- Home
- Uncategorized
- طبی نسخوں میں مب ...

Analysis of the harms of exaggeration in medical prescriptions,
طبیب کا حلف اور منافع کا کھیل

بقراطی اخلاقیات سے پاکستان میں جدید AMR بحران تک
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
تعارف
طب کا پیشہ ایک مقدس عہد پر قائم ہے: مریض کی فلاح و بہبود کو ہر دوسرے مقصد پر فوقیت دینا۔ یہ بنیادی اصول، جو ہزاروں سالوں سے طبی اخلاقیات کا سنگ بنیاد رہا ہے، آج ایک شدید دباؤ کی زد میں ہے۔ جدید دور میں، معالج کے اس لازوال اخلاقی فرض اور دوا ساز صنعت کے طاقتور تجارتی مفادات کے درمیان ایک گہرا تصادم پیدا ہو چکا ہے۔ اس تصادم کا ایک سب سے خطرناک مظہر طبی نسخہ جات کے فوائد میں مبالغہ آرائی ہے۔ یہ عمل کوئی معمولی فروگزاشت نہیں، بلکہ ایک گہری اخلاقی خلاف ورزی ہے جس کے انفرادی صحت، عوامی اعتماد، اور قومی صحت کے نظاموں پر تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
جب کسی دوا کی افادیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، تو یہ صرف ایک گمراہ کن مارکیٹنگ حربہ نہیں ہوتا؛ یہ مریض اور معالج کے درمیان اعتماد کے رشتے پر حملہ ہے۔ یہ غیر ضروری علاج (overtreatment) کو جنم دیتا ہے، جس سے نہ صرف مریضوں پر ناقابل برداشت مالی بوجھ پڑتا ہے بلکہ انہیں ادویات کے غیر ضروری ضمنی اثرات اور طبی غلطیوں کے خطرے سے بھی دوچار کرتا ہے۔ عالمی سطح پر، اس رجحان نے “بہت زیادہ طب” (Too Much Medicine) کے تصور کو جنم دیا ہے، جہاں وسائل کو حقیقی ضروریات سے ہٹا کر غیر ضروری تشخیص اور علاج پر ضائع کیا جاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ جب اینٹی بائیوٹکس جیسی اہم ادویات کا غیر عقلی استعمال مبالغہ آمیز دعووں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، تو یہ اینٹی مائیکروبیل مزاحمت (Antimicrobial Resistance – AMR) جیسی خاموش وبا کو جنم دیتا ہے، جو جدید طب کی بنیادوں کو ہی کھوکھلا کر رہی ہے۔
یہ رپورٹ اس پیچیدہ مسئلے کا ایک جامع اور کثیر جہتی تجزیہ پیش کرتی ہے۔ اس کا آغاز قدیم اطباء کی ان اخلاقی بنیادوں کے جائزے سے ہوتا ہے جنہوں نے اس پیشے کی روح کو تشکیل دیا، جن میں بقراط سے لے کر اسلامی سنہری دور کے عظیم معالجین جیسے الرازی اور ابن سینا شامل ہیں۔ اس کے بعد،

رپورٹ جدید دور کی اس بیماری کی تشخیص کرتی ہے جس میں دوا ساز صنعت کے تجارتی محرکات نے طبی فیصلوں پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا ہے، اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی وضاحت کے لیے امریکی اوپیئڈ بحران کو ایک عبرتناک مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
رپورٹ کا مرکزی محور پاکستان ہے، جسے ایک اہم کیس اسٹڈی کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں کمزور ریگولیٹری ڈھانچے، طاقتور بازاری قوتوں، اور مراعات پر مبنی نسخہ جات کے کلچر نے مل کر ایک سنگین عوامی صحت کے بحران کو جنم دیا ہے، جس کی سب سے مہلک مثال AMR کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ آخر میں، یہ رپورٹ محض تشخیص پر اکتفا نہیں کرتی، بلکہ قدیم حکمت اور جدید چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے اصلاحات کے لیے ایک جامع فریم ورک پیش کرتی ہے۔ اس کا مقصد پالیسی سازوں، صحت عامہ کے حکام، طبی ماہرین، اور صحافیوں کے لیے ایک مستند دستاویز فراہم کرنا ہے تاکہ اس مسئلے کی گہرائی کو سمجھا جا سکے اور اس کے حل کی جانب ٹھوس اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ اس رپورٹ کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ عوامی صحت کے تحفظ کے لیے طبیب کے حلف کو منافع کے کھیل پر ایک بار پھر فوقیت دینا ناگزیر ہے۔
حصہ 1: لازوال اخلاقیات: قدیم دور میں طبی سچائی کے اصول
جدید طب میں درپیش اخلاقی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے، ان بنیادی اصولوں کو سمجھنا ضروری ہے جنہوں نے ہزاروں سالوں سے اس پیشے کی رہنمائی کی ہے۔ ایمانداری، مریض کی فلاح، اور نقصان سے بچنے کے اصول جدید ایجادات نہیں ہیں، بلکہ یہ وہ لازوال ستون ہیں جن پر طب کی عمارت کھڑی ہے۔ یہ سیکشن ان تاریخی اخلاقی بنیادوں کا جائزہ لیتا ہے تاکہ جدید طرز عمل کا ان کے ساتھ موازنہ کیا جا سکے۔
بقراطی مینڈیٹ: Primum Non Nocere اور طبیب کا حلف
مغربی طبی اخلاقیات کی جڑیں پانچویں صدی قبل مسیح کے یونانی طبیب بقراط سے منسوب حلف میں پیوست ہیں۔ بقراطی حلف (Hippocratic Oath) محض ایک رسمی عہد نہیں، بلکہ یہ ایک طبیب کے کردار، اس کی ذمہ داریوں، اور مریض کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کو بیان کرتا ہے 1۔ اس حلف کے مرکز میں یہ عہد ہے کہ معالج “اپنے بہترین علم اور فیصلے کے مطابق اپنے مریضوں کے فائدے کے لیے” علاج معالجہ کرے گا اور انہیں “کسی قسم کے نقصان یا ناانصافی” سے بچائے گا 1۔ یہ اصول، جسے بعد میں لاطینی جملے
“Primum non nocere” (سب سے پہلے، کوئی نقصان نہ پہنچاؤ) سے شہرت ملی، طبی اخلاقیات کا سنگ بنیاد بن گیا 2۔
بقراطی حلف صرف جان بوجھ کر نقصان پہنچانے سے منع نہیں کرتا، بلکہ یہ طبیب پر ایک مثبت ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے کہ وہ فعال طور پر مریض کی بھلائی کے لیے کام کرے۔ حلف میں زہر دینے یا اسقاط حمل میں مدد کرنے سے انکار اس اصول کی عملی شکل ہے۔ اس کا مقصد طبیب کے کردار کو ایک خالص “معالج” کے طور پر قائم کرنا تھا، جو زندگی کے تحفظ کے لیے وقف ہو، نہ کہ اسے ختم کرنے کے لیے 4۔ اس حلف نے طبیب اور مریض کے درمیان ایک مقدس رشتہ قائم کیا جو مکمل رازداری اور باہمی اعتماد پر مبنی تھا۔ طبیب کا عہد تھا کہ وہ مریض کے گھر میں صرف “بیماروں کی مدد کے لیے” داخل ہوگا اور ہر قسم کی جان بوجھ کر کی جانے والی غلطی اور بدعنوانی سے پرہیز کرے گا 1۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بقراطی حلف کا مقصد قوانین کی ایک فہرست فراہم کرنا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک طبیب کے کردار کی تشکیل کے لیے ایک اخلاقی قطب نما فراہم کرتا تھا۔ اس دور میں جب جدید ریگولیٹری ادارے یا قانونی چارہ جوئی کا نظام موجود نہیں تھا، مریض کا تحفظ طبیب کے ذاتی کردار اور اس کی اخلاقی سالمیت پر منحصر تھا۔ حلف اس داخلی اخلاقی کمپاس کو بنانے اور اسے مضبوط کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ یہ ایک ایسا فریم ورک تھا جو اس بات کو یقینی بناتا تھا کہ طبیب کا بنیادی مقصد ہمیشہ مریض کی صحت ہو، نہ کہ کوئی اور ذاتی یا مالی مفاد 3۔
