روحانی تشخیص کا طبی علاج
عملیاتی کلاس برائے عاملین۔
روحانی تشخیص کا طبی علاج:ذائقے
عاملین حضرات عموی طورپر ذائقوں سے تشخیص مرض فرماتے ہیں ،ذائقوں کے بارہ میں اسی کتاب میں بحث موجود ہے اس کے باوجود اجمالاََکچھ تحریر خدمت ہے۔ان ذائقوں سے علاج و معالجہ میںمعاونت لی جاسکتی ہے
(1)میٹھا:مفرح تسکین دینے والارطوبت بڑھاتا ہے، جسم میں ٹھنڈک پیدا کرتا ہے، پیشاب زیادہ لاتا ہے ،شدید مدر بول ہے،رفتہ رفتہ جسمانی حرارت کو ختم کردیتا ہے صفرا کو کم کرنے میں بے حد مفید ہے۔اگر کوئی دوا اعصاب پر اثرا انