہے جس طرح ابن درید اور کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ کیا ہے کہ خلیل کا تذکرہ تو کریں مگر کتاب العین کا ذکر اس کے نام کے ساتھ نہ کریں۔اس نے اپنی کتاب میں مقدمے میں خلیل کا ذکر کیا ہے کتاب میں خلیل کا عین کے ساتھ ذکر نہ کرنے کی بنیادی وجہ ازہری کا خلیل کے ساتھ تعصب تھا۔یہ فقط خلیل یا ابن درید تک محدود نہیں تھا جس نے یہ کہا عین خلیل کی تالیف ہے بلکہ ازہری کا تعصب ہر اس شخص کے ساتھ تھا جس نے اس سے پہلے کوئی بھی معجم لکھی ہے۔
یہی حال ابی علی قالی کا بھی ہے کہ جنہوں نے عین کی خلیل کی طرف نسبت کو اندلس میں جس کی طرف اس نے سفر کیا وہاں اسے شہرت دی۔اسی جھوٹ کو اس کے طلبہ نے اختیار کر لیا اور ابی حاتم سجستانی جو خود پسند تھا اور ہر اس شخص کی نفی کی جس کا تعلق بصرہ سے تھا۔
اس کا مشہور شاگرد ابوبکر زبیدی بھی عین کی خلیل کی طرف نسبت کا انکار کرتا تھا اس نے اندلس میں اپنے طلاب کے سامنے عین کی خلیل طرف نسبت کا انکار کیا ۔ ان پر طعن کیا جو عین کی خلیل کی طرف نسبت دیتے ہیں اور خلیل کی تعریف کرتے ہوئے کہا بے نظیر و بے مثال،قریشی،مقبول عام،قوم کا اعلی ذہن نہ دنیا نے اس کی طرح کسی کو دیکھا اور نہ ہی اس کی کوئی مثال ہے۔اس سب کے باوجود وہ عین کی خلیل کی نسبت کی نفی ہی کرتا رہا۔
ابوعلی قالی اسی طرح اندلس گئے اور ایک معجم لکھی جس کی بنیاد عین ہی تھی او ر اس کا نام البارع رکھا یہ کتاب عین سے تعریض تھی اور اس بات کا وہم کیا گیا تھا کہ البارع علم میں عین سے بڑی کتاب ہے یہی کام ازہری نے مشرق میں کیا جب اس نے اپنی کتاب کا نام تہذیب اللغہ رکھا۔لیکن ابو علی قالی کی بات الگ ہے وہ ان کی اپنے شیخ ابن درید سے متاثر ہونے کی وجہ سے جو عین سے مقابلہ ضروری سمجھتے ہیں مستنصرباللہ کے حکم کی وجہ سے اوراس لیے حقیقت کا اعتراف کہیں بھی نظر نہیں آتا کہ عین کی نسبت خلیل کی طرف دی جائے کہ یہ کتاب مکمل طور پر خلیل کی تصنیف ہے۔
مشہور محدمث ڈاکٹر ہاشم الطعان نے تحقیق کی ہے کتاب البارع اور العین کے درمیان اور ان دونوں کے درمیان ان کی قدر قیمت کو طے کیا وہ کہتے ہیں ان دونوں کے باہمی مطالعے سے جو حقیقت سامنے آئی ہے جس کا اظہار البارع ص ۲۲ پر کیا گیا یہ دونوں کتابیں یعنی العین اور البارع ایک جیسی ہیں مکمل طور پر ایک جیسی ہیں۔
خلیل کے اسی کام یعنی اس کے العین لکھنے نے اسے اس میدان کا شہسوار اور رہنما بنا دیا۔یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ جس طرح خلیل نے کام کیا اور جس طرف اس کا ذہن گیا یہ تصور بالکل نیا اور اچھوتا تھا۔ازہری،سجستانی اور اس طرح کے بہت سے لوگوں نے خلیل کی طرف کتاب العین کی نسبت کو اس لیے مشکوک کرنے کی کوشش کی کہ اس کام سے ملتا جلتا کام کر کے خلیل کو تقدم کی نسبت کو اس سے چھین لیں۔
بہت سے ماہرین نے اس بات پر تحقیق کی ہے کہ خلیل نے اس کام کو کیسے انجام دیا۔تحقیق کے بعد بہت سے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ اس کے اپنے ذہن کی ایجاد ہے۔کچھ دوسرے لوگوں نے اس ایجاد کو اس سے چھینا ہے اور کہا ہے کہ خلیل اس زمانے میں عراق میں موجود دیگر زبانوں کی لغات سے متاثر ہوا او راسی اثر میں یہ کام کیا۔ان سب کو غلطی ہوئی ہےیہ سب لوگ جنہوں نے اس کا انکار کیا ہے اس بات کو مانتے ہیں کہ خلیل ایک ذہین اور فطین شخص تھا جب خلیفہ نے اسے قیصر روم کی کتاب کا ترجمہ کرنے کا کہا اور ان کے خیال میں وہ رومی زبان نہیں جانتا تھا،تو اس نے کیسے ان کی زبان سے ترجمہ کر لیا؟اصل میں اس نے سوچا تھا کہ یہ خط یقینا اللہ کے نام سے ہی شروع ہو گا اس لیے اسی طرح کے حروف کے ترجمے سے آغاز کیا۔