اسلامی سنہری دور: الرازی کی اخلاقی تثلیث اور ابن سینا کی حکمت
اسلامی تہذیب کے سنہری دور میں طبی اخلاقیات نے یونانی فلسفے اور اسلامی تعلیمات کے امتزاج سے ایک نئی بلندی حاصل کی۔ اس دور کے اطباء نے نہ صرف طبی علم کو فروغ دیا بلکہ اس پیشے کے لیے ایک جامع اور ہمہ گیر اخلاقی ضابطہ بھی مرتب کیا۔ ان میں سب سے نمایاں نام ابو بکر محمد بن زکریا الرازی (Rhazes) اور ابو علی الحسین بن عبد اللہ بن سینا (Avicenna) کے ہیں۔
الرازی، جنہیں اسلامی دنیا میں طب کے سب سے بڑے ماہرین میں شمار کیا جاتا ہے، نے اپنی کتاب “اخلاق الطبیب” میں طبی اخلاقیات کا ایک جامع تصور پیش کیا۔ انہوں نے “اخلاقی ذمہ داری کی تثلیث” (triumvirate of ethical responsibility) کا نظریہ پیش کیا، جس کے مطابق ذمہ داری تین طرفہ ہوتی ہے: طبیب کی اپنے مریض کے لیے، مریض کی اپنے طبیب کے لیے، اور طبیب کی خود اپنے لیے 5۔ یہ نظریہ طبی تعلقات کو یک طرفہ نہیں بلکہ باہمی ذمہ داری پر مبنی قرار دیتا ہے۔ الرازی نے اپنے ہم عصر اسحاق بن علی الرہاوی (مصنف “ادب الطبیب”) کے ساتھ مل کر اسلامی طبی اخلاقیات کی بنیاد رکھی 5۔ انہوں نے طبیب اور مریض کے درمیان اعتماد کے نازک رشتے پر گہرائی سے غور کیا اور رازداری، ہمدردی، اور نفسیاتی مشاورت کو علاج کا لازمی جزو قرار دیا۔ الرازی نے سماجی انصاف پر بھی زور دیا اور اطباء کو تلقین کی کہ وہ امیر اور غریب کے ساتھ یکساں سلوک کریں اور خواتین کے ساتھ احترام سے پیش آئیں 5۔
ابن سینا، جن کی شہرہ آفاق تصنیف “القانون فی الطب” (The Canon of Medicine) صدیوں تک مشرق و مغرب کی یونیورسٹیوں میں طب کی بنیادی درسی کتاب رہی 6، نے بقراط اور جالینوس کی طبی روایات کو آگے بڑھایا 6۔ ابن سینا کے نزدیک ایک طبیب کے لیے صرف طبی مہارت کافی نہیں تھی، بلکہ اس کا کردار بھی بے داغ ہونا ضروری تھا۔ ان کی تحریروں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک مثالی طبیب کو متوازن مزاج، پاکیزہ دل، ذہین، اور دیانت دار ہونا چاہیے۔ اسے “گفتگو میں سچا” (truthful in speech) ہونا چاہیے اور اس کی خواہش مریضوں کو شفا دینے کی ہونی چاہیے، نہ کہ مالی فائدہ حاصل کرنے کی 9۔ ابن سینا نے مسلسل علم حاصل کرنے اور اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
یہ اخلاقی روایات قدیم فارسی تہذیب میں بھی گہری جڑیں رکھتی تھیں، جہاں زرتشتی مذہب کے اصولوں کے تحت طب کو ایک مذہبی خدمت سمجھا جاتا تھا۔ ایک اچھے طبیب کے لیے وسیع مطالعہ، کافی تجربہ، صبر، اور خدا کا خوف لازمی سمجھا جاتا تھا، اور ضمیر کی پاکیزگی کو محض مہارت پر فوقیت دی جاتی تھی 10۔
قدیم حکمت کا خلاصہ اور جدول 1 کا تعارف
بقراطی اور اسلامی طبی روایات کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان دونوں عظیم تہذیبوں میں طبی اخلاقیات کے بنیادی اصول مشترک تھے۔ ان میں مریض کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دینا، نقصان نہ پہنچانے کا عہد (non-maleficence)، اعتماد اور رازداری کا تحفظ، اور یہ توقع کہ طبیب کا کردار ہر قسم کے لالچ اور مالی مفاد سے بالاتر ہو، شامل ہیں۔ یہ اصول اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ طب کا پیشہ اپنی بنیاد میں ایک اخلاقی پیشہ ہے، جس کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے۔
جدید دور کے طبی ضابطوں کا ان قدیم اصولوں سے موازنہ کرنے سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ہم اپنی اصل بنیادوں سے کتنا قریب یا دور ہیں۔ مندرجہ ذیل جدول میں بقراطی حلف، الرازی اور ابن سینا کے بیان کردہ اصولوں، اور پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کے جدید ضابطہ اخلاق کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ موازنہ واضح کرتا ہے کہ بنیادی اقدار وقت کے ساتھ کس طرح برقرار رہی ہیں اور جدید طرز عمل میں ان سے انحراف کو جانچنے کے لیے ایک معروضی معیار فراہم کرتا ہے۔
جدول 1: طبی اخلاقی اصولوں کا تقابلی تجزیہ (قدیم بمقابلہ جدید ضابطے)
اخلاقی اصول | بقراطی حلف | الرازی اور ابن سینا | پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) ضابطہ اخلاق |
بنیادی فرض | مریضوں کے فائدے کے لیے علاج کرنا 1۔ | مریضوں کو شفا دینے کی خواہش مالی فائدے کی خواہش پر غالب ہونی چاہیے؛ امیر و غریب سے یکساں سلوک 5۔ | مریض کا مفاد اور اس کی صحت کو بہتر بنانا طبیب کے طرز عمل پر اثر انداز ہونے والا سب سے بڑا عنصر ہونا چاہیے 11۔ |
سچائی و ایمانداری | جان بوجھ کر غلط کام اور نقصان سے پرہیز کرنا 1۔ | گفتگو میں سچا ہونا، دیانت دار اور باکردار ہونا 9۔ | مریضوں اور ساتھیوں کے ساتھ ایمانداری سے پیش آنا؛ دھوکہ دہی میں ملوث اطباء کو بے نقاب کرنا 11۔ |
عدم ضرر (Non-Maleficence) | مریضوں کو نقصان یا ناانصافی سے بچانا؛ مہلک دوا یا اسقاط حمل کی دوا نہ دینا 1۔ | نقصان دہ علاج یا دوا تجویز نہ کرنا؛ مریض کی جان و مال کا امین ہونا 9۔ | انسانی زندگی کے تحفظ کی ذمہ داری کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا؛ ایسا کوئی علاج نہ کرنا جو مریض کی جسمانی یا ذہنی حالت کو کمزور کرے 11۔ |
مفادات کا ٹکراؤ / منافع کا محرک | حلف میں واضح طور پر ذکر نہیں، لیکن “ناانصافی” اور “غلط کام” سے پرہیز کا عہد مالی لالچ کے خلاف ایک عمومی اصول فراہم کرتا ہے 1۔ | طبیب کو دنیاوی نہیں ہونا چاہیے؛ علاج کا مقصد آخرت کا اجر ہونا چاہیے، چاہے لوگ قدر کریں یا نہ کریں 10۔ | منافع کے محرکات کو مریضوں کے حق میں پیشہ ورانہ فیصلے کی آزادانہ اور خود مختارانہ مشق پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہ دینا 11۔ |
رازداری | مریض کے بارے میں جو کچھ بھی دیکھا یا سنا جائے، اسے خفیہ رکھنا اور کبھی ظاہر نہ کرنا 1۔ | مریضوں کے رازوں کی حفاظت کرنا اور ان کی بیماریوں کی تفصیلات ظاہر نہ کرنا 9۔ | مریض کے بارے میں تمام معلومات کو مکمل طور پر خفیہ رکھنا، یہاں تک کہ مریض کی موت کے بعد بھی 11۔ |
سماجی ذمہ داری | بیماروں کی مدد کے لیے گھروں میں داخل ہونا 1۔ | امیر اور غریب کے ساتھ یکساں سلوک کرنا؛ سب کے لیے صحت کی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنا 5۔ | ہنگامی صورتحال میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیکھ بھال فراہم کرنا؛ عوام کو صحت کے مسائل اور معیاری دیکھ بھال کے حقوق کے بارے میں تعلیم دینا 11۔ |
یہ قدیم اخلاقی ڈھانچے اس لیے بنائے گئے تھے کہ طاقت کے ایک غیر متوازن رشتے میں مریض کا تحفظ کیا جا سکے۔ ان کا انحصار بنیادی طور پر طبیب کے کردار اور اس کی نیت پر تھا، جو اس پیشے کے بنیادی محافظ تھے۔ اس کے برعکس، جدید دور میں بیرونی ضوابط (جیسے ریگولیٹری اتھارٹیز) اور قانونی فریم ورک کو بنیادی محافظ سمجھا جاتا ہے۔ جب یہ بیرونی نظام ناکام ہو جاتے ہیں، جیسا کہ آئندہ حصوں میں دکھایا جائے گا، تو ان داخلی، کردار پر مبنی اخلاقیات کی طرف واپسی کی ضرورت اور بھی زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔
حصہ 2: جدید بیماری: تجارتی ضروریات اور اعتماد کا خاتمہ
قدیم طبی اخلاقیات کی بنیاد مریض کی فلاح پر تھی، لیکن جدید دور میں صحت کا شعبہ طاقتور تجارتی قوتوں کے زیر اثر آ چکا ہے۔ اس تبدیلی نے طبیب کے کردار اور اس کے فیصلوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ ادویات کے فوائد میں مبالغہ آرائی اسی تجارتی نظام کی ایک براہ راست علامت ہے، جہاں منافع کا حصول اکثر مریض کے بہترین مفاد پر حاوی ہو جاتا ہے۔ یہ سیکشن ان نظامی مسائل کی تشخیص کرتا ہے جنہوں نے اعتماد کو ختم کیا ہے اور طبی پیشے کی اخلاقی بنیادوں کو کمزور کیا ہے۔
2.1 دوا ساز صنعت کا دیو: علاج سے تشہیر تک
جدید دوا سازی کی صنعت نے انسانی صحت کے لیے انقلابی کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن اس کا کاروباری ماڈل عوامی صحت کے مقاصد سے متصادم بھی ہو سکتا ہے۔ دوا ساز کمپنیاں تحقیق و ترقی (R&D) پر بھاری سرمایہ کاری کرتی ہیں اور اس سرمایہ کاری کی واپسی کے لیے اپنی مصنوعات کی فروخت کو زیادہ سے زیادہ کرنے کا مضبوط محرک رکھتی ہیں 13۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اکثر دوا ساز کمپنیوں کے مارکیٹنگ اور فروخت پر ہونے والے اخراجات ان کے تحقیق و ترقی پر ہونے والے اخراجات سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں 13۔ یہ حقیقت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ترجیح نئی ادویات کی دریافت سے زیادہ موجودہ ادویات کی فروخت کو بڑھانا ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے کئی حربے استعمال کیے جاتے ہیں جو طبی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں:
براہ راست صارفین کو تشہیر (Direct-to-Consumer Advertising – DTCA): امریکہ اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں قانونی طور پر جائز یہ حربہ مریضوں کو مخصوص ادویات طلب کرنے پر اکساتا ہے۔ یہ اشتہارات اکثر فوائد کو بڑھا چڑھا کر اور خطرات کو کم کر کے پیش کرتے ہیں، جس سے مریض مکمل طور پر باخبر فیصلہ کرنے سے قاصر رہتا ہے 13۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ DTCA کی وجہ سے مریضوں کی طرف سے کی جانے والی درخواستیں ڈاکٹروں پر نسخہ لکھنے کے لیے دباؤ ڈالتی ہیں، چاہے وہ دوا طبی طور پر ضروری ہو یا نہ ہو 13۔
مبالغہ آمیز دعوے اور کم خطرات: دوا ساز کمپنیوں کی پروموشنل مواد میں یہ ایک عام رجحان ہے کہ دوا کے فوائد کو نمایاں کیا جائے اور اس کے ضمنی اثرات اور خطرات کو نظر انداز کر دیا جائے 14۔ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے “بیڈ ایڈ” (Bad Ad) پروگرام شروع کیا ہے، جس کا مقصد صحت کے پیشہ ور افراد کو ایسے گمراہ کن اشتہارات کی شناخت اور رپورٹ کرنے میں مدد فراہم کرنا ہے 13۔
بیماری کی سوداگری (Disease Mongering): یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں عام انسانی کیفیات یا معمولی مسائل کو طبی بیماریوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ ان کے لیے ادویات کی مارکیٹ بنائی جا سکے۔ “بہت زیادہ طب” (Too Much Medicine) کے تصور کے پیچھے یہ ایک بڑا محرک ہے، جہاں بیماری کی تعریفوں کو وسیع کر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو “مریض” بنایا جاتا ہے 16۔ اس کا مقصد صحت کو بہتر بنانا نہیں بلکہ ادویات کی فروخت کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنا ہوتا ہے۔
2.2 نظامی ناکامی کا کیس اسٹڈی: امریکی اوپیئڈ بحران
جب تجارتی مفادات طبی اخلاقیات پر مکمل طور پر غالب آ جائیں تو اس کے نتائج کتنے مہلک ہو سکتے ہیں، اس کی سب سے عبرتناک مثال امریکہ کا اوپیئڈ بحران ہے۔ یہ بحران اس بات کی ایک زندہ مثال ہے کہ دوا کے فوائد میں مبالغہ آرائی کوئی بے ضرر عمل نہیں بلکہ یہ لاکھوں زندگیوں کو تباہ کر سکتا ہے۔
1996 میں، پرڈیو فارما (Purdue Pharma) نامی کمپنی نے آکسی کونٹن (OxyContin) نامی ایک اوپیئڈ درد کش دوا متعارف کرائی۔ کمپنی نے ایک انتہائی جارحانہ اور گمراہ کن مارکیٹنگ مہم چلائی جس میں اس دوا کو غیر کینسر کے دائمی درد کے لیے ایک محفوظ اور غیر نشہ آور حل کے طور پر پیش کیا گیا 14۔ مارکیٹنگ مواد میں منظم طریقے سے “نشے کے امکانات کو کم سے کم کیا گیا جبکہ افادیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا” 14۔ پرڈیو فارما نے ان ڈاکٹروں کی نشاندہی کی جو زیادہ اوپیئڈز تجویز کرتے تھے اور انہیں مفت کانفرنسوں اور کھانوں جیسی مالی مراعات کا نشانہ بنایا 14۔
اس گمراہ کن مہم کے نتیجے میں، آکسی کونٹن کی فروخت آسمان کو چھونے لگی اور 2000 تک اس کی سالانہ فروخت 1.1 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی 14۔ لیکن اس “کامیابی” کی قیمت امریکی عوام نے چکائی۔ 2000 اور 2016 کے درمیان، ایک اندازے کے مطابق 300,000 امریکی اوپیئڈ کی زیادہ مقدار لینے سے ہلاک ہوئے، جن میں سے 40% اموات میں نسخے پر ملنے والی اوپیئڈز ملوث تھیں 14۔ یہ بحران واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ جب منافع کا حصول مریض کی حفاظت پر فوقیت حاصل کر لیتا ہے، تو اس کے نتائج ایک قومی صحت کی تباہی کی صورت میں نکلتے ہیں۔
2.3 زائد علاج (Overtreatment) کے ٹھوس نقصانات اور جدول 2 کا تعارف
دوا کے فوائد میں مبالغہ آرائی کا ایک وسیع تر نتیجہ “زائد علاج” (Overtreatment) کی صورت میں نکلتا ہے۔ زائد علاج سے مراد ایسا طبی عمل ہے جس سے مریض کو کوئی فائدہ نہ ہو، یا جہاں نقصان کا خطرہ فائدے سے کہیں زیادہ ہو 17۔ یہ رجحان “بہت زیادہ طب” (Too Much Medicine) کے تصور سے گہرا تعلق رکھتا ہے، جہاں معاشرہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ “زیادہ دیکھ بھال بہتر دیکھ بھال ہے”، حالانکہ تحقیق اس کے برعکس بتاتی ہے 16۔
زائد علاج کے نقصانات کثیر الجہتی ہیں:
مریض کو براہ راست نقصان: غیر ضروری ادویات مریضوں کو قابل گریز ضمنی اثرات، منفی ادویاتی تعاملات (adverse drug events)، اور طبی غلطیوں کے خطرے سے دوچار کرتی ہیں 18۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، غیر محفوظ ادویاتی طریقے اور طبی غلطیاں دنیا بھر میں چوٹ اور قابل گریز نقصان کی ایک بڑی وجہ ہیں، جن کی سالانہ لاگت کا تخمینہ 42 بلین امریکی ڈالر ہے 18۔
مالی بوجھ: زائد علاج صحت کے نظام پر ایک بہت بڑا مالی بوجھ ڈالتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، یہ صحت کے اخراجات کا 30% تک ہو سکتا ہے 17۔ یہ بوجھ بالآخر مریضوں اور ٹیکس دہندگان کو اٹھانا پڑتا ہے، جس سے صحت کی دیکھ بھال کم سستی اور کم قابل رسائی ہو جاتی ہے 21۔
نظامی وسائل کا ضیاع: جب وسائل غیر ضروری ٹیسٹوں، طریقہ کار، اور ادویات پر ضائع ہوتے ہیں، تو وہ حقیقی اور فوری ضروریات کے لیے دستیاب نہیں رہتے 17۔ اس سے صحت کے نظام کی پائیداری کو خطرہ لاحق ہوتا ہے اور ان مریضوں کے لیے انتظار کی فہرستیں لمبی ہو جاتی ہیں جنہیں واقعی علاج کی ضرورت ہوتی ہے 16۔
جدید ریگولیٹری نظام، یہاں تک کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی، بنیادی طور پر رد عمل پر مبنی ہے اور منظور شدہ ادویات کی افادیت کی نگرانی میں اکثر جدوجہد کرتا ہے۔ FDA کی منظوری اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ دوا غیر موثر نہیں ہے (یعنی اس کا اثر صفر سے زیادہ ہے)، لیکن یہ اس بات کی ضمانت نہیں دیتی کہ یہ معنی خیز یا طبی لحاظ سے اہم طور پر موثر ہے 23۔ یہ قانونی خلا معمولی فائدے والی لیکن مہنگی ادویات کی مارکیٹنگ کی اجازت دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک کینسر کی دوا جس کی قیمت 750,000 ڈالر فی مریض ہے، وہ بقا کی مدت میں صرف ڈیڑھ ماہ کا اضافہ کرتی ہے اور اس کے معیار زندگی پر اثرات کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں 24۔ یہ نظام دھوکہ دہی (جیسے شوگر کی گولیاں بیچنا) کو روکنے کے لیے تو بنایا گیا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ یہ قدر یا اہم طبی فائدے کو یقینی بنائے۔ فوائد میں مبالغہ آرائی اکثر اسی سرمئی علاقے میں ہوتی ہے، جہاں کمپنیاں قانونی طور پر معمولی اثرات کو ایک بڑی پیش رفت کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
مندرجہ ذیل جدول دوا ساز صنعت کے مخصوص اثر و رسوخ کے طریقوں اور ان کے دستاویزی منفی نتائج کو منظم طریقے سے جوڑتا ہے، تاکہ پالیسی سازوں کے لیے ایک واضح وجہ اور اثر کا نقشہ تیار کیا جا سکے۔
جدول 2: دوا ساز صنعت کے اثر و رسوخ اور اس کے نتائج کا دائرہ کار
حربہ/اثر و رسوخ کا طریقہ | عمل کا طریقہ کار | دستاویزی نتائج | ثبوت (حوالہ جات) |
براہ راست صارفین کو تشہیر (DTCA) | مریضوں میں مخصوص ادویات کی طلب پیدا کرنا اور ڈاکٹروں پر دباؤ ڈالنا۔ | غیر مناسب نسخے، صحت کے اخراجات میں اضافہ، ڈاکٹر-مریض تعلقات میں تناؤ، مریضوں کو گمراہ کن معلومات کی فراہمی۔ | 13 |
مراعات سے منسلک نسخہ جات (Incentive-Linked Prescribing) | ڈاکٹروں کو مالی مراعات (نقد، تحائف، دورے) کے ذریعے مخصوص ادویات تجویز کرنے پر آمادہ کرنا۔ | ڈاکٹر کے فیصلے میں مفادات کا ٹکراؤ، غیر عقلی اور مہنگی ادویات کا نسخہ، مریضوں پر مالی بوجھ، AMR میں اضافہ۔ | 14 |
طبی تعلیم کی سرپرستی (Sponsoring Medical Education) | مسلسل طبی تعلیم (CME) اور طبی کانفرنسوں کی فنڈنگ کے ذریعے ڈاکٹروں کے نسخہ لکھنے کے رجحانات پر اثر انداز ہونا۔ | ڈاکٹروں میں اسپانسر کی مصنوعات کے حق میں تعصب، کم مہنگے متبادل کو نظر انداز کرنا، طبی رہنما اصولوں پر اثر انداز ہونا۔ | 14 |
بیماری کی سوداگری (Disease Mongering) | بیماری کی تعریفوں کو وسیع کرنا یا عام کیفیات کو بیماری بنا کر پیش کرنا تاکہ ادویات کی نئی مارکیٹیں بنائی جا سکیں۔ | زائد تشخیص (Overdiagnosis)، زائد علاج (Overtreatment)، صحت مند افراد کی غیر ضروری طبی نگہداشت، وسائل کا ضیاع۔ | 16 |
مبالغہ آمیز دعوے اور خطرات کو کم کرنا | اشتہارات اور پروموشنل مواد میں دوا کی افادیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور ضمنی اثرات کو معمولی ظاہر کرنا۔ | مریضوں اور ڈاکٹروں کی طرف سے خطرات اور فوائد کا غلط اندازہ، غیر ضروری ضمنی اثرات سے مریض کو نقصان، عوامی اعتماد کا خاتمہ۔ | 13 |
حصہ 3: قومی تشخیص: پاکستان میں مبالغہ آرائی اور اس کے نتائج
عالمی سطح پر طبی اخلاقیات اور تجارتی مفادات کے درمیان تصادم کے جو رجحانات پائے جاتے ہیں، وہ پاکستان کے مخصوص سماجی، معاشی اور ریگولیٹری ماحول میں اور بھی شدید شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ سیکشن پاکستان کو ایک مرکزی کیس اسٹڈی کے طور پر پیش کرتا ہے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ جب کمزور نگرانی، طاقتور بازاری قوتوں، اور غیر اخلاقی طریقوں کا ملاپ ہوتا ہے تو اس کے نتائج کس قدر تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ یہاں، ادویات کے فوائد میں مبالغہ آرائی محض ایک نظریاتی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جو روزانہ لاکھوں زندگیوں کو متاثر کر رہی ہے اور ایک سنگین عوامی صحت کے بحران کو جنم دے رہی ہے۔
3.1 ناپاک اتحاد: مراعات سے منسلک نسخہ جات اور طبیبوں کے طرز عمل
پاکستان میں دوا ساز کمپنیوں اور طبیبوں کے درمیان ایک گہرا اور “باہمی طور پر فائدہ مند” (symbiotic) رشتہ قائم ہے، جسے ناقدین ایک “ناپاک اتحاد” (unholy alliance) قرار دیتے ہیں 26۔ اس رشتے کی بنیاد “مراعات سے منسلک نسخہ جات” (incentive-linked prescribing) پر ہے، جو اب ایک استثناء نہیں بلکہ ایک “معمول” (norm) بن چکا ہے 27۔ اس عمل میں دوا ساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو اپنی مصنوعات تجویز کرنے کے بدلے میں مختلف قسم کی مراعات فراہم کرتی ہیں۔
اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ حالیہ تحقیقات سے لگایا جا سکتا ہے:
ایک تحقیق کے مطابق، 40 فیصد سے زائد ڈاکٹروں نے ادویات تجویز کرنے کے بدلے مراعات قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی 26۔
یہ مراعات معمولی اشیاء جیسے قلم اور پیڈ سے لے کر نقد ادائیگیوں، کلینک کی تزئین و آرائش، قیمتی تحائف، اور بیرون ملک دوروں تک پھیلی ہوئی ہیں 26۔
یہ طرز عمل ڈاکٹروں پر مالی دباؤ اور معاشرے میں پھیلی “بدعنوانی کی وبا” کا نتیجہ ہے، جہاں ڈاکٹر بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں 26۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA) بھی اس مسئلے کا اعتراف کرتی ہے۔ ایک سابق عہدیدار کے مطابق، قلم اور پیڈ سے بڑھ کر کوئی بھی چیز “ڈاکٹر کی شفافیت اور دیانت پر سوال اٹھاتی ہے” 26۔
یہ مراعات پر مبنی نظام طبیب کے فیصلے کو اس کے بنیادی فرض—مریض کی فلاح—سے ہٹا کر تجارتی مفاد کی طرف موڑ دیتا ہے۔ اس سے نہ صرف غیر ضروری اور مہنگی ادویات تجویز کی جاتی ہیں، بلکہ یہ مریض اور معالج کے درمیان اعتماد کے رشتے کو بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے۔
3.2 خاموش وبا: اینٹی مائیکروبیل مزاحمت (AMR) بطور زائد نسخہ جات کا نتیجہ
پاکستان میں ادویات کے فوائد میں مبالغہ آرائی اور غیر اخلاقی مارکیٹنگ کا سب سے مہلک اور ٹھوس نتیجہ اینٹی مائیکروبیل مزاحمت (AMR) کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ AMR، جسے اکثر “خاموش وبا” کہا جاتا ہے، اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بیکٹیریا، وائرس، اور دیگر جرثومے ان ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں جو انہیں ختم کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں۔ پاکستان میں اینٹی بائیوٹکس کا غیر عقلی اور بے تحاشا استعمال، جو بڑی حد تک مراعات پر مبنی نسخہ جات کی وجہ سے ہے، اس بحران کو ہوا دے رہا ہے۔
اعداد و شمار اس بحران کی ہولناک تصویر پیش کرتے ہیں:
کھپت: پاکستان چین اور بھارت کے بعد دنیا میں اینٹی بائیوٹکس کا تیسرا سب سے بڑا صارف ہے 29۔ صرف 2023 میں ملک میں 126 ارب روپے کی اینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کی گئیں 29۔
اموات: AMR اب پاکستان میں موت کی تیسری بڑی وجہ ہے، جو دل کی بیماریوں اور زچگی سے متعلق اموات کے بعد آتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، ملک میں سالانہ تقریباً 300,000 افراد ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں 29۔
زائد استعمال: یہ مسئلہ ہسپتالوں میں بھی شدید ہے۔ ایک تحقیق میں پایا گیا کہ کووڈ-19 کے باعث ہسپتال میں داخل 85.5% بچوں کو اینٹی بائیوٹکس دی گئیں، جبکہ ان میں بیکٹیریل انفیکشن کی شرح صرف 3.7% تھی 30۔
مزاحمتی پیتھوجنز: اس بے دریغ استعمال کے نتیجے میں، پاکستان میں انتہائی منشیات کے خلاف مزاحم (Extensively Drug-Resistant – XDR) ٹائیفائیڈ اور کثیر منشیات کے خلاف مزاحم (Multi-Drug Resistant – MDR) اور XDR تپ دق کے کیسز سامنے آئے ہیں 25۔
دیگر عوامل: اس مسئلے کو مزید گھمبیر بنانے میں ادویات کی بغیر نسخے کے فروخت (over-the-counter sales)، عوام میں خود ادویاتی (self-medication) کا رجحان، اور تقریباً 6 سے 8 لاکھ “عطائیوں” (quacks) کا کردار شامل ہے جو بغیر کسی قابلیت کے ادویات تجویز کرتے ہیں 25۔
یہاں یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ AMR کا بحران محض ایک طبی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک مارکیٹ کی ناکامی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو معاشی طور پر خود کو تباہ کرنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ جب ڈاکٹروں اور دوا ساز کمپنیوں کے لیے زیادہ اینٹی بائیوٹکس تجویز کرنے کے لیے مضبوط مالی مراعات موجود ہوں اور اس طرز عمل کے لیے سزا کا خطرہ کم ہو، تو زائد نسخہ جات کا رواج عام ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہونے والی 300,000 سالانہ اموات اس ناقص نظام کا ایک قابلِ قیاس اور براہ راست نتیجہ ہیں۔ اس مسئلے کو صرف ڈاکٹروں سے اخلاقی اپیلیں کر کے یا ایسے قوانین بنا کر حل نہیں کیا جا سکتا جن پر عمل درآمد نہ ہو؛ اس کے حل کے لیے نظام کے معاشی محرکات کو بنیادی طور پر تبدیل کرنا ہوگا۔
مندرجہ ذیل جدول پاکستان میں AMR کے بحران کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے کلیدی اعداد و شمار کو یکجا کرتا ہے۔
جدول 3: پاکستان میں اینٹی مائیکروبیل مزاحمت (AMR): ایک شماریاتی جائزہ
میٹرک | اعداد و شمار / دریافت | ماخذ (حوالہ) |
AMR سے منسوب سالانہ اموات | تقریباً 300,000 اموات | 29 |
ملک میں موت کی بڑی وجوہات میں درجہ | تیسری بڑی وجہ (دل کی بیماریوں اور زچگی کی پیچیدگیوں کے بعد) | 29 |
اینٹی بائیوٹکس کی کھپت میں عالمی درجہ | دنیا میں تیسرا سب سے بڑا صارف (چین اور بھارت کے بعد) | 29 |
اینٹی بائیوٹکس کی کھپت (مالیت) | 2023 میں 126 ارب روپے | 29 |
مزاحمتی پیتھوجنز کی موجودگی | انتہائی منشیات کے خلاف مزاحم (XDR) ٹائیفائیڈ اور کثیر منشیات کے خلاف مزاحم (MDR/XDR) ٹی بی کی تصدیق | 25 |
بنیادی محرکات | مراعات سے منسلک نسخہ جات، خود ادویاتی، عطائیوں کی طرف سے غیر عقلی نسخے، بغیر نسخے کے فروخت، لائیوسٹاک میں زائد استعمال | 25 |
3.3 ریگولیٹری ردعمل: ڈریپ، سی سی پی، اور نفاذ کا چیلنج
پاکستان میں ادویات اور ان کی تشہیر کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک قانونی ڈھانچہ موجود ہے، جس کی سربراہی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP) کرتی ہے۔ DRAP ایکٹ 2012 کے تحت قائم کی گئی یہ اتھارٹی ادویات کی رجسٹریشن، معیار، اور حفاظت کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہے 32۔
حالیہ برسوں میں، حکومت نے گمراہ کن تشہیر کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مزید اقدامات کیے ہیں۔ علاج معالجے کے سامان (اشتہارات) کے قواعد 2025 (Therapeutic Goods (Advertisement) Rules, 2025) ایک اہم پیش رفت ہے۔ ان قواعد کے تحت، کسی بھی دوا یا طبی مصنوعات کی تشہیر سے قبل ایک ایڈورٹائزمنٹ بورڈ سے تحریری اجازت لینا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ان کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ تمام پروموشنل مواد اخلاقی اور سائنسی معیارات پر پورا اترے اور اس میں حفاظت، افادیت، یا برتری کے بارے میں کوئی مبالغہ آمیز دعوے نہ کیے جائیں 35۔
تاہم، اصل چیلنج ضابطوں کی موجودگی نہیں، بلکہ ان پر عمل درآمد کا فقدان ہے۔ قوانین کے باوجود، غیر اخلاقی پروموشنل سرگرمیاں جاری ہیں 28۔ کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان (CCP) نے وقتاً فوقتاً گمراہ کن مارکیٹنگ کے خلاف کارروائی کی ہے۔ اس کی ایک مثال
3N LIFEMED کا کیس ہے، جہاں کمپنی پر گردے کے مریضوں کے لیے ایک جان بچانے والی مصنوعات کی مارکیٹنگ کے لیے جعلی کوالٹی سرٹیفیکیشن استعمال کرنے کا الزام ثابت ہوا۔ CCP نے کمپنی پر جرمانہ عائد کیا، جسے بعد میں کمپٹیشن اپیلٹ ٹریبونل نے برقرار رکھا، اگرچہ جرمانے کی رقم کم کر دی گئی 37۔
