طبِ نبوی پر مستشرقین کے افکار
طبِ نبوی پر مستشرقین کے افکار
طبِ نبوی پر مستشرقین کے افکار

طبِ نبوی پر مستشرقین کے افکار: ایک تنقیدی اور حوالہ جاتی جائزہ

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

Contents

طبِ نبوی پر مستشرقین کے افکار: ایک تنقیدی اور حوالہ جاتی جائزہ 1

باب 1: استشراق اور اسلامی علوم کا مطالعہ. 1

استشراق کی تعریف اور ارتقاء. 1

ایڈورڈ سعید اور استشراق پر تنقید 1

اسلامی علوم پر اطلاق. 1

باب 2: طبِ نبوی اور اسلامی طب: تعریف اور امتیاز. 2

طبِ نبوی کی تعریف اور اصول. 2

حفظانِ صحت اور پرہیز: بیماری سے بچاؤ کو علاج پر فوقیت دینا۔ 2

اسلامی طب کا ارتقاء. 2

مستشرقین کی قائم کردہ تفریق. 2

حصہ دوم: مستشرقین کے کلیدی نظریات اور ان کا تجزیہ. 3

اِگناز گولڈزیہر اور جوزف شاخت کے نظریات.. 3

طبِ نبوی پر ان نظریات کا اطلاق. 3

باب 4: طبِ نبوی کی تشکیلِ نو: مفاہمت یا مخاصمت؟. 4

نظریہِ مخاصمت (The Opposition Thesis) 4

نظریہِ مفاہمت (The Reconciliation Thesis) 4

ارتقائی نظریہ (The Evolutionary Thesis) 4

حصہ سوم: اہم مستشرقین اور ان کی تحقیقات کا تفصیلی جائزہ 4

باب 5: ایڈورڈ جی. براؤن اور “عرب طب” کا تصور. 5

باب 6: سائرل الگڈ اور فارسی طب کی تاریخ. 5

باب 7: مینفرڈ اُلمان اور “اسلامی طب” کی یونانی اساس.. 5

حصہ چہارم: عصری مباحث اور نتائج. 6

باب 8: مستشرقین کے نظریات پر تنقید اور جدید تحقیق. 6

مستشرقین کے نظریات کا تقابلی جائزہ 6

شاخت کے نظریات پر تنقید اور اس کے اثرات.. 7

طبِ نبوی پر جدید تحقیق. 7

باب 9: حاصلِ بحث اور سفارشات.. 8

حصہ اول: تمہید اور بنیادی تصورات

باب 1: استشراق اور اسلامی علوم کا مطالعہ

استشراق (Orientalism) ایک کثیر الجہتی اور پیچیدہ علمی روایت ہے جس کا تنقیدی جائزہ لیے بغیر طبِ نبوی پر مغربی مفکرین کے کام کو اس کے حقیقی تناظر میں سمجھنا ناممکن ہے۔ اس باب کا مقصد استشراق کی تعریف، اس کے تاریخی پس منظر، اور اسلامی علوم کے مطالعے میں اس کے طریق کار کو واضح کرنا ہے تاکہ طبِ نبوی پر مستشرقین کے کام کو اس کے وسیع علمی اور نظریاتی سیاق و سباق میں رکھا جا سکے۔

استشراق کی تعریف اور ارتقاء

لفظ “استشراق” عربی زبان کے باب استفعال سے ماخوذ ہے، جس کے معنی “مشرق کی شناخت” کے ہیں اور یہ انگریزی اصطلاح “Orientalism” کا ترجمہ ہے 1۔ اگرچہ اس اصطلاح کا باقاعدہ استعمال اٹھارہویں صدی کے اواخر میں یورپ میں شروع ہوا 3، لیکن اس کے پیچھے کارفرما فکر کی جڑیں صلیبی جنگوں اور اس سے بھی پہلے کے ادوار تک جاتی ہیں، جب مغرب نے اسلام کو ایک حریف تہذیب کے طور پر دیکھنا شروع کیا 5۔

مستشرقین کو ایک واحد گروہ سمجھنا ایک فکری غلطی ہوگی۔ ان کے مقاصد اور مناہج میں وقت اور نظریے کے ساتھ نمایاں تبدیلیاں آتی رہی ہیں۔ ان کو عمومی طور پر تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

متعصب مستشرقین: ان کا بنیادی مقصد اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کی شبیہ کو مسخ کرنا، اسلامی تعلیمات میں شکوک و شبہات پیدا کرنا اور عیسائیت کی برتری ثابت کرنا تھا 4۔ ان کا کام اکثر دینی اور تبلیغی مقاصد کے تحت ہوتا تھا 5۔

پیشہ ور اور نوآبادیاتی مستشرقین: نوآبادیاتی دور میں استشراق نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔ ان مستشرقین کا مقصد مشرقی معاشروں، ان کی زبانوں، ثقافتوں اور وسائل کا مطالعہ کرکے نوآبادیاتی حکومتوں کو ان پر اپنا تسلط قائم رکھنے میں مدد فراہم کرنا تھا 4۔ ان کا کام اکثر سیاسی اور اقتصادی مفادات سے متاثر ہوتا تھا 8۔

علمی محققین: ان میں وہ دانشور شامل ہیں جنہوں نے خالص علمی اور تحقیقی جذبے کے تحت اسلامی علوم کا مطالعہ کیا۔ اگرچہ یہ محققین بھی اپنے دور کے نظریاتی تعصبات سے مکمل طور پر آزاد نہیں تھے، لیکن ان کا کام علمی دنیا کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی تحریروں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بعض اوقات منصفانہ رویہ بھی پایا جاتا ہے 4۔

ایڈورڈ سعید اور استشراق پر تنقید

فلسطینی نژاد امریکی مفکر ایڈورڈ سعید نے اپنی شہرہ آفاق کتاب “Orientalism” (1978) میں استشراق کا ایک یکسر نیا اور تنقیدی نظریہ پیش کیا۔ سعید کے مطابق، استشراق صرف مشرق کا غیر جانبدارانہ مطالعہ نہیں، بلکہ یہ ایک مغربی “ڈسکورس” (discourse) ہے جو مشرق کی ایک ایسی تصویر تشکیل دیتا ہے جو مسخ شدہ، جامد، غیر عقلی اور پراسرار ہوتی ہے 8۔ یہ تصویر مغرب کی اپنی شناخت کو “عقلی، ترقی یافتہ اور برتر” کے طور پر قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ سعید نے اسے “علم اور طاقت” (Knowledge and Power) کے گٹھ جوڑ کی بہترین مثال قرار دیا، جہاں مغرب مشرق کے بارے میں علم پیدا کرکے اس پر اپنے تسلط کو فکری اور اخلاقی جواز فراہم کرتا ہے 9۔ اس فریم ورک میں، مشرق کو مغرب کی ضد، ایک “غیر” (The Other) کے طور پر پیش کیا جاتا ہے 9۔

اسلامی علوم پر اطلاق

مستشرقین نے اسلامی تہذیب کے تمام پہلوؤں کا مطالعہ کیا، لیکن ان کی خاص توجہ قرآن، سیرت اور بالخصوص حدیث پر رہی، کیونکہ یہ اسلامی عقائد اور قانون سازی کے بنیادی ماخذ ہیں 7۔ ان کا طریق کار عموماً مغربی تاریخی تنقید کے اصولوں پر مبنی تھا، جو اکثر اسلامی روایت کے داخلی اصولوں (جیسے علم اسماء الرجال) سے متصادم تھا۔ طبِ نبوی کا مطالعہ بھی اسی وسیع تر فریم ورک کے تحت کیا گیا۔ جس طرح انہوں نے حدیث کی استناد پر سوالات اٹھائے، اسی طرح انہوں نے طبِ نبوی کی بنیادوں کو بھی چیلنج کیا۔ “عقل بمقابلہ وحی” کی دوئی (dichotomy) ان کے تجزیے کا مرکزی نکتہ رہی، جہاں یونانی فکر سے ماخوذ “اسلامی طب” کو “عقلی” اور حدیث پر مبنی “طبِ نبوی” کو “غیر عقلی” یا “روایتی” قرار دیا گیا۔ یہ تقسیم محض ایک علمی درجہ بندی نہیں تھی، بلکہ یہ ایڈورڈ سعید کے بیان کردہ استشراقی بیانیے کا ہی ایک حصہ تھی جو مغرب کی عقلی برتری کو قائم کرتا تھا۔

باب 2: طبِ نبوی اور اسلامی طب: تعریف اور امتیاز

مستشرقین کے طبِ نبوی پر کام کو سمجھنے کے لیے “طبِ نبوی” اور “اسلامی طب” کے درمیان اس فرق کو سمجھنا کلیدی حیثیت رکھتا ہے جو خود مستشرقین نے قائم کیا ہے۔ یہ تفریق ان کے پورے تجزیے کی بنیاد بنتی ہے۔

طبِ نبوی کی تعریف اور اصول

طبِ نبوی سے مراد وہ طبی ہدایات، علاج اور حفظانِ صحت کے اصول ہیں جو براہِ راست نبی اکرم ﷺ سے منسوب ہیں اور جن کا ذکر احادیث کی کتب میں ملتا ہے 12۔ مسلم نقطہ نظر کے مطابق، اس علم کی بنیاد وحی الٰہی پر ہے، اگرچہ اس میں اس دور کے بہترین انسانی تجربات بھی شامل ہو سکتے ہیں 14۔ اس کا دائرہ کار صرف جسمانی بیماریوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ روحانی اور اخلاقی امراض (جیسے تکبر، حسد، ریا) کی تشخیص اور علاج پر بھی محیط ہے 15۔

طبِ نبوی کے بنیادی اصولوں میں شامل ہیں:

حفظانِ صحت اور پرہیز: بیماری سے بچاؤ کو علاج پر فوقیت دینا۔

فطری علاج: مخصوص غذائی اشیاء جیسے شہد 13، کلونجی 17، زیتون کا تیل، اور کھجور کے استعمال کی ترغیب۔

مخصوص طریقے: حجامہ (Wet Cupping) جیسے طریقوں کا استعمال، جسے بیماریوں کے لیے ایک مؤثر علاج قرار دیا گیا ہے 13۔

روحانی علاج: دعا، ذکر اور رقیہ (Ruqya) کے ذریعے شفا کا حصول، اس یقین کے ساتھ کہ حتمی شفا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے 12۔

نبی اکرم ﷺ نے خود بھی ماہر اطباء سے علاج کروانے کی ترغیب دی اور فرمایا کہ ہر بیماری کا علاج موجود ہے، سوائے موت کے 13۔

اسلامی طب کا ارتقاء

اس کے برعکس، “اسلامی طب” (جسے مستشرقین اکثر “Arabian Medicine” یا “عرب طب” کہتے ہیں) ایک وسیع تر سائنسی اور علمی روایت کی نشاندہی کرتی ہے جو اسلامی تہذیب کے سنہرے دور (آٹھویں سے پندرہویں صدی) میں پروان چڑھی 18۔ اس کی بنیاد بنیادی طور پر یونانی طب، بالخصوص بقراط (Hippocrates) اور جالینوس (Galen) کے نظریات پر رکھی گئی تھی۔ عباسی خلفاء کے دور میں ہونے والی عظیم ترجمہ تحریک کے دوران یونانی، فارسی، شامی اور ہندوستانی طبی کتب کو عربی میں منتقل کیا گیا 20۔

مسلم اطباء جیسے ابو بکر الرازی اور ابن سینا نے صرف ان نظریات کو نقل نہیں کیا، بلکہ ان پر تنقید کی، ان کی تصحیح کی اور ان میں اہم تجرباتی اور نظریاتی اضافے کیے۔ انہوں نے ہسپتالوں کا نظام قائم کیا، کلینیکل ٹرائلز کی بنیاد رکھی اور سرجری جیسے شعبوں میں نئی تکنیکیں متعارف کروائیں 23۔

مستشرقین کی قائم کردہ تفریق

مستشرقین کے کام کا ایک مرکزی نکتہ ان دونوں طبی روایات کے درمیان ایک واضح اور سخت تفریق قائم کرنا ہے 13۔

اسلامی طب: وہ “اسلامی طب” کو ایک قابلِ ستائش، عقلی اور سائنسی روایت کے طور پر دیکھتے ہیں، کیونکہ وہ اسے یونانی ورثے کا تسلسل اور ترقی یافتہ شکل سمجھتے ہیں 18۔ یہ ان کے لیے “سائنس” کی نمائندگی کرتی ہے۔

طبِ نبوی: اس کے برعکس، وہ “طبِ نبوی” کو ایک الگ مذہبی صنف (religious genre) قرار دیتے ہیں جو مکمل طور پر حدیث پر مبنی ہے۔ وہ اسے اکثر قبل از اسلام عرب کی لوک طب (folk medicine) یا بدوی روایات کا حصہ گردانتے ہیں، نہ کہ وحی پر مبنی علم 13۔ یہ ان کے لیے “مذہب” یا “روایت” کی نمائندگی کرتی ہے۔

یہ تفریق ایک جدید علمی تعمیر (modern scholarly construct) معلوم ہوتی ہے جو خود مسلم روایت میں اتنی واضح اور سخت نہیں تھی۔ قرون وسطیٰ کے مسلم مفکرین جیسے ابن قیم الجوزیہ اور جلال الدین السیوطی نے اپنی کتب میں احادیثِ نبوی اور یونانی طبی نظریات کو یکجا کرنے کی کوشش کی 13۔ ان کے نزدیک وحی اور عقل میں کوئی تضاد نہیں تھا، بلکہ وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے تھے۔ مستشرقین کا “عقل بمقابلہ وحی” کا فریم ورک اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے اور ایک ایسی تفریق مسلط کرتا ہے جو اس دور کے مسلم مفکرین کے لیے شاید اتنی اہم نہ تھی۔ اصطلاحات کا یہ الجھاؤ، جہاں بعض اوقات “اسلامی طب” کو طبِ نبوی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے 29، ظاہر کرتا ہے کہ یہ بحث صرف مستشرقین تک محدود نہیں، بلکہ جدید دور میں اسلامی ورثے کی تعریف کی ایک وسیع کشمکش کا حصہ ہے۔


حصہ دوم: مستشرقین کے کلیدی نظریات اور ان کا تجزیہ

باب 3: طبِ نبوی کے ماخذ پر مستشرقین کی تنقید: حدیث کی استناد کا سوال

طبِ نبوی پر مستشرقین کے موقف کی اصل بنیاد حدیثی لٹریچر پر ان کی تنقید ہے۔ چونکہ طبِ نبوی کا تمام تر انحصار احادیث پر ہے، اس لیے حدیث کی استناد پر کیا گیا کوئی بھی حملہ براہِ راست طبِ نبوی کی بنیادوں کو چیلنج کرتا ہے۔ یہ کوئی ضمنی نکتہ نہیں، بلکہ ان کے تجزیے کا بنیادی مقدمہ (foundational premise) ہے۔

اِگناز گولڈزیہر اور جوزف شاخت کے نظریات

مستشرقین میں حدیث پر تنقید کا باقاعدہ آغاز ہنگری کے یہودی عالم اِگناز گولڈزیہر (Ignaz Goldziher) سے ہوا۔ گولڈزیہر نے یہ نظریہ پیش کیا کہ احادیث کی ایک بڑی تعداد نبی اکرم ﷺ کے دور کی نہیں، بلکہ بعد کی صدیوں میں پیدا ہونے والے سیاسی، سماجی اور فقہی اختلافات کی پیداوار ہے 31۔ تاہم، وہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ ایک مختصر اور حقیقی حدیثی مواد ضرور موجود تھا جو نبی اکرم ﷺ سے منسوب کیا جا سکتا ہے 31۔

جرمن مستشرق جوزف شاخت (Joseph Schacht) نے گولڈزیہر کے کام کو ایک منظم اور زیادہ شدت پسندانہ شکل دی۔ اپنی کتاب “The Origins of Muhammadan Jurisprudence” میں شاخت نے یہ دعویٰ کیا کہ تقریباً تمام احادیث، بالخصوص قانونی اور فقہی موضوعات پر، دوسری اور تیسری صدی ہجری کی ایجاد ہیں اور ان کی اسناد (chains of transmission) بھی بعد میں گھڑی گئیں 32۔ شاخت نے اپنے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے کئی دلائل پیش کیے، جن میں دو سب سے اہم ہیں:

دلیلِ سکوت (Argumentum e Silentio): شاخت کا استدلال تھا کہ اگر کوئی حدیث کسی ابتدائی دور کی قانونی بحث میں موجود نہیں ہے، جہاں اس کا ذکر ناگزیر تھا، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ حدیث اس وقت موجود ہی نہیں تھی اور بعد میں گھڑی گئی 31۔

مشترک راوی کا نظریہ (Common Link Theory): شاخت نے مشاہدہ کیا کہ بہت سی احادیث کی مختلف اسناد پیچھے کی طرف جاتے ہوئے ایک واحد راوی پر آکر مل جاتی ہیں، جسے اس نے “مشترک راوی” (Common Link) کا نام دیا۔ شاخت کے مطابق، یہی مشترک راوی دراصل اس حدیث کا اصل موجد یا پھیلانے والا ہوتا ہے، اور اس سے اوپر کی سند بعد میں بنائی گئی ہوتی ہے 31۔

شاخت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ابتدائی اسلامی قانون کی بنیاد نبی ﷺ کی سنت پر نہیں، بلکہ اس دور کی “زندہ روایت” (Living Tradition) پر تھی، جس میں مقامی رسوم و رواج اور اموی خلفاء کے انتظامی احکامات شامل تھے۔ ان کے مطابق، امام شافعی (وفات 204ھ/820ء) وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے سنتِ نبوی کو قانون کا مرکزی اور بالادست ماخذ قرار دیا، جس کے بعد بڑے پیمانے پر احادیث گھڑنے اور اسناد بنانے کا عمل شروع ہوا 31۔

طبِ نبوی پر ان نظریات کا اطلاق

جب ان نظریات کا اطلاق طبِ نبوی پر کیا جاتا ہے تو اس کے نتائج واضح ہوتے ہیں۔ اگر احادیث ہی مستند نہیں، تو طبِ نبوی کی پوری عمارت، جو مکمل طور پر احادیث پر قائم ہے، غیر تاریخی اور ناقابلِ اعتبار قرار پاتی ہے 11۔ اس نقطہ نظر کے مطابق، طبِ نبوی میں پائے جانے والے طبی نسخے اور ہدایات دراصل نبی اکرم ﷺ کی نہیں ہیں، بلکہ ان کی اصلیت کے بارے میں مستشرقین دو متبادل وضاحتیں پیش کرتے ہیں:

یہ اس دور کی عرب لوک طب (Arab folk medicine) یا بدوی روایات کا حصہ ہیں جنہیں بعد میں مذہبی تقدس دینے کے لیے نبی ﷺ سے منسوب کر دیا گیا 13۔ اس ضمن میں وہ اکثر ابن خلدون کے اس قول کا حوالہ دیتے ہیں کہ طبِ نبوی وحی کا حصہ نہیں بلکہ عربوں کا روایتی علم تھا 26۔

یہ نسخے بعد کے علماء نے یونانی طب سے مطابقت یا مخالفت میں تیار کیے اور انہیں حدیث کی شکل میں پیش کر دیا تاکہ انہیں قبولیت حاصل ہو 28۔

اس طرح، حدیث پر تنقید کے ذریعے مستشرقین طبِ نبوی کو وحی سے حاصل شدہ علم کے دائرے سے نکال کر خالصتاً ایک انسانی اور تاریخی مظہر (phenomenon) کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

باب 4: طبِ نبوی کی تشکیلِ نو: مفاہمت یا مخاصمت؟

جب مستشرقین طبِ نبوی کو ایک تاریخی مظہر کے طور پر دیکھتے ہیں تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی باقاعدہ تدوین اور ایک الگ صنف کے طور پر تشکیل کا مقصد کیا تھا۔ اس سوال پر مستشرقین کے درمیان ایک دلچسپ بحث موجود ہے، جو دراصل اسلامی تہذیب کی نوعیت کے بارے میں ان کے وسیع تر نظریات کی عکاسی کرتی ہے۔

نظریہِ مخاصمت (The Opposition Thesis)

کچھ مستشرقین، جن میں جے. سی. برجل (J.C. Bürgel)، مینفرڈ اُلمان (Manfred Ullmann)، اور ایمللی سیویج-اسمتھ (Emilie Savage-Smith) جیسے سخت گیر محققین شامل ہیں، کا خیال ہے کہ طبِ نبوی کی تشکیل کا بنیادی مقصد یونانی طب کی عقلی روایت (rational tradition) کی مخالفت کرنا اور مسلم معاشرے میں اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو روکنا تھا 28۔ ان کے مطابق، یہ ایک طرح کی مذہبی قدامت پرستی کی تحریک تھی جو “غیر ملکی” اور “کافرانہ” سمجھے جانے والے علم کے خلاف تھی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ چونکہ طبِ نبوی کا نظام عقل کے بجائے وحی اور روایت پر مبنی تھا، اس لیے اس میں جادو، ٹونے ٹوٹکے اور دیگر توہمات پر مبنی علاجات کو بھی آسانی سے شامل کر لیا گیا 28۔ یہ نظریہ اسلام اور یونانیت کو دو متصادم قوتوں کے طور پر دیکھتا ہے، جو “تہذیبوں کے تصادم” کے وسیع تر مستشرقانہ ماڈل سے مطابقت رکھتا ہے۔

نظریہِ مفاہمت (The Reconciliation Thesis)

اس کے برعکس، فضل الرحمٰن اور ارمیلی پرہو (Irmeli Perho) جیسے محققین نے ایک مختلف نظریہ پیش کیا۔ ان کا استدلال ہے کہ طبِ نبوی کی تشکیل کا مقصد یونانی طب سے مخاصمت نہیں، بلکہ اس سے مفاہمت اور ہم آہنگی پیدا کرنا تھا 28۔ ان کے مطابق، یہ تحریک اس وقت شروع ہوئی جب کچھ عیسائی اطباء نے یہ کہہ کر اسلام پر تنقید کی کہ نبی اکرم ﷺ کی طبی ہدایات (مثلاً بعض احادیث) یونانی طب کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہیں، جس سے نبی ﷺ کی نبوت پر حرف آتا ہے۔ اس تنقید کے جواب میں، مسلم علماء نے نبوت کے دفاع میں طبِ نبوی کو ایک منظم شکل دی تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ وحی (طبِ نبوی) اور عقل (یونانی طب) میں کوئی تضاد نہیں ہے 28۔ اس نظریے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ طبِ نبوی پر لکھی گئی اہم کتب، جیسے ابن قیم الجوزیہ کی “الطب النبوی”، میں یونانی اطباء جیسے جالینوس اور بقراط کے حوالے کثرت سے اور بغیر کسی تنقید کے ملتے ہیں 28۔ یہ نظریہ اسلامی تہذیب کو ایک ایسی قوت کے طور پر دیکھتا ہے جو بیرونی علوم کو جذب کرکے انہیں اپنے اسلامی سانچے میں ڈھال لیتی ہے۔

ارتقائی نظریہ (The Evolutionary Thesis)

ایک زیادہ جدید اور متوازن نظریہ، جسے محقق گرینن (Grenon) نے پیش کیا، اس “مخالفت بمقابلہ مفاہمت” کی سادہ تقسیم سے آگے جاتا ہے۔ گرینن کے مطابق، طبِ نبوی کی صنف ایک ارتقائی عمل سے گزری جس کے چار مراحل تھے 35۔ یہ خالصتاً طبی احادیث کے مذہبی مجموعوں سے شروع ہوئی، اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بتدریج یونانی طبی نظریات شامل ہوتے گئے۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ یہ ایک خود مختار اور جامع طبی صنف (stand-alone genre) نہیں بن گئی جو مذہبی اور عقلی دونوں پہلوؤں کا احاطہ کرتی تھی 35۔ یہ ارتقائی ماڈل اس بحث کو حل کرنے کی ایک بہترین کوشش ہے کیونکہ یہ طبِ نبوی کو ایک جامد نظریے کے بجائے ایک متحرک اور تاریخی صنف کے طور پر دیکھتا ہے، جو مختلف تاریخی مراحل میں مختلف محرکات (کبھی دفاعی، کبھی مفاہمتی) کے تحت پروان چڑھی۔


حصہ سوم: اہم مستشرقین اور ان کی تحقیقات کا تفصیلی جائزہ

طبِ نبوی اور اسلامی طب پر مستشرقین کے عمومی نظریات کو سمجھنے کے بعد، اب چند کلیدی اور بااثر شخصیات کے کام کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے جنہوں نے اس میدان میں بحث کی سمت متعین کی۔

باب 5: ایڈورڈ جی. براؤن اور “عرب طب” کا تصور

ایڈورڈ گرینویل براؤن (Edward Granville Browne) بیسویں صدی کے اوائل کے ان مستشرقین میں سے ہیں جن کا کام “علمی استشراق” کی کلاسیکی مثال سمجھا جاتا ہے۔ ان کی سب سے اہم تصنیف “Arabian Medicine” (1921) ہے، جو ان کے فٹزپیٹرک لیکچرز پر مبنی تھی 36۔

براؤن نے “عرب طب” کی جو تعریف کی، وہ بعد کے مستشرقین کے لیے ایک بنیاد بن گئی۔ ان کے نزدیک، “عرب طب” سے مراد وہ طبی علم ہے جو عربی زبان میں لکھا گیا، لیکن اس کی اصل زیادہ تر یونانی ہے۔ اس میں ہندوستانی، فارسی اور شامی اثرات بھی شامل ہیں، لیکن یہ خود عرب ذہن کی پیداوار بہت کم ہے 20۔ براؤن کے مطابق، عرب طب کی تاریخی اہمیت اس کی اصلیت (originality) میں نہیں، بلکہ اس حقیقت میں ہے کہ اس نے تاریک ادوار (Dark Ages) میں یونانی حکمت کی شمع کو روشن رکھا اور اسے محفوظ کرکے یورپ تک منتقل کیا 20۔

طبِ نبوی کے موضوع پر براؤن کی تحریروں میں کوئی تفصیلی بحث نہیں ملتی۔ ان کی توجہ کا مرکز وہ “سائنسی” روایت تھی جو یونانی ورثے سے جڑی تھی، یعنی الرازی اور ابن سینا جیسے اطباء کا کام 20۔ تاہم، وہ نبی اکرم ﷺ کی حفظانِ صحت اور میانہ روی کی تعلیمات کے مثبت اثرات کا اعتراف کرتے ہیں 20۔ طبِ نبوی پر ان کی یہ خاموشی خود معنی خیز ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے نزدیک “حقیقی طب” وہی تھی جو یونانی عقلی فریم ورک کے اندر آتی ہو، اور جو کچھ اس سے باہر تھا، وہ ان کی علمی دلچسپی کے دائرے میں نہیں آتا تھا۔ براؤن کا کام، اگرچہ اپنے دور کے نوآبادیاتی تعصبات (جیسے اسلامی تہذیب کی اصلیت کو کم کرنا) سے خالی نہیں، لیکن اس میں اسلامی تہذیب کے “ترجمے اور ترسیل” کے عظیم کردار کی علمی قدردانی بھی موجود ہے۔

باب 6: سائرل الگڈ اور فارسی طب کی تاریخ

سائرل الگڈ (Cyril Elgood)، جو خود ایک طبیب اور برطانوی سفارت خانے سے وابستہ تھے، نے اسلامی طب کی تاریخ کو ایک منفرد زاویے سے دیکھا۔ اپنی کتاب “A Medical History of Persia and the Eastern Caliphate” (1951) میں انہوں نے اسلامی طب میں فارسی عنصر کی اہمیت کو اجاگر کیا 38۔

الگڈ کا کام کئی حوالوں سے براؤن اور دیگر مستشرقین کے “یونانی مرکزیت” (Greco-centrism) پر مبنی بیانیے کے لیے ایک چیلنج ہے۔ ان کا بنیادی استدلال یہ تھا کہ فارسی طبی روایت نہ صرف بہت قدیم تھی بلکہ بعض پہلوؤں میں یونانی طب سے زیادہ ترقی یافتہ تھی 38۔ انہوں نے اسلامی طب کی عظیم کامیابیوں کا سہرا بڑی حد تک فارسی اطباء (جیسے الرازی اور ابن سینا) اور جندی شاپور جیسے ساسانی دور کے علمی مراکز کو دیا، جنہوں نے اسلامی دور میں بھی اپنا کردار ادا کیا 40۔

الگڈ کو دیگر مستشرقین سے ممتاز کرنے والی ایک اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے طبِ نبوی پر بھی کام کیا اور اس کے ترجمے کیے 41۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ طبِ نبوی کو یکسر مسترد نہیں کرتے تھے، بلکہ شاید اسے اس وسیع تر طبی تاریخ کا حصہ سمجھتے تھے جسے وہ بیان کر رہے تھے۔ الگڈ کا نقطہ نظر اسلامی طب کو محض یونانی ورثے کے ایک شاخسانے کے طور پر دیکھنے کے بجائے ایک کثیر الثقافتی (multi-cultural) اور متنوع روایت کے طور پر پیش کرتا ہے، جس میں فارسی عنصر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا کام غالب مستشرقانہ بیانیوں کے مقابلے میں زیادہ جامع اور کم نظریاتی معلوم ہوتا ہے۔

باب 7: مینفرڈ اُلمان اور “اسلامی طب” کی یونانی اساس

جرمن ماہرِ لسانیات مینفرڈ اُلمان (Manfred Ullmann) کا شمار اسلامی طب کی تاریخ پر کام کرنے والے سب سے بااثر اور سخت گیر مستشرقین میں ہوتا ہے۔ ان کی بنیادی تصانیف “Die Medizin im Islam” (1970) اور اس کا انگریزی خلاصہ “Islamic Medicine” (1978) ہیں 25۔

اُلمان کا موقف انتہائی واضح اور دو ٹوک ہے۔ وہ اسلامی طب میں کسی بھی قسم کی اصلیت یا تخلیقی صلاحیت کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ ان کا مرکزی استدلال یہ ہے:

“‘اسلامی طب’ عربی سرزمین پر پروان نہیں چڑھی۔ بلکہ یہ قدیم یونانی طب ہے جسے نویں صدی عیسوی سے عربی زبان میں ڈھالا گیا۔ زبان کی رکاوٹ کو عبور کرنے سے اس کے مواد میں تقریباً کوئی تبدیلی نہیں آئی۔” 22

اُلمان کے نزدیک، اسلامی تہذیب کا واحد کارنامہ یونانی علم کو ترجمہ کے ذریعے محفوظ کرنا تھا۔ انہوں نے اسلامی طب میں ہونے والی ترقیوں کو معمولی قرار دیا 24۔ طبِ نبوی کے حوالے سے ان کا موقف وہی ہے جو “نظریہِ مخاصمت” کے تحت بیان ہوا ہے۔ وہ اسے یونانی طب پر مبنی “اسلامی طب” سے بالکل الگ، ایک غیر سائنسی، لوک اور مذہبی روایت سمجھتے ہیں، جو یونانی عقلیت کے خلاف ایک ردِ عمل کے طور پر ابھری 28۔

اُلمان کا کام مستشرقین کے اس مکتبہ فکر کی انتہا کی نمائندگی کرتا ہے جو اسلامی تہذیب کی تمام عقلی اور سائنسی کامیابیوں کو بیرونی (یعنی یونانی) اثرات کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ ان کا نقطہ نظر انتہائی تخفیفی (reductionist) ہے اور ایڈورڈ سعید کے بیان کردہ استشراقی فریم ورک پر پورا اترتا ہے، جہاں اسلامی تہذیب کی اپنی تخلیقی صلاحیت اور فکری جوہر کا مکمل انکار کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان کا کام اپنے وسیع حوالہ جات کی وجہ سے ناگزیر سمجھا جاتا ہے، لیکن بعد کے محققین جیسے پیٹر پورمن اور ایمللی سیویج-اسمتھ نے ان کے “حد سے زیادہ یونانی مرکزیت” والے نقطہ نظر پر شدید تنقید کی ہے 45۔


حصہ چہارم: عصری مباحث اور نتائج

باب 8: مستشرقین کے نظریات پر تنقید اور جدید تحقیق

بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں مستشرقین کے کلاسیکی نظریات، بالخصوص جوزف شاخت کے حدیث پر کام، کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس تنقید نے طبِ نبوی پر ان کے موقف کی بنیادوں کو بھی کمزور کیا ہے۔

مستشرقین کے نظریات کا تقابلی جائزہ

مندرجہ ذیل جدول کلیدی مستشرقین کے پیچیدہ نظریات کا ایک واضح اور جامع خلاصہ فراہم کرتا ہے تاکہ ان کے مابین فرق اور مماثلت کو آسانی سے سمجھا جا سکے۔

مستشرق (Orientalist)بنیادی تصنیف (Key Work)“اسلامی طب” پر نظریہ (View on “Islamic Medicine”)“طبِ نبوی” پر نظریہ (View on “Prophetic Medicine”)منہج اور بنیادی دلیل (Methodology and Core Argument)
ای. جی. براؤنArabian Medicine (1921)بنیادی طور پر یونانی طب کا ترجمہ اور ترسیل، اصلیت کم۔ 20براہِ راست بحث نہیں کی، اسے “سائنسی” طب سے الگ سمجھا۔تاریخی اور متنی تجزیہ؛ اسلامی تہذیب کے حفاظتی کردار پر زور۔
سائرل الگڈA Medical History of Persia (1951)فارسی طب کا تسلسل اور ترقی یافتہ شکل، یونانی اثرات کے ساتھ۔ 38اس کا ترجمہ کیا اور اسے وسیع تر طبی تاریخ کا حصہ سمجھا۔ 41تاریخی تحقیق؛ فارسی ماخذ اور ثقافتی تسلسل پر زور۔
مینفرڈ اُلمانIslamic Medicine (1978)مکمل طور پر یونانی طب کی نقل، کوئی اصلیت نہیں۔ 22یونانی طب کی مخالفت میں ابھرنے والی غیر سائنسی، لوک روایت۔ 28لسانیاتی اور متنی تنقید؛ یونانی ماخذ سے تقابل پر مبنی دلیل۔
جوزف شاختThe Origins of Muhammadan Jurisprudence (1950)(براہِ راست موضوع نہیں)(چونکہ حدیث مستند نہیں) یہ نبیﷺ سے منسوب نہیں، بلکہ لوک طب ہے۔ 26حدیث پر تنقید؛ دلیلِ سکوت اور مشترک راوی کا نظریہ۔ 31

شاخت کے نظریات پر تنقید اور اس کے اثرات

جوزف شاخت کے نظریات تقریباً نصف صدی تک مغربی علمی حلقوں میں مسلمہ حیثیت رکھتے تھے، لیکن بعد میں آنے والے محققین نے ان کے منہج اور نتائج دونوں کو چیلنج کیا۔ مسلم محققین میں ڈاکٹر محمد مصطفیٰ اعظمی نے اپنی کتاب “On Schacht’s Origins of Muhammadan Jurisprudence” میں اور مغربی محققین میں ہیرالڈ موٹزکی (Harald Motzki) نے اپنے مقالات میں شاخت کے منہج کی خامیوں کو उजागर کیا۔ انہوں نے ثابت کیا کہ شاخت کا “دلیلِ سکوت” کا استعمال ناقص تھا، وہ اکثر اپنے مطلب کے نتائج اخذ کرنے کے لیے متون کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کرتے تھے، اور یہ کہ احادیث کی تدوین اور قانونی فکر کا آغاز شاخت کی بیان کردہ تاریخ سے بہت پہلے ہو چکا تھا 31۔

اس تنقید کے طبِ نبوی کے مطالعے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چونکہ مستشرقین کا طبِ نبوی کو غیر تاریخی قرار دینے کا بنیادی انحصار شاخت کی حدیث پر تنقید پر تھا، لہٰذا جب شاخت کا منہج اور نتائج خود ناقص اور قابلِ اعتراض ثابت ہو جاتے ہیں، تو اس پر مبنی نتیجہ (کہ طبِ نبوی غیر تاریخی ہے) بھی اپنی فکری بنیاد کھو دیتا ہے۔ اس سے طبِ نبوی کی تاریخی حیثیت پر از سرِ نو غیر جانبدارانہ تحقیق کا دروازہ کھلتا ہے۔

طبِ نبوی پر جدید تحقیق

آج طبِ نبوی پر بحث “مستشرقین بمقابلہ مسلم دفاع” کے روایتی دائرے سے نکل کر ایک نئے بین العلومی (interdisciplinary) میدان میں داخل ہو رہی ہے۔

کچھ جدید مسلم محققین طبِ نبوی کو ثبوت پر مبنی طب (Evidence-Based Medicine – EBM) کے جدید سائنسی فریم ورک میں ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ احادیث میں مذکور جڑی بوٹیوں اور طریقوں پر لیبارٹری تحقیقات کر رہے ہیں 28۔ یہ کوشش خود ایک نئی بحث کو جنم دیتی ہے کہ کیا وحی پر مبنی ایک целостный (holistic) نظام کو خالصتاً تجرباتی اور مادی نظام کے ذریعے جانچا جا سکتا ہے 28۔

دوسری طرف، کچھ محققین طبِ نبوی کی روحانی اور نفسیاتی جہت پر زور دے رہے ہیں، جسے مستشرقین نے اکثر نظر انداز کیا 16۔ وہ اسے صرف بیماری کے علاج کے طور پر نہیں، بلکہ صحت اور فلاح (well-being) کے ایک جامع تصور کے طور پر دیکھتے ہیں جو جسم، دماغ اور روح کو مربوط کرتا ہے۔

تاریخی اور بشریاتی تحقیق اب اس سوال پر توجہ مرکوز کر رہی ہے کہ قرون وسطیٰ کے مسلم معاشرے میں طب کا تصور کیا تھا، اور طبِ نبوی نے ایک سماجی اور ثقافتی عمل کے طور پر کیا کردار ادا کیا۔ یہ سوالات پرانے استشراقی فریم ورک (عقل بمقابلہ وحی) سے کہیں زیادہ گہرے اور نتیجہ خیز ہیں۔

باب 9: حاصلِ بحث اور سفارشات

اس تفصیلی جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مستشرقین نے طبِ نبوی کو ایک پیچیدہ اور اکثر متنازعہ موضوع کے طور پر دیکھا ہے۔ ان کے کام کا خلاصہ درج ذیل نکات میں کیا جا سکتا ہے:

مرکزی بیانیہ: مستشرقین نے بالعموم طبِ نبوی کو “اسلامی طب” کے عقلی اور سائنسی فریم ورک کے مدِمقابل ایک الگ، مذہبی اور غیر سائنسی روایت کے طور پر پیش کیا۔ ان کے نزدیک “اسلامی طب” قابلِ قدر تھی کیونکہ وہ یونانی ورثے کا تسلسل تھی، جبکہ “طبِ نبوی” مشکوک تھی کیونکہ وہ حدیث پر مبنی تھی۔

