You are currently viewing طب نبوی ﷺمیں آدابِ طعام اورطبی نکات
طب نبوی ﷺمیں آدابِ طعام اورطبی نکات

طب نبوی ﷺمیں آدابِ طعام اورطبی نکات

طب نبوی ﷺمیں آدابِ طعام
اورطبی نکات

طب نبوی ﷺمیں آدابِ طعام اورطبی نکات
طب نبوی ﷺمیں آدابِ طعام
اورطبی نکات

 

طب نبوی ﷺمیں آدابِ طعام
طبی نکات

پیش کردہ
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی :سعد طبیہ کالج برائے فرو گ طب نبویﷺ
کاہنہ نو لاہور

احادیث میں آیا ہے کہ جب تک صحت و تندرستی اور فرصت کے اوقات حاصل ہیں، آدمی انھیں غنیمت سمجھے، ان کی قدر کرے اور اس دھوکے میں نہ رہے کہ یہ دولت گراں بہا ہمیشہ حاصل رہے گی۔ وہ نہیں جانتا کہ کب صحت جواب دے جائے اور کب لمحات فرصت چھن جائیں۔ تب وہ بہت سے نیک کام نہیں کر پائے گا اور حسرت اور افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔

فرصت کے لمحات کوغنیمت سمجھو

صحیح سند سے حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک شخص کو نصیحت کی۔ فرمایا:
’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں (کی آمد) سے پہلے غنیمت سمجھو۔ اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، صحت کو مرض سے پہلے، دولت اور تونگری کو فقر و احتیاج سے پہلے، فرصت کو مشغولیت سے پہلے اور زندگی کو موت سے پہلے۔‘‘
حدیث میں ’’غنیمت‘‘ کا لفظ اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ یہ نعمتیں انسان کو سعی و جدوجہد کے بغیر مفت میں مل گئی ہیں، اسی لیے وہ ان کی قدروقیمت محسوس نہیں کرتا۔ لیکن جب یہ یکے بعد دیگرے چھنتی چلی جائیں تو پتا چلے گا کہ ان میں سے ایک ایک چیز کتنی گراں مایہ تھی اور کس بے خبری اور غفلت میں ضائع ہوتی چلی گئی۔

شکم پُری ناپسندیدہ ہے

کھانے کے سلسلے میں رسولﷺ کی ہدایت یہ ہے کہ آدمی پیٹ زیادہ نہ بھرے، اس لیے کہ شکم پُری کے جہاں کئی نفسیاتی اور اخلاقی نقصانات ہیں، وہیں انسان کی صحت بھی اس سے خراب ہوجاتی ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
’’آدمی نے پیٹ (کے برتن) سے برا کوئی برتن نہیں بھرا۔ ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھا رکھ سکیں۔ اگر بہت ضرورت ہو تو ایک تہائی اس کے کھانے، ایک تہائی پینے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے ہونا چاہیے۔‘‘ (ترمذی)
معدے کا فساد بہت سی بیماریوں کا سبب سنتا ہے۔ اس حدیث پر عمل ہو تومعدہ ٹھیک رہ سکتا ہے۔ یوں آدمی معدے کی خرابی سے جنم لینے والے امراض سے محفوظ رہتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے مومن کی یہ صفت بتائی: اس کی خوراک کم ہوتی ہے۔ پیٹ بھر لینا ان لوگوں کا شیوہ ہے جو دنیا کے بھوکے ہوتے ہیں اور جنھیں خدا اور آخرت پر یقین نہیں ہوتا۔ حضرت عبداللہ بن عمر،ؓ حضرت جابرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’مومن کا کھانا ایک آنت میں ہوتا ہے اور کافر سات آنتوں میں بھرتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
یہ نتیجہ ہے مومن اور کافر کے مابین ذہنوں کے فرق کا! اسی وجہ سے دونوں کے اندازِ زیست میں زبردست تبدیلی واقع ہوتی ہے اور اس کا مظاہرہ زندگی کے دیگر معاملات کی طرح کھانے پینے میں بھی ہوتا ہے۔ ایک مومن سوچتا ہے ، خوردن برائے زیستن۔ بلکہ زیستن کو خدا کی اطاعت و فرمانبرداری میں لگانے کا جذبہ اس کے اندر کار فرما ہوتا ہے۔ کافر ’’زیستن برائے خوردن‘‘ پر عمل کرتا ہے۔ وہ دنیا کی نعمتوں کو جلد سے جلد اور زیادہ سے زیادہ سمیٹنا چاہتا ہے۔ اپنا پیٹ بھی اس طرح بھرتا چلا جاتا ہے کہ اسے نتائج تک کی فکر نہیں ہوتی۔

