تعارف
عجائبات عالم میں کچھ تو مادی مظاہر ہیں جنہیں یہ چشم سر دیکھا جا سکتا ہے، کچھ وہ ہیں جن کے اسرارور موز سمجھنے کیلئے علم ہی نہیں تجربہ و مشاہدہ بھی شرط ہے۔ ان میں سے ایک اعجو بہ یہ بھی ہے کہ طلوع اسلام کو ابھی نصف صدی بھی نہ گزری تھی کہ علوم و فنون کی مختلف شاخوں میں نہایت تیزی سے پیش رفت ہونے لگی۔ مذہبی علوم تفسیر ر، حدیث، فقہ ، سیرۃ اور مغازی وغیرہ کے علاوہ جن علوم میں مسلمانوں نے خصوصی دلچسپی لی اور ان میں نہایت تیزی کے ساتھ اضافے کئے، ان میں فن طب بھی شامل ہے۔ چونکہ اس کی فلسفیانہ اساس یونانی حکماء کی تصانیف پر رکھی گئی تھی اس لئے آج بھی طبیب کو حکیم کہا جاتا ہے۔ اب اسے مسلمانوں کی علمی رواداری یا دیانت ہی کہیں گے کہ انہوں نے یونانی حکماء سے طب کے ابتدائی رشتے کو فراموش نہیں کیا اور اسے طب یونانی ہی کہتے رہے ، حالانکہ وہ اپنی ترقی یافتہ شکل کے بعد بجاطور پر “طب العرب” کہے جانے کا حق رکھتی تھی۔ مگر اب حیرت یا افسوس اس پر ہے کہ طب یونانی نه یونان میں رہی، نہ یوروپ میں ، نہ ممالک عربیہ میں ۔ آج تک یوروپ اور بعض عرب ممالک میں بھی اس کا رواج ممنوع ہے۔ حالانکہ ایلو پیتھی میں طلب و جراحت کی بنیاد بھی حسین بن اسحق، ثابت بن قرة، محمد بن زکریا رازی، شیخ الرئیس بو علی سینا، ابن نفیس، داؤد انطاکی اور ابو القاسم زہرادی جیسے عبقری طبیبوں اور تشریح کے ماہروں نے فراہم کی ہے۔ طلوع اسلام کے بعد علم طب میں بحث و تحقیق کا بیشتر کام مسلم علماء نے کیا ہے اور ان کی کتابیں عربی یا فارسی زبانوں کا قابل فخر سرمایہ ہیں۔ اس فن کو ابتدا میں عباسی دربار خلافت سے جو سر پرستی ملی اس سے بہت پیش رفت بھی ہوئی لیکن بعد کی صدیوں میں اس سے نقصان بھی ہوا کہ صرف ظل الہی کے مزاج ہمایونی کی نگہداشت یونانی اطباء کی توجہ کا مرکز بن گئی۔
دوسر انقصان مذ ہیں علماء کی غلط اندیشی سے ہوا کہ انہوں نے مذہب، اخلاقیات اور مسائل طبیہ مثلاً تشریح البدن کے رشتوں کو خالص اخلاقی اور مذہبی زاویے سے دیکھا حالانکہ یہ قطعاً غیر ضروری اور غیر متعلق تھا۔ اس طرح فن جراحت کو بہت نقصان ہوا اور وہ علم طب کے ساتھ ساتھ قدم نہیں بڑھا سکا، سست رفتار ہو گیا اور جراحوں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آگیا۔ بعد کے زمانے میں ایلو پیتھی نے فن جراحت کو ترقی دی حالانکہ موجودہ سرجری کی بنیاد بھی طب العرب کے مسلم حکماء کی رکھی ہوئی ہے اور آج بھی آپریشن میں استعمال ہونے والے بعض آلات وہ ہیں جن کی ابتدائی شکل قدیم اطباء کی کتابوں میں مل جاتی ہے۔ اس کے باوجود عہد وسطیٰ میں خصوصا عہد مغلیہ کے ہندوستان میں نامور اطباء پیدا ہوتے رہے جن کے علمی اور تحقیقی کارنامے آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ بن سکتے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ ان سے استفادہ کرنے والوں کی تعد اد روز مائل بہ زوال ہے۔
سلطنت مغلیہ کے خاتمہ کے بعد طب کی پیش رفت بھی رک گئی تھی اور روایتی طبیبوں کا کام صرف یہ رہ گیا تھا کہ وہ اپنے پیش رو حضرات کی بیاضوں اور قراباد مینوں سے تھے تلاش کریں اور انہیں اپنے کسب معاش کا ذریعہ بنا ئیں خودان میں ایجاد و اجتہاد کی صلاحیت نہ رہی تھی، علمی اور تحقیقی جذبہ سرد پڑ گیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس فن شریف کی بقا اور تحفظ کیلئے دہلی کے خاندان شریفی حکیم محمود خان مرحوم اور مسیح الملک ہم اجمل خان مرحوم، نیز خاندان عزیزی لکھنو میں حکیم عبد العزیز، حکیم عبد الحمید حکیم عبد اللطیف فلسفی جیسے علماء پیدا کر دئیے جنہوں نے فن طب کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کیا اور اس فن شریف کا چلن ختم نہیں ہونے دیا جو مسلمانوں کی علمی میراث اور ان کی ثقافت کا ایسا مظہر تھا جس کو عام انسانوں کی خدمت کے لئے مسلمانوں کی کوشش کے ثبوت میں پیش کیا جا سکتا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اور ان حضرات کے معا بعد آنے والی نسل میں، حکیم عبدالحمید دہلوی مرحوم اور اُن کے بھائی حکیم محمد سعید شہید نے عملی طلب کو مقبول عام بنانے میں غیر معمولی کارنامے انجام دیئے۔ نظری سطح پر طب یونانی میں بحث و تحقیق کے دروازے بھی کھلے اور اس میدان میں جن اطباء نے نہایت بیش قیمت علمی خدمات انجام دیں ان میں پروفیسر حکیم سید ظل الرحمن کا نام سب سے نمایاں ہے۔
پروفیسر سید ظل الرحمن عہد وسطی کے ہندوستان میں ایک نہایت قدیم علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جس میں علوم اسلامیہ اور فن طب دونوں کی بڑی مستحکم روایت عہد سلطنت سے رہی ہے۔ اگر کوئی فن خاندانی ورثہ کے طور پر ملا ہو تو اُس میں بڑی برکت ہوتی ہے ، ذاتی کوشش و کاوش سے اس میں اضافہ کیا جائے تو وہ اس روایت کو اور بھی نہ صرف شاندار بلکہ جاندار اور پائیدار بنادیتا ہے۔ اس زمانے میں یونانی طب کے بہت سے کالج کھلے ہوئے ہیں ان سے علم طب کی سندیں لے کر نکلنے والے بھی کچھ کم نہیں، مگر اس کا ایک پہلو ایسا ہے جسے دیکھ کر کچھ زیادہ خوشی نہیں ہوتی ہ علم طب کے اکثر سند یافتہ خود کو حکیم کے بجائے ڈاکٹر کہنا اور کہلوانا پسند کرتے ہیں اور بیشتر علاج بھی ایلو پیتھی کی پیٹنٹ دواؤں سے کرنے لگے ہیں۔ مفردات سے علاج کرنے والے طبیب معدودے چند ہیں ، وہ بھی کہیں دیہات و قصبات ہی میں مل سکتے ہیں۔
حکیم سید ظل الرحمن کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ طب یونانی میں شرک“ کے مرتکب نہیں ہوئے اطباء سلف کے معیاروں سے ہی فن کی عملی اور نظری خدمت کرتے رہے ہیں۔ اُن کا یہ رویہ کسی عصبیت اور تنگ نظری کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ طب یونانی میں تمام علمی اور فنی مسائل کا حل موجود ہے اور انہیں اپنے اسلاف کے علمی کارناموں کی روشنی میں بھی جانچا پر کھا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل تعریف ہے کہ وہ طب یونانی کو جامد فن نہیں مانتے، اس کی جدلیاتی اور حرکی قوت کے قائل بھی ہیں اور موئید بھی۔ انہوں نے دور جدید اور طب” کے موضوع پر جن خیالات کی تبلیغ اور اشاعت کی ہے وہ ان کے آزاد خیال اور ترقی پسند مفکر ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔
طبی تقدمے
حکیم سید ظل الرحمن کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ عربی اور فارسی مصادر سے براہ راست استفادہ کرتے ہیں، انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طالب علم کی حیثیت سے داخل ہونے سے پہلے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے سند فراغت حاصل کی تھی۔ آج بہت ہی کم طبیب ایسے ہیں جو عربی فارسی مصادر سے کماحقہ واقفیت رکھتے ہیں۔ انہیں قدیم مخطوطات کا بھی ذوق ہے اور وہ علوم مشرقیہ کی بیشتر بڑی لائبریریوں میں محفوظ طبی مخطوطات کا جائزہ لیتے رہے ہیں۔ یہی نہیں انہوں نے خود بھی اپنے ذاتی ذخیرے میں چار سو کے قریب نادر قلمی نسخے جمع کر رکھے ہیں اور اپنے گھر کو ایک چھوٹا سا میوزیم بنالیا ہے جسے اب اپنے ذاتی سرمائے سے ایک ریسرچ سینٹر میں تبدیل کر رہے ہیں۔
