عید پے معافی کو سلسلہ۔

عید پے معافی کو سلسلہ۔

جب بھی کوئی عید تہوار آوے ہے یا کوئی حج و عمرہ کے مارے جاوے ہے تو ممکن حد تک ان لوگن سو معافی تلافی کی کوشش کرے ہے جن کے ساتھ وانے دھکا کرو ہوئے۔کوئی سَتائیو ہوئے۔کائی کو حق مارو ہوئے۔کائی لڑائی جھگڑو کرو ہوئے۔۔


ایسے ای جب دوگانہ (یعنی عید) کے مارے جاواہاں تو سب ایک دوسرا کے گلے ملا ہاں۔ایک جملہ منہ سو نکلے ہے “کہو سُن و معاف کرئیو”جب کوئی حج یا عمرہ پے جاوے ہے تو جاسو لڑو رہوے ہے کے پئے جاکے کہوے ۔موکو معافی دیدے۔کوئی غلطی ہوگئی واپے شرمندہ ہوں۔یہی کچھ جب کوئی بیمار ہوجائے،پکو یقین ہوجائے کہ اب ای بچ سے نا ۔تو اُو یا واکا رشتہ دار واکے پئے آکے معافی مانگا ہاں ۔یا بیمار ہاتھ جوڑ کے کہوے کہ موکو معافی دئیو ۔موسو جو غلطی کوتاہی ہوگئی ۔بھول ہوئی۔سب کی معافی تلافی چاہوں۔
ای سلسلہ تقریبا ہر جگہ دیکھن کو ملے ہے۔
معافی تلافی تو بروت کرلی جائے تو بہتر ہے۔ہم ہر کام اے سب سو آخر میں کائیں کو اٹھا کے دھراہاں ۔؟ ۔اگر ہم نے پتو ہے کہ دوسرا کے ساتھ دھکا کرو ہے۔تو مرن کی باٹ کائیں کو دیکھو ہو۔پہلی فرصت میں معافی مانگ لئیو۔بچھڑا نا کو حج و عمرہ کو ای کائیوں کو انتظار کرو ہو؟
میو قوم معافی مانگنا اے کن گھٹی سمجھے ہے ۔حالانکہ معافی مانگو بڑا لوگن کو کام ہے۔ قران کریم یا بارہ میںکہو ہے۔۔صبر کرنو اور معاف کرنو بڑا لوگن کو کام ہے۔(قران سورہ لقمان)
ٹانگ پھینچنو کتاب کو کام ہے۔ بات اپنی اپنی طبعت اور فطرت کی ہے۔جو جاسو مناسبت راکھے وائی جیسے واکی عادت بن جاوے ہے۔ معاشرہ میں بہتری کے مارے کشیدگی ختم کرن کے مارے بہتر ہے معافی بروقت مانگ لی جائے ۔ممکن ہے بعد میں وقت ملے ۔نہ ملے۔موٹ کو بھروسو ٹھوڑو ہے،جب چاہے گُدی مروڑ لئے۔
جب معافی مانگی جائے تو دل بھینتر سو مانگی جائے۔ایسو کردار بہتر نہ ہے کہ عید تہوار پے تو گلے لگ کے معافی مانگی جائے ۔بعد میں پھر اوگن کرن لگ جائے۔معافی تو معافی ہے۔جو ایسی معافی نہ مانگے گو اُو منافق ہوئے گو۔خود کے ساتھ دھوکہ کرے گو۔
چلو اللہ نے رمضان کا روزہ راکھن کی توفیق دی ۔عید کی خوشی بھی نصیب کری ۔موقع ملے ہے تو معافی دل بھینتر سو مانگو۔کوشش کرو کہ جاکی معافی مانگ راہو۔واکا اے دوبارہ نہ کرو۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Instagram