شراب کے مفاسد اور فوائد میں موازنہ
شراب کے مفاسد اور فوائد میں موازنہ
تحریر:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی: سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور پاکستان
اس آیت میں شراب اور قمار دونوں کے متعلق قرآن کریم نے یہ بتلایا ہے کہ ان دونوں میں کچھ مفاسد بھی ہیں اور کچھ فوائد بھی، مگر اس کے مفاسد فوائد سے بڑھے ہوئے ہیں، اس لیے ضرورت ہے کہ اس پر نظر ڈالی جائے کہ ان کے فوائد کیا ہیں اور مفاسد کیا، اور پھر یہ کہ فوائد سے زیادہ مفاسد ہونے کے کیا وجوہ ہیں، آخر میں چند فقہی ضابطے بیان کیے جائیں گے جو اس آیت سے مستفاد ہوتے ہیں۔
پہلے شراب کو لے لیجیے، اس کے فوائد تو عام لوگوں میں مشہور و معروف ہیں کہ اس سے لذت و فرحت حاصل ہوتی ہے، اور وقتی طور پر تو قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے، رنگ صاف ہوجاتا ہے، مگر ان حقیر وقتی فوائد کے مقابلے میں اس کے مفاسد اتنے کثیر وسیع اور گہرے ہیں کہ شاید کسی دوسری چیز میں اتنے مفاسد اور مضرات نہ ہوں گے،
بدنِ انسانی پر شراب کے مضرات یہ ہیں کہ وہ رفتہ رفتہ معدے کے فعل کو فاسد کردیتی ہے، کھانے کی خواہش کم کردیتی ہے، چہرے کی ہیئت بگاڑ دیتی ہے، پیٹ بڑھ جاتا ہے، مجموعی حیثیت سے تمام قویٰ پر یہ اثر ہوتا ہے کہ جو ایک جرمنی ڈاکٹر نے بیان کیا ہے کہ ” جو شخص شراب کا عادی ہو چالیس سال کی عمر میں اس کے بدن کی ساخت ایسی ہوجاتی ہے جیسے ساٹھ سالہ بوڑھے کی “ وہ جسمانی اور قوت کے اعتبار سے سٹھیائے ہوئے بوڑھوں کی طرح ہوجاتا ہے، اس کے علاوہ شراب جگر اور گردوں کو خراب کردیتی ہے، سل کی بیماری شراب کا خاص اثر ہے، یورپ کے شہروں میں سل کی کثرت کا بڑا سبب شراب ہی کو بتلایا جاتا ہے، وہاں کے بعضے ڈاکٹروں کا قول ہے کہ یورپ میں آدھی اموات مرض سل میں ہوتی ہیں، اور آدھی دوسرے امراض میں، اور اس بیماری کی کثرت یورپ میں اسی وقت سے ہوئی جب سے وہاں شراب کی کثرت ہوئی۔
یہ تو شراب کی جسمانی اور بدنی مضرتیں ہیں اب عقل پر اس کی مضرت کو تو ہر شخص جانتا ہے، مگر صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ شراب پی کر جب تک نشہ رہتا ہے اس وقت تک عقل کام نہیں کرتی، لیکن اہل تجربہ اور ڈاکٹروں کی تحقیق یہ ہے کہ نشہ کی عادت خود قوت عاقلہ کو بھی ضعیف کردیتی ہے جس کا اثر ہوش میں آنے کے بعد بھی رہتا ہے، بعض اوقات جنون تک اس کی نوبت پہنچ جاتی ہے،
اطباء اور ڈاکٹروں کا اتفاق ہے کہ شراب نہ جزو بدن بنتی ہے اور نہ اس سے خون بنتا ہے، جس کی وجہ سے بدن میں طاقت آئے بلکہ اس کا فعل صرف یہ ہوتا ہے کہ خون میں ہیجان پیدا کردیتی ہے جس سے وقتی طور پر قوت کی زیادتی محسوس ہونے لگتی ہے، اور یہی خون کا دفعۃً ہیجان بعض اوقات اچانک موت کا سبب بھی بن جاتا ہے، جس کو ڈاکٹر ہارٹ فیل ہونے سے تعبیر کرتے ہیں۔
شراب سے شرائین یعنی وہ رگیں جن کے ذریعے سارے بدن میں روح پہنچتی ہے سخت ہوجاتی ہیں جس سے بڑھاپا جلدی آجاتا ہے، شراب کا اثر انسان کے حلقوم اور تنفس پر بھی خراب ہوتا ہے جس کی وجہ سے آواز بھاری ہوجاتی ہے اور کھانسی دائمی ہوجاتی ہے، اور وہی آخر کار سل تک نوبت پہنچا دیتی ہے، شراب کا اثر نسل پر بھی برا پڑتا ہے، شرابی کی اولاد کمزور رہتی ہے اور بعض اوقات اس کا نتیجہ قطع نسل تک پہنچتا ہے۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ شراب پینے کی ابتدائی حالت میں بظاہر انسان اپنے جسم میں چستی و چالاکی اور قوت محسوس کرتا ہے، اس لیے بعض لوگ جو اس میں مبتلا ہوتے ہیں وہ ان طبعی حقائق کا انکار کرتے ہیں، لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شراب کا یہ زہر ایسا زہر ہے جس کا اثر تدریجی طور پر ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے، اور کچھ عرصہ کے بعد یہ سب مضرتیں مشاہدہ میں آجاتی ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔
شراب کا ایک بڑا مفسدہ تمدنی یہ ہے کہ وہ اکثر لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے، اور پھر یہ بغض و عداوت دور تک انسان کو نقصان پہنچاتی ہیں، شریعت اسلام کی نظر میں یہ مفسدہ سب سے بڑا ہے اس لیے قرآن نے سورہ مائدہ میں خصوصیت کے ساتھ اس مفسدہ کا ذکر فرمایا ہے، اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَاۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِوَالْمَیْسِر ” یعنی شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے آپس میں بغض و عداوت پیدا کر دے “۔
شراب کا ایک مفسدہ یہ بھی ہے کہ مدہوشی کے عالم میں بعض اوقات آدمی اپنا پوشیدہ راز بیان کر ڈالتا ہے جس کی مضرت اکثر بڑی تباہ کن ہوتی ہے، خصوصاً وہ اگر کسی حکومت کا ذمہ دار آدمی ہے اور راز بھی حکومت کا راز ہے جس کے اظہار سے پورے ملک میں انقلاب آسکتا ہے اور ملکی سیاست اور جنگی مصالح سب برباد ہوجاتے ہیں، ہوشیار جاسوس ایسے مواقع کے منتظر رہتے ہیں۔
شراب کا ایک مفسدہ یہ بھی ہے کہ وہ انسان کو ایک کھلونا بنا دیتی ہے، جس کو دیکھ کر بچے بھی ہنستے ہیں، کیونکہ اس کا کلام اور اس کی حرکات سب غیر متوازن ہوجاتی ہیں، شراب کا ایک عظیم تر مفسدہ یہ ہے کہ وہ اُم الخبائث ہے، انسان کو تمام برے سے برے جرائم پر آمادہ کردیتی ہے، زنا اور قتل اکثر اس کے نتائج ہوتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ عام شراب خانے زنا اور قتل کے اڈے ہوتے ہیں، یہ شراب کی جسمانی مضرتیں ہیں، اور اس کی روحانی مضرت تو ظاہر ہی ہے، کہ نشہ کی حالت میں نہ نماز ہوسکتی ہے، نہ اللہ کا ذکر نہ اور کوئی عبادت، اسی لیے قرآن کریم میں شراب کی مضرت کے بیان میں فرمایا : وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ ” یعنی شراب تم کو ذکر اللہ اور نماز سے روکتی ہے “۔
اب مالی مضرت اور نقصان کا حال سنیے جس کو ہر شخص جانتا ہے، کسی بستی میں اگر ایک شراب خانہ کھل جاتا ہے تو وہ بستی کی دولت کو سمیٹ لیتا ہے، اس کی قسمیں بیشمار ہیں اور بعض اقسام تو بےحد گراں ہیں بعض اعداد و شمار لکھنے والوں نے صرف ایک شہر میں شراب کا مجموعی خرچہ پوری مملکت فرانس کے مجموعی خرچ کے برابر بتلایا ہے۔
یہ شراب کے دینی، دنیوی ، جسمانی اور روحانی مفاسد کی مختصر فہرست ہے، جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک کلمہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ” اُم الخبائث “ یا ” ام الفواحش “ ہے جرمنی کے ایک ڈاکٹر کا یہ مقولہ ضرب المثل کی طرح مشہور ہے کہ اس نے کہا کہ اگر آدھے شراب خانے بند کر دئیے جائیں تو اس کی میں ضمانت لیتا ہوں کہ آدھے شفا خانے اور آدھے جیل خانے بےضرورت ہو کر بند ہوجائیں گے۔ (تفسیر المنار لمفتی عبدہ ص ٢٢٦، ج ٢)
علامہ طنطاوی (رح) نے اپنی کتاب الجواہر میں اس سلسلے کی چند اہم معلومات لکھی ہیں ان میں سے بعض یہاں نقل کی جاتی ہیں :
ایک فرانسیسی محقق ہنری اپنی کتاب ” خواطر و سوانح فی الاسلام “ میں لکھتے ہیں : ” بہت زیادہ مہلک ہتھیار جس سے اہل مشرق کی بیخ کنی کی گئی اور وہ دو دھاری تلوار جس سے مسلمانوں کو قتل کیا گیا، یہ شراب تھی، ہم نے الجزائر کے لوگوں کے خلاف یہ ہتھیار آزمایا، لیکن ان کی اسلامی شریعت ہمارے راستہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہوگئی، اور وہ ہمارے اس ہتھیار سے متاثر نہیں ہوئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی نسل بڑھتی ہی چلی گئی، یہ لوگ اگر ہمارے اس تحفہ کو قبول کرلیتے جس طرح کہ ان کے ایک منافق قبیلے نے اس کو قبول کرلیا ہے تو یہ بھی ہمارے سامنے ذلیل و خوار ہوجاتے، آج جن لوگوں کے گھروں میں ہماری شراب کے دور چل رہے ہیں وہ ہمارے سامنے اتنے حقیر و ذلیل ہوگئے ہیں کہ سر نہیں اٹھا سکتے “۔
ایک انگریز قانون دان بنتام لکھتے ہیں کہ :
” اسلامی شریعت کی بیشمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں شراب حرام ہے ہم نے دیکھا کہ جب افریقہ کے لوگوں نے اسے استعمال کرنا شروع کیا تو ان کی نسلوں میں پاگل پن سرایت کرنے لگا، اور یورپ کے جن لوگوں کو اس کا چسکہ لگ گیا ان کی بھی عقلوں میں تغیر آنے لگا، لہٰذا افریقہ کے لوگوں کے لیے بھی اس کی ممانعت ہونی چاہیے، اور یورپین لوگوں کو بھی اس پر شدید سزائیں دینی چاہئیں “۔
غرض جس بھلے مانس نے بھی ٹھنڈے دل سے غور کیا وہ بےاختیار پکار اٹھا کہ یہ رجس ہے، شیطانی عمل ہے، زہر ہے، تباہی اور بربادی کا ذریعہ ہے، اس ام الخبائث سے باز آجاؤ، فھل انتم منتھون۔ (نکات القران)