زندگی کےانمول اصول
زندگی کےانمول اصول
تحریر:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی: سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺ کاہنہ نو لاہور پاکستان
عمرو بن میمون الادوی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول ﷺکو ایک آدمی کے لئے نصیحت فرماتے ہوئے سنا۔پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو
(1)جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (2)صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے
(3)مال و دولت کو غربت سے پہلے(4) فراغت کو مصروفیت سے پہلے
(5)زندگی کو موت سے پہلے۔(النسائی فی الکبری مرسلا۔شرح السنہ للبغوی کتاب الرقاق ۔ شعب الایمان263/7مستدرک حاکم341/4 جامع العلوم و الحکم385/1)
زندگی گزار نے اور لمحات صحت سے لطف اندوز ہونے کے لئے یہ سنہرے اصول ہیں ان کی قدر وہی جانے جس سے یہ سلب ہوجائیں۔یہ سب وہ انمول نعمتیں ہیں جنہیں وسائل خرچ کرکے بھی واپس نہیں لایا جاسکتا۔
(1)جوانی جب گزرگئ پیچھے یادیں ہی رہ جاتی ہیں،زندگی کا یہ مختصر سا حصہ اس قدر اہمیت کا حامل دنیا بھی انمول ہے اور آخرت میں بھی ان ایام کے بارہ میں سوال کیا جائے۔ کہ جوانی کن مشغولیات کی نذر کی ؟جب تک اس سوال کا جواب نہیں ملے گا زمین انسان کے پیر نہیں چھوڑے گی۔
(2)صحت و تندرستی قدرت کا انمول عطیہ ہے اس کی حفاظت کرنا اور ہر ایسی تدبیر اختیار کرنا جو اس کے قیام میں معاون ہوسکے۔مناسب خوراک و غذا صحت مند ماحول کا اختیار کرناہر ایک کے لئے ضروری ہے،صحت ہاتھ سے گئی اس کے بعد دنیا بھر کے وسائل خرچ کرنے سے بھی واپس نہیں آسکتی۔اس کے نظائر ہسپتالوں میں لگی بھیڑمیں دیکھے جاسکتے ہیں۔
(3)مال و دولت کو غربت سے پہلے اس پر کچھ لکھنے کی ضرورت نہیںہے ہر کوئی اس کا شکار ہوچکا ہوتا ہے۔
(4)فراغت کو مصروفیت سے پہلے جو لوگ مصروف ہوتے ہیں انہیں فراغت کے لمحات کی قدر وقیمت معلوم ہوتی ہے۔رسول اللہ ﷺنے ایسی مشغولیت سے پناہ مانگی ہے جو انسان کی حیثیت کو بھلادے۔آج کل سوشل میڈیا نے ایک نئی بیماری کو جنم دیا ہے کہ چھوٹے بڑے مرد و عورت سب سے فرصت کے لمحات چھین لئے ہیں۔
(5)زندگی کو موت سے پہلے۔زندگی کتنی بھی ملے جائے بہرحال محدود ہوتی ہے زندگی میں آنے کے بعد الٹی گنتی شروع ہوجاتی ہے دن خوشی کے ہوںیا غمی کےزندگی کی کتاب سے یہ اوراق پھٹتے جاتے ہیں انہیں لوٹانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اگر یہ خزانہ ایک بار لٹ جائے اس کی بازیابی کا طریقہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔زندگی کی ہر ایک کام کوئی نہ کوئی انسان کے لئے کشش و اہمیت رکھتا ہے دنیا یا مرنے کی بعد کی زندگی میں اس کی اہمیت مد نظر ہوتی ہے اگر ایسا نہیںہے تو بیتے ہوئے لمحات سوائے حسرت کے اور کیا ہوسکتے ہیں؟انتی قیمتی زندگی کو غفلت کی نظر کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟
جس دن سے مجھے اس حدیث کی سمجھ آئی ہے معمولات زندگی اورکھیل کود، رہن سہن معاملات اورفرصت کے لمحات کی قدر۔یہ فرصت کے لمحات میں کیا گیا مطالعہ دکھی انسانیت کی خدمت زندگی کوقریب سے دیکھنے کے ڈھنگ کا نتیجہ ہے جو آپ کے ہاتھوں کو بوسہ دے رہا ہے۔