کھانے کا صحت مندانہ انداز

حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں:
’’مجھے نہیں معلوم کہ نبی ﷺ نے کبھی چھوٹے پیالہ میں کھانا کھایا ہو۔ آپﷺ کے لیے کبھی پتلی اور نرم و ملائم روٹی تیار کی گئی ہو (اور آپﷺ نے کھائی ہو) اور آپﷺ نے کبھی (خوان) استعمال کیا۔ حدیث کے راوی حضرت قتادہؓ سے سوال کیا گیا کہ پھر کس چیز میں آپﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کھانا کھایا کرتے تھے؟ فرمایا، دسترخوان پر۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس حدیث میں ’’سکرجۃ‘‘ کا لفظ آیا ہے، جو چھوٹے پیالے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے عدم استعمال کی متعدد وجوہ بیان ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ آپﷺ کے دور میں اس کا رواج نہ تھا۔ دوسری وجہ یہ کہ اہل عرب اجتماعی طور پر اور مل جل کر ایک برتن میں کھانا کھانے کے عادی تھے۔ الگ الگ پیالوں میں کھانے کا رواج نہ تھا۔ ایک بات یہ بھی کہی گئی کہ چھوٹے پیالے یا پیالیاں کھانے نہیں بلکہ ایسی ادویہ یا جوارشات کے لیے استعمال کی جاتی تھیں جو ہاضم ہوں۔ عرب اس قدر پیٹ بھر کے کھانے کے عادی ہی نہ تھے کہ انھیں دوا کی ضرورت پیش آتی۔
حدیث میں کہا گیا ہے کہ آپ نے کبھی ’خوان‘ استعمال نہیں فرمایا۔ ’خوان‘ اب ہر طرح کا دستر خوان کہلاتا ہے لیکن یہاں ایک خاص قسم کے ’خوان‘ کا ذکر ہے۔ اس کی شکل یہ تھی کہ تانبے کے بڑے طبق یا سینی کو تانبے ہی کی چوکی پر جڑ دیا جاتا۔ اس پر پیالے بنے ہوتے تاکہ انواع و اقسام کے کھانے نکالے جا سکیں۔ یہ کافی بھاری ہوتا تھا، اسے ایک سے دو آدمی اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے تھے۔
اس طرح کے خوان دنیا دار اور عیش پرست اصحاب ثروت استعمال کرتے۔ آپﷺ اور صحابہ جس طرح کی زندگی گزار رہے تھے، اس میں ان کی گنجائش نہ تھی۔ راوی حدیث، قتادہؓ کہتے ہیں کہ وہ کھانے کے لیے ’سفرہ‘ استعمال کرتے۔ ’سفرہ‘ عام دستر خوان کو کہا جاتا ہے۔ یہ بالعموم چمڑے کا بنا ہوتا۔ اسے فرش پر بچھا کر کھانا کھایا جاتا۔

