- Home
- میواتی ادب
- سلطان شہاب الدین ...


سلطان شہاب الدین غوری میوات کی مزاحمت
ایک تاریخی و تنقیدی جائزہ
حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
حصہ اول: تمہید اور تاریخی پس منظر
1.1 تعارف: تحقیق کا مرکزی سوال اور اہمیت
یہ تحقیقی رپورٹ بارہویں صدی عیسوی کے اواخر میں برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کے ایک اہم لیکن قدرے نظر انداز کیے گئے باب کا جائزہ لیتی ہے: سلطان شہاب الدین غوری کی فتوحات کے دوران میو قوم اور علاقہ میوات کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت۔ اس تحقیق کا مرکزی سوال یہ ہے کہ آیا سلطان غوری اور میو قوم کے مابین کوئی براہ راست آویزش ہوئی تھی، اور اگر ہوئی تو اس کی نوعیت، اسباب اور نتائج کیا تھے؟ تاریخی ماخذ میں اس موضوع پر براہ راست شواہد کی کمی نے اس سوال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ لہٰذا، یہ رپورٹ بالواسطہ اور واقعاتی ثبوتوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ایک جامع تاریخی بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کرے گی۔
میوات کی جغرافیائی اور اسٹریٹجک اہمیت اس تحقیق کو کلیدی حیثیت عطا کرتی ہے۔ دہلی، آگرہ اور جے پور کے تکون میں واقع یہ خطہ، اراولّی کے پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہونے کے باعث، حملہ آوروں کے خلاف ایک قدرتی رکاوٹ اور مقامی مزاحمت کا مرکز رہا ہے 1۔ دہلی سلطنت کے نئے دارالحکومت سے اس کی قربت کا مطلب یہ تھا کہ کوئی بھی حکمران اسے نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ مزید برآں، میو قوم کی اپنی آزادی اور شناخت کے لیے تاریخی مزاحمت کی ایک طویل روایت موجود ہے، جس نے انہیں دہلی کے ہر حکمران کے لیے ایک مستقل چیلنج بنائے رکھا 3۔ یہ رپورٹ اس تاریخی حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ غوری-میوات آویزش کوئی اتفاقی واقعہ نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک مجبوری تھی، جس کی جڑیں دہلی سلطنت کے قیام کے بنیادی مقاصد میں پیوست تھیں۔
1.2 سلطان شہاب الدین غوری: برصغیر میں ایک نئی سلطنت کا بانی
سلطان معز الدین محمد بن سام، جو تاریخ میں شہاب الدین غوری کے نام سے مشہور ہیں، کا دورِ حکومت (1173ء-1206ء) برصغیر کی تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز تھا 5۔ ان کے پیشرو محمود غزنوی کے برعکس، جن کے حملوں کا بنیادی مقصد ہندوستان کی دولت کو حاصل کرنا تھا، سلطان غوری کا واضح مقصد یہاں ایک مستقل اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھنا تھا 6۔ یہی وہ بنیادی مقصد تھا جس نے انہیں مقامی طاقتوں کے ساتھ محض وقتی جھڑپوں کے بجائے طویل مدتی اور فیصلہ کن تصادم پر مجبور کیا۔
ان کی ابتدائی مہمات میں انہیں کامیابی اور ناکامی دونوں کا سامنا کرنا پڑا۔ گجرات میں انہیں شکست ہوئی 8، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی توجہ پنجاب کی طرف مرکوز کر دی، جہاں انہوں نے 1187ء میں لاہور کو فتح کر کے غزنوی حکومت کا خاتمہ کیا 5۔ تاہم، ان کی سب سے فیصلہ کن جنگیں دہلی کے چوہان حکمران پرتھوی راج کے خلاف تھیں۔ 1191ء میں ترائن کے میدان میں انہیں ایک غیر متوقع شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اپنی غیر معمولی ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ اگلے ہی سال، 1192ء میں، ایک لاکھ بیس ہزار کے لشکر کے ساتھ واپس آئے اور ترائن کی دوسری جنگ میں پرتھوی راج کو ایک فیصلہ کن شکست دی 5۔
