علاج سنت بھی خدا کی منشاء بھی
سورہ التوبہ کی آیت ہے کہ تم سے ایک گروہ نے سمجھ پیدا کیوں نہیں کی؟ شیخ ابن باز نے فتاویٰ الطب المرضی میں میں لکھا ہے”ہر ایک کے لئے اپنے فن میں مہارت پیدا کرنی چاہئے اس کی معاشرتی حیثیت کچھ بھی ہو۔مرد ہوکہ عورت۔غلام ہو کہ آ زاد۔مقیم ہو کہ مسافر۔تجار اپنی تجارت میں مشغول ہو یا سپاہی اپنے لشکر میں ہو یا انجیئر اپنے فن کا مظاہرہ کررہا ہو یا طبیب اپنے فن سے خلق کو مستفید کررہا ہویا زمیندار اپنے کھیتوں میں مشغول ہو ان سب کا فرض بنتا ہے اپنے کام سے غافل نہ ہوں سوال وجواب کا سلسلہ برقرار رہنا چاہئے ”فتاوی الطب والمرضی(6/1)طبیب اسے کہتے ہیں جو خواص الادویہ جڑی بوٹیوں کی معرفت اور بدن کو نقصان دینے والی اشیاء اور فائدہ دینے والے امور پر گرفت رکھتا ہو(غایۃ المرام فی علم الکلام 326/1) علاج و معالجہ کے بارہ مذہبی طور پر بہت سا مواد ایسا ملتا ہے جسے صحت مند انسان زندگی میں اپنا لے تو اسے بہت سی پریشانیوں سے چھٹکارا مل جائے۔
رسول اللہﷺ سے سوا ل کیا گیا یارسول اللہﷺ ہم لوگ دم جھاڑے دوا دارو کرتے ہیں کیا یہ تقدیر کو ٹال دیتے ہیں؟فرمایا علاج کرو کیونکہ یہ سب کچھ تقدیر کا حصہ ہے (ترمذی ۔ابن ماجہ ۔ احمد) دوسری جگہ ہے: ما انزل اللہ داء الا انزل لہ شفائ(بخاری فی الصحیح۔تخریج احادیث احیاء علوم الدین93/1مجمع الزوائد و منبع الفوائد85/8)«سَأَلَهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَتَدَاوَى؟ قَالَ نَعَمْ؛ فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يُنْزِلْ دَاءً إلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً، عَلِمَهُ مَنْ عَلِمَهُ، وَجَهِلَهُ مَنْ جَهِلَهُ» ذَكَرَهُ أَحْمَدُإعلام الموقعين عن رب العالمين (4/ 299)
کوئی بیماری ایسی نہیں ،جس کی شفاء اللہ نے نہ اتاری ہو۔اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں بنائی جس کی دوا نہ بنائی ہو(یعنی ہر بیماری کی دوا موجود ہے )جس نے علاج جان لیا اس نے جان لیا جو اس سے بے خبر رہا اس کی بے خبری اس کے ساتھ ہے(کنز العمال5/10) طبیب ہر معاملے میں ذمہ دار ہوتا ہے۔اگر کسی نے مریض کو دوا دی جب کہ وہ طب نہ جانتا تھااگر کوئی نقصان پہنچے گا تو اس کا ضامن ٹہریاجائے گا(السنن الکبری للبیہقی141/8۔المستدرک للحاکم 236/4۔الامراض اوالطب النبوی للضیاء المقدسی143 /1 ابن ماجہ فی الطب۔ابوداؤد فی ادیات۔النسائی فی القساما ت )
نبیؐنے فرمایا:ہربیماری کا علاج موجود ہے جب دوا کا استعمال بیماری کے مطابق کیا جاتا ہے تو اللہ کے حکم سے شفا مل جاتی ہے (مسلم باب السلام حدیث نمبر2204بخاری فی الطب113/10) عمومی طورپر سطحی قسم کے لوگ کہتے ہیں ہمیں دوا کی کیا ضرورت ہے جو تقدیر میں لکھا ہوگا ہوجائے گا ؟یہی سوال صحابہ کرام کے ذہنوں میں بھی آیا تھا انہوں نے اس خلجان کا حل پوچھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا«إِنَّهُ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ»الجامع لابن وهب ت مصطفى أبو الخير (ص: 777)علاج معالجہ بھی اللہ کی تقدیر کا حصہ ہے۔
ایک باریک نکتہ معالجین کے احادیث میں موجود ہے یہ ایسا نکتہ ہے اگر اسے سمجھ لیا جائے تو طب کے میدان میں ہونے والی پریشانیوں کو قابو میں کیا جاسکتا ہے۔صحيح ابن حبان – محققا (13/ 428)
عَنْ جَابِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: “إِنَّ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءً فَإِذَا أُصِيبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَأَ بِإِذْنِ اللَّهِ”۔اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی بیماری پیدا نہیں کی جس کا علاج و توڑ موجود نہ ہو بالفاظ دیگر ہر بیماری کا علاج موجود ہے،اس بارہ میں معالجین کو چاہئے کہ تحقیق و تدقیق سے کام لیں۔الفاظ پر غور کیجئے کہ جب دوا بیماری کےے مطابق دی جائے تو ضرور شفاء ہوتی ہے،غذا کا علم صحت و تندرستی کے لئے رہڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے