علمی دنیا میں ایک نیا راز
علمی دنیا میں ایک نیا راز
تحریر:
از حکیم انقلاب
ناقل حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
علم و حکمت اور جاننے پہچاننے کے متعلق آج تک یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کا تعلق دماغ اور اعصاب کےساتھ ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ بلکہ علم و حکمت اور جاننے پہچاننے میں جس قدر دماغ و اعصاب کا ہے اسی قدر تعلق دل و جگر کا بھی ہے۔ کیونکہ تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ جاننے کا تعلق اگر دماغ کے ساتھ ہے تو سمجھنے کا تعلق دل کے ساتھ ہے اور فائدہ اٹھانے کا تعلق جگر کے ساتھ ہے ۔ یہ سارے اسرار و رموز احساس و ادراک اور قیاس میں پنہاں ہیں جن کا ہم تفصیل سے ذکر کریں گے تاکہ انسان حقیقت اشیاء سے پورے طور پر آگاہ ہو جائے۔ جس سے وہ دنیائےعلم و حکمت اور مذہب کی خدمت کر کے ا س میں انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔
احساس کی حقیقت
احساس سے ایسا علم حاصل ہوتا ہے جو ہمیں حواس خمسہ ظاہری سے پہنچتا ہے۔ یعنی دیکھنا، سننا، چکھنا، سونگھنا اور چکھنا۔ جو حواس خمسہ ظاہری ہیں ان سے جو معلومات اور علم حاصل ہوتاہےوہ سب ہمارے احساسات ہیں۔ ہمارے تجربات و مشاہدات اور کتب کے پڑھنے سے جو علوم حاصل ہوتے ہیں یہ سب احساس کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان میں ایسے علوم کی شمولیت بھی ہوتی ہے جو ہم ادراکات سے حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن فی الوقت تجربہ و مشاہدہ اور پڑھنا احساس میں شامل ہوتاہے۔ مثلاًقرآن حکیم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور وحی کے ذریعہ نازل ہوا ہے اورحدیث شریف کلام الہی کی حکمت کا اظہار اور الہام ہے۔ لیکن ایسی کتب جن میں زندگی کے تجربات اور مشاہدات کاذکر ہو، آیات اور حدیث میں لکھی ہوں تو ان کو پڑھنا بھی ہمارے احساس کے تحت ہو گا۔ گویا ہماری تہذیب و تمدن، علم و حکمت اورتجربات و مشاہدات اور اخلاق و سیاست سب کچھ مذہبی رنگ میں رنگے گئے ہیں اور یہی ہماری ثقافت اور کلچر ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ وحی، الہام، وجدان اور لدنی علوم بذاتِ خود کبھی احساس کے ذریعے حاصل نہیں ہو سکتے ان کو صرف ادراک ہی کیا جا سکتا ہے۔
ادراک کی حقیقت
ادراک سےایسا علم حاصل ہوتا ہےجو حواس ِ خمسہ باطنی سے حاصل ہوتا ہے (جس کی تفصیل آگے آئے گی) اسے نطق اور نفس ناطقہ بھی کہتے ہیں۔ اسی کو مجازاً روح انسانی کہا جاتا ہے۔ دراصل ترقی یافتہ صورت بھی نفس مطلق ہی انسان میں نفس ناطقہ کہلاتی ہے اور ادراک نفس
ناطقہ کی دو قوتوں میں ایک قوت ہے۔ دوسری کو قوت تحریک کہتے ہیں۔ نفس ناطقہ ایک جوہر بسیط ہے جس کی حکومت انسان کے تمام قویٰ اور اعضائے جسمانیہ پر ہے۔ وہ مدرک عالم ہے اس لئے عرض نہیں ہے کیونکہ کسی عرض کا دوسرے عرض کے ساتھ قیام ایک ایسا امر ہے کہ عقل سلیم اسے تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔وہ مدرک کلیات ہےاس لئے اس کو جسم یا جسمانی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کلی اگر کسی جسم میں قائم ہوتو پھر اس کی کلیت قائم نہیں رہتی اور وہ محدود ہو جاتا ہے۔
انسان کو ایک ایسی خاصیت حاصل ہے جو دیگرموجودات کو حاصل نہیں ہے۔ اس کو نطق کہتے ہیں اس لئے وہ ناطق (Speaker) کہلاتا ہے۔ ناطق سے مراد نطق بالفعل نہیں ہے کیونکہ جو آدمی گونگا ہو گا اس میں نطق بالفعل نہ ہوگا۔ بلکہ نطق سے مراد ادراک علم ومفعولات اور قوت تمیز ہے جس سے جسم انسان میں بالواسطہ قویٰ اور آلات تصرف اور تدبیر عمل میں آتی رہتی ہے لیکن ہم اس کو اپنے کسی احساس سے محسوس نہیں کر سکتے یہی نفس ناطقہ ہے جس سے انسان کو فضیلت اور شرف حاصل ہے اور اسی لئے اس کو اشرف المخلوقات کہتے ہیں۔یہی فضیلت اور شرف جب اپنے کمال پر ہوتا ہے تو مقام نبوت اور جب ختم نبوت ہوتی ہے تو حسن جمال اور حکمت و عقل اپنے انتہا پر ہوتی ہے۔ یہی ادراک ہے جو ادنیٰ شخصیت سے لے کر ختم نبوت تک اپنے اپنے مقام پر نورو معرفت اور علم وحکمت کو سمجھتا ہے، علم و عقل دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ کسی شخص میں عقل زیادہ ہوتی ہے اور کسی میں علم زیادہ ہوتا ہے۔ہر شخص میں دونوں کا توازن بالکل مشکل ہے۔ صرف نبوت اور خصوصاً ختم نبوت میں علم و عقل کا نہ صرف کمال ہوتا ہے بلکہ انتہائی توازن ہوتا ہے۔ بس اس حقیقت کو لازم کر لیں کہ جو علم ادراک سے حاصل ہوتا ہے، وہ کسی احساس سے نہیں ہو سکتا۔ اس لئے صرف تجربہ ومشاہدہ اور عقل کی لِم و حکمت میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ علم و حکمت کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ادراک اور نبوت ہیں، جن میں وجدان، الہام، وحی اور علم لدنی حاصل ہوتا ہے۔