یہ فتح برصغیر میں مسلم حکمرانی کے قیام کا سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس کے بعد دہلی اور اس کے اطراف کے علاقے براہ راست غوری سلطنت کے زیرِ نگیں آ گئے۔ اپنی وسیع ہوتی ہوئی سلطنت کے انتظامی امور کو چلانے کے لیے، غوری نے ایک موثر حکمت عملی اپنائی اور اپنے سب سے وفادار اور قابل ترک غلام جرنیل، قطب الدین ایبک کو ہندوستان کے مفتوحہ علاقوں کا انچارج اور سپہ سالار مقرر کیا 6۔ یہ تقرری مستقبل میں میوات کے ساتھ سلطنت کے تعلقات کی نوعیت متعین کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ غوری کا اصل مقصد چونکہ ایک پائیدار سلطنت کا قیام تھا، اس لیے دارالحکومت دہلی کی حفاظت اور اس کے گردونواح میں موجود تمام ممکنہ خطرات کا خاتمہ ان کی اولین ترجیح تھی۔ میوات، اپنی جغرافیائی ساخت اور جنگجو آبادی کے ساتھ، اسی اسٹریٹجک ضرورت کے تحت غوری سلطنت کی توجہ کا مرکز بنا۔
حصہ دوم: میوات اور میو قوم: بارہویں صدی کے آئینے میں
2.1 میوات کا جغرافیہ اور اسٹریٹجک محلِ وقوع
میوات کا خطہ، جو اراولّی کے قدیم پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے، اپنی جغرافیائی ساخت کی وجہ سے ہمیشہ سے ایک منفرد حیثیت کا حامل رہا ہے۔ یہ علاقہ بلند و بالا پہاڑیوں، گھنے جنگلات اور دشوار گزار گھاٹیوں پر پھیلا ہوا تھا، جس نے اسے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف ایک قدرتی قلعے کی حیثیت دے دی تھی 2۔ اس جغرافیے نے یہاں کے باشندوں کو گوریلا جنگ کے فن میں طاق بنا دیا، جس کی وجہ سے بڑی سے بڑی فوجوں کے لیے بھی اس علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا ایک مستقل چیلنج رہا۔
اسٹریٹجک طور پر، میوات دہلی، آگرہ اور جے پور کے درمیان ایک اہم تکون میں واقع تھا 1۔ اس کا محلِ وقوع نہ صرف تجارتی شاہراہوں کے لیے اہم تھا بلکہ دہلی کے تخت کے لیے بھی اس کی فوجی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ دہلی کے جنوب میں واقع ہونے کی وجہ سے، میوات میں موجود کوئی بھی سرکش یا مخالف طاقت براہ راست دارالحکومت کے امن و امان اور سلطنت کی سپلائی لائنز کے لیے خطرہ بن سکتی تھی 2۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی میں قائم ہونے والی ہر سلطنت، غوریوں سے لے کر مغلوں تک، میوات کو زیرِ نگیں لانے کی کوششوں میں مصروف رہی۔
2.2 میو قوم: نسلی پس منظر اور جنگجو روایات
میو قوم کی اصلیت کے بارے میں مورخین کے درمیان مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ سب سے مقبول نظریہ انہیں قدیم چھتری راجپوتوں کی نسل سے جوڑتا ہے، جن میں جادوبنسی (کرشن کی اولاد)، تومر بنسی، اور چوہان بنسی جیسی معزز گوتیں شامل ہیں 11۔ کچھ مورخین ان کا تعلق قدیم “مید” قوم سے بھی بتاتے ہیں جو سندھ کے علاقے میں آباد تھی 3۔ ان تمام نظریات سے قطع نظر، یہ بات طے ہے کہ میو ایک قدیم قوم ہیں جن کی ایک مضبوط جنگجو شناخت ہے۔ وہ اپنی آزادی کے دلدادہ تھے اور کسی بھی بیرونی طاقت کی بالادستی قبول کرنے کو تیار نہیں تھے، جس کی وجہ سے تاریخ میں انہیں ہمیشہ ایک باغی اور سرکش قوم کے طور پر یاد کیا گیا ہے 3۔
