You are currently viewing طب عہد عتیق میں  (زمانہ قبل تاریخ تا چھٹی صدی عیسوی)
طب عہد عتیق میں (زمانہ قبل تاریخ تا چھٹی صدی عیسوی)

طب عہد عتیق میں (زمانہ قبل تاریخ تا چھٹی صدی عیسوی)

طب عہد عتیق میں
(زمانہ قبل تاریخ تا چھٹی صدی عیسوی)

  طب عہد عتیق میں  (زمانہ قبل تاریخ تا چھٹی صدی عیسوی)

طب عہد عتیق میں
(زمانہ قبل تاریخ تا چھٹی صدی عیسوی)

طب عہد عتیق میں
(زمانہ قبل تاریخ تا چھٹی صدی عیسوی)

اثر خامہ:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان

 

Medicine in Ancient Times (Pre-Historic Times to 6th cent. AD)
جب کبھی طلب کی تاریخ پر فکر تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ علم کافی قدیم ہے اور اس کی تاریخ اس دور سے جا ملتی ہے کہ جب فین تاریخ سازی بھی و جود میں نہیں آیا تھا۔ لیکن مورخین نے اس علم کی قدامت اور ابتدائی ہئیت سے متعلق اپنی اپنی آراء قائم کی ہیں اور کچھ مذہبی نظریات و عقائد سے بھی اس موضوع پر رہنمائی ملی ہے۔
بعد میں جب انسان نے تہذیب وتمدن کی منزلیں طے کیں اور اجتماعی زندگی اختیار کی تو دنیا میں انسانی آبادیاں وجود میں آ گئیں جو دنیا کی قدیم ترین اقوام اور ممالک کے وجورکا ذریعہ بنیں جن کو تاریخ میں قدیم تہذیبوں (ancient civilizations) کے تحت لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ ان قدیم تہذیبوں کے مطالعے سے علم ہوتا ہے کہ جب انسانی تہذیب وتمدن پروان چڑھا تو انسانی ترقی کی پہلی منزل ، علوم وفنون کا وجود میں آنا تھا، جن میں سے ایک علم طب بھی تھا، خواہ اس کی شکل کچھ بھی رہی۔ قدیم فنون میں بت تراشی، مصوری اور فن تحریر بھی شامل ہیں جن کی مدد سے تاریخی جانوروں سے حفاظت ممکن ہو۔ اسی طرح جب کوئی بیماری درد،زخم، بخار، آلٹی، دست و غیرہ کی صورت میں نمودار ہوئی ہوگی تو فطری تقاضے کے تحت جانے اَنجانے میں انسان نے اس کےعلاج کی تدبیر ضرور کی ہوگی۔ چاہے آرام کے ذریعہ چاہے کھانا پینا چھوڑ کر، یا کسی جڑی بوٹی گھاس پھوس وغیرہ کا استعمال کر کے ۔ چنانچہ یہ اندازہ کافی حد تک درست ہے کہ انسانی وجود ساتھ قدرت کی رہنمائی میں فن طب کی ابتدا ہوئی۔
عقائد۔۔
انسان کیسے پیدا ہوا ؟ جس طرح اس سوال کا جواب مختلف مذہبی عقائد کی روشنی میں مختلف ہے مثلا اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں آنے والے سب سے پہلے انسان حضرت آدم ؑ ہیں جبکہ غیر مسلموں کا عقیدہ یہ نہیں ۔ اسی طرح علم طب کی ابتداء کے بارے میں مختلف مذاہب میں مختلف عقیدے ہیں ۔ کوئی مذہب اس فن کو انبیا کرام سے منسوب کرتا ہے جیسے مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ جب حضرت آدم دنیامیں تشریف لائے تو ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے منجانب الله آپ کو کچھ علوم ودیعت کیے گئے جس میں علم طب بھی تھا۔ عقیدہ یہی ہے کہ حضرت ادریس نے ہر قسم کے صنائع اور فلسفہ کی ابتدا کی تھی جس میں علم طب بھی شامل ہے۔ روایت یہ بھی ہے کہ حضرت سلیمان کو بذریعہ الہام علم طب کی تعلیم دی گئی تھی۔
طب کی ابتداء کے بارے میں غیرمسلموں کے اپنے عقیدے ہیں۔ یہوی حضرت موسی کو فن طب کا موجد مانتے ہیں ۔ مجوسی ( آتش پرست ) اپنے پیمبر زرتشت (Zoroaster) کوفن طب کا بانی قراردیتے ہیں اور ابل ہنواپ نےبھگوان برہماکوہر فن وعلم کا بانی ( Founder) کہتے ہیں۔
بعض قوموں نے اپنے مذہبی پیشوا کوطبیب کا درجہ دیا۔قدیم یونانی اپنے مذہبی پیشوا اسقلی بیوس اول (1-Asclepius) کوطبيب اول کا درجہ دیتے ہیں ۔