یہ بات تو واضح ہے کہ خلیل کے مخالفین بھی یہ تو کہتے کہ اسے عربی کے علاوہ دیگر زبانیں بھی آتی تھیں۔اصل میں ان کو ابن ابی اصیبعہ کی کتاب عیون الابناء فی طبقات الاطباء ج۲ ص ۲۸۹ میں حنین بن اسحق کے تذکرے سے اشتباہ ہوا ہے اس میں ہے کہ نھض بغداد سے فارس کے لیے نکلا ،خلیل بن احمد النحوی فارس میں تھے وہ ایک ساتھ رہے یہاں تک کہ نھض نے عربی پر عبور حاصل کیا اور خلیل نے یونانی سیکھی اور یہ مشہور کر دیا گیا کہ خلیل نے یہیں سے یونانی معاجم کا سیکھا ہو گا۔
ان سب لوگوں کے دعوے مٹی میں مل جاتے ہیں اور ان کا بطلان واضح ہو جاتا ہے جب ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خلیل کا ۱۷۵ھ میں انتقال ہو گیا اور حنین اس کے بعد ۱۹۴ھ میں پیدا ہوا وہ دونوں تو ہم عصر ہی نہیں کہ ایک دوسرے سے کچھ سیکھتے سکھاتے۔
کچھ محدثین کا خیال ہے کہ مشرق وہ پہلا علاقہ ہے جہاں معاجم کا رواج ہوا لہذا اس بات کا احتمال ہے کہ خلیل نے ان معاجم سے استفادہ کیا ہو گا۔یہ خیال خلیل کی معجم اور ان معاجم میں تقابلی مطالعہ سے غلط ثابت ہو جاتا ہےکیونکہ ان معاجم کا اسلوب و طریقہ کار خلیل کی معجم سے بالکل مختلف ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ خاص معاجم ہیں خلیل کی معجم کی طرح جامع نہیں ہیں۔
خلیل کی معجم ہر اس کلمہ کے معنی کو شامل ہے ہر فن کے الفاظ کو شامل ہے۔ مختصر الفاظ میں اس سے مراد عربوں کے الفاظ کی تفہیم ہے۔ اس کے استعمال سے الفاظ سے واقفیت پیدا ہوتی ہے،اس سے پہلے کی لغات محدود اعلی طبقے تک محدود تھیں۔خلیل نے العین میں ایک خاص ترتیب کو ان کے مخارج کے اعتبار سے اختیار کیا، حلق میں آخر سے شروع کیا اور آخر میں جو شفتین سے ادا ہوتے ہیں ان کو رکھا۔قدیم زمانے کی معاجم ایسے نہیں لکھی جاتی تھیں خلیل سے پہلے اس طرح کی معجم کسی نے نہیں لکھی۔
خلیل نے عربی لغت کے الفاظ کا استقراء کیا وہ اس عصر تک بھی کافی جامع ہے۔پھر اس نے کتاب عین لکھی جو عربی کی پہلی معجم ہے اور یہ انسانی تاریخ کی پہلی معجمات میں سے ہے۔علمائے کرام نے صدیوں اس سے فائدہ اٹھایا ہےیہاں تک کہ کہا گیا دنیا نے خلیل کے علم و کتب سے فائدہ اٹھایا ہے اور وہ اس کا اداراک بھی نہیں رکھتے۔
قدیم محققین،علما اور محدثین نے العین سے فائدہ اٹھایا ہے اسی طرح بعض مستشرقین نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا ہےجلال الدین سیوطی نے عین سے لے کر فیروز آبادی کی قاموس تک سب کتب قاموس کا تعارف کرایا جب اس نے عین کا ذکر کیا ہے تو بہت دل کھو کر اس نے اس کی وضاحت کی ہے۔
جرمنی کے مستشرق براونتج نے ۱۹۲۶ء میں کتاب عین پر ایک مسقل مقالہ لکھا۔
کتاب عین کے پچیس سو صفحات ہیں،خلیل کی کچھ اور کتب بھی ہیں ان میں معانی الحروف و تفسیر حروف اللغۃ والعروض والنقط والشکل اور بھی بہت سی ہیں۔ہر کتاب کم از کم اتنی ہی وسعت رکھتا ہے جتنی یہ۔
بحوالہ۔۔۔http://ur.islamwhy.com/contents/view/details?id=323&cid=0