سلطان شہاب الدین غوری کے دور میں میوات کی سیاسی حالت کسی ایک مرکزی طاقت کے تحت نہیں تھی۔ یہ علاقہ غالباً چھوٹے چھوٹے مقامی سرداروں کے زیرِ اثر تھا جو اپنی اپنی حدود میں آزادانہ حکومت کرتے تھے۔ بعد ازاں، 1372ء میں فیروز شاہ تغلق کے دور میں یہاں خانزادہ ریاست کی بنیاد پڑی 12، لیکن غوری دور میں ایسی کوئی منظم ریاست موجود نہیں تھی۔ یہ سیاسی انتشار بھی دہلی سلطنت کے لیے ایک چیلنج تھا کیونکہ کسی ایک حکمران سے معاہدہ کرنے کے بجائے انہیں متعدد خود مختار گروہوں سے نمٹنا پڑتا تھا۔
یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ابتدائی سلطاناتی تواریخ میں استعمال ہونے والی اصطلاح “میواتی” محض ایک نسلی گروہ کی نشاندہی نہیں کرتی، بلکہ یہ ایک سیاسی شناخت کی عکاس ہے۔ جب منہاج سراج یا ضیاء الدین برنی جیسے مؤرخین “میواتی” کا ذکر کرتے ہیں، تو ان کا اشارہ اس جغرافیائی خطے کے ان تمام باشندوں کی طرف ہوتا ہے جو دہلی کی مرکزی اتھارٹی کو چیلنج کرتے تھے، خواہ ان کا تعلق میو قبیلے سے ہو یا جاٹ، گوجر اور مینا جیسی دیگر برادریوں سے جو اس علاقے میں آباد تھیں 13۔ دہلی کے نقطہ نظر سے، جو بھی اس “سرکش علاقے” (جسے فارسی تواریخ میں ‘مواص’ بھی کہا گیا ہے) سے اٹھتا تھا، وہ “میواتی” یعنی باغی تھا۔ اس طرح یہ اصطلاح ایک انتظامی اور فوجی لیبل بن گئی، جو “مرکزی سلطنت بمقابلہ دہلی کے جنوبی مضافات کی مقامی مزاحمت” کے وسیع تناظر کو بیان کرتی ہے۔
حصہ سوم: بنیادی تاریخی ماخذ کا تنقیدی جائزہ: ایک خاموشی کا تجزیہ
3.1 بنیادی ماخذ: طبقاتِ ناصری اور تاریخِ فرشتہ
غوری اور ابتدائی دہلی سلطنت کے دور کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے دو فارسی ماخذ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ پہلی، قاضی منہاج سراج جوزجانی کی تصنیف طبقاتِ ناصری ہے، جو 1260ء میں مکمل ہوئی اور یہ غوریوں اور ابتدائی غلام بادشاہوں کے دور کی ہم عصر تاریخ ہے 17۔ دوسری، محمد قاسم فرشتہ کی
تاریخِ فرشتہ ہے، جو سترہویں صدی کے اوائل میں لکھی گئی لیکن اس نے اپنے سے پہلے کی متعدد نایاب تاریخوں کو اپنے ماخذ کے طور پر استعمال کیا 19۔
ان دونوں بنیادی ماخذ کا تنقیدی جائزہ لینے پر ایک اہم نکتہ سامنے آتا ہے: ان میں سے کسی میں بھی سلطان شہاب الدین غوری کی ذاتی قیادت میں میوات کے خلاف کسی بڑی فوجی مہم کا واضح اور براہ راست ذکر موجود نہیں ہے 6۔ تاریخیں ترائن، قنوج اور گجرات جیسی بڑی مہمات کی تفصیلات تو بیان کرتی ہیں، لیکن میوات کے محاذ پر ایک قابلِ ذکر خاموشی پائی جاتی ہے۔
3.2 تاریخی ریکارڈ میں “خاموشی” کی وجوہات
تاریخی ریکارڈ میں یہ “خاموشی” بذات خود ایک اہم سوال کو جنم دیتی ہے۔ اس کی متعدد ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں جن کا تجزیہ کرنا ضروری ہے:
- بیانیے کی درجہ بندی (Hierarchy of Narrative): درباری مؤرخین کی اولین ترجیح سلطان کی ذاتی فتوحات اور ان جنگوں کو قلمبند کرنا ہوتی تھی جو سلطنت کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہوں، جیسے ترائن کی جنگ۔ ان کے نزدیک، کسی نائب یا جرنیل (جیسے قطب الدین ایبک) کی مقامی سرداروں کے خلاف چھوٹی موٹی “پولیسنگ” کارروائیاں اس قابل نہیں تھیں کہ انہیں سلطان کے عظیم کارناموں کے شانہ بشانہ تفصیل سے بیان کیا جائے 22۔
- “فتح” کی نوعیت: میوات کے پہاڑی اور جنگلاتی علاقے میں لڑی جانے والی جنگ کوئی ایک فیصلہ کن میدانی معرکہ نہیں تھی، بلکہ یہ ممکنہ طور پر ایک طویل، تھکا دینے والی اور گوریلا طرز کی لڑائی تھی۔ ایسی غیر روایتی اور غیر فیصلہ کن جنگیں اکثر درباری تاریخ کے شاندار بیانیے میں جگہ نہیں بنا پاتیں۔
- شواہد کا ضیاع: یہ بھی ممکن ہے کہ ابتدائی دور کے وہ ریکارڈز جن میں ایسی مقامی مہمات کا ذکر ہو، وقت کے ساتھ ضائع ہو گئے ہوں اور بعد کے مؤرخین جیسے فرشتہ تک نہ پہنچ سکے ہوں۔
تاہم، اس خاموشی کو تنازعہ کی عدم موجودگی کی دلیل سمجھنا ایک تاریخی غلطی ہوگی۔ یہ خاموشی بذات خود ایک ثبوت ہے، جو ہمیں تنازعہ کی نوعیت اور مؤرخین کے نقطہ نظر کے بارے میں بتاتی ہے۔ اگر میوات کا علاقہ غوریوں کی فتح کے بعد مکمل طور پر پرامن اور مطیع ہو جاتا، تو بعد میں قطب الدین ایبک اور خاص طور پر غیاث الدین بلبن کو وہاں اس قدر شدید اور سفاکانہ فوجی کارروائیوں کی ضرورت کیوں پیش آتی؟ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ غوری دور میں بھی کشیدگی اور جھڑپیں یقینی طور پر موجود تھیں۔ درباری مؤرخین نے انہیں اس لیے نظر انداز کیا کیونکہ وہ سلطان کی عظمت کے گن گانے کے مقصد سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ لہٰذا، یہ خاموشی ہمیں بتاتی ہے کہ میوات کے ساتھ آویزش ایک “بڑی جنگ” نہیں تھی جسے شاہی تاریخ کا حصہ بنایا جاتا، بلکہ ایک “مسلسل سردرد” تھی جسے انتظامی سطح پر نمٹا جا رہا تھا۔
حصہ چہارم: بالواسطہ شواہد اور مضمر حقائق: قطب الدین ایبک کی میوات مہم
4.1 قطب الدین ایبک: ہندوستان میں غوری پالیسی کا نفاذ
ترائن کی فتح کے بعد، سلطان شہاب الدین غوری نے قطب الدین ایبک کو ہندوستان میں اپنے نائب کی حیثیت سے مقرر کیا 10۔ ایبک محض ایک جرنیل نہیں تھا، بلکہ وہ ہندوستان میں غوری سلطنت کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کا ذمہ دار تھا۔ اس کی تمام فوجی اور انتظامی کارروائیاں سلطان کی مرضی اور سلطنت کے وسیع تر مفاد کی عکاس تھیں۔ دہلی کو مرکز بنانے کے بعد، ایبک کا اولین کام دارالحکومت کے گردونواح میں ابھرنے والی بغاوتوں کو کچلنا اور غوری حکومت کو مستحکم کرنا تھا۔
4.2 میوات میں ایبک کی فوجی مہم: ایک اہم بالواسطہ ثبوت
اگرچہ طبقاتِ ناصری جیسی ہم عصر تاریخیں اس معاملے پر خاموش ہیں، لیکن بعد کے ماخذ اور واقعات کا منطقی تجزیہ ایک مختلف تصویر پیش کرتا ہے۔ ایک انتہائی اہم بالواسطہ ثبوت، جس کا ذکر विकिपीडिया کے ایک مضمون میں ملتا ہے، اس تنازعہ پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس کے مطابق، 1206ء میں غوری کی وفات سے قبل، ایبک کے دورِ نیابت میں میوات پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پرتھوی راج چوہان کے بیٹے ہیم راج نے الور (جو میوات کا مرکز تھا) سے بغاوت کا علم بلند کیا تھا۔ ایبک نے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے پہلے سید وجیہ الدین کو بھیجا، لیکن انہیں شکست ہوئی۔ اس کے بعد وجیہ الدین کے بھتیجے میران حسین جنگ نے ایک اور مہم کی قیادت کی اور میوات کو فتح کرنے میں کامیاب ہوئے 23۔
یہ واقعہ کئی وجوہات کی بنا پر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اول، یہ نہ صرف ایبک اور میوات کے درمیان براہ راست تصادم کو ثابت کرتا ہے، بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ تنازعہ غوری کی زندگی میں ہی پیش آیا تھا اور ایبک کی یہ کارروائی غوری سلطنت کی پالیسی کا حصہ تھی۔ دوم، یہ اس آویزش کو ترائن کی جنگ کے فوری تسلسل سے جوڑتا ہے۔ پرتھوی راج کے بیٹے کا میوات سے بغاوت کرنا اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ شکست خوردہ چوہان افواج یا ان کے حامیوں نے میوات کے دشوار گزار پہاڑی علاقے میں پناہ لی تھی اور اسے اپنی مزاحمت کے لیے ایک نئے مرکز کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔
اس تناظر میں، ایبک کی میوات مہم محض ایک نئے علاقے کو فتح کرنے کی کوشش نہیں تھی، بلکہ یہ غوریوں کے سب سے بڑے دشمن (چوہانوں) کی باقیات کو ختم کرنے اور اپنی فتح کو مکمل طور پر مستحکم کرنے کی ایک فیصلہ کن اسٹریٹجک کارروائی تھی۔ میواتی مزاحمت کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایبک کے ابتدائی کمانڈر کو اس مہم میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا 23۔ یہ حقیقت غوری-میوات آویزش کو ایک معمولی جھڑپ کے بجائے ایک سنجیدہ فوجی چیلنج کے طور پر پیش کرتی ہے، جسے دبانے کے لیے سلطنت کو ایک سے زائد مہمات بھیجنا پڑیں۔
حصہ پنجم: بعد کے ادوار کی روشنی میں تاریخی تسلسل کا جائزہ
5.1 سلطان غیاث الدین بلبن: “خون اور لوہے” کی پالیسی
غوری اور ایبک کے دور کے تقریباً نصف صدی بعد، سلطان غیاث الدین بلبن (1266ء-1287ء) کے عہد میں میوات کا مسئلہ دہلی سلطنت کے لیے ایک ناسور بن چکا تھا۔ میواتی اس قدر نڈر ہو چکے تھے کہ وہ دن دیہاڑے دہلی کے مضافات میں لوٹ مار کرتے اور شہر کے دروازوں تک پہنچ جاتے، جس کی وجہ سے شام کی نماز کے بعد شہر کے مغربی دروازے بند کرنا پڑتے تھے 16۔ مؤرخین کے مطابق، ان کی سرکشی نے دارالحکومت میں ایک خوف و ہراس کی فضا پیدا کر دی تھی۔
اس دائمی خطرے سے نمٹنے کے لیے، بلبن نے اپنی مشہور “خون اور لوہے” (Blood and Iron) کی پالیسی اپنائی۔ اس نے میوات کے خلاف ایک بے رحمانہ اور منظم مہم کا آغاز کیا۔ اس مہم کے دوران، دہلی کے گرد موجود گھنے جنگلات کو، جو میواتیوں کی پناہ گاہ تھے، بڑے پیمانے پر کٹوایا گیا 16۔ فوجی چوکیاں (thanas) قائم کی گئیں اور ان میں افغان سپاہیوں کو تعینات کیا گیا تاکہ راستے محفوظ رہیں۔ سب سے بڑھ کر، بلبن نے ہزاروں میواتیوں کا بے دریغ قتل عام کیا 1۔ بلبن کی یہ کارروائیاں صرف اس کے دورِ بادشاہت تک محدود نہیں تھیں، بلکہ اس سے قبل جب وہ سلطان ناصر الدین محمود کا نائب (الگ خان) تھا، تب بھی اس نے 1247ء اور 1260ء میں میوات کے خلاف بڑی مہمات کی قیادت کی تھی 25۔
5.2 بلبن کی پالیسیوں سے ماضی کا استدلال: ایک تسلسل کا ثبوت
بلبن کی میوات کے خلاف اختیار کی گئی انتہائی سفاکانہ پالیسی اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ یہ مسئلہ کوئی نیا نہیں تھا، بلکہ اس کی جڑیں بہت گہری تھیں۔ کوئی بھی مسئلہ اس وقت تک اتنی سنگین صورت اختیار نہیں کرتا جب تک اسے دہائیوں تک نظر انداز نہ کیا جائے یا اسے کامیابی سے حل نہ کیا جا سکے۔ اگر غوری-ایبک دور میں میوات کی طاقت کو مکمل طور پر کچل دیا گیا ہوتا، تو بلبن کو نصف صدی بعد اس طرح کے اقدامات کی ضرورت پیش نہ آتی۔
اس سے یہ منطقی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ غوری-ایبک دور میں شروع ہونے والی یہ “آویزش” کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ میواتیوں کو وقتی طور پر دبا تو دیا گیا، لیکن ان کی مزاحمت کی چنگاری ہمیشہ سلگتی رہی۔ جب بھی دہلی میں مرکزی حکومت کمزور پڑی، جیسا کہ التمش کے نااہل جانشینوں کے دور میں ہوا، میواتیوں نے دوبارہ سر اٹھایا 2۔ یہ مزاحمت بتدریج شدت اختیار کرتی گئی یہاں تک کہ بلبن کے دور میں یہ سلطنت کے وجود کے لیے ایک خطرہ بن گئی، جس نے اسے جڑ سے اکھاڑنے پر مجبور کیا۔ اس طرح، بلبن کے اقدامات دراصل اسی تاریخی تسلسل کا کلائمیکس تھے جس کا آغاز شہاب الدین غوری کے دور میں ہوا تھا۔
ابتدائی دہلی سلطنت اور میوات کے مابین اہم تصادم کا خط زمانی (c. 1192-1267 CE)
یہ جدول غوری دور سے لے کر بلبن کے دور تک میوات کے ساتھ دہلی سلطنت کے تصادم کے ارتقاء کو واضح کرتا ہے، اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک طویل اور مسلسل جدوجہد تھی۔
تاریخ (اندازاً) | سلطان/جرنیل | اہم واقعہ/مہم | میو/مقامی رہنما (اگر معلوم ہو) | نتیجہ/اہمیت | بنیادی ماخذ |
c. 1192-93 | قطب الدین ایبک (بطور نائب غوری) | میوات پر حملہ، چوہان حامیوں کی بغاوت کو کچلنا۔ | ہیم راج (پرتھوی راج کا بیٹا) | ابتدائی ناکامیوں کے بعد میوات پر غوری تسلط کا عارضی قیام۔ | بالواسطہ حوالہ جات 23 |
c. 1247 | غیاث الدین بلبن (بطور نائب ناصر الدین) | رنتھمبور اور کوہپایہ میوات پر حملہ۔ | رنسی رن پال | میواتی املاک کی تباہی اور مالِ غنیمت کا حصول۔ | طبقاتِ ناصری 1 |
c. 1260 | غیاث الدین بلبن (بطور نائب ناصر الدین) | میواتیوں کی بغاوت کو کچلنے کے لیے بڑی مہم۔ | ملک خان / منگل | 250 سرداروں کی گرفتاری اور ہزاروں کا قتل۔ | طبقاتِ ناصری, تاریخِ فرشتہ 25 |
c. 1266-67 | غیاث الدین بلبن (بطور سلطان) | دہلی کے گرد جنگلات کا صفایا، میواتیوں کا قتل عام اور فوجی چوکیوں کا قیام۔ | نامعلوم | میواتی طاقت کا عارضی طور پر مکمل خاتمہ اور علاقے پر سخت کنٹرول۔ | تاریخِ فرشتہ, ضیاء الدین برنی 16 |
حصہ ششم: نتیجہ: بیانیے کی تشکیلِ نو
6.1 خلاصہ تحقیق
اس تفصیلی تجزیے کے بعد، تمام شواہد—براہ راست، بالواسطہ، اور واقعاتی—کو یکجا کرنے سے ایک واضح تصویر ابھرتی ہے۔ اگرچہ سلطان شہاب الدین غوری کے ذاتی طور پر میو قوم کے ساتھ کسی بڑے تصادم کے براہ راست اور واضح ثبوت کلاسیکی تاریخی ماخذ میں موجود نہیں ہیں، لیکن یہ نتیجہ اخذ کرنا ایک سنگین غلطی ہوگی کہ ان کے دور میں کوئی آویزش سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ تاریخی ریکارڈ کی خاموشی کو جب دیگر شواہد اور بعد کے واقعات کے تسلسل کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو ایک نیا اور زیادہ جامع بیانیہ سامنے آتا ہے۔
6.2 حتمی تجزیہ اور بیانیے کی تشکیل
یہ رپورٹ اس حتمی نتیجے پر پہنچتی ہے کہ غوری-میوات آویزش ایک تاریخی حقیقت تھی، لیکن اس کی نوعیت اکثر سمجھے جانے والے تصور سے مختلف تھی۔ یہ سلطان کی ذاتی قیادت میں لڑی جانے والی کوئی عظیم جنگ نہیں تھی، بلکہ یہ ان کے سب سے قابل اعتماد نائب، قطب الدین ایبک، کے ذریعے لڑی گئی ایک اسٹریٹجک جنگ تھی جس کے دو بنیادی مقاصد تھے: اول، دہلی کے نئے دارالحکومت کو جنوب سے لاحق خطرات سے محفوظ بنانا، اور دوم، ترائن کی جنگ میں شکست خوردہ چوہان مزاحمت کی باقیات کو مکمل طور پر ختم کرنا۔
تاریخی ماخذ کی “خاموشی” کو تنازعہ کی عدم موجودگی کی دلیل کے بجائے درباری تاریخ نویسی کی نوعیت اور ترجیحات کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ درباری مؤرخین کے لیے ایک طویل، غیر فیصلہ کن اور گوریلا طرز کی جنگ، جو سلطان کے بجائے ایک نائب نے لڑی ہو، ان کے شاندار بیانیے کا حصہ بننے کے قابل نہیں تھی۔
آخر میں، سلطان غیاث الدین بلبن کے دور میں میوات کے خلاف کی گئی بے مثال سفاکی اس بات کا حتمی ثبوت ہے کہ میوات کی مزاحمت کی جڑیں دہلی سلطنت کے قیام کے اولین دنوں، یعنی شہاب الدین غوری کے دورِ حکومت، تک جاتی ہیں۔ بلبن کی مہمات دراصل اسی مسئلے کا بے رحمانہ حل تھیں جو غوری اور ایبک کے دور میں شروع ہوا تھا لیکن کبھی مکمل طور پر حل نہیں ہو سکا تھا۔ اس طرح، یہ رپورٹ غوری اور میو قوم کے تعلقات پر ایک نیا اور زیادہ nuanced بیانیہ پیش کرتی ہے، جو محض واقعات کے سطحی بیان سے آگے بڑھ کر تاریخی عمل کے تسلسل، اسباب و نتائج، اور اسٹریٹجک محرکات پر گہرائی سے روشنی ڈالتا ہے۔
Works cited
- Shahabuddin Khan Meo – HISTORY OF MEWAT – AN OUTLINE – Punjab University, accessed July 22, 2025, https://pu.edu.pk/images/journal/history/PDF-FILES/salauddin.pdf
- MEWATIS UNDER THE MAMLUK DYNASTY Pankaj Dhanger Assistant Professor, Department of History,Culture and Archaeology Chaudhary Ran – Aarhat, accessed July 22, 2025, https://www.aarhat.com/download-article/533/
- The Meos of Mewat : A Historical Perspective – ijrpr, accessed July 22, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE6/IJRPR14628.pdf
- حکیم عبدالشکور کی کتاب تاریخ میوچھتری | ریختہ – Rekhta, accessed July 22, 2025, https://www.rekhta.org/ebooks/detail/tareekh-e-miyo-chhatri-hakeem-abdush-shakoor-ebooks?lang=ur
- فاتح اور کام یاب حکم راں شہاب الدین غوری کا تذکرہ – ARY News Urdu, accessed July 22, 2025, https://urdu.arynews.tv/shahab-uddin-ghori/
- شہاب الدین غوری – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed July 22, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%A7%D8%A8_%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%BA%D9%88%D8%B1%DB%8C
- شہاب الدین غوری – وکیپیڈیا, accessed July 22, 2025, https://pnb.wikipedia.org/wiki/%D8%B4%DB%81%D8%A7%D8%A8_%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%BA%D9%88%D8%B1%DB%8C
- شہاب الدین غوری اور پوٹھوہار کی ایک رات… (2) – Roznama Dunya, accessed July 22, 2025, https://dunya.com.pk/index.php/column-detail-print/34278
- شہاب الدین غوری بمقابلہ پرتھوی راج – Nawaiwaqt, accessed July 22, 2025, https://www.nawaiwaqt.com.pk/16-Oct-2009/97615
- قطب الدین ایبک – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 22, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%82%D8%B7%D8%A8_%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%A7%DB%8C%D8%A8%DA%A9
- میو – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed July 22, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88
- میوات کے خانزادہ – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 22, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%DB%8C%D9%88%D8%A7%D8%AA_%DA%A9%DB%92_%D8%AE%D8%A7%D9%86%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%81
- Khanzadas of Mewat: An Ethno-Historical Overview, accessed July 22, 2025, https://ignited.in/index.php/jasrae/article/download/9328/18457/46111
- صارف:Hakeem qari M younas shahid – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 22, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B5%D8%A7%D8%B1%D9%81:Hakeem_qari_M_younas_shahid
- Khanzadas of Mewat – Wikipedia, accessed July 22, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Khanzadas_of_Mewat
- Balban – Wikipedia, accessed July 22, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Balban
- طبقات ناصری – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 22, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B7%D8%A8%D9%82%D8%A7%D8%AA_%D9%86%D8%A7%D8%B5%D8%B1%DB%8C
- Full text of “Tabqaat-e-Nasiri طبقات ناصری” – Internet Archive, accessed July 22, 2025, https://archive.org/stream/Tabqaat-e-Nasiri-113926/Tabqaat-e-Nasiri-113926-WQB_djvu.txt
- محمد قاسم فرشتہ کی کتاب ترجمہ تاریخ فرشتہ اردو جلد۔002 | ریختہ, accessed July 22, 2025, https://www.rekhta.org/ebooks/detail/tarjuma-e-tareekh-e-farishta-urdu-volume-002-mohammad-qaasim-firishta-ebooks?lang=ur
- تاریخ فرشتہ – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 22, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE_%D9%81%D8%B1%D8%B4%D8%AA%DB%81
- Tabaqat I Nasiri, 2 Volumes, English Translation : Umair Mirza : Free …, accessed July 22, 2025, https://archive.org/details/tabaqat-i-nasiri-volume-2_202501/Tabaqat-i%20Nasiri%2C%20%20Volume%201
- Full text of “Tabaqat I Nasiri, Volume 2” – Internet Archive, accessed July 22, 2025, https://archive.org/stream/tabaqat-i-nasiri-volume-2/Tabaqat-i%20Nasiri%2C%20%20Volume%202_djvu.txt
- Mewat – Wikipedia, accessed July 22, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Mewat
- Foundation of Delhi Sultanate: Rule of Balban – UPSC – LotusArise, accessed July 22, 2025, https://lotusarise.com/foundation-of-delhi-sultanate-rule-of-balban-upsc/
- The Role of Balban in the Subjugation and Administration of Mewat: A Study of Power Dynamics and Governance in the Delhi Sultanate – ijrpr, accessed July 22, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE12/IJRPR20333.pdf
- Daily News: November 6, 2023 – Compass by Rau’s IAS, accessed July 22, 2025, https://compass.rauias.com/2023/11/06/