علم خواص الاشیا ء
علم خواص الاشیا
تحریر:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی: سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور پاکستان
خداوند علیم و حکیم کا انسانیت پر ایک عظیم انعام ہے۔ پیدائش آدمؑ سے لے کر اس وقت تک اس علم سے انسان میں انسانیت اور آدمی میں آدمیت آئی اور یہ دنیا ارض جنت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ علم خواص الاشیا کی برکت ہے۔ اس سے ضروریات کا حاصل اور آرام حاصل ہوا اور کائنات کی تسخیر اور اس پر دسترس کی صورتیں پیدا ہو گئیں جو انسان اپنے توہمات سے اس کائنات کی عظیم مخلوقات اور ان کے بت پوجا کرتا تھا آج ان پر حکومت کرتا ہے۔ زمین پر فراٹے بھرتا ہے، پانی پر قبضہ کرتا ہے اور ہوا میں اڑتا ہے۔ ہزاروں میں آواز سن سکتا ہے بلکہ واقعات دیکھ سکتا ہے۔ اس نے چاند اور زہرہ تک اپنے خلائی جہاز بھیج دئیے ہیں اور خلا میں انسانوں نے کامیاب پرواز کی ہے۔ امید ہے بہت جلد ستاروں تک پہنچ جائے گا۔ علم خواص الاشیا کے بغیر یہ کامیابیاں ناممکن ہیں۔
علم خواص الاشیاء میں آج کل اس قدر وسعت ہو گئی ہے کہ اس کے بے شمار شعبے بن گئے ہیں اس کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں جس قدر علوم و فنون ہیں ان کے اپنے خواص الاشیاء قائم ہیں۔ اس کا ایک شعبہ علم خواص الادویہ اور اغذیہ ہیں۔ جس کا تعلق علم العلاج اور علم صحت کے ساتھ ہے جو علم و فن طب سے متعلق ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ علم خواص الاشیاء کی ابتدا علم خواص الادویہ سے ہوئی ہے۔ یہ سلسلہ ہزاروں سالوں سے چلا آتا ہے لیکن اس کو علمی و فنی صورت یونانی تہذیب و تمدن اور عروج کے دور میں دی گئی۔ اس کے لئے معیار مقرر کئے گئے ، مشاہدات اور تجربات کئے گئے اور ان کو کتابی شکل دی گئی۔ طب یونانی میں خواص الادویہ و اغذیہ معلوم کرنے کے لئے ان کی کیفیات اور مزاج مقرر کئے گئے اور پھر ان کو انسانی مزاج سے تطبیق دی گئی اس سے قبل آیورویدک دور میں بھی اسی قسم کا تحقیقاتی اور عملی کام کیا گیا۔ جب اسلامی دور آیا تو اس کے سامنے یونانی اور آیورویدک دونوں کے علمی اور تحقیقاتی کام تھے انہوں نے اس میں بہت زیادہ وسعت دے دی۔ اخلاط کے مزاج کے ساتھ مختلف اعضائے جسم کے مزاج مقرر کر کے اخلاط کو اعضاء کے ساتھ تطبیق دے دی گئی اور سب سے بڑا کام یہ کیا کہ امراض کو اعضاء کے تحت قائم کیا اور علامات کو امراض کے تحت کر دیا۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا جس سے خواص الادویہ اور اغذیہ میں یقینی صورت پیدا ہو گئی ۔ اس کے بعد فرنگی طب کا دور شروع ہوا اس کو سائنسی دور کہتے ہیں۔ اس میں ہر دوا ، غذا اور زہر کا تجربہ کیا گیا ، ساتھ ہی ساتھ خون اور اس کے اجزاء اور رطوبات کا تجزیہ کیا گیا۔ دوا اور اغذیہ کے اثرات کو خون اور اس کے اجزاء اور رطوبات سے تطبیق کی گئی پھر خون کا امراض و علامات کے ساتھ تعلق جوڑا گیا لیکن اسلامی دور میں جو تحقیقاتی کارنامے کئے گئے تھے ان سے آگے جانے کی بجائے ان کو نظر انداز کر دیا گیا اور جس حقیقت کے قریب اسلامی دور میں خواص الادویہ اور اغذیہ پہنچا فرنگی طب اس کو نہ سمجھ سکی اور راست سے بھٹک گئی، یعنی اخلاط کو اعضاء سے تطبیق نہ دے سکی۔ جس کے نتیجہ میں امراض و علامات کا تعلق اعضاء کی بجائے خون اور اس کے اجزاء و رطوبات سے قائم کر دیا گیا۔ اس طرح خواص الادویہ اور اغذیہ کا یقینی اور بے خطا اثر ختم ہو گیا اور ظنی اور عطایا نہ صورتیں پیدا ہو گئیں۔ علم و فن طب پھر غیر علمی اور غیر یقینی ہو گیا۔