سیرت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ادھورا تصور
سیرت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ادھورا تصور
از حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
بسمہ تعالیٰ
خلیفہ ثالث داماد رسول۔ذو النورین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے یوم شہادت کے موقع پر بے شما رلوگوں نے پوسٹیں لگائیں ،بے شمار بیانات آئے۔جن میں تین چیزوں کو نمایاں کیا گیا تھا ۔(1)حیاء۔(2)شرف دامادی گھرانہ نبوت۔(3)شہادت کے وقت پیاس ۔ ۔ ایک ایسا تاثر ملتا ہے کہ حضرت عثمان کے فضائل میں بیعت روان پانی کا بند ہونا ۔ باحیاء ہو نا ہی ان کی عظمت ہے۔
یہ باتیں ایک وقت تک لوگوں کے حالات و مزاج سے میل کھاتی تھیں۔لوگ ان کی عظمت کے قائل ہوجاتے تھےمثلاََ پہلے عمومی طورپر پانی کی دستیابی اس قدر نہ تھی۔لوگ پیاس کا م فہوم سمجھتے تھےجیسے کربلاء کے موقعے پر سمجھایا جاتا ہے۔
دوسری بات حیاء کا ہونا ،شرف دامادی گھرانہ نبوت ہونا۔ بہت بڑی عظمتیںہیں۔لیکن لوگوں نے دامادی کو اس قدر ہلکا لینا شروع کردیا ہے کہ۔اب لڑکی والوں کو کمزور و لاچار سمجھا جاتا ہے،یعنی اس مقدس رشتے کو صدیوں پہلے دئے جانے والے احترام سے فارغ کردیا گیا ہے۔یقین نہیں آتا تو طلاق و خلع کے کیسوں کی فہرست دیکھ لیں۔۔۔رہی بات حیاء کی تو اس وقت حیاء کی جو کیفیت ہے، اس سے ہر کوئی باخوبی واقف ہے۔کہ جب میڈیا کی رسائی نے ہمارے چادر و چار دیواری کو پامال کرتے ہوئے ہماری سوچ نظریات،افکار۔کو مسخ کرکے رکھ دیا ہے،ایسے میں حیاء کے مفہوم کو سمجھنا نسل نو کے لئے وہ اہمیت نہیں رکھتا جو اس کا حق بنتا ہے۔
ہمیں چاہئے۔۔۔۔
ان اشیاء کوا جاگر کرنے کے لئے سب سے پہلے ہم ان موضوعات کو سامنے لائیں جنہیں آج کی نسل اہم سمجھتی ہے،مثلاََ روپیہ، پیسہ والی کی اہمیت ۔ایک مالدار حکمران کا کردار،جب حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنا، اس کے کردار کا تعین، اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا زیر بحث مسئلہ بنا ہوا ہے ۔حضرت عثمان جس طرح کامیاب تاجر تھے، باحیاء کردار کے مالک تھے۔اسی طرح وہ کامیاب حکمران بھی تھے،ان کے دور خلافت میں عظیم فتوحات ہوئیں ۔ان کا اقتصادی نظام کی پالیسیاں کیا تھیں۔ان کی خارجہ و داخلہ پالیسیاں کیا تھیں۔ طرز حکومت کو کس انداز میں نہج نبوت پر قائم رکھا ہوا تھا۔جب کہ دنیا کی سوچ ۔مزاج۔اور فتوحات کی وجہ سےجغرافیائی نقشہ تیزی سے بدل رہا تھا۔ایک ریاست کو اسی محور پر لیکر چلانا جو دور نبوت اور پہلے دو خلفاء میں قائم ہوچکا تھا۔کیونکہ دور عثمانی کی طرح دنیا کا نقشہ آج بھی اسی تیزی سے بدل رہا ہے۔ اس بدلتی دنیا کو اسی محور و سوچ پر قائم رکھنا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ جب لکھنے والوں کے سامنے سیرت عثمان ہوتو ان امور پر ضرور توجہ فرمائیں۔بچپن سے سیرت عثمان کے حوالے سے وہی چند فضائل والی احادیث سننے اور پڑھنے کو مل رہی ہیں، ان کی اہمیت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔لیکن جب عثمان نے دنیا کے نقشے کی سرعت کے ساتھ تبدیلی کو اپنے معاشرہ پر منطبق کرےتے ہوئے بہترین منتظم کا کردار ادا کیا ۔