زندگی اور ضرورت غذا
زندگی کے لازمی اسباب
زندگی اور ضرورت غذا
زندگی کے لازمی اسباب
رشحات قلم۔۔مجد د الطب صابر ملتانی
پیش کردہ:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
زندگی اور ضرورت غذا
زندگی کے لازمی اسباب
:
ہر زندگی کیلئے وہ انسانی ہویا حیوانی اس میں اسباب زندگی لازمی ہیں۔ جن میں (۱)ہوا و روشنی۔(۲)کھانا پینا۔(۳)حرکت و سکون۔(۴)حرکت و سکون نفسانی۔(۵)نیندو بیداری۔ (۶)ا حتباس واستفراغ ۔
یہ ایسے قوانین اورصورتیں ہیں جن سے زندگی کاتعلق کائنات سے بھی پیداہوگیاہے انہی کواسباب زندگی کہاجاتا ہے۔ طبی اصطلاح میں ان کو اسباب ستہ ضروریہ کہتے ہیں۔ ا ن میں جب کمی بیشی واقع ہوجاتی ہے۔اسی وجہ سے بدن انسانی میں جوحالت پیداہوتی ہے اس کومرض کانام دیاجاتاہے جن کی تفصیل کتب طبیہ میں درج ہے۔
یہ چھ اسباب ضروریہ دراصل عملی حیثیت میں تین صورتیں اختیار کرلیتے ہیں۔
(اول)جسم کوغذائیت مہیاکرنا۔جیسے ہوااور روشنی اور ماکولات و مشروبات ہیں۔
(دوم)جسم میں غذائیت کوہضم کرکے جزو بدن بناتے ہیں جیسے نیند وبیداری ، حرکت وسکون جسمانی اور حرکت وسکون نفسانی ہیں۔
(سوم)جسم کے اندر غذائیت ایک مقررہ وقت تک قائم رکھتے ہیں تاکہ جزوبدن جائے اور جب ان کی ضرورت نہ ہوتواس کو خارج کردے۔ان کو احتباس واستفراغ کہتے ہیں۔
غذائیت زندگی: غذائیت میں ہوااور روشنی کے ساتھ ہر قسم کی وہ اشیاء شامل ہیں جوکھانے پینے میں استعمال ہوسکتی ہیں جن میں تیزابات و زہر بھی شامل ہیں۔ان کے متعلق یہ امورذہن نشین کرلیں کہ وہ سب جسم میں صرف غذائیت مہیانہیں کرتی ہیں بلکہ جسم بھی بناتی ہیں اورجسم کومتاثر بھی کرتی ہیں اس کے ساتھ بدل مایتحلل کی تکمیل بھی ہوتی ہے۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ حرارت غریزی اور رطوبت غریزی کی مدد کرتی ہے۔ان حقائق سے ثابت ہواکہ غذائیت کی ضرورت ذیل کی صورتوں میں لازم ہے۔
(۱)غذائیت سے اخلاط خصوصاً خون پیداہوتاہے۔
(۲)غذائیت سے کیفیات بنتی ہیں۔
(۳)غذائیت سے جسم کی تعمیر ہوتی ہے۔
(۴)جو کچھ جسم انسانی میں کسی حیثیت سے خرچ ہوتاہے وہ پھر مکمل ہوجاتاہے۔
(۵)غذائیت سے حرارت غریزی کومدد ملتی ہے۔
(۶)غذائیت سے رطوبت غریزی قائم رہتی ہے۔
غذاکی ضرورت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ جس طرح تیل چراغ کی بتی میں خرچ ہوتاہے اور جلتاہے اسی طرح انسان اور حیوان کے بدن کی حرارت اور رطوبت بھی خرچ ہوتی ہے۔بالکل چراغ کے تیل اور بتی کی طرح جب وہ دونوں خرچ ہوجائیں تووہ بجھ کررہ جاتاہے۔اسی طرح حرارت اور رطوبت انسانی کے فنا ہوجانے سے انسانی زندگی کا چراغ بھی گل ہوجاتاہے۔پس حرارت اور رطوبت انسانی جوانتہائی ضروری اور لابدی اشیاء ہیں ان کا بدل اور معاوضہ ہونا لازمی امرہے تاکہ حرارت غریزی اور رطوبت غریزی فوراًجل کر فنانہ ہوجائیں۔اس لئے غذائیت ایک انتہائی ضروری اور لابدی شے ہے ۔اس لئے اس کی طلب اور تقاضا ایک اضطراری اور غیر شعوری حالت ہے۔
انسان کے جسم کی حرارت غریزی اور رطوبت غریزی کی مثالیں چراغ کی بتی اور تیل کی سی ہیں جوچراغ کے جلنے کو قائم رکھتے ہیں۔کبھی بتی جل جانے سے چراغ بجھ جاتاہے اور کبھی تیل خرچ ہوجانے سے چراغ گل ہوجاتاہے۔یہی صورت انسانی جسم میں پائی جاتی ہے اور حرارت غریزی اور رطوبت غریزی ختم ہوکر انسانی زندگی کو فناکرتی رہتی ہیں۔اس لئے اگر انسان حرارت غریزی کی حفاظت کرتارہے تونہ صرف طبعی عمر کوپہنچتاہے بلکہ امراض سے بھی محفوظ رہتاہے اور اس کے قویٰ اور طاقتیں قائم رہتی ہیں۔
حرارت کی پیدائش رطوبت کا قیام
اس حقیقت سے اکثر انسان ناواقف ہیں کہ حرارت کیسے پیداہوتی ہے اور رطوبت کیسے قائم رہتی ہے۔عام طورپر یہی ذہن نشین کرلیاگیاہے کہ جو غذا وقت بے وقت کھالی جائے وہ ضرورخون اور طاقت بن جاتی ہے۔زیادہ سے زیادہ گرم یامرغن اغذیہ کاکھالیناکافی ہے لیکن ایسی باتیں حقیقت سے بہت دور ہیں۔اگر اتنا سمجھ لینا کافی ہوتاتو ہر امیر آدمی انتہائی صحت مند اور ان میں کوئی مریض نظرنہ آتابلکہ اگرغور سے دیکھا جائے تو امیروں میں مریض زیاہ ہوتے ہیں اور بھوکے فقیروں اور غریبوں میں مریض خصوصاً پیچیدہ امراض کے مریض تومشکل سے نظرآتے ہیں۔اس سے ثابت ہواکہ صرف غذاکاکھالینا ہی صحت وطاقت کیلئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کیلئے کچھ اصول بھی ہیں تاکہ وہ غذاجسم میں جا کر مناسب طورپر حرارت اور رطوبت کی شکل و صورت اختیارنہ کرلے اور خرچ ہو۔ ایسانہ ہو کہ بجائے مفیدومعاون اثرات کے مضراور غیر معاون ثابت ہوکرمرض یافناکا باعث بن جائے۔ یہی صحیح غذاکے استعمال اور غذائیت سے مفید اثرات حاصل کرنے کاراز ہے۔
طاقت غذامیں ہے:جاننا چاہیے کہ انسانی جسم میں طاقت خصوصاً قوت مردانہ کے کمال کا پیداکرناصرف مقوی اور اکسیر ادویات پر ہی منحصر نہیں ہے کیونکہ ادویات توہمارے جسم کے اعضاء کے افعال میں صرف تحریک وتقویت اور تیزی پیداکرسکتی ہیں لیکن وہ جسم میں بذاتِ خود خون اور گوشت و چربی نہیں بن سکتیں کیونکہ یہ کام اغذیہ کا ہے۔
پس جب تک صحیح اغذیہ کے استعمال کواصولی طور پر مدنظر نہ رکھاجائے تواکسیر سے اکسیر مقوی اغذیہ وادویہ بھی اکثربے سود ثابت ہوتی ہیں۔اگر ان کے مفیداثرات ظاہر بھی ہوں توبھی غلط اغذیہ سے بہت جلد ان کے اثرات ضائع ہوجاتے ہیں۔حصولِ قوت میں اغذیہ کی اہمیت کااندازہ اس امر سے لگائیں کہ حکماء اور اطباء نے تقویت کیلئے جوادویات تجویز کی ہیں ۔ان میں عام طورپر اغذیہ کوزیاہ سے زیادہ شامل کیاہے ۔ مثلاً حلوہ جات وحریرہ جات اور مربہ جات اورخمیرہ جات وغیرہ شامل ہوتے ہیں ۔ان سے زیادہ تیز قسم کی اغذیہ کوادویات میں تبدیل کرنے کی صورت میں مثلاً ماء اللحم دو آتشہ وسہ آتشہ اور قسم قسم کی شرابیں شامل کرلی ہیں اور کسی جگہ بھی غذائی اثرات کونظرانداز نہیں اوریہی فن طب قدیم کا کمال ہے۔
ہم روزا نہ زندگی میں جوپلاؤ زردہ اور متنجن وفرنی وغیرہ چاولوں کی شکل میں استعمال کرتے ہیں ۔یہ سب کچھ اغذیہ کوادویات سے ترتیب دے کر ان میں تقویت پیداکی گئی ہے۔اسی طرح سوجی کی بنی ہوئی سویاں، ڈبل روٹی،حلوہ ، حریرہ اور پراٹھے یہ سب کچھ طاقت کومدنظررکھ کر اطباء اور حکماء نے ترتیب دیے ہیں۔البتہ ان کے صحیح مقام استعمال کوجاننے اور مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔
غذاسے طاقت کی پیدائش: غذاصرف کھالینے ہی سے طاقت پیدانہیں ہوتی بلکہ حقیقی طاقت اس وقت پیداہوتی ہے جب غذاکھالینے کے بعد صالح اور مقوی خون بن جاتاہے۔صالح اور مقوی خون میں حرارت اور رطوبت ہوتی ہے جورطوبت غریزی اورحرارت غریزی کی مددکرتی ہے۔رطوبت غریزی اورحرارت غریزی کا صحیح طوروپیدائش افعال واثرات اورخواص وفوائد کچھ وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر ربوبیت اور رحمت کی حقیقت واہمیت ،افعال واثرات اور خواص وفوائدکوذہن نشین کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کویہ شوق و جذبہ پیداہواہے کہ وہ زمانے میں ایک ربانی شخصیت بن جائے۔
بہرحال یہ اگرہرایک کے لئے سہل کام نہیں ہے توکم ازکم اس قدرہی سمجھ لے کہ صحت وطاقت کادارومدارصالح اور مقوی خون پر ہے اور اس خون سے بدن انسان کوہرقسم کی غذائیت اور قوت مل سکتی ہے اور ہماری غذامیں وہ تمام اجزاءء شامل ہوتے ہیں جن سے صحت منداور صالح خون پیداہوسکتاہے جو انسان میں غیرمعمولی طاقت پیداکردے بلکہ وہ طاقت اس کوشیرکے مقابلے میں کھڑاکرسکتی ہے۔ اس کے ثبوت میں ہم پہلوان کودیکھ سکتے ہیں جوکبھی کوئی دوا کھاکرپہلوان نہیں بنتے بلکہ غذاکھاکرپہلوان بنتے ہیں ۔البتہ ان کواس بات کاعلم ہوتاہے کہ وہ کیسی غذاکھائیں اور اس کو کس طرح ہضم کریں۔
غذااورطاقت:
یہ حقیقت ذہن نشین کرلیں کہ دنیا میں کوئی غذابلکہ دواایسی نہیں ہے جو انسان کوبلاوجہ اور بلاضرورت طاقت بخشے مثلاً دودھ ایک مسلمہ طورپر مقوی غذاسمجھی جاتی ہے لیکن جس کے جسم میں ریشہ اوربلغم اور رطوبات کی زیادتی ہواس کیلئے سخت مضرہے۔گویاجن لوگوں کے اعصاب میں تحریک اور تیزی وسوزش ہووہ اگردودھ کوطاقت کیلئے استعمال کریں گے توان کامرض روزبروز بڑھتاجائے گااور طاقتور ہونے کی بجائے کمزورہوتے جائیں گے۔اسی طرح مقوی اور مشہورغذاگوشت ہے ۔ہرمزاج کے لوگ اس طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایک فاضل حکیم جانتاہے کہ گوشت کاایک خاص مزاج ہے جس کسی کا وہ مزاج نہ ہواس کیلئے وہ مفید ہونے کی بجائے مضر ہے مثلاً لوگوں کے جسم میں جوشِ خون یاخون کادباؤ (ہائی بلڈپریشر)بڑھاہواہو۔ان کواگرگوشت خصوصاًبھناہوا گوشت کھلایاجائے توان کوالٹا کر مارے گا۔گویاجن لوگوں کے گردوں میں سوزش ہواس میں گوشت کااستعمال بجائے طاقت دینے کے سخت نقصان دہ ثابت ہوتاہے۔تیسری مقوی اور مشہور غذاگھی ہے جواس قدر ضروری ہے کہ تقریباً ہرقسم کی غذاتیارکرنے میں استعمال ہوتاہے۔لیکن جن لوگوں کوضعف جگرہووہ اگر گھی کااستعمال کریں گے تو ان کے ہاتھ پاؤں بلکہ تمام جسم پھول جائے گا اورسانس کی تنگی پیداہوجائے گی اور ایسا انسان جلدمرجاتاہے۔
یہی صورتیں ادویات میں بھی پائی جاتی ہیں۔دنیامیں کوئی ایسی دوامفردومرکب نہیں ہے جس کوبلاوجہ اور بلاضرورت استعمال کریں اور وہ طاقت پید ا کرے۔یہی وجہ ہے کہ آج جبکہ فن علاج کوپیداہوئے ہزارو ں سال گزرچکے ہیں کوئی حاذق اور فاضل حکیم بلاوجہ اور بغیرضرورت کسی ایک دوایاغذاکو عام طورپر مقوی(جنرل ٹانک)قرارنہیں دے سکتا ۔
غذاکھانے کاصحیح طریقہ:
میں نے سالہاسال کے طبی مطالعہ اور تجربات میں کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جوصحیح اور عوامی طریق پر انسان کوغذاکھانے کے اصول بتائے۔اس میں طب یونانی کے ساتھ ویدک کتب اور ماڈرن میڈیکل سائنس کی وٹامنی تھیوری تک شریک ہیں۔لیکن قرآن حکیم ہی ایک ایسی کتاب ہے جو صحیح اور عوامی طریق پرغذا کھانے کاانسان کوصحیح طریقہ بتاتی ہے۔میںیہ بات اپنے مذہب ،ایمان اور عقیدہ کی بناء پر نہیں کہتابلکہ علم وفن اور سائنس کومدنظر رکھ کر کہتاہوں جس کومیری اس بات میں مبالغہ معلوم ہو اس کو چیلنج ہے کہ قرآن حکیم کے سیدھے سادے اوریقینی طریق غذاکے استعمال کو دنیا کی کسی طبی یا سائنسی کتاب سے نکال کردکھادے میں اس شخص کی عظمت کوتسلیم کرلوں گا۔ایک بات میں یہاں اور بیان کر دوں گاکہ میں نے گذشتہ تیس سالوں میں کسی اسلامی قا نون کواس وقت تک تسلیم نہیں کیا جب تک اس کی حکمت وسائنس اورنفسیات کے قانون کوپرکھ نہیں لیا۔البتہ بعض مقامات پردنیا کی حکمت وسائنس اور نفسیات کے اصول غلط ہوجاتے ہیں لیکن قرآن حکیم کے قوانین اور سنت الہیہ میں فرق نہیں آتا۔ کیونکہ حقیقت ہی قانون ہے اور قرآنِ حکیم سرتاپا حقیقت ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے ۔
کلو وشرابوولاتسریفو
ترجمہ:کھاؤپیو مگربغیر ضرورت کے صرف نہ کرو۔
کتنی سادگی سے تین باتیں کہہ دی ہیں اور اس میں کھا نے پینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جس قدر جس کادل چاہے کھائے پئے کوئی کمی بیشی کی مقدار مقرر نہیں کی گئی ۔زیادہ کھانے والے بھی ہوتے ہیں اور کم کھانے والے بھی۔ ہر ایک کو کھلی اجازت ہے مگر تاکیدہے کہ بغیر ضرورت کھاناپینا منع ہے۔ اس ضرورت کا اندازہ کون لگائے۔اس کیلئے ہمارے سامنے پیٹ کی طلب ہے یعنی جوکچھ وہ مانگ رہاہے وہ اس کی ضرورت ہے اس کو بھوک ہے یا جوکچھ کھایا پیا جا رہاہے وہ صرف ایک خواہش کے تحت کھایاجارہاہے ۔اگربھوک پیاس کے بغیر صرف خواہش اور لذت کیلئے کھایا پیا جارہاہے تو پھریہ اصراف ہے ۔اس کوقرآن منع کرتاہے۔بھوک اورپیاس کا کون اندازہ لگائے ۔اس کاآسانی سے اندازہ روزوں سے لگایا جاسکتاہے کہ بھوک اور پیاس کیاہوتی ہے اور اس وقت کتناکھایاپیا جاسکتاہے۔گویاصحیح بھوک اور پیاس کے اندازکے مطابق بھوک پیاس ہے تو کھایاپیاجاسکتاہے ورنہ اس سے کم بھوک اورپیاس میں کھاؤ پیوگے تویہ خواہش اور لذت ہوگی ضرورت نہیں۔
مقدارغذاکااندازہ: مقدار غذاجوایک وقت کھانی چاہیے اور شدید بھوک پر ۔بھوک کا اندازہ چاہے وہ تیسرے روزہی کیوں نہ لگے پیٹ بھرنے سے کرسکتاہے۔مثلاً شدید بھوک میں انسان اپنے علاقہ ومقام اور معمول کے مطابق تین عدد روٹیاں یاچپاتیاں یا اتنی تھالیاں بھرکرکھاسکتاہے توپھرانسان پرلازم ہے کہ جب تک اس قدر کھانے کی ضرورت نہ ہوغذا کو ہاتھ نہ لگائے ۔جولوگ کم غذاکھاتے ہیں۔ان کے پیٹ میں پہلے ہی غذاپڑی ہوئی خمیر بن رہی ہوتی ہے ۔ اس لئے وہ تھوڑی غذاکھاتے ہیں اور وہ بھی پیٹ میں غذاسے مل کر خمیر بن جاتی ہے۔اس طرح خمیر کے ساتھ تبخیر کاسلسلہ جاری رہتاہے جوبڑھ کر زہرکی صورت اختیار کرلیتاہے جس کا نتیجہ مرض ا ور ضعف کی صورت میں ظاہر ہوتاہے۔
بلاضرورت غذا
بلاضرورت غذاضعف پیداکرتی ہے: عام طورپر اس قول وفعل اوربات و عمل پر سوفیصد یقین پایاجاتاہے کہ ضرورت وبلاضرورت غذاکھالی جائے تووہ جسم انسان کے اندرجاکریقینا طاقت پیداکرے گی۔اسی یقین کے ساتھ کمزوری اور مرض کی حالت میں بھی یہی کوشش کی جاتی ہے اور مریض کو مقوی غذادی جاتی ہے لیکن یہ نظریہ اور یقین حقیقت میں غلط ہے کیونکہ بلاضرورت غذاہمیشہ ضعف اور مرض پیداکرتی ہے۔جولوگ صحت اور طاقت کے متلاشی ہیں ان کو بلاضرورت کھانا تورہاایک طرف اس کوہاتھ لگانے اوردیکھنے سے بھی دور رہناچاہیے۔کیونکہ ہر غذاکودیکھنے اور چھونے سے بھی جسم میں لطف ولذت پیداہوتی ہے۔اس کابھی جسم پراثرہوتاہے جیسے ترشی کو دیکھ کرمنہ میں پانی آجاتاہے۔
ہضم غذا:
جوغذاہم کھاتے ہیں اس کا ہضم منہ سے شروع ہوتاہے۔لعاب دہن اور منہ اور دانتوں کی حرکات ودباؤ اس کی شکل وکیفیت کوبدل کراس کو ہضم کرنے کی ابتداشروع کر دیتے ہیں ۔جب غذامعدہ میں اترجاتی ہے تو اس میں ضرورت کے مطابق رطوبت ِمعدی اپنااثر کرکے اس کوایک خاص قسم کا کیمیائی محلول بنادیتی ہے اوراس کااکثرحصہ ہضم ہوکرخون میں شامل ہوجاتاہے۔اور باقی خوراک آنتوں میں اتر جاتی ہے۔معدہ کے فعل وعمل میں تقریباًتین گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔چھوٹی آنتوں میں پھراس کی رطوبت اور لبلبہ کی رطوبت اورجگرکا صفراباری باری اوروقتاً فوقتاًشریک ہوکراس میں ہضم ہونے کی قوت پیداکرتے ہیں ۔اس عمل وفعل میں تقریباًچارگھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ پھرکہیں جاکر غذاپورے طورپر جگرکے ذریعے پختہ ہو کر خون میں شامل ہوتی ہے۔
ظاہر میں توایسا معلو م ہوتاہے کہ غذاہضم ہوگئی ہے کیونکہ وہ خون میں بن جاتی ہے لیکن طب قدیم میں صحیح معنوں میں غذااس وقت تک ہضم نہیں ہوتی جب تک وہ خون سے جداہوکر جسم پر مترشح نہ ہواور پھر طبیعت اس کوجذب کرکے جزوبدن نہ بنادے ۔ غذاکوخون بننے تک اگرگیارہ گھنٹے صرف ہوتے ہیں توجزوبدن ہونے تک تین چار گھنٹے اور خرچ ہو جاتے ہیں۔
////////////////////////////