یہ کیسز اگرچہ اہم ہیں، لیکن یہ وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے مسئلے کے مقابلے میں استثناء کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ریگولیٹری اداروں کو اکثر وسائل کی کمی، سیاسی دباؤ، اور طاقتور دوا ساز لابی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے قوانین کا مؤثر نفاذ ایک بہت بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ ضابطے اور حقیقت کے درمیان یہ خلیج ہی وہ جگہ ہے جہاں غیر اخلاقی طریقوں کو پنپنے کا موقع ملتا ہے۔
حصہ 4: خلیج کو پاٹنا: اصلاحات کا ایک فریم ورک
مسئلے کی تشخیص کے بعد، اگلا قدم ایک قابل عمل اور جامع حل تجویز کرنا ہے۔ پاکستان میں طبی نسخوں میں مبالغہ آرائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے کسی ایک جادوئی حل کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس کے بجائے، ایک کثیر الجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو بیک وقت ریگولیشن، پیشہ ورانہ اخلاقیات، تعلیم، اور عوامی بااختیاری پر توجہ مرکوز کرے۔ یہ سیکشن اصلاحات کے لیے ایک ایسا ہی فریم ورک پیش کرتا ہے، جس کا مقصد قدیم طبی اصولوں اور جدید دور کے چیلنجز کے درمیان پل بنانا ہے۔
4.1 طبیب کے قطب نما کی بحالی: پیشہ ورانہ اخلاقیات کا کردار
کسی بھی اصلاحی کوشش کا نقطہ آغاز خود طبی پیشے کے اندر سے ہونا چاہیے۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) کا ضابطہ اخلاق کاغذ پر ایک مضبوط دستاویز ہے۔ یہ واضح طور پر کہتا ہے کہ “منافع کے محرکات کو پیشہ ورانہ فیصلے پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی” 11، اور ڈاکٹروں پر “مریضوں اور ساتھیوں کے ساتھ ایمانداری سے پیش آنے” اور “مفادات کے ٹکراؤ کا اعلان کرنے” کی ذمہ داری عائد کرتا ہے 11۔ یہ اصول بقراط اور الرازی کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔
تاہم، اصل مسئلہ ان اصولوں کا فقدان نہیں، بلکہ ان پر عمل درآمد کا نہ ہونا ہے۔ جیسا کہ پچھلے سیکشن میں تفصیل سے بیان کیا گیا، مراعات سے منسلک نسخہ جات اور دیگر غیر اخلاقی طریقے عام ہیں 26۔ لہٰذا، چیلنج ایک نئے ضابطہ اخلاق کی تشکیل نہیں، بلکہ موجودہ ضابطے کو نافذ کرنے اور پیشہ ورانہ ثقافت کو تبدیل کرنے کا ہے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہے:
اخلاقیات کی تعلیم: طبی اخلاقیات کو میڈیکل کالجوں کے نصاب کا ایک مرکزی اور مسلسل حصہ بنایا جائے، نہ کہ صرف ایک رسمی لیکچر۔
پیشہ ورانہ احتساب: PMDC اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA) جیسی پیشہ ورانہ تنظیموں کو اپنے اراکین کی نگرانی اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
مسلسل طبی تعلیم (CME): CME پروگراموں میں عقلی نسخہ جات (rational prescribing) اور دوا ساز صنعت کے ساتھ اخلاقی تعامل پر خصوصی توجہ دی جانی چاہیے تاکہ ڈاکٹروں کو گمراہ کن دعووں کی پہچان اور ان کا مقابلہ کرنے کی تربیت دی جا سکے 40۔
4.2 ضابطے سے ثقافتی تبدیلی تک: اصلاحات کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی
صرف پیشہ ورانہ اخلاقیات پر زور دینا کافی نہیں جب تک کہ اس نظام کو تبدیل نہ کیا جائے جو غیر اخلاقی طرز عمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ایک جامع ثقافتی تبدیلی کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں حکومت، ریگولیٹری ادارے، طبی برادری، اور عوام سب اپنا کردار ادا کریں۔
اس حکمت عملی کے کلیدی ستون درج ذیل ہیں:
ریگولیٹری نگرانی اور نفاذ کو مضبوط بنانا: DRAP اور CCP کو سیاسی دباؤ سے آزاد کرتے ہوئے مزید وسائل اور اختیارات فراہم کیے جائیں تاکہ وہ علاج معالجے کے سامان (اشتہارات) کے قواعد 2025 کو سختی سے نافذ کر سکیں۔ اس میں گمراہ کن دعووں پر بھاری جرمانے عائد کرنا اور عوام کے لیے خلاف ورزیوں کی رپورٹنگ کا ایک شفاف اور آسان نظام قائم کرنا شامل ہے، جیسا کہ FDA کا “بیڈ ایڈ” پروگرام ہے 13۔
مراعات کے چکر کو توڑنا: ایسی پالیسیاں نافذ کی جائیں جو دوا ساز کمپنیوں اور صحت کے پیشہ ور افراد کے درمیان تمام مالی تعلقات میں مکمل شفافیت کو لازمی قرار دیں 41۔ اس میں ڈاکٹروں کو دی جانے والی تمام ادائیگیاں، تحائف، اور دیگر مراعات کو عوامی طور پر ظاہر کرنا شامل ہو سکتا ہے۔ مزید برآں، بعض قسم کی مراعات پر مکمل پابندی عائد کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے، جو PMA کی “قلم اور پیڈ” کی رعایت سے کہیں آگے ہو 26۔
مریضوں کو بااختیار بنانا: عوامی آگاہی مہمات کے ذریعے مریضوں کو ان کے حقوق کے بارے میں تعلیم دینا انتہائی ضروری ہے۔ ایک قومی مہم شروع کی جائے جو عوام کو AMR کے خطرات، اینٹی بائیوٹکس کے غیر ضروری استعمال کے نقصانات، اور خود ادویاتی (self-medication) سے بچنے کی اہمیت سے آگاہ کرے 43۔ مریضوں کو یہ سکھایا جانا چاہیے کہ وہ اپنے ڈاکٹر سے نسخے کے بارے میں سوالات پوچھیں، دوا کے خطرات اور فوائد کو سمجھیں، اور علاج کے فیصلوں میں فعال طور پر حصہ لیں۔
عقلی نسخہ جات کو فروغ دینا: صحت کے نظام میں ایسے میکانزم بنائے جائیں جو عقلی اور شواہد پر مبنی نسخہ جات کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس میں معیاری علاج کے رہنما اصول (Standard Treatment Guidelines) تیار کرنا اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانا، اور ڈاکٹروں کی کارکردگی کا آڈٹ کرنا شامل ہو سکتا ہے۔
مندرجہ ذیل جدول ان سفارشات کو ایک منظم پالیسی فریم ورک میں پیش کرتا ہے، جس میں ہر سفارش کے لیے ذمہ دار ادارے اور مطلوبہ نتائج کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ فریم ورک اصلاحات کے لیے ایک قابل عمل روڈ میپ فراہم کرتا ہے۔
جدول 4: پاکستان میں نسخہ جات میں مبالغہ آرائی کو کم کرنے کے لیے ایک پالیسی فریم ورک
اسٹریٹجک ستون | مخصوص سفارش | ذمہ دار ادارہ / اسٹیک ہولڈر | مطلوبہ نتیجہ |
ریگولیٹری نفاذ | گمراہ کن اشتہارات کی رپورٹنگ کے لیے ایک عوامی “بیڈ ایڈ” پورٹل کا قیام اور 2025 کے اشتہاری قوانین کا سخت نفاذ۔ | ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP)، کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان (CCP) | گمراہ کن اشتہارات میں کمی؛ غیر اخلاقی مارکیٹنگ کے طریقوں کی روک تھام۔ |
پیشہ ورانہ احتساب | PMDC ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے ڈاکٹروں کے خلاف سخت اور شفاف تادیبی کارروائی؛ CME میں اخلاقیات کو لازمی قرار دینا۔ | پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC)، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA)، میڈیکل یونیورسٹیاں | طبی برادری میں اخلاقی معیارات کی بحالی؛ ڈاکٹروں کے نسخہ لکھنے کے طرز عمل میں بہتری۔ |
