- Home
- Hakeem Qari Younas حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
- سٹوڈنٹ اتحاد پنچ ...


سٹوڈنٹ اتحاد پنچاپ یونیورسٹی لاہور گرینڈ افطاری ” دوسرا حصہ
(میزبان طلباء کا تعارف،اور ان کا تعلیمی و معاشرتی پس منظر)
میو قوم کے لئے لمحہ فکریہ
جنہیں میں ڈھونڈھتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانۂ دل کے مکینوں میں
میو قوم کی بیداری کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جامعہ پنجاب جیسی مادر عملی میں اپنے وجود کی نشان دہی کی۔
حاضرین اور میڈیا کی موجودگی نے اس مبارک مجلس کو دنیا بھر میں میو قوم جت تشخص کی بہترین تصویر پیش کی ۔راقم الحروف تنہائی پسند ہے اس لئے کم لوگوں سے واسطہ رہتا ہے۔جب بلایا جائے تو میو قوم کے لئے سر کے بل چل کے جاتا ہوں۔خوامخواہ بن بلائے جانا مناسب خیال نہیں کرتا۔والد محترم مرحوم کا قول تھا کہ ہم تو مسجد میں موذن کے بلاوے پر جاتے ہیں۔پھر دوسروں کی اوقات کیا؟۔

جواب طلباء سے ایک دو محافل میں ملاقات ہوئی سرسری تعارف بھی ہوا۔مجھے معلوم نہ تھا کہ ایک دن مجھے ان لوگوں کا داد دینا پڑے گی۔اس لئے سب کے نام یاد رکھنا مشکل تھا۔اس سلسلہ میں عاصد میو اور مشتاق میو امبرالیا سے رابطہ کیا تو منتظمین کے یہ نام موصول ہوئے۔
میو اسٹوڈنٹس اتحاد جامعہ پنجاب
چیئرمین۔ شان میو
جنرل سیکرٹری بلال میو
ایڈیشنل جنرل سیکرٹری عدنان خان میو
سینئر وائس چیرمین انس میو
وائس چیرمین شعیب شیرازی
ایڈوائزر ٹو چیرمین عباس میو
چیف کو آرڈینیٹر فہیم میو
فنانس سیکرٹری رضوان میو
ایونٹ آرگنائزر منیب میو
سٹڈی سرکل انچارج عمیر میو
چلیں میری ذاتی تعارفی ڈائری میں چند قابل جوانوں کااندار ج ہوا۔کیونکہ اس ڈائری میں کم ہی لوگ جگہ پاتے ہیں۔ان لوگوں نے جس پرخلوص انداز میں تواضع کی اور مہمانوں کو عزت و وقار سے خوش آمدید کہا بہترین منتظمین کا ایواڑ ان کا بنتا ہے۔
جاتے ہوئے باہمی گفتگو کے دوران انکشاف ہوا کہ،جامعہ پنجاب کے میو طلباء بھی دو گروپس میں تقسیم ہیں۔یہ میرے لئے چار سو چالیس وولٹ کے جھٹکے سے کم نہ تھا۔ہمارے چاروں احباب اس فکر میں تھے کہ دونوں طرف سے میو طلباء کو بلا کر افہام و تفہیم کرادی جائے۔
۔دونوں دھڑوں سے ان کے روابط تھے ،خوشی اس بات پر ہوئی کہ دونوں مل بیٹھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے۔البتہ کچھ خدشات۔کچھ غلط فہمیاں ۔کچھ انائیں۔کچھ عداوتیں ۔اور کچھ شرارتیں تھیں۔اگر دور کردی جائیں تو یہ طاقت تقسیم ہونے کے بجائے ایک منظم قوت بن کر ابھرے۔جامعہ پنجاب ہی نہیں دنیا بھر میں میو قوم کے لئے بہتر پیغام کا سبب بنے۔
جب تحقیق و تدقیق سے کام لیا تو معلوم ہوا کہ دوسرا فریق بھی فیس بک فرنڈز لسٹ میں شامل ہے۔
مجھے یہ نام ملے۔
چئیر مین مبشر خاں میو۔وائس چئیر میں ظہیر خاں میو۔جنرل سیکرٹری احتشام خاں میو،سٹودںت افئیر سیکرٹری جنید میو۔فنانس سیکرٹری جمشید شاہد میو۔سوشل میڈیا انچارج ایڈووکیٹ تنویر خاں میو۔انفارمیشن سیکرٹری محمد حسین میو۔ایونٹ آرگنائزر حسین خاں میو۔سپورٹس سیکرٹری عاقب فراز میو۔کلچرل سیکرٹری مبشر میو۔سٹڈی سرکل انچارج عاقب عمر میو۔۔
توجہ طلب بات۔
یہ سب نوجوان میو قوم کے لئے بعث فخر ہیں۔ان میں چپقلش اور باہمی رنجش کے اسباب کیا ہیں ؟ سر دست اس بارہ میں لاعلم ہوں۔کوشش میں ہوں کہ اسباب معلوم ہوجائیں۔قوم کا یہ سرمایہ اور انمول اثاثہ میو قوم کو فائدہ پہنچانے سے پہلے ہی کہیں اپنے حرارت نہ کھودے۔اس لئے ہر ایسے شخص کو فکر کرنی چاہئے جو قوم کا درد رکھتا ہے۔ضروری نہیں کہ وہ ان طلباء کا تعلق دار ہی ہو،یا پھر پاکستان میں ہی رہتا ہو۔دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی ہو۔اور انہین ملانے اور باہمی اتحاد میں کوئی کردار ادا کرسکتا ہے تو اسے ایسا ضرور کرنا چاہئے۔
میو قوم کے لئےلمحہ فکریہ۔
اس افتراق انشقاق کا سن کر مجھے رات بھر نیند نہ آسکی۔اس لئے نہیں کہ میرے کسی ذاتی مفادپر ذد آئی ہے اس لئے کہ اس قدر تعلیم یافتہ لوگ بھی پرانی روش اور میواتی قوم کی ٹانگ کھنچائی کے دستور کو برقرار رکھیں گے تو ۔مستقبل مین روشنی کے لئے چراغ کہاں ست دستیاب ہونگے۔

میو سٹوڈنٹ اتحاد پنچاپ یونیورسٹی لاہور گرینڈ افطاری
پہلا حصہ ملاحظہ فرمائے
غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا دونوں پارٹیوں کے افطار میں جو لوگ کرسیوں پر براجمان تھے،اصل میں وہ قوم کے جرم ہیں ۔کیونکہ یہ لوگ معاشرتی طورپر اثر و رسوخ والے ہیں ۔دونوں اطراف میں ایسے نامور اور قدآور لوگ موجود رتھے اگر کرنے پر آتے تو یہ دو افطار پارٹیوں کی جگہ ایک ہی گرینڈ افطار پارٹی ہوتی۔دنیا بھر میں مضبوط قسم کا پیغام اور طاقتور اعلامیہ جاتا۔حیرت ہے کہ دونوں پارٹیوں میں صدر نشین حضرات نے میری دانست کے مطابق کوئی کوشش نہ کی۔ورنہ یہ مخلص جوان کبھی ایک دوسرے سے الگ نہ ہوتے۔
ممکن ہے کاوشوں ہوئی بھی ہوں لیکن میرے علم میں ایسی کوئی بات نہ آسکی۔۔
بڑے لوگ چھوٹے کردار۔

ممکن ہے میرے سامنے حالات کا ایک ہی رخ ہو۔لیکن مجھے جو محسوس ہوا وہی قلم و قرطاس کے توسط سے پہنچا رہا ہوں
مجھے یہ کہنے میں کوئی چیز مانع نہیں کہ میو قوم کے اتنے بڑے اور معتبر لوگ جنہیں مہمانان خصوصی کے طور پر صدر نشین کیا گیا تھا۔وہ قوم سے مخلص نہیں باہمی رنجش۔عداوت۔اور چوہدر کی خاطر اس جوان خون کو استعمال کررہے ہیں۔یہ لوگ اپنی ناآسودہ خواہشات کو ان جوانوں کے نئے خون سے سیراب کرنا چاہتے۔
ان دو افطار پارٹیوں نے مجھے میو قوم کے ننگے چٹے دو سیاسی دھڑے نظر آئے۔میں ہمیشہ سے ہر معاملہ میں روشن پہلو تلاش کرنے کا عادی ہوں مایوس کن حالات میں امید کی کئی کرنیں تلاش کرلیتا ہوں۔لیکن اس جوان خون کو اگر ٹھیک انداز سے میو قوم کی بہتری اور روشن مستقبل کے لئے استعمال نہ کیا گیا تو سمجھ لو میو قوم کے ابھر نے کے لئے ابھی مزید ستر سال درکار ہونگے۔اس عرصہ میں نہ تو موجودہ چوہدری رہیں گے۔نہ ان طلباء کو کوئی موقع میسر آسکے گا۔زمانے جھکڑ انہیں ایسے بکھیریں گی کہ انہیں خود متعارف کرانا بھی مشکل ہوگا۔
بقیہ اگلی قسط میں۔