غم نہ کرو
تنگی کے بعد آسانی ہے
غم نہ کرو
تنگی کے بعد آسانی ہے
تحریر:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی: سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور پاکستان
اے انسان بھوک کے بعد کے بعد شکم سیری۔پیاس کے بعد سیرابی۔جاگنے کے بعد نیندمرض کے بعد صحت ہے۔گم کردہ منزل پائے گا مشقت اٹھانے والا آسانی حاصل کرلیگا۔اندھیرے چھٹ جائیں گے۔
عجیب ہے کہ اللہ اپنی فتح یا اور کسی بات کو لے آئے۔
رات کو بشارت دو صبح صادق کی اس کو پہاڑوں کی طرف دھکیل دے گی۔
وادیوں کی جانب بھگا دے گی۔
غمزدہ کو بشارت دو ۔روشنی کی طرح تیزی سے آنے والی آسانی کی۔
غم زدہ کو مژدہ سنا دو مخفی لطف و کرم اور مہربان ہاتھوں کا۔
جب آپ دیکھیں کہ صحرا دراز سے دراز تر ہوتا جاتا ہے۔تو جان لے کہ اس کے بعد سرسبزوشاداب نخلستان ہے
،رسی جب لمبی سے لمبی ہوتی جاتی ہے تو یاد رکھئے وہ جلد ہی ٹوٹ جاتی ہے۔
آنسوؤں کے ساتھ مسکراہٹ ہے ۔
خوف کے بعد امن۔رات کے بعد سکون۔
آگ نے ابراہیم خلیل اللہ کو نہیں جلایا۔کیونکہ حکم ربانی سے وہ ابراہیم کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی بن گئی۔
سمندر نے موسی کلیم اللہ علیہ السلام کو نہیں ڈبویا کیونکہ انہوں نے بلند اور سچی آواز میں کہا، نہیں میرا رب میرے ساتھ ہے۔
اور مجھے راستہ دکھائے گا۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یار غار کو ڈھارس بندھائی کے اللہ ہمارے ساتھ ہے۔لہذا امن و سکینۃ اور نصرت حاصل ہوئی۔
موجودہ برُے حالات کے شکار۔مایوس کن صورتحال کے گرفتار صرف تنگی ۔مایوسی کا احساس کرتے ہیں۔ان کی نظر کمرہ کی دیوار اور دروازے تک ہی ہوتی ہے،اس کے آگے ان کی رسائی نہیں۔
کاش وہ پردہ کے پیچھے بھی دیکھتے ان کی فکر و رائے پس پردہ تک پہنچ جاتی۔
یہ آزاد تنگ دل نہ ہو ہمیشہ یکساں حالت میں رہے گی ۔
بہترین عبادت اللہ کی رحمت اور آسانی کا انتظار ہے۔
زمانہ الٹتا پلٹتا ہے گردش دوراں جاری رہتی ہے ۔غیب مستور ہے۔
مدبر عالم کی ہر روز نئی شان ہوتی ہے۔
امید ہے کہ اللہ اس کے بعد کوئی معاملہ پیدا کرے گا۔
تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔
اور غم کے بعد راحت ہے۔
عسر کے بعد یسر ہے
لیمون سے میٹھا شربت بنائیں ۔
ذہین ہوشیار نقصان کو فائدے میں بدل لیتا ہے۔
جاھل غبی ایک مصیبت کو دوآفتیں بنا دیتا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکالے گئے تو آپ نے مدینہ میں مملکت قائم فرما دیں کہ جس نے آج تک تاریخ کو انگشت بدنداں کر رکھا ہے۔
احمد بن حنبل کو جیل میں ڈالا گیاکوڑے لگائے گئے تو وہ اہل سنت کے امام بن گئے۔
ابن تیمیہ گرفتار کیے گئے ۔جب چھوٹے تھے تو ان کے ساتھ زبردست علم تھا۔
سرخسی کو اندھے کنویں میں بند کر دیا گیا تو انہوں نے تیس جلدوں میں فقہ کی کتاب(المبسوط) لکھدی۔
ابن الاثیر کو گھر میں بٹھا دیا گیا تو انہوں نے جامع الاصول اورآلنہایہ لکھی، جو علم حدیث کی بہترین اور مفید ترین کتابیں ہیں۔
ابن جوزی کو بغداد سے نکال دیا گیا انہوں نے قرآت السبعہ کی تجویز تیار کردی۔
مالک بن ذئیب کو بخار چڑھا ،جو اُن کا مرض الموت ثابت ہوا ،تو اس نے وہ زبردست قصیدہ لکھا جو عباسی شعراء کے پورے پورے دیوانوں کی براری کرتا ہے۔
نور زیب الھذلی کے بیٹے مر گئے تھے ،اس لئے ان کا، وہ شاہکار مرثیہ کہا کہ ایک زمانہ مبہوت ہو کر سنتا رہ گیا۔
لوگ حیران رہ گئے تاریخ نے داد دی۔
لہذا کوئی آفت آئے تو اس کا روشن پہلو د یکھئے۔
کوئی آپ کو لیموں کی پیالی دے تو اس میں تھوڑی سی شکر ڈال کر شربت بنا لیجئے۔
کوئی آپ کو مردہ سانپ دے تو اس کی قیمتی کھا ل لے کر بقیہ کو پھینک دیجئے۔۔
بچھوکاٹ کھاتا ہے اس پر سانپ کا زہر اثر نہیں کرتا۔
کیسے بھی سخت حالات ہوں ۔اپنے کو ان کے مطابق ڈھالیے،
آپ کوپھول ہی پھول حاصل ہوں گے۔
بہت ممکن ہے کہ تمہیں کوئی چیز نہ پسند ہو اور وہ تمہارے لیے اچھی ہو۔ (2:216)
فرانس کے مشہور انقلاب سے پہلے ملک کے دو بہترین شاعروں کو قید کردیا گیا۔
ان میں ایک نیک شگون دیکھا کرتا تھا۔
دوسرا منفی رخ۔ایک دن دونوں نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا۔
مثبت سوچ والا ستارے دیکھ کر ہنس پڑا۔
منفی نقطہ نظر کے حامل نے پاس کی سڑک پر گردوغبار اڑتے دیکھا، اسے رونا آگیا۔
زندگی کے دو نقطہ نظر وں میں اتنا بڑا فرق ہے۔
کیا یہ ہے کہ دنیا میں معاشرتی شک نہیں ہوتا ،
اس کے لیے ہر مصیبت میں خیر کا پہلو بھی ڈھونڈیے