لکھنےوالوں کو اس طرف بھی دھیان دینا چاہئے۔نعرہ لگاتے ہیں ہم خلافت راشدہ میں خلافت عثمانی کا ،لیکن لوازمات خلافت،امور سلطنت،امور عدالت،خارجہ و داخلہ پالیسیاں،اقتصادی نظام وغیرہ پر لکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔ہم نے فضائل کو اس قدر اہم بنا دیا کہ اصل خوبی نظروں سے اوجھل ہوکر رہ گئی ہے ۔ کسی سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ عثمان کون تھے؟ وہ کہیں گے صحابی رسول۔داماد رسول ،باحیاء انسان اور سخی تھے ۔انہیں آخری لمحات میں پیاس کی اذیت سے گزرنا پڑا۔وہ مظلوم تھے، جنہیں دفنانے کفنانے کے لئے بھی کسی میں حوصلہ نہ تھا۔کتنا ادھورا تصور ہے، سیرت عثمانی کا،عثمان کی شخصیت تو اس قدر اہم ہے کہ ان کی سفارت کاری کی وجہ سےاہل عرب بالخصو ص اہل مکہ کی پالیسیاں تبدیل ہوکر رہ گئیں تھیں۔بیعت رضوان کا تاریخ ساز فیصلہ ہوا تھا۔ (القران )
خلفائے راشدین میں سے حضرت عثمان کو سب سے زیادہ مدت حکومت ملی ۔کثرت سے فتوحات ہوئیں۔فوج کا اہم حصہ بحری لشکر کی بنیاد رکھی گئی۔ایک ہم ہیں کہ ان تمام خوبیوں کو فضائل کی دبیز چادر میں لپیٹ کر رکھ دیاگیا ہے ،ایک عظیم الشان سلطنت کے پورے نظم و نسق کو فضائل و مراتب کے خول میں چھپا دیا ہے۔موضوع ہمار ا خلافت راشدہ ہوتا ہے۔اور بیان فضائل کئے جاتے ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ مزاج کی سادگی کی وجہ سے خلافت کے ان جواہر و کمالات کو مسطور کردیا ہے، جنہیں بیان کئے بغیر خلافت کا حقیقی تصور و خاکہ سامنے آنا مشکل ہے۔اس وقت تحقیق کے لئے بہت آسانیاں پیدا ہوچکی ہیں، ڈیجیٹل دوائسز کی مدد سے نایاب تحقیقی مواد تک رسائی حاصل ہوچکی ہے۔اپنے اور بےگانوں کی تمام کتب دسترس میں آچکی ہیں،ہمیں چاہئے کہ اس ادھورے تصور کر مکمل کریں ۔ختم نبوت کی برکت سے انہیں جو مقام ،فضائل و مراتب ملے تھے ان سے مفر نہیں ۔ لیکن کیا ان کی ذاتی خصوصیات اور کرداری بلندیاں،دستور حکمرانی،بین الاقوامی ، اقتصادی ، معاشرتی،تمدنی تصورات و قوانین اس قابل نہیں کہ دنیا کے سامنے ان کی تفصیل پیش کی جائے۔
اس وقت تحریر و تقریر میں خلافت راشدہ کا جو تصور پیش کیا جارہا ہے وہ ایسا ادھورا اور نامکمل تصور ہے جس کی بنیاد پر ایک دنیا دار حکمران کے لئے اس پر عمل پیدا ہونا دشوار معلوم ہوتا ہے،کیونکہ بیان کئے فضائل اور خلافت راشدہ کا جو تصور تحریر و تقریر میں پیش کیا جاتا ہے وہ حکمرانوں کے لئے تو کیا اچھے بھلے مذہبی مقتی لوگوں کے لئے بھی اپنانا مشکل ہے۔جب خلافت کی اس ادھوری تصویر کو سامنے رکھ کر ارباب حکومت سوچتے ہیں تو اپنے آپ کو لاچار پاتے ہیں،۔عجیب روش ہے مسلمانوں نے طرز حکومت اور خلافت کو بھی تصوف بناکر پیش کیا ہے،جبکہ خلافت و حکومت کے لئے درکار لوازیات کو بیان کرنا خلاف شان سمجھا جاتا ہے ہمیں چاہئے اس وقت خلافت راشدہ بالخصوص خلافت عثمانی کا وہ پہلو اجاگر کریں جس میں ان کی بہترین طرز حکومت کا شفاف تصور سامنے آئے۔انکی عدالت و انصاف کاواضح کاکہ ابھرے۔