نظریاتی بنیاد: ان کا یہ نقطہ نظر دو بنیادی ستونوں پر قائم تھا: اول، حدیثی لٹریچر کی استناد پر گہرے شکوک و شبہات، جنہیں جوزف شاخت نے اپنے نظریات کے ذریعے عروج پر پہنچایا۔ دوم، “عقل بمقابلہ وحی” کا مغربی علمی پیراڈائم، جس نے انہیں اسلامی تہذیب کے عقلی اور مذہبی عناصر کو دو متصادم خانوں میں تقسیم کرنے پر مجبور کیا۔

تنوع اور تضاد: تمام مستشرقین کا نقطہ نظر یکساں نہیں تھا۔ ایڈورڈ براؤن نے اسلامی طب کے حفاظتی کردار کو سراہا، سائرل الگڈ نے اس میں فارسی عنصر کی اہمیت کو اجاگر کیا، جبکہ مینفرڈ اُلمان نے اسے مکمل طور پر یونانی طب کی ایک نقل قرار دیا۔ یہ تنوع ان کے اپنے علمی پس منظر اور نظریاتی جھکاؤ کی عکاسی کرتا ہے۔

علمی اور نظریاتی امتزاج: مستشرقین کے کام میں علمی خدمات (جیسے نایاب مخطوطات کی تدوین اور ترجمہ) اور نظریاتی تعصبات (جیسے اسلامی تہذیب کی اصلیت کا انکار اور نوآبادیاتی سوچ) دونوں پہلو ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔ ان کے کام کو یکسر مسترد کرنا یا مکمل طور پر قبول کرنا، دونوں ہی غیر علمی رویے ہوں گے۔

مستقبل کی تحقیق کے لیے سفارشات

مستشرقین کے قائم کردہ فکری ڈھانچے پر تنقید اور جدید علمی پیشرفت کی روشنی میں، طبِ نبوی کے مستقبل کے مطالعے کے لیے درج ذیل سفارشات پیش کی جاتی ہیں:

بین العلومی تحقیق کی ضرورت: طبِ نبوی کا مطالعہ صرف دینیات یا تاریخ کے دائرے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ اس کے لیے ایک بین العلومی (interdisciplinary) اپروچ کی ضرورت ہے، جس میں تاریخ، طب، دوا سازی (pharmacology)، بشریات (anthropology) اور دینیات کے ماہرین مل کر کام کریں۔

روایتی تقسیم سے گریز: “مغرب بمقابلہ مشرق” یا “عقل بمقابلہ وحی” کی پرانی اور فرسودہ تقسیم سے آگے بڑھ کر طبِ نبوی کو اس کے اپنے تاریخی، ثقافتی اور روحانی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اسے ایک جامد مجموعے کے بجائے ایک متحرک روایت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے جس نے وقت کے ساتھ مختلف علمی روایات سے تعامل کیا۔

تنقیدی استفادہ: مستشرقین کے کام کو ایک تاریخی دستاویز کے طور پر پڑھنا چاہیے جو نہ صرف اسلامی طب بلکہ خود مغربی فکر کے ارتقاء کی بھی کہانی سناتا ہے۔ ان کے اٹھائے گئے سوالات اور ان کے فراہم کردہ مواد سے تنقیدی طور پر استفادہ کرتے ہوئے تحقیق کو آگے بڑھانا چاہیے۔

اصل ماخذ تک رسائی: سب سے اہم سفارش یہ ہے کہ مسلم محققین کو براہِ راست اصل عربی، فارسی اور شامی مخطوطات تک رسائی حاصل کرنی چاہیے تاکہ اسلامی طبی ورثے کی ایک ایسی تاریخ مرتب کی جا سکے جو مستشرقانہ تعبیرات کے بجائے خود اپنی روایت کی بنیاد پر قائم ہو۔

Works cited

استشراق اور مستشرقین کا تعارف – حسین انصاریان, accessed July 15, 2025, https://erfan.ir/urdu/50514.html

تحریکِ استشراق اور اس کے اہداف و مقاصد – حافظ محمد سمیع اللہ فراز, accessed July 15, 2025, https://alsharia.org/2004/oct/tehreek-e-istishraq-aur-us-ke-ahdaaf

مستشرقین کی تعریف | PDF – Scribd, accessed July 15, 2025, https://www.scribd.com/document/824219732/%D9%85%D8%B3%D8%AA%D8%B4%D8%B1%D9%82%DB%8C%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%B9%D8%B1%DB%8C%D9%81

استشراق – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 15, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B4%D8%B1%D8%A7%D9%82

ہندوستان میں مستشرقین کا چیلنج اور علماء کی ذمہ داری – Darul Uloom Deoband, accessed July 15, 2025, https://darululoom-deoband.com/urduarticles/archives/513

استشراق اور مستشرقین کے اہداف ومقاصد #islam #1k #foryou – YouTube, accessed July 15, 2025, https://www.youtube.com/watch?v=jItwFB4BXJk

استشراق:02:Orientalism | ارتقاءِ حيات – WordPress.com, accessed July 15, 2025, https://tehreemtariq.wordpress.com/2013/08/21/%D8%A7%D8%B3%D8%AA%D8%B4%D8%B1%D8%A7%D9%8202orientalism/

Orientalism: Definition, History, Explanation, Examples And Criticism – ScienceABC, accessed July 15, 2025, https://www.scienceabc.com/social-science/what-is-orientalism.html

Orientalism – Postcolonial Studies – ScholarBlogs, accessed July 15, 2025, https://scholarblogs.emory.edu/postcolonialstudies/2014/06/21/orientalism/

Analysis of Edward Said’s Orientalism – Literary Theory and Criticism, accessed July 15, 2025, https://literariness.org/2020/11/10/analysis-of-edward-saids-orientalism/

Orientalist’s Reaction on The Hadīth Literature: A Brief Study of the Contribution of Ignaz Goldziher – Muslim Societies, accessed July 15, 2025, https://www.muslimsocieties.org/orientalists-reaction-on-the-hadith-literature-a-brief-study-of-the-contribution-of-ignaz-goldziher/

طب نبوی – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed July 15, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B7%D8%A8_%D9%86%D8%A8%D9%88%DB%8C

Prophetic medicine – Wikipedia, accessed July 15, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Prophetic_medicine

ہماری صحت اور طبِ نبوی – ایکسپریس اردو – Express.pk, accessed July 15, 2025, https://www.express.pk/story/1807906/hmary-sht-awr-tb-nbwy-1807906

طب کے متعلق چند اسلامی ہدایات – محمد یاسر عبد اللہ, accessed July 15, 2025, https://www.madarisweb.com/ur/articles/5705

Tibb-e-Nabawi: Healing by ISLAM, accessed July 15, 2025, https://tibbenabawi.org/

طب اور علاج معالجہ سے متعلق احادیث کا درجہ! | جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن, accessed July 15, 2025, https://www.banuri.edu.pk/bayyinat-detail/%D8%B7%D8%A8-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B9%D9%84%D8%A7%D8%AC-%D9%85%D8%B9%D8%A7%D9%84%D8%AC%DB%81-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D8%A7%D8%AD%D8%A7%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%DA%A9%D8%A7-%D8%AF%D8%B1%D8%AC%DB%81

Medicine in the medieval Islamic world – Wikipedia, accessed July 15, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Medicine_in_the_medieval_Islamic_world

اسپیشل فیچرز :- علم طب اور عہد نبویؐ – Roznama Dunya, accessed July 15, 2025, https://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2022-04-06/25750

Untitled – Islamic Philosophy Online, accessed July 15, 2025, http://www.muslimphilosophy.com/hmp/LXVII-Sixty-seven.pdf

arabian medicine, accessed July 15, 2025, https://ia601407.us.archive.org/16/items/in.ernet.dli.2015.145372/2015.145372.Arabian-Medicine.pdf

Islamic Medicine 9781474473378 – DOKUMEN.PUB, accessed July 15, 2025, https://dokumen.pub/islamic-medicine-9781474473378.html

The Canon of Medicine | work by Avicenna – Britannica, accessed July 15, 2025, https://www.britannica.com/topic/The-Canon-of-Medicine

Medieval Islamic medicine – A book review, accessed July 15, 2025, https://www.jbima.com/article/medieval-islamic-medicine-a-book-review/

Ullmann 1997 – Islamic Medicine | PDF | Translations | Caliphate – Scribd, accessed July 15, 2025, https://www.scribd.com/document/376609493/Ullmann-1997-Islamic-Medicine

Critical Perspectives .. “The Prophetic Medicine”: Its Concept and Origin, accessed July 15, 2025, https://alandalusacademy.com/critical-perspectives-the-prophetic-medicine-its-concept-and-origin/

MEDICINE IN MEDIEVAL ISLAM (Chapter 5) – The Cambridge History of Science, accessed July 15, 2025, https://www.cambridge.org/core/books/cambridge-history-of-science/medicine-in-medieval-islam/B5CED270387C3D73CAF4439CD8716E31

(PDF) Prophetic Medicine: Building an Epistemological Framework to Overcome the Conflict between Religion and Evidence – ResearchGate, accessed July 15, 2025, https://www.researchgate.net/publication/360964084_Prophetic_Medicine_Building_an_Epistemological_Framework_to_Overcome_the_Conflict_between_Religion_and_Evidence-_Based_Medicine

Arab or Islamic Medicine? – PMC, accessed July 15, 2025, https://pmc.ncbi.nlm.nih.gov/articles/PMC3621227/

Prophetic Medicine, Islamic Medicine, Traditional Arabic and Islamic Medicine (TAIM): Revisiting Concepts and Definitions – Acta Scientific, accessed July 15, 2025, https://actascientific.com/ASMS/pdf/ASMS-03-0347.pdf

Analyzing Schacht’s Theory and Two of His Critiques: Azami and …, accessed July 15, 2025, https://www.ilmgate.org/analyzing-schachts-theory-and-two-of-his-critiques-azami-and-motzki/

A Critical study of the Methodology of Joseph Schacht in Hadith’s Research – ResearchGate, accessed July 15, 2025, https://www.researchgate.net/publication/364396579_A_Critical_study_of_the_Methodology_of_Joseph_Schacht_in_Hadith’s_Research

Joseph Schacht – Wikipedia, accessed July 15, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Joseph_Schacht

A Critical study of the Methodology of Joseph Schacht in Hadith’s Research | DefinePK, accessed July 15, 2025, https://m.asianindexing.com/article.php?jid=255&id=47522

Compete or Complete: A Contextualist Approach on Prophetic Medicine Philippe Grenon – McGill eScholarship, accessed July 15, 2025, https://escholarship.mcgill.ca/downloads/pn89d896m?locale=en

Browne, Edward Granville, 1862-1926 – The Online Books Page, accessed July 15, 2025, https://onlinebooks.library.upenn.edu/webbin/book/lookupname?key=Browne%2C%20Edward%20Granville%2C%201862%2D1926

Full text of “Arabian medicine, being the Fitzpatrick lectures …, accessed July 15, 2025, https://archive.org/stream/arabianmedicineb00brow/arabianmedicineb00brow_djvu.txt

A Medical History of Persia and the Eastern Caliphate: From the Earliest Times Until the Year A.D. 1932 – ResearchGate, accessed July 15, 2025, https://www.researchgate.net/publication/313387228_A_medical_history_of_Persia_and_the_eastern_caliphate_From_the_earliest_times_until_the_year_AD_1932

A Medical History of Persia and the Eastern Caliphate from the Earliest Times until the Year A.D. 1932 | Cyril Elgood, accessed July 15, 2025, https://www.alexandremaps.com/pages/books/B6961/cyril-elgood/a-medical-history-of-persia-and-the-eastern-caliphate-from-the-earliest-times-until-the-year-a-d-1932

ig4 Journal of the History of Medicine: SPRING 1952, accessed July 15, 2025, https://academic.oup.com/jhmas/article-pdf/VII/2/194/9834799/194.pdf

Cyril Elgood – Wikipedia, accessed July 15, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Cyril_Elgood

The Physicians of Jundishapur, accessed July 15, 2025, https://bpb-us-e2.wpmucdn.com/sites.uci.edu/dist/c/347/files/2020/01/e-sasanika-GP1-Taylor.pdf

Islamic Medicine – Edinburgh University Press, accessed July 15, 2025, https://edinburghuniversitypress.com/book-islamic-medicine.html

Die Medizin im Islam – Brill, accessed July 15, 2025, https://brill.com/display/title/5924

Medieval Islamic Medicine (review) – Project MUSE, accessed July 15, 2025, https://muse.jhu.edu/article/247603/summary

The Origins and Evolution of Islamic Law – Assets – Cambridge University Press, accessed July 15, 2025, https://assets.cambridge.org/052180/3322/excerpt/0521803322_excerpt.htm

THE ORIGINS AND EVOLUTION OF ISLAMIC LAW – Studies in Hadith – Traditions of Prophet Muhammad, accessed July 15, 2025, http://www.hadith-studies.com/Hallaq-Origins-Evolution-Islamic-Law.pdf

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Instagram