کھانے کے لئےٹیبل یا میز کا استعمال

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کھانے کے لیے تپائی یا چوکی وغیرہ استعمال کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب امام غزالیؒ نے یہ دیا ہے کہ کھانا زمین پر رکھ کر یا زمین پر دستر خوان بچھا کر کھانا سنت سے قریب ہے۔ اس میں تواضع اور خاکساری بھی ہے۔ لیکن ’’ماندہ‘‘ (تپائی یا اس جیسی اونچی چیز) پر کھانا ممنوع یا مکروہ نہیں کہ اس کی ممانعت ثابت نہیں۔ یہ بدعت بھی نہیں۔
وجہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو رسول اللہﷺ کے بعد شروع ہوئی، اسے بدعت نہیں کہا جاتا۔ بلکہ بدعت وہ ہے جو سنت ثابتہ کے خلاف ہو اور جو کسی امر شرعی کو ختم کر دے، جب کہ اس کی علت موجود ہو۔ بعض اوقات تو اسباب کے بدلنے پر نئی چیزیں ایجاد کرنا پڑتی ہیں۔ ماندہ صرف اس لیے ہے کہ کھانے کو ذرا اونچا رکھا جائے تاکہ کھانے میں آسانی ہو۔ اس طرح کی چیزوں میں کوئی کراہت نہیں۔ اسی سے میز کرسی پر بھی کھانا کھانے کا جواز نکلتا ہے۔

چھری یا کانٹے کا استعمال

حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دست مبارک میں بکری کا شانہ تھا۔ آپﷺ اسے چھری سے کاٹ کر تناول فرما رہے تھے کہ اتنے میں اذان ہو گئی۔ آپﷺ نے چھری رکھ دی اور نماز کے لیے تیار ہو گئے۔ (صحیح بخاری)
اس حدیث کے ذیل میں امام نوویؒ فرماتے ہیں ’’اس میں گوشت کو چھری سے کاٹ کر کھانے کا جواز ہے۔ گوشت سخت ہو یا اس کا ٹکڑا بڑا ہو تو اس کی ضرورت پیش آتی ہے۔ لیکن علما نے کہا کہ بلاوجہ چھری کا استعمال ناپسندیدہ ہے۔
امام بغوی فرماتے ہیں: ’’اہلِ علم نے اس بات کو پسندیدہ قرار دیا ہے کہ گوشت نوچ کر کھایا جائے۔ اس میں تواضع اور کبر سے اجتناب اور دوری ہے۔ چھری سے کاٹ کر کھانا مباح ہے۔‘‘
علامہ ابن حزم کی رائے اس کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چھری سے کاٹ کر گوشت کھانا پسندیدہ ہے۔ اسی طرح چھری سے کاٹ کر روٹی کھانا بھی ناپسندیدہ نہیں۔ کیونکہ اس سلسلے میں کوئی صریح ممانعت نہیں آئی۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ تبوک میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں پنیر پیش کیا گیا۔ آپﷺ نے چھری طلب فرمائی اور اللہ کا نام لے کر اسے کاٹا۔ (ابو دائود)

گوشت کو دانتوں سے نوچ کر کھائیے

کھانا ہاتھ سے کھانا اور یوں کہ زیادہ سے زیادہ لعاب دہن اس کے ساتھ پیٹ میں پہنچے، ہضم میں معاون بنتا ہے۔احادیث میں اس کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ حضرت صفوان بن امیہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’گوشت کو دانتوں سے نوچ کر کھائو اس لیے کہ یہ زیادہ لذیذ اور ہضم میں معاون ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی)
ایک دوسری روایت کے الفاظ ہیں: ’’میں رسول اللہﷺ کے ساتھ کھانے میں شریک تھا۔ اپنے ہاتھ سے گوشت کو ہڈی سے الگ کر کے کھا رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا ’’ہڈی کو اپنے منہ سے قریب کرو اور دانتوں سے گوشت نوچ کر کھائو۔‘‘ (ابو دائود)
اس امر کی حکمت واضح ہے۔ گوشت کو ہڈی سے دانتوں کے ذریعے آسانی سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ گوشت نوچ کر کھانے سے دانتوں کا عمل بڑھتا اور لعاب دہن زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ نوک زبان ہی لذت محسوس کرنے لگتی ہے۔