حکیم سید ظل الرحمن میرے بہت ہی عزیز دوست ہیں۔ وہ اپنے اخلاق اور کردار میں بھی ایک مثالی شخصیت ہیں۔ اُن سے میرا تعارف اس زمانہ میں ہوا جب وہ طبیہ کالج گلی قاسم جان دہلی میں لیکچرر ہوئے اور چھ سات سال تک دہلی میں مقیم رہے، اُس زمانہ میں ان سے تقریبا روزانہ ملاقات ہوتی تھی، اسی زمانہ میں انہوں نے بڑے شوق اور انہماک سے ایک طبی رسالہ الحکمت“ جاری کیا تھا جو چھ سال تک پابندی سے شائع ہو تا رہا اور طبی حلقوں میں بہت معیاری اور معتبر تحقیقی رسالہ سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے سخت محنت اور دیدہ ریزی سے علمی دنیا میں اپنا منفرد مقام بنایا ہے۔ ان کی تقریباد و در جن کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں سے ہر کتاب اپنے موضوع پر قابل استناد ماخذ مانی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اُن کے متفرق تحقیقی مضامین کی تعداد بھی ڈیڑھ سو سے زیادہ ہے۔ انہوں نے متعدد قومی اور بین الا قوامی کانفرنسوں میں شرکت کر کے فن طب کی نمائندگی کی ہے اور اطبائے سلف کی فنی خدمات سے دنیا کو روشناس کرایا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں بیرونی ممالک میں جاکر بھی ہندوستان میں فن طب کی ترویج و ترقی کا تعارف کرانے اور اس فن کا اعتبار بڑھانے کے مواقع ملے ہیں۔
وہ ہندوستان کے پہلے طبیب ہیں جنہیں کلاسیکی زبانوں میں علمی شغف کا سب سے بڑا قومی اعزاز یعنی صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے سند امتیاز لائف پنشن کے ساتھ دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی اُن کا ایک امتیاز ہے کہ انہوں نے ۳۵ سے زیادہ کتابوں پر عالمانہ مقدمے لکھتے ہیں جنہیں اب یکجا کتابی صورت میں شائع کیا جارہا ہے۔ قد سے خود متنوع موضوعات پر ہیں اور ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ پروفیسر موصوف نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ بعض مضامین جو نسبتا تفصیل سے لکھے گئے ہیں وہ حکیم ظل الرحمن کے مطالعہ کی وسعت اور گہرائی کے علاوہ اس کی شہادت بھی دیتے ہیں کہ انہوں نے فن طب کے مختلف علمی اور اصطلاحی پہلوؤں کا کتنی گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے اور ان موضوعات پر علمی و تحقیقی کام کرنے والوں کو کس طرح کھلے دل سے سراہا ہے۔
فن طب کے سوا اسلامیات اور ہندوستانی مسلمانوں کی ثقافتی تاریخ پر بھی وہ شناسانہ نظر رکھتے ہیں۔ تاریخ طب و تشریح اور علم الادویہ کے میدان میں تو شاہد ہی اس برصغیر میں کوئی ان کا مد مقابل ہونے کی جرات کر سکے۔ زیر نظر کتاب میں جو مقصد ہے حمام، ثابت بن قرة، تاریخ طب اور سوانح حکیم سید کرم حسین پر لکھے گئے ہیں وہ کوئی سرسری تحریر نہیں بلکہ خود فکر و نظر اور بحث و تحقیق کا بہترین نمونہ ہیں۔ یہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی خوش نصیبی تھی کہ اسے حکیم عبد اللطیف فلسفی مرحوم جیسے حاذق طبیب کی خدمات حاصل رہیں اور یہ فلسفی مرحوم کی خوش نصیبی ہے کہ انہیں حکیم سید ظل الرحمن جیسا سعادت مند اور سچا علمی ذوق رکھنے والا شاگرد ملا، جس نے خاندان عزیزی کی فنی خدمات کو بھی زندہ کر دیا۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ کسی قوم قبیلے یا خاندان میں ایک ہی شخص ایسا پیدا ہو جاتا ہے جس کی حیثیت شمع محفل کی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک شمع کی لو ظلمت کا نقاب چیر کر ہمیں سب حاضرین کے چہرے دکھا دیتی ہے اسی طرح کسی فنی یار و حانی سلسلے یا علمی خانوادے کی ایک ہی شخصیت کے وسیلے سے پورے سلسلے یا خانوادے کا تعارف ہو جاتا ہے اور اس کی ماضی کی خدمات بھی روشنی میں آجاتی ہیں۔
حکیم سید ظل الرحمن کی علمی خدمات سے ان کے اپنے خانوادے کی قابل رشک تاریخ بھی روشنی میں آئی اور ہندوستان میں کئی صدیوں تک اطباء نے جو نظری اور علمی خدمات انجام دی تھیں ان پر غور و فکر کے دروازے بھی کھلے۔ اب کہ اُن کے حسن پر وظیفہ یاب ہونے کا زمانہ قریب سے قریب تر آرہا ہے، ہمیں یہ امید ہی نہیں یقین ہے کہ ان کی علمی خدمات کی نہ صرف رفتار بلکہ معیار و مقدار میں بھی اضافہ ہو گا۔ اسلئے ہم ان کی صحت اور سلامتی کی دل سے دعا کرتے ہیں۔ حفظه الله وأبقاه واوصله الى أسنى الاهداف العلمية. خدمت پرور شعبہ عربی، دہلی یونیورسٹی دہلی۔ ۵ا/ جولائی دوہزار
نثار احمد فاروقی