مارکیٹ کی شفافیت | دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے ڈاکٹروں اور طبی اداروں کو کی جانے والی تمام ادائیگیوں اور مراعات کا لازمی عوامی انکشاف۔ | وزارت قومی صحت خدمات، DRAP، پارلیمنٹ | مراعات اور نسخے کے درمیان تعلق کو کمزور کرنا؛ مفادات کے ٹکراؤ کو کم کرنا۔ |
مریضوں کو بااختیار بنانا | AMR، خود ادویاتی کے خطرات، اور مریضوں کے حقوق پر قومی سطح پر عوامی آگاہی مہم کا آغاز۔ | وزارت قومی صحت خدمات، وزارت اطلاعات، سول سوسائٹی | خود ادویاتی میں کمی؛ اینٹی بائیوٹکس کے عقلی استعمال میں اضافہ؛ مریضوں کا علاج کے فیصلوں میں فعال کردار۔ |
عقلی استعمال کو فروغ دینا | قومی سطح پر معیاری علاج کے رہنما اصول (STGs) کی تیاری، تقسیم، اور ان پر عمل درآمد کی نگرانی۔ | وزارت قومی صحت خدمات، طبی ماہرین کی تنظیمیں، ہسپتال انتظامیہ | شواہد پر مبنی طب کا فروغ؛ زائد علاج (Overtreatment) اور غیر ضروری ادویات کے استعمال میں کمی۔ |
یہ اصلاحات بلاشبہ چیلنجنگ ہیں اور ان کے لیے مضبوط سیاسی عزم اور تمام اسٹیک ہولڈرز کے تعاون کی ضرورت ہوگی۔ لیکن ان کے بغیر، پاکستان عوامی صحت کے ان بحرانوں میں مزید گہرائی تک ڈوبتا رہے گا جو اس وقت اس کے صحت کے نظام کو کمزور کر رہے ہیں۔
نتیجہ
یہ رپورٹ اس بنیادی تصادم سے شروع ہوئی جو طب کے لازوال اخلاقی اصولوں اور جدید دور کے طاقتور تجارتی محرکات کے درمیان موجود ہے۔ تجزیے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ طبی نسخوں کے فوائد میں مبالغہ آرائی کوئی الگ تھلگ یا معمولی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ اس گہرے نظامی بگاڑ کی ایک خطرناک علامت ہے جس نے مریض اور معالج کے مقدس رشتے کو کمزور کر دیا ہے۔ بقراط کے حلف سے لے کر الرازی اور ابن سینا کی حکمت تک، طبی اخلاقیات کی بنیاد ہمیشہ مریض کی فلاح، نقصان سے گریز، اور طبیب کے بے داغ کردار پر رہی ہے۔ ان اصولوں کا مقصد طبیب کو ہر قسم کے بیرونی دباؤ، خاص طور پر مالی لالچ سے محفوظ رکھنا تھا۔
تاہم، جدید دور میں، خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں، یہ اخلاقی ڈھانچہ دوا ساز صنعت کے تجارتی imperatives کے سامنے شکست کھاتا نظر آتا ہے۔ مراعات پر مبنی نسخہ جات کا کلچر، کمزور ریگولیٹری نفاذ، اور عوامی آگاہی کی کمی نے مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں غیر عقلی اور غیر ضروری علاج معمول بن چکا ہے۔ اس کے نتائج صرف مالی بوجھ یا وسائل کے ضیاع تک محدود نہیں، بلکہ یہ اینٹی مائیکروبیل مزاحمت (AMR) جیسی ایک مہلک اور خاموش وبا کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں، جو پاکستان میں سالانہ لاکھوں جانیں لے رہی ہے اور جدید طب کی کامیابیوں کو ہی خطرے میں ڈال رہی ہے۔
اس رپورٹ کا حتمی استدلال یہ ہے کہ آگے بڑھنے کا راستہ طبی پیشے کو اس کی اصل اخلاقی بنیادوں پر دوبارہ استوار کرنے میں مضمر ہے۔ یہ ماضی کی طرف کوئی جذباتی واپسی کی اپیل نہیں، بلکہ ایک عملی اور فوری ضرورت ہے۔ عوامی اعتماد کی بحالی اور صحت عامہ کے تحفظ کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ طبیب کے علاج کرنے کے حلف کو ایک بار پھر منافع کمانے کی خواہش پر فوقیت دی جائے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے ایک کثیر الجہتی اور مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے:
ریگولیٹری اداروں کو سیاسی طور پر بااختیار اور وسائل سے لیس کرنا ہوگا تاکہ وہ قوانین کو سختی سے نافذ کر سکیں۔
پیشہ ورانہ تنظیموں کو محض ضابطے بنانے سے آگے بڑھ کر اپنے اراکین کا احتساب کرنا ہوگا۔
طبی تعلیم کو اخلاقیات اور عقلی نسخہ جات کو اپنے نصاب کا مرکزی حصہ بنانا ہوگا۔
اور سب سے اہم، عوام اور مریضوں کو علم اور آگاہی کے ذریعے اس قدر بااختیار بنانا ہوگا کہ وہ اپنے علاج کے فیصلوں میں ایک فعال اور باخبر شراکت دار بن سکیں۔
اس رپورٹ میں پیش کردہ اصلاحاتی فریم ورک اس مشکل سفر کے لیے ایک روڈ میپ فراہم کرتا ہے۔ یہ چیلنج بلاشبہ بہت بڑا ہے، لیکن اس کا مقابلہ کرنا پاکستان کے صحت کے نظام کے مستقبل اور اس کے شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر اس بات کو یقینی بنائیں کہ طب کا پیشہ خدمت کا پیشہ رہے، تجارت کا نہیں۔
Works cited
Hippocratic Oath – Wikipedia, accessed July 24, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Hippocratic_Oath
The Physician’s Oath: Historical Perspectives – PMC – PubMed Central, accessed July 24, 2025, https://pmc.ncbi.nlm.nih.gov/articles/PMC5755201/
The Hippocratic Oath and Principles of Medical Ethics – The Southwest Respiratory and Critical Care Chronicles, accessed July 24, 2025, https://pulmonarychronicles.com/index.php/pulmonarychronicles/article/download/185/437/
The Hippocratic Oath – PMC – PubMed Central, accessed July 24, 2025, https://pmc.ncbi.nlm.nih.gov/articles/PMC9297488/
A Trio of Exemplars of Medieval Islamic Medicine: Al-Razi, Avicenna …, accessed July 24, 2025, https://pmc.ncbi.nlm.nih.gov/articles/PMC4205055/
ابن سینا (1) – راسخون, accessed July 24, 2025, https://rasekhoon.net/article/show/735613
Ibn Sina [Avicenna] – Stanford Encyclopedia of Philosophy, accessed July 24, 2025, https://plato.stanford.edu/entries/ibn-sina/
MEDICINE AND PSYCHOLOGY OF IBN SINA (AVICENNA) – A UNIQUE SCIENTIFIC AND RELIGIOUS APPROACH, accessed July 24, 2025, https://hrcak.srce.hr/file/374402
Physicians’ Attributes as Described by the Ancester Scholars, accessed July 24, 2025, https://www.jbima.com/article/physicians-attributes-as-described-by-the-ancester-scholars/
تاریخچه – انجمن علمی اخلاق پزشکی ایران, accessed July 24, 2025, http://www.isame.ir/%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE%DA%86%D9%87/
Full text of “pmdc-code-of-ethics-of-practice-for-medical-and-dental …, accessed July 24, 2025, https://archive.org/stream/pmdc-code-of-ethics-of-practice-for-medical-and-dental-practitioners-facebook-pakpmdc-2015/pmdc-code-of-ethics-of-practice-for-medical-and-dental-practitioners-facebook-pakpmdc-2015_djvu.txt
