طبی انکشافات اورحدیث نبویﷺ
تحریر:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
بفرض محال تسلیم کربھی لیا جائے کہ رسول اللہﷺ نے اطبائے عرب سے سن سنا کر کچھ باتیں اور تجربات میدان طب سے حاصل کرلئے تھے۔اور انہیں اپنے انداز میں نقل کردیا اور اپنے ماننے والوں کے لئے ایک علمی شاخ بناکر پیش کردی۔یہ بہت بڑی بات ہے جس کا ثبوت مہیا کرنا ناممکن ہے۔کیونکہ جوباتیں طب نبوی میں بیان کی گئی ہیں اس وقت تک کی تحقیق و تجربات میں اس کی قطعی گنجائش موجود نہیں ہے ۔مثلاََ ایک حدیث ہے جس میں انسانی جسم کے بارہ میں اشارات دئے ہیں۔
حدثني عبد الله بن فروخ، أنه سمع عائشة، تقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إنه خلق كل إنسان من بني آدم على ستين وثلاثمائة مفصل، فمن كبر الله، وحمد الله، وهلل الله، وسبح الله، واستغفر الله، وعزل حجرا عن طريق الناس، أو شوكة أو عظما عن طريق الناس، وأمر بمعروف أو نهى عن منكر، عدد تلك الستين والثلاثمائة السلامى، فإنه يمشي يومئذ وقد زحزح نفسه عن النار» قال أبو توبة: وربما قال: «يمسي»(صحيح مسلم (2/ 698)المسند الجامع (9/ 380)أخرجه البخاري في (الأدب المفرد) 422
ام المومنین سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ہر آدمی کے بدن میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں۔ سو جس نے اللہ کی بڑائی کی اور اللہ کی حمد کی اور لا الہ الا اللہ کہا اور سبحان اللہ کہا اور استغفر اللہ کہا اور پتھر لوگوں کی راہ سے ہٹا دیا یا کوئی کانٹا یا ہڈی راہ سے ہٹا دی یا اچھی بات سکھائی یا بری بات سے روکا اس تین سو ساٹھ جوڑوں کی گنتی کے برابر وہ اس دن چل رہا ہے اور ہٹ گیا اپنی جان کو لے کر دوزخ سے۔ “ ابو توبہ نے اپنی روایت میں یہ بھی کہا کہ شام کرتا ہے وہ اسی حال میں۔
اس حدیث کے اسرار رموز۔
ڈاکٹر عبد الباسط محمد سید لکھتے ہیں:
جسمانی جوڑوں کے بارہ میں نبی امی کو کس نے معلومات دی کہ انسانی جسم میں تیس سو ساٹھ جوڑ ہیں؟
1997 تک طب میں 340 جوڑ سمجھے جاتے تھے،یا اس وقت کی طبی تحقیقات کے نتیجہ میں340 جوڑ منکشف ہوئے تھے۔اس وقت تک 20 جوڑوں کے بارہ میں دنیا لاعلم تھی۔یہ راز المانی محقق کے سامنے منکشف ہوا۔اس نے بتایا کہکان کے درمیانی حصے میں دس ہڈیاں بہت مہیں اور باریک انداز میں جڑی ہوئی ہیں۔دس دائیں کان میں اور دس بائیں کان میں،اس تحقیق کے بعد مذکورہ بالا حدیث میں بیان کئے گئے 360 جوڑ مکمل ہوگئے( نبی امی صفحہ360 بحوالہ اسرار العلاج بالحجامہ صفحہ9)
بقول معترض تسلیم کر بھی لیا جائے کہ طب کے بارہ میں وہی کچھ بیان کیا گیا جو اس وقت تک عرب اطباء کی معلومات تھیں،اس حدیث میں جو راز بیان کیا گیا ہے۔اس کے بارہ میں کیا خیال ہے؟ جو چیز صدیوں بعد منکشف ہورہی ہے ،ان پر کس نے ظاہر کردی؟یا کونسے ذرائع تھے جہاں سے یہ حقائق در آرہے تھے؟
طب نبوی کا اختصاص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی شنان و عظمت کچھ اس انداز میں بیان فرمائی ہے:{وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ } [العنكبوت: 48]
اور نہیں تھے آپ پڑھتے اس سے پہلے کوئی کتاب اور نہ لکھتے تھے اس کو اپنے دائیں ہاتھ سے۔ اس وقت البتہ شک کرتے باطل پرست لوگ ۔۔یعنی ہر طرح سے مروجہ طرق تعلیم و تعلم سے آپ کو دور رکھا گیا۔کوئی تعلیم حاصل کی نہ کسی کتاب کا مطالعہ کیا۔نہ حکماء کی لکھی ہوئی کناش/قرابدینیں زیر مطالعہ رہیں۔نہ کسی کی بیاض سے استفادہ کیا۔نہ کسی کے دواخانہ میں دوا سازی کی تربیت لی۔
دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ اپنی منشا و مرضی کو دخل نہیںدیتے سراپا اطاعت الہی میں مستغرق رہتے ہیں ۔ آیات ذیل میں بہت گہرے اور معنی خیز نکات بیان فرمائے ہیں۔
{ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى (2) وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (4) عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى} [النجم: 2 – 5]
نہیں بہکا تمہارا صاحب ( ساتھی) اور نہ وہ بےراہ ہوا ۔ اور نہیں بولتا وہ نفس کی خواہش سے ۔ نہیں ہے مگر وحی جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے ۔ اس کو سکھایا ہے سخت قوتوں والے نے ۔
(1)نبیﷺ کو احکامات خداوندی پہنچانے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔یہ بہکے ہیں نہ راستے سے بھٹکے ہیں (2)اپنی خواہشات کی بنا کر کوئی بات نہیں کہتے(3)ہر بات میں وحی الیہہ کی پابندی کرتے ہیں۔ (4)کیونکہ سکھانا والا بہت زور آور ہے۔جو کسی تجربہ یا علمی تحقیق کی احتیاج نہیں رکھتا ہے۔
I was very pleased to uncover this great site. I need to to thank you for ones time due to this fantastic read!! I definitely enjoyed every bit of it and I have you book-marked to see new things in your website.
Thnsk