کھانا ضائع نہ کیجیے

کئی لوگوں کے دستر خوان پر کھانا بہت ضائع ہوتا ہے۔ اسے شاید بڑائی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ کھانا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، اسے کسی قیمت ضائع نہ کیجیے۔ اس دنیا میں جہاں بے شمار انسان دانے دانے کے محتاج ہیں اور بھوکوں مر رہے ہیں، وہاں یہ کتنی بڑی نادانی اور ناسپاسی ہو گی کہ جن لوگوں کو اللہ نے آسودگی عطا کی ہے، وہ اسے ضائع کر دیں۔
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کھانے کی قدر کیجیے، کھاتے وقت روٹی کا ایک ٹکڑا اور گوشت کی کوئی بوٹی دستر خوان سے گر جائے تو اسے بھی نہ پھینکیے بلکہ صاف کر کے استعمال کر لیں۔ برتن میں کھانا ادھر اُدھر نہ چھوڑیے بلکہ اسے چاروں طرف سے صاف کر لیا جائے۔ یہاں تک کہا گیا کہ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھ دھونے سے پہلے انگلیوں میں شوربا، چاول یا اسی نوع کی اور کوئی چیز لگی ہو تو انھیں خوب چوس اور چاٹ لیں۔ اس سلسلے میں بعض روایات پیش کی گئی ہیں۔

کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنا

حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:’’جب تم میں سے کوئی شخص کھائے تو اپنا ہاتھ چاٹ لے یا کسی کو چٹا دے (تاکہ وہ صاف ہو جائے)۔‘‘ (صحیح بخاری)
انگلیوں کو چٹانے کا مطلب یہ نہیں کہ جو بھی آدمی قریب ہو، اسے اپنی جوٹھی انگلی چٹوانے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ دوسرے کو اپنی جوٹھی انگلی اس وقت چٹائیے جب اس سے قلبی تعلق ہو۔ جیسے اپنی اولاد یا بیوی یا کوئی ایسا فرد جو عقیدت اور محبت رکھتا ہو یا جس سے غیر معمولی بے تکلفی ہو اور جو اسے ناپسند نہ کرے۔

کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کاطبی نکتہ

انگلیاں چاٹنا اور کھانے کے بعد ہاتھوں کا دھونا،ایک صحت مند عمل ہے،اس بارہ میں بہت سے لوگوں نے لکھا کہ کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کا عمل ہاضمہ کے لئے بہترین طریقہ ہے ،انگلیاں چاٹنے سے معدہ اور دیگر اعضائے ہضم پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیںتا ہنوز تحقیق طلب مسئلہ ہے،لیکن تجربات کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے جو لوگ انگلیوں کی مدد سے کھاتے ہیں،کھانے کے بعد انگلیاں اچھی طرح چاٹتےہیں وہ عمومی طورپر صحت مند رہتے ہیں انہیں کم کم ہی ہاضمے کے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
حضرت انسؓ اس معاملے میں رسولﷺ کے مبارک عمل اور آپﷺ کی ہدایت کا اس طرح ذکر کرتے ہیں:
’’رسول اللہﷺ کھانا تناول فرماتے تو اپنی تینوں انگلیوں کو چوس کر صاف کر لیتے۔ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا، جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو وہ اس کی گندگی صاف کرے اور اسے کھا لے۔ شیطان کے لیے اسے نہ چھوڑے۔ آپﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ کھانے کے برتن کو اچھی طرح صاف کریں تاکہ اس میں کوئی چیز نہ لگی رہے۔ آپﷺ نے فرمایا، تم نہیں جانتے کہ تمھارے کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔‘‘ (مسلم)
لیکن امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ جو لقمہ گر جائے، اسے صاف کر کے استعمال کرنا مستحب ہے۔ لیکن اس پر عمل اسی وقت ہو گا جب جگہ پاک ہو۔ اگر جگہ ناپاک یا نجس ہے تو لقمہ بھی ناپاک ہو جائے گا۔ اگر اسے دھویا جا سکتا ہو تو ضرور دھو لیا جائے۔ اگر ممکن نہ ہو تو کسی حیوان کو کھلا دیجیے۔ شیطان کی غذا نہ بننے دیں۔
جو لقمہ ہاتھ سے گر جائے اسے اٹھا کر کھانا آج کی تہذیب میں سخت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنا نہیں جانتے وہ پہلے بھی اسے معیوب ہی سمجھتے تھے۔ لیکن رسولﷺ نے صحابہ کرامؓ میں سادگی، خدا ترسی اور اس کی نعمتوں کی قدر شناسی کا جو پاکیزہ جذبہ پیدا کیا، اس کا اندازہ ایک واقعہ سے ہو سکتا ہے۔
حضرت معقل بن یسارؓ کھانا کھا رہے تھے۔ ہاتھ سے ایک لقمہ گر پڑا۔ انھوں نے اسے اٹھایا، صاف کیا اور کھا لیا۔ کچھ دہقان وہاں موجود تھے۔ وہ ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارہ کرنے لگے۔ حضرت معقل بن یسارؓ سے بعض لوگوں نے کہا ’’اللہ امیر (غالباً وہ اس وقت بصرہ کے امیر تھے) کا بھلا کرے، یہ دہقان اس بات پر مسکرا رہے ہیں کہ کھانا آپ کے سامنے موجود ہے، کوئی کمی نہیں پھر بھی آپ نے ہاتھ سے جو لقمہ گرا اسے اٹھا کر کھا لیا۔‘‘
انھوں نے جواب دیا کہ ان عجمیوں کی وجہ سے میں رسول اللہﷺ کا ارشاد نہیں چھوڑ سکتا۔ ہم میں سے کسی کا لقمہ گر جاتا تو آپﷺ حکم دیتے کہ اسے اٹھائے اور صاف کر کے کھا لے ۔شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ (ابن ماجہ)
رسول اللہﷺ کے اس ارشاد میں بڑی معنویت ہے کہ شیطان کے لیے کھانا نہ چھوڑا جائے۔ برتن میں یا دستر خوان پر اس طرح کھانا چھوڑ دینا کہ وہ کسی کے کام نہ آ سکے یا صاف ستھرے دستر خوان پر بھی کوئی لقمہ گر جائے تو اسے ہاتھ نہ لگانا، کبروغرور کی علامت ہے۔ اس ناپاک جذبے سے انسان شیطان کو اپنے عمل میں شریک کر لیتا ہے۔ اللہ کے بندے خاکسار اور متواضع ہوتے ہیں، وہ متکبروں کے طور طریقے نہیں اختیار کرتے۔
یہ بات بھی صحیح ہے کہ ہمیں نہیں معلوم، ہماری غذا کے کس حصے میں خیروبرکت ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ غذا کا کتنا اور کون سا حصہ جزوبدن بنے گا، کون سا حصہ ہماری دنیا اور آخرت کے لیے مفید ثابت ہو گا؟ یہ سب باتیں اللہ کے علم میں ہیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جو غذا اللہ نے ہمیں عطا کی ہے، اس کی قدر کریں۔ اس کے کسی حصے کو ضائع نہ ہونے دیں۔ اس کے ایک ایک جزو سے برکت کی توقع رکھیں۔

اللہ کا شکر

کھانے سے فارغ ہونے کے بعد آدمی اللہ کا شکر ادا کرے۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس بندہ سے خوش ہوتا ہے جو کسی بھی وقت کھائے تو اس پر اس کی حمد و ثنا کرے اور جب کوئی چیز پیے تو اس پر اس کی حمد و ثنا کرے۔‘‘ (مسلم)
اس سلسلے میں دعائیں بھی آئی ہیں۔ ان کی اس پہلو سے بڑی اہمیت ہے کہ یہ رسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہیں۔ یہ دعائیں بتاتی ہیں کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں اور اس کی دی ہوئی غذائوں سے فائدہ اٹھانے کے بعد شکر کے موزوں ترین الفاظ کیا ہو سکتے ہیں۔ حضرت ابو امامہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب کھانے سے فارغ ہوتے تو یوں دعا فرماتے:
ترجمہ:’’سب تعریف اور شکر ہے اللہ کا، بہت شکر، پاکیزہ شکر، اور ایسا شکر کہ اس میں برکت ہوتی رہے۔ اس کے انعامات کو رد نہیں کیا جا سکتا اور نہ چھوڑا جا سکتا ہے۔ ان سے آدمی بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ وہ ہمارا رب ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ کوئی چیز تناول یا نوش فرماتے تو دعا فرماتے:
’’سب تعریف اور شکر ہے خدا کا جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور ہمیں ان لوگوں میں داخل فرمایا جو مسلم اور اس کے فرماں بردار ہیں۔‘‘(ابو دائود)
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ جو شخص کھانا کھائے اور کہے شکر ہے خدا کا جس نے میری کسی تدبیر اور طاقت کے بغیر مجھے یہ چیز کھلائی اور اس رزق سے نوازا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘‘ (ترمذی)

نعمتوں کی قدر کرو

خدا پر ایمان اور یقین نہ ہو تو آدمی یا تو اس فریب میں مبتلا ہوتا ہے کہ اسے دنیا کی جو نعمتیں بھی ملی ہیں، وہ اس کی صلاحیت اور سعی وجہد کا نتیجہ ہیں، وہ کسی کا ممنون احسان نہیں۔ یا وہ یہ احساس لیے پھرتا ہے کہ وہ ان بہت سی چیزوں سے محروم ہے جو دوسروں کو حاصل ہیں۔ کبروغرور اور احساس محرومی، یہ دونوں ہی کیفیات انسان کی شخصیت کو غیر متوازن بنا دیتی ہیں۔ وہ صحیح رخ سے نہ تو سوچ پاتا ہے اور نہ صحیح سمت میں اس کا قدم اٹھتا ہے۔

اس کے برخلاف اللہ کا شکر انسان پر دو حقائق وا کرتا ہے۔ ایک یہ کہ دنیا میں اس جیسے بے شمار افراد بھوک پیاس میں گرفتار ہیں جنھیں ضرورت کے مطابق غذا نہیں مل رہی۔ دوسرا یہ کہ کتنے ہی ایسے انسان ہیں جنھیں انواع و اقسام کی نعمتیں حاصل ہیں۔ لیکن وہ صحت کی خرابی یا کسی اور وجہ سے اس قابل نہیں کہ ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اس صورت حال میں یہ اللہ ہی کا کرم ہے کہ اس نے پاکیزہ غذا عطا کی اور اس سے استفادے کے قابل بھی بنایا۔ یوں انسان کے اندر حقیقتوں کو سمجھنے اور ماننے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور صبر، شکر اور قناعت کے پاکیزہ جذبات ابھرتے ہیں۔

کھانا اور نفسیات

انسان کی باطنی کیفیات اور جذبات کا انسان کے ظاہر پر اثر پڑتا ہے۔ چناںچہ جو غذا اللہ کا نام لے کر استعمال کی جائے اور جس کے بعد اللہ کی حمد و ثنا ہو، اس کے پاکیزہ اور خوش گوار اثرات بھی انسان کی صحت پہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کا انکار نفسیاتی حقیقت کا انکار ہے۔
انسانی زندگی میں سوچوں اور وساوس کا اہم کردار ہوتا ہے،اگراطمنان کے ساتھ کھانا کھایا جائے توجسم پراس کے مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں،کھانا ٹھیک ہضم ہوتا ہے،صحت قابل رشک رہتی ہے۔بصورت دیگر تفکرات کی حالت میں کھایا گیا قیمتی سے قیمتی کھانا بھی غیر مفید اور مضر ثابت ہوتا ہے۔سوچ کا اعضائے ہضم سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔کیا دیکھتے نہیں کہ غم و غصہ کے وقت انسان کی بھوک اڑ جاتی ہے سامنے رکھے ہوئے کھانے سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے۔نعمت کھانے اللہ کا شکر ادا کرنے سے انسان کو مالک اور اپنی حیثیت کا باریک تعلق اور دونوں میں فرق مراتب معلوم ہوجاتا ہے۔جب رازق و مرذوق کا فرق سامنےآجائے تو انسانی زندگی کا زک تبدیل ہوجاتا ہے۔