CODE OF ETHICS – fjmu.edu.pk, accessed July 24, 2025, https://fjmu.edu.pk/wp-content/uploads/2022/10/PMDC-Code-of-ethic.pdf
Understanding Prescription Drug Advertising – StatPearls – NCBI …, accessed July 24, 2025, https://www.ncbi.nlm.nih.gov/books/NBK574520/
Industry influence in healthcare harms patients: myth or maxim? – PMC, accessed July 24, 2025, https://pmc.ncbi.nlm.nih.gov/articles/PMC9584590/
The Ethics and Regulations of Pharmaceutical Advertising – East Street Pharmacy, accessed July 24, 2025, https://eaststreetpharmacy.com/the-ethics-and-regulations-of-pharmaceutical-advertising.html
Too much medicine | The BMJ, accessed July 24, 2025, https://www.bmj.com/too-much-medicine
The Pitfalls of Overtreatment: Why More Care is not Necessarily …, accessed July 24, 2025, https://pmc.ncbi.nlm.nih.gov/articles/PMC7747436/
Medication Without Harm – World Health Organization (WHO), accessed July 24, 2025, https://www.who.int/initiatives/medication-without-harm
Medication Errors | AMCP.org, accessed July 24, 2025, https://www.amcp.org/concepts-managed-care-pharmacy/medication-errors
Medication Dispensing Errors and Prevention – StatPearls – NCBI Bookshelf, accessed July 24, 2025, https://www.ncbi.nlm.nih.gov/books/NBK519065/
The Ethics of Expensive Medications with Limited Efficacy – ChenMed, accessed July 24, 2025, https://www.chenmed.com/blog/ethics-expensive-medications-limited-efficacy
Economic burden of unjustified medications at hospital discharge, accessed July 24, 2025, https://smw.ch/index.php/smw/article/download/1002/999/1992
Pharmaceutical Efficacy: The Illusory Legal Standard, accessed July 24, 2025, https://scholarlycommons.law.wlu.edu/cgi/viewcontent.cgi?article=4358&context=wlulr
How Should Therapeutic Decisions about Expensive Drugs Be Made in Imperfect Environments? – AMA Journal of Ethics, accessed July 24, 2025, https://journalofethics.ama-assn.org/article/how-should-therapeutic-decisions-about-expensive-drugs-be-made-imperfect-environments/2017-02
Overprescribing antibiotics poses ‘serious’ risk of antimicrobial …, accessed July 24, 2025, https://www.arabnews.com/node/2448971/pakistan
Greed over care: Decoding the unholy doctor-pharma alliance …, accessed July 24, 2025, https://www.dawn.com/news/1886535
Incentivisation practices and their influence on physicians’ prescriptions: A qualitative analysis of practice and policy in Pakistan | PLOS Global Public Health, accessed July 24, 2025, https://journals.plos.org/globalpublichealth/article?id=10.1371/journal.pgph.0001890
(PDF) Pharmaceutical Industry in Pakistan: Unethical Pharmaceutical Marketing Practices, accessed July 24, 2025, https://www.researchgate.net/publication/263966694_Pharmaceutical_Industry_in_Pakistan_Unethical_Pharmaceutical_Marketing_Practices
‘Antimicrobial resistance causing 300,000 deaths annually in Pakistan’, accessed July 24, 2025, https://tribune.com.pk/story/2467320/antimicrobial-resistance-causing-300000-deaths-annually-in-pakistan
Antibiotic Overprescribing among Neonates and Children Hospitalized with COVID-19 in Pakistan and the Implications – MDPI, accessed July 24, 2025, https://www.mdpi.com/2079-6382/12/4/646
Exploring a One Health Approach to AMR in Pakistan | ASM.org, accessed July 24, 2025, https://asm.org/magazine/2023/fall/exploring-a-one-health-approach-to-amr-in-pakistan
Drug Regulatory Authority of Pakistan – Wikipedia, accessed July 24, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Drug_Regulatory_Authority_of_Pakistan
Drug Regulatory Law – ANZ Partners, accessed July 24, 2025, https://anzpartners.com/expertise/drug-regulatory-law/
Drap 2012, accessed July 24, 2025, http://www.uop.edu.pk/ocontents/The%20DRAP%20Act%202012.pdf
Advertisement Rules | PDF | Health Care | Medicine – Scribd, accessed July 24, 2025, https://www.scribd.com/document/871625197/Advertisement-Rules
Pakistan Introduces Therapeutic Goods (Advertisement) Rules, 2025 for Meds, accessed July 24, 2025, https://qa.navlindaily.com/article/24815/pakistan-introduces-therapeutic-goods-advertisement-rules-2025-for-meds
CAT upholds CCP decision, confirms pharma co misled hospitals by false marketing, accessed July 24, 2025, https://www.brecorder.com/news/40367661
Critical analysis of the Pakistan Medical Dental Council Code and Bioethical Issues – DiVA portal, accessed July 24, 2025, http://www.diva-portal.org/smash/get/diva2:23919/FULLTEXT01.pdf
Socioecological factors linked with pharmaceutical incentive-driven prescribing in Pakistan, accessed July 24, 2025, https://gh.bmj.com/content/6/Suppl_3/e010853
List of exaggerated promotional claims by pharmaceutical companies in the light of scientific evidence. – ResearchGate, accessed July 24, 2025, https://www.researchgate.net/figure/List-of-exaggerated-promotional-claims-by-pharmaceutical-companies-in-the-light-of_tbl1_6936857
Exploring the Ethics of Pharmaceutical Marketing Practices – East Street Pharmacy, accessed July 24, 2025, https://eaststreetpharmacy.com/exploring-the-ethics-of-pharmaceutical-marketing-practices.html
Guidelines For Healthcare Professionals*interaction with Pharmaceutical trade and industry** – NBC (Pakistan), accessed July 24, 2025, http://nbcpakistan.org.pk/assets/ppi_guidelines_may_2011-1–final-copy-on-pmrc-wbesite.pdf
Public Education in Rational Drug Use – IRIS – World Health Organization (WHO), accessed July 24, 2025, https://iris.who.int/bitstream/handle/10665/62227/WHO_DAP_94.1.pdf?sequence=1