- Home
- Uncategorized
- عالمِ اسلام پر م ...
عالمِ اسلام پر مغرب کا تسلط اسباب و نتائج.ندوی
خدا کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
پیش گفتار
ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اس کے رسول کے لیے دعا کرتے ہیں۔
عالم اسلام پر مغرب کا تسلط : اسباب و نتائج نام کی با نتائج نام کی یہ کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے، یہ کتاب نہیں، ایک دستاویز ہے، غور سے پڑھنے اور حفاظت سے رکھنے کی ، دوسروں تک پہنچانے اور ان کو پڑھنے پر آمادہ کرنے کی ، مغرب کے تسلط کا رونا ہم میں سے ہر شخص روتا ہے، مغرب کی بالا دستی کا ماتم ہم میں سے ہر شخص کرتا ہے، مغرب کی اجارہ داری سے بیزار ہم میں ہر شخص نظر آتا ہے لیکن افسوس کہ نہیں روتا تو اپنی بے مائیگی پر نہیں ماتم کرتا تو اپنی غلامی پر نہیں بیزار نظر آتا تو پے در پے اپنی رسوائیوں سے، وہ آج کا مغرب دیکھتا ہے، پست ہمتی میں مبتلا ہوتا ہے، احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے، مایوسی کی اندھیری وادیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے، لیکن افسوس کہ وہ کل کا مشرق نہیں دیکھتا، چمکتا اور دمکتا ہوا، روشنی بکھیرتا ہوا، ترقی کی چوٹی پر پالتھی مارے پر پاتھی مارے بیٹھا ہوا ، کاش کہ کہ ایک نظر وہ ادھر بھی ڈال لیتا، امیدوں کی قندیلیں روشن ہو جاتیں اور مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کا سورج جگمگانے لگتا۔
ہم کل کیا تھے، ہم خود ہی نہیں جانتے ، ہمارے بچے نہیں جانتے ، اور بچے کیا جائیں گے جب ان کے ماں باپ ہی نہیں جانتے ، جب کہ یہ کل کا دن ابھی کل ہی گزرا ہے، مہک اس کی ابھی باقی ہے، تازگی اس کی ابھی برقرار ہے، آہٹ اس کی آج بھی محسوس ہوتی ہے، اور محسوس کیا، سنائی دیتی ہے، خیر جانے دیجیے اس نسل کو جو ابھی دنیا میں نہیں آئی ، آپ اپنی بات کیجیے، اپنے و نے دور کی بات کیجیے، کیا آپ کو یقین آئے گا اپنے اس “کل” پر جس میں ہم دور کی فلکیات، سائنس، کیمیا اور طب میں پورے یورپ کے استاد تھے، جس ”کل میں امام رازی
کی طب پر لکھی ہوئی کتاب نقرس، پتھری، مثانہ، گردے اور بچوں کے امراض میں آج بھی مرجع بنی ہوئی ہے، جس ”کل میں عیسائی بادشاہ لوئی کو عرب مسلمان مصنف کی کتاب کی ضرورت پڑی ، تو صرف کچھ وقت کے لیے لینے پر بطور ضمانت ایک بڑی رقم اس کو جمع کرنا پڑی۔
اب یورپ کا کل بھی دیکھئے، کیا آپ کو یقین آئے گا؟ یورپ کے اس کل پر جس ”کل میں عیسائی دنیا میں سوائے چند افراد کے نہ کوئی لکھنا جانتا اور نہ پڑھنا، جس کل میں یورپ کے بڑے بڑے شہر دیہاتوں سے بھی بدتر تھے، نہ علم تھا نہ ہنر تھا، نہ تہذیب تھی نہ صنعت، پورا یورپ مادی، ادبی، تہذیبی علمی ، ثقافتی صنعتی اور تجارتی لحاظ سے پسماندہ تھا اور انتہائی پسماندہ، جس ”کل میں پورے یورپ میں صرف ایک لائبریری تھی ، اور لائبریری کیا تھی ، ایک الماری تھی، اور الماری کیا تھی ، ایک تختہ تھا جس پر صرف ایک کتاب تھی ، وہ بھی انگریزی میں نہیں ، عربی میں ، عیسائی کی نہیں ، مسلمان کی ، جس “کل” میں یورپ میں آپریشن ہوتا تھا، بیہوش کر کے نہیں ، آپریشن تھیٹر میں نہیں، ڈاکٹروں کی ٹیم کی نگرانی میں نہیں ، الکٹرانک مشینوں کے سائے میں نہیں، کھلے میدان میں ، گرد اور غبار میں، کلہاڑی سے، بالکل اسی طرح جس طرح ایک لکڑ ہارا لکڑی کا ٹتا ہے، سلطان صلاح الدین ایوبی کے سفیر اسامہ بن منقذ کا سفرنامہ نہ ہوتا تو شاید ہم یہی سمجھ رہے ہوتے کہ یورپ پیدا ہی مشینوں کے ساتھ ہوا تھا اور ترقی کی گود میں پروان چڑھا تھا۔
یہ کتاب ہمیں یہی کل دکھاتی ہے، اپنی بھی اور ان کی بھی ، ماضی کے اوراق پلٹتی ہے ، حقائق کو سامنے لاتی ہے، یورپ کی عیاری پر پڑی نقاب کو الٹتی ہے، یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری پسماندگی کے اسباب کیا ہیں؟ یورپ کی ترقی کی وجوہات کیا ہیں؟ ہم سے اتنا خالف آخر وہ کیوں ہے؟ سازشوں کا جال ہمارے خلاف اس نے کیوں کر بچھا رکھا ہے؟، اپنی بالا دستی قائم رکھنے کے لیے وہ کیا کیا ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے؟ اس سے مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟ ، اس کی تہذیبی یلغار کو کیسے ناکام بنایا جا سکتا ہے؟ اور اپنا کھویا ہوا مقام کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟۔
ضرورت ہے اس کتاب کو غور سے پڑھنے کی ، سمجھنے کی ، اسباب تک پہنچنے اور نتائج اخذ کرنے کی ، یہی اس کتاب کا مقصد اور یہی اس کے نو جوان مصنف کی کوشش ہے لیکن یہ کوشش اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوگی جب ہم میں اس کتاب کو پڑھ کر بیداری پیدا ہوگی ، غیرت کچھ جوش مارے گی، اور کچھ کر گزرنے پر طبیعت آمادہ ہوگی۔
مولانا محمد وثیق ندوی (استاد تفسیر وادب دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنو) نے اس موضوع پر نہ صرف یہ کہ مطالعہ کیا، بلکہ خوب مطالعہ کیا ، کتابوں کا بھی ، رسائل کا بھی ، مقالات اور مضامین کا بھی، پھر اس مطالعہ کا نچوڑ ہم جیسے ناواقف اور تاریخ سے بے گا نہ لوگوں تک پہنچایا۔
یہ کتاب وقت کی ضرورت تھی جو انہوں نے پوری کی، اور اس کو آپ تک پہنچانے کی ذمہ داری دار الرشید نے انجام دی ، اب کام آپ کا اور ہمارا ہے کہ ہم اس کتاب سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں، اور اس کتاب کی روشنی میں اپنے لیے کیا لائحہ عمل طے کرتے ہیں؟۔
جعفر مسعود حسنی ندوی.محرم الحرام /1436
۲۹ اکتوبر ۲۰۱۴
یہاں سے ڈائون لوڈ کریں