کھانے کے بعد منہ اور ہاتھ صاف کیجیے

کھانے کے بعد منہ اور ہاتھ کی صفائی ضروری ہے۔ ہاتھ صاف نہ ہو تو اس پر گندگی جمع ہو گی اور جلد متاثر ہو سکتی ہے ہے۔ صفائی میں بے احتیاطی سے دانتوں کو نقصان پہنچ سکتا۔ اسلام ان سب باتوں کو اہمیت دیتا ہے۔ خاص طور پر رات کو کھانے کے بعد صفائی کے اہتمام کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’بے شک شیطان بڑا حساس اور چاٹنے والا ہے۔ جس شخص کے ہاتھ میں رات کو سوتے وقت گوشت کی بو موجود ہو اور اسے کوئی تکلیف پہنچے تو وہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرے۔‘‘ (ابو دائود)
اس میں کھانے کے بعد ہاتھ صاف کیے بغیر سونے سے منع کیا گیا ہے۔ ممکنہ نقصان کی طرف بھی توجہ دلائی گئی کہ کھانے کی بو ہاتھ میں رہ جائے تو کوئی کیڑا مکوڑا کاٹ سکتا ہے۔ ایسی کوئی تکلیف پہنچے تو آدمی کو اپنے پر ہی ملامت کرنی چاہیے۔ یہ سراسر اسی کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ ہاتھ پر میل اور چکنائی کے جمع رہنے سے جراثیم پرورش پاتے اور ان سے جلدی امراض کا خطرہ رہتا ہے۔

طبی نکتہ۔

اس وقت کیڑے مکوڑے نقصان پہنچاتے تھے ان کا ذکر کردیا گیا لیکن آج تیز مصالحوں والے کھانے کی باقیات انسان کے لئے نقصان کا سبب بن سکتی ہیں۔ہاتھوں کی آلودگی مسعلہ پیدا کرسکتی ہے۔اس وقت جو تیز ترین مصالھوں والی غذائی استعمال کی جارہی ہیں ان سے زبان تو آشنا ہے لیکن ناک کان و دیگر مقاما ت ا ن سے آشنا نہیں۔اس وقت ملاوٹ شدہ غذائوں نے انسانی صحت کو تباہ و برباد کرنا شروع کردیا ہے قوت مدافعت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ایسے میں اگر کسی انفیکشن کے مقام پر تیز مرچ /مصالھہ میں لتھڑا ہوا ہاتھ لگ گیا تو اس پر پہنچنے والی تکلیف کو بیمار سے زیادہ کوئی بیان نہیںکرسکتا

رات کے وقت دانتوں کی صفائی

رات کو منہ ہاتھ دھو کر دانت صاف کر کے سونا طبی لحاظ سے کئی پہلوئوں سے مفید ہے۔ یہ شریعت کے منشا کے بھی عین مطابق ہے۔ ان احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اس کی بہتر اور جامع شکل وضو ہے۔ حدیث میں اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ آدمی وضو کے ساتھ اور اللہ کا ذکر کرتے ہوئے آنکھیں موند لے۔.
جب سے دانتوں کی طرف سے غفلت برتا شروع ہوئے ہیں دانتوں کے امراض وباء کی صورت میں حملہ آور ہوئے ہیں دانتوں کی حفاظت کے لئے بہت سے مصنوعی طریقے بتائے گئے ہیں جو مفید ہونے کے بجائے خود ایک مرض کی صورت بنتے جارہے ہیں۔اگر مسواک کا اہتمام کرلیا جائے تودانت صحت مند رہیںگے اورصحت قابل رشک رہے گی۔یاد رکھئے اگر دانت خراب ہوگئے تو سمجھو تم ذائقوں سے محروم ہوگئے۔
پیش کردہ
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی :سعد طبیہ کالج برائے فرو گ طب نبویﷺ
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی
کاہنہ نو لاہور

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply