طاقت کیسے حاصل کی جائے؟
{طاقت کیسے حاصل کی جائے}
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی @ﷺکاہنہ نولاہور پاکستان
اگر کوئی انسان کسی بات کو کرنا چاہے اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی
،وہ رسمی طور پر اعمال کے موثر ہونے کا دعویدار ہویانہ ہو،
عملیات تو انہیں خفتہ صلاحتیوں کو بیدار کرنے کا نام ہے
جو روز اول سے اس کے اندر رکھدی گئی ہیں،ہر مذہب نے
انکی بیداری کے لئے مختلف طریقے اور مشقیں وضع کی ہیں جو انکی کتب کے مطالعہ سے سامنے آسکتی ہیں
یہ بھی پڑھیں
فہرست تصنیفات و تالیفات حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
،
ایک ہندو وہی کام جس تپسیا سے کرتا ہے ایک مسلمان اسکے لئے دوسرا طریقہ اختیار کر تاہے
ایک مسیحی کا انداز اس بارہ میں الگ ہے ،جبکہ کام سب کا ایک ہی ہے ،
روحانیات میں جو مقام ایک مسلمان کاہے وہ ایک غیر مسلم تصور بھی نہیں کرسکتا
،دنیاوی کاموں کا ہونانہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے ،
یہ بات دوسری یہ ہے کہ ایک کام کو ذہن پر اس انداز میں سوار کرلیاجاتاہے
کہ دوسری تمام باتیںاس وقت اپنی اہمیت کم کردیتی ہیں وقت انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے
،وقت کے ساتھ ساتھ کام کی اہمیت کم ہونا شروع ہوجاتی ہے
، روحانیات کام کرنے نہ کرنے کا نام نہیںجو کام ہونے نہ ہونے کو روحانیات کا نام دیتے ہیں
وہ روحانیات کی حقیقت سے نابلد ہیں ،لیکن جب خداقران ا ور رسول کی بات آگے آجائے
تو اسے بھی روحانیات کانام دیاجاتاہے اوردر حقیقت یہی روحانیت ہے،عملیات توایک فروعی بات ہے،
کتب صوفیہ میں ایسے ایسے لوگ بھی گذرے ہیں جو مقام ولایت پر فائز رہے
لیکن ساری زندگی کس مہ پرسی کی حالت میں بسرکی،دوسروں کے لئے وہ پارس بنے رہے
خود نان شبینہ سے تنگ رہے ،انہیں اپنی خوشی اسی میں نظر آئی کہ دنیا کی طرف نگاہ بھر کے بھی نہ دیکھیں۔
کسی کے ماننے یا نہ ماننے سے حقیقت بدل نہیں جایاکرتی،پھر ہر ایک کا اپنا اپنا نکتہ نگاہ ہے
ہماری تحریر میں بھی آپ کو ایسے مجربات و عملیات ملیں گے جنہیں پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے
اگر انہیں کرلیا جائے تو زندگی میں اور کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیںہے ،اورکچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ،
جب کہ عاملین العطش والجوع کا نعرہ مستانہ بلند کرتے رہتے ہیں
،اگر لکھے ہوئے پر جائیں تو ایک عمل ہی زندگی کے لئے کفایت کر جائے
لیکن ایسا نہیں ہے، اسکی وجہ یہ ہے عاملین نے عمل کو بھی اپنے ذہنوں کے مطابق محدود کرلیا ہے
جب کہ اثرات زمان و مکان کی قیود سے مبراء ہوتے ہیں ،
البتہ یہ دیکھنے میں آیاہے کہ جب کسی کو کوئی طاقت ملتی ہے تو وہ احساس ذمہ داری محسوس کرتاہے
،پھر جس خدا نے یہ طاقت اسے بخشی ہے وہ اس کے سلب پر بھی قادر ہے
،کلام تو ایک تلوار ہے جس کا کام کاٹنا ہے اس سے کسی کا سر کاٹو یا درخت کی شاخ
یا اس کی دھار کو دشمن کی سرکوبی کے لئے محفوظ کرلو کسی پر کوئی قد غن نہیں ہے۔