یونانیوں کا بھی عقیدہ ہے کہ اسقلی بیوں کو طب کی تعلیم ادریسؑ نے دی تھی۔ حضرت ادریس کو یونانی زبان میں حرمس” ” (Hermes) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
آثار وشواہد
علم طب کی ابتدائی تاریخ معلوم کرنے کے لیے ضروری تھا کہ مرض کی ابتداء پر تحقیق کی جاتی چنانچہ طبی اور ارضی تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس دنیا میں جو انسانی سے قبل مرضی جراثیم موجود تھے، سر آرتر کیتھ (Sir Arthur Keith) کی تحقیق کے مطابق تیس ہزار سال(30000) سے زیادہ جراثیم کرہ ارض پر موجود تھے۔ اس لیے پتھر کے زمانے (store age) کے انسان میں جراثیم سے پیدا ہونے والے امراض ملتے ہیں۔ہٹن وپسٹر (H. Webster) اپنی تالی” جادو (magic) میں لکھتا ہے کہ ابتداء میں جب انسان نے مرض کو جاتا تو وہ سمجھا کہ کوئی خوفناک بلا اُسے چپٹ گئی ہے اس لیے طب کی ابتداء جادو سے ہوئی اور تعویذ گنڈے، پچھاڑ پھونک اورٹو نے ٹوٹکوں سے بیماریوں کا کا علان کیا جاتا تھا۔
دنیا کی قدیم ترین قوموں کی تاریخ و تحقیق سے بھی وپسٹر کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ پرانے زمانے (BC 3000 )میں جادو اورسحر کا بہت زور تھا۔ لوگ امراض کو بدروحوں (Ehosts) کا سایہ سمجھتے تھے اور ان کے علاج کے لیے جادو اور دوسرے توہمات کا سہارا لیتے تھے۔
جب انسان نے محسوس کیا صحت و مرض کے پیچھے کوئی طاقت کارفرما ہے تو دیوی دیوتاؤں کا تصور جما کر ان کو پوجنے کا چلن شروع ہو گیا ۔ چنانچہ صحت و مرض کے دیوی دیوتا بھی وجود میں آ گئے اور ان کے پجاریوں نےطبیب کے فرائض انجام دینا شروع کردیئے۔
لیکن علمی وینی نقطہ نظر سے صحت ومرض کی بحث BC 500 سے شروع ہوئی جس کا سہرا عظیم یونانی فلسفي بقراط ( Hippocrates, 460-377, BC) کے سر ہے۔ بقراط نے با قا عدہ انسانی بدن کی ساخت و ترکیب، افعال و خواص اورصحت و مرض سے متعلق نظریات قائم کیے اورعلم طب کو بحیثیت ایک فن کا درجہ دیا۔ اسی لیے بقراط کو ابو الطب Father of Medicine) کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
بقراط کی طبی فلسفی تحقیق
یونان میں ایک سے بڑھ کر ایک فلسفی ہوئے جنھوں نے مختلف علوم وفنون کے بنیادی نظریات پیش کیے۔ طب کے تعلق سے یہ شرف بقراط کو حاصل ہے۔ اس نے فلسفہ کی بنیاد پرچم انسان کی تخلیق و افعال پرتحقیق کی۔ بقراط نے مانا کہ تمام کائنات میں تین طرح کے مادے پائے جاتے ہیں ۔ جامد (solid)، سیال (liquid) اور ریکی (gaseous)۔ بدن انسانی بھی ان ہی ماڈوں سے مرکب ہے جس میں سیال مادے کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ بدنی رطوبت کو بقراط نے
اخلاط (Humours) کا نام دیا۔
بقراط کا پیش کردہ نظریہ اخلاط بے حد مقبول و معروف ہے اور آج بھی طب کے بنیادی نظریات میں سب سے افضل ہے۔
بقراط نے بتایا کہ جسم انسان میں چار طرح کے اخلاط پائے جاتے ہیں، خون (Blood)بلغم( Phlegm)
)، صفراء (Bile) اورسودا (Black Bile) ان اخلاط کی کمیت و کیفیت اور آپس میں تناسب ہی صحت کو قائم رکھتا ہے اور اس میں ذرا سا بھی خلل بیماری کا سبب ہے۔
بقراط نے یہ بھی بتایا کہ ہر جاندار میں ایک طاقت قدرتی طور سے موجود ہے جو صحت کی نگہبان ہوتی ہے اور مرض کی مخالفت کرتی ہے ۔ اس طاقت کو اس نے طبیعت (Physic) کا نام دیا اور کہا کہ اصل طبیب طبیعت کی ہے ۔ طبیب تو طبیعت کا خادم ہے۔
( بقراط نے ہی اصول علاج کی بنیاد ڈالی اور کہا مرض کے سبب کی ضد پیدا کرنے سے شفاء ممکن ہے،

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply