طب یونانی میں علاج تین صورتیں
طب یونانی میں علاج تین صورتیں
(۱)علاج بالتدبیر۔(۲)علاج بالدوا۔ (۳)علاج بالید (سرجری)
اثر خامہ۔
مجدد الطب صابر ملتانیؒ۔
پیش کردہ:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
طب یونانی میں علاج تین صورتوں میں کیاجاتاہے۔(۱)علاج بالتدبیر۔(۲)علاج بالدوا۔ (۳)علاج بالید( (4سرجری
علاج بالتدبیر:علاج بالتدبیرمیں تین باتیں شامل ہیں۔
اول ۔اسباب ستہ ضرو ریہ جو مندرجہ ذیل ہیں ۔(۱)ہواوروشنی۔ (۲)ماکولات ومشروبات۔ (۳)حرکت وسکونِ بدنی۔(۴) حرکت وسکونِ نفسانی۔ (۵)نیندو بیداری ۔ (۶)استفراغ واحتباس۔
دوم۔کیفیات ومزاج اور اخلاط میں تغیروتبدل۔سوم۔ماحول وحالات میں نظم یعنی مریض جس تکلیف دہ ماحول میں گھراہواہے اور جس مشکل حالت میں ہے اس میں بہتر تبدیلی پیداکرنا۔چونکہ ان تینوں اجزاءکاتعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ غذاسے ہے اس لئے یہ سب کچھ علاج بالغزامیں شریک ہیں۔
ماکولات ومشروبات
ماکول ومشروب(کھانا پینا)میں وہ سب چیزیں شامل ہیں جومنہ کے ذریعے جسم میں پہنچائی جاتی ہیں ان کی چھ صورتیں ہیں۔(۱)غذائے مطلق۔(۲)دوائے مطلق۔(۳)سم مطلق ۔ (۴)غذائی دوائی۔(۵)دوائے غذائی۔(۶)دوائے سمی۔تفصیل یہ ہے۔
غذائے مطلق: خالص غذاکوکہتے ہیں۔جب وہ بدن میں داخل ہوتی ہے تو بدن سے متاثر ہوکر متغیر ہوجاتی ہے لیکن بدن میں کوئی تغیر پیدانہیں کرتی بلکہ خود جزوبدن بن کر بدن کے مشابہ ہوجاتی ہے یعنی خون میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ مثلاً دودھ،گوشت اور روٹی وغیرہ۔
دوائے مطلق: خالص دوا جب بدن میں داخل ہوتی ہے توبدن سے متاثر ہوکر بدن میں تغیر پیداکردیتی ہے اور آخرکار جزو بدن ہوئے بغیر بدن سے خارج ہوجاتی ہے ۔جیسے زنجبیل،بادیان اور ملٹھی وغیرہ۔
سم مطلق: خالص زہرجب جسم میں داخل ہوتووہ خود توبدن سے متاثر نہ ہولیکن بدن کو متغیر کرکے اس میں فساد پیداکردے مثلاً سنکھیا،کچلہ اور افیون وغیرہ۔
غذائے دوا: غذامیں کچھ دوائی اثرات شامل ہوں۔جب بدن میں داخل ہوتی ہے توبدن سے متاثرہوکر متغیرہوجاتی ہے اور خود بھی بدن کو متاثر کرتی ہے۔اس کا زیادہ حصہ جزوبدن بنے اور کچھ حصہ جزوبدن بنے بغیر جسم سے خارج ہو جاتاہے۔مثلاًمچھلی ، میوہ جات وغیرہ۔
دوائے غذائی: دوامیں کچھ غذائی اثرات شامل ہوں۔جب بدن میں داخل ہوتی ہے توبدن سے متاثرہوکرمتغیرہوجاتی ہے اور خود بھی بدن کومتاثر و متغیر کرتی ہے۔اس کا تھوڑاحصہ جزوبدن بنتاہے اور زیادہ حصہ جزوبدن بنے بغیر جسم سے خارج ہوجاتاہے۔مثلاًمیوہ جات وگھی اورنمک ومٹھاس۔
دوائے سمی: دواجس میں کچھ زہریلے اثرات شامل ہوں۔جب بدن میں داخل ہوتی ہے توبدن سے کم متاثرہوتی ہے اور بدن کو بہت زیادہ متاثر ومتغیر کرتی ہے اور نقصان پہنچاتی ہے۔مثلاً نیلاتھوتھا اور پارہ وغیرہ۔
ماکول ومشروبات کی صورتیں: ماکول ومشروبات (کھانے پینے)کے اثرات کی صورتیں یہ ہیں کہ اگرفقط مادہ سے اثر اندازہوتواسے غذاکہتے ہیں ۔اگرصر ف کیفیات کا اثرزیادہ ہوتودواہے۔اگراس کااثرمادہ وکیفیات دونوں سے ہوتو اگرمادہ زیادہ ہے تو غذائے دوا اور اگرکیفیت زیادہ تو دوائے غذائی ہے۔اگر صرف اپنی صورت نوعیہ سے اثرکرے تواسے ذوالخاصہ کہتے ہیں جس کی دوصورتیں ہیں۔اول ذوالخاصہ مواقفہ یعنی تریاق۔دوم ذوالخاصہ مخالفہ جیسے زہر۔ اگرمادے اور صورت نوعیہ سے اثرکرے توغذائے ذالخاصہ اور اگر کیفیت اورصورت نوعیہ سے اثرکرے تواس کودواذوالخاصہ کہتے ہیں۔
اس مختصر سی تفصیل سے اندازہ ہوگاکہ غذاکے اثرات اور وسعت کس قدرطویل ہے یعنی ادویات میں بھی غذائی اثرات شامل ہیں ۔اس لئے علاج بالغزامیں ایسی تمام ادویات شامل ہیں اور ہماری روزانہ زندگی میں ان کا کثرت سے استعمال بھی ہوتاہے۔جیسے نمک ومٹھاس وغیرہ اور ایسی خالص ادویات بھی شامل ہیں جوروزانہ زندگی کاجزو ہیں جیسے زنجبیل،مرچ سیاہ اور گرم مصالحہ وغیرہ۔
غذاکی اقسام: غذاکی دو اقسام ہیں جومندرجہ ذیل ہیں۔(۱)غذائے لطیف۔(۲)غذائے کثیف
غذائے لطیف: ہلکی پھلکی قسم کی ایسی غذاجس سے رقیق خون پیداہو۔جیسے آبِ انار وغیرہ۔
غذائے کثیف: بھاری یابھدی قسم کی ایسی غذاجس سے غلیظ(گاڑھا)خون پیداہو۔جیسے گائے کاگوشت وغیرہ۔
پھر ہرایک کی دوصورتیں ہیں۔(۱)صالح الکیموس یا فاسدالکیموس۔(۲)کثیرالغزا یا قلیل الغزا
صالح الکیموس: ایسی غذاجس سے جسم کیلئے بہترین خلط پیداہو۔ جیس بھیڑ کا گوشت اور ابلاہواانڈہ وغیرہ۔
فاسدالکیموس: وہ غذاجس سے ایسی خلط پیداہوجوبدن کیلئے مفیدنہ ہو۔ جیسے نمکین سوکھی ہوئی مچھلی یامولی۔
کثیرالغزا:وہ غذاہے جس کا اکثر حصہ خون بن جائے ۔جیسے نیم برشٹ انڈے کی زردی وغیرہ۔
قلیل الغزا: وہ غذا جس کا بہت تھوڑا سا حصہ خون بنے۔ جیسے پالک کا سالگ وغیرہ۔
غذائے لطیف، کثیرالغزا اور صالح الکیموس کی مثال زردی بیضہ نیم برشٹ،انگور اورماء الحم(یخنی) ہے۔غذائے کثیف،قلیل الغزا اورفاسدالکیموس کی مثال خشک گوشت،بینگن، مسور اور باقلا ہیں۔
پانی
پانی چونکہ ایک بسیط رکن ہے اس لئے بدن کی غذانہیں بنتا بلکہ غذاکابدرقہ بنتاہے یعنی غذاکوپتلاکرکے باریک تنگ راستوں میں پہنچانے کاکام کرتا ہے۔
بہترین پانی: چشموں کاپانی سب سے بہترہوتاہے اور چشموں میں سے بہترین چشمہ وہ ہے جس کی زمین طبنی (خاکی) ہواور کی صفت یہ ہو کہ اس کا پانی شیریں ہو،مشروق کی طرف بہتاہو،اس کا سرچشمہ دورہو،بلندی سے پستی کی طرف آئے اور اس پرآفتاب کی روشنی پوری طرح پڑتی رہے۔
یہ یادرہے کہ موجودہ پانی جوہمارے گردوپیش میں ہے وہ بسیط پانی نہیں ہے جیساکہ ارکان کے بیان میں ہے ۔بلکہ یہ مرکب پانی ہے اور کئی چیزوں سے مرکب ہے۔یہ پیٹ میں جاکرپھٹ جاتاہے اور اس میں سے خالص (رکن)پانی جسم میں اپنے فرائض انجام دیتاہے جواوپرمذکورہیں۔
دوسرے درجہ کاپانی: چشموں کے بعد بارش کے پانی کادرجہ ہے لیکن اس میں بھی بہترین پانی وہ ہے جوپتھریلے گڑھے میں جمع ہوگیاہواور اس پر خوب دھوپ پڑتی ہو اور اس کے ساتھ شمال اور مشرق کی ہواؤں کے تھپیڑے لگتے ہوں ان پانیوں کے علاوہ دوسرے سب پانی تیسرے درجہ کے ہیں جیسے دریاؤں ، نہروں اور ندی نالوں وغیرہ کا پانی۔
آج کل شہروں کے اندر پمپکنگ اور ڈسٹلنگ کاانتظام ہے یعنی پانی کو مشین کے ذریعے کھینچ کراس کی تطہیر کی جاتی ہے جو انسانی ضرورت کیلئے ایک اچھی قسم کاپانی بن جاتاہے۔لیکن یہ پانی بھی چشموں اور بارش کے پانی کاجواپنی صفات میں پورے ہوں مقابلہ نہیں کرسکتا۔امریکہ کا ایک ڈاکٹر” ویلے” نے جو ماہرعلاج بالغزاسمجھاجاتاتھا نے ایک بارکہاتھا کہ بہت جلدایسادورآنے والاہے کہ ڈاکٹر مریضوں کوجونسخے لکھ کر دیں گے وہ ادیات نہیں بلکہ اغذیہ ہوں گے۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ جوکچھ ڈاکٹر موصوف نے کہاتھا وہ درست ہے کیونکہ موجودہ سائنسی دور میں جوکچھ غذائیات پر تحقیقات ہوئی ہے اگر اس کو سلیقہ سے ترتیب دے دیاجائے توعلاج بالغزاپر ایک بہت بڑاخزانہ سامنے آجاتاہے جس کی مختصر حقیقت درج ذیل ہے۔
غذائی تجزیہ: غذامیں پانچ اجزاءکاہوناضروری ہے۔(۱)پروٹین۔اجزاءئے لحمیہ(۲) فیٹس۔اجزاءئے روغنیہ (۳) کاربوہائیڈریٹس۔شکری اورنشاستہ دار غذا۔(۴) سالٹس۔ نمکیات۔(۵)پانی۔جس غذامیں ان میں سے کسی ایک جزوکی کمی بیشی رہے گی توامراض پیداہوں گے اور ایساہوتاہے۔
وٹامن کی ضرورت: مندرجہ بالا غذائی اجزاءکے ساتھ ان میں ایک قسم کا جوہربھی ہوتاہے جس کووٹامن (حیاتین) کہاجاتاہے۔جس غذامیں یہ وٹامن نہ ہوں یاضائع ہوجائیں یاضرورت کے مطابق استعمال نہ کئے گئے جائیں توجسم انسان میں امراض پیداہوجاتے ہیں۔ یہ تجربات کیے گئے اور درست ثابت ہوئے ہیں۔
علاج بالغزامیں غلط فہمی: عام طورپر علاج بالغزا میں یہ سمجھاجاتاہے کہ اس کاتعلق ان امراض کے ساتھ ہے جو اعضائے غذائیہ سے پیداہوتے ہیں جن میں منہ کے غدودومری ، معدہ امعائی،جگروطحال اور لبلبہ شریک ہیں۔زیادہ سے زیادہ یہ خیال کیاجاتاہے کہ
(۱)وہ امراض جو اعضائے ہضم کی خرابی سے ظاہر ہوں۔(۲)وہ امراض جو غذاکی کمی بیشی یا اجزاءئے غذائیہ کی کمی بیشی سے پیداہوتے ہیں۔بعض مخصوص اغذیہ جوبعض امراض میں مفید ہیں لیکن ایسا خیال کرناغلط ہے بلکہ لاعلمی پرمنحصرہے۔
حقیقت علاج بالغزا: علاج بالغزاکی حقیقت یہ ہے کہ انسان کے اعضائے غذائیہ خصوصاً منہ سے لے کر مقعد تک کوئی ایک ہی قسم کاعضو نہیں ہیں اور نہ ہی ایک ہی قسم کی نسیج (ٹشو)سے بنے ہیں بلکہ انہی انسجہ سے بنے ہیں جن سے اعضائے رئیسہ بنے ہیں اور ہر مفردعضو(نسیج)کاتعلق ان کے ساتھ ہے۔اس لئے جب بھی اعضائے غذائیہ میں کسی حصہ میں خرابی پیداہوتی ہے تو وہ عضو رئیس میں مبتلائے مرض ہوجاتاہے۔اس لئے متعلقہ عضو درست ہونے پر صحت کاملہ حاصل ہوجاتی ہے چونکہ خون جسم کی غذابنتاہے اورغذاسے خون پیداہوتاہے اس لئے غذائی اجزاء ہی صحیح معنوں میں صحت و طاقت قائم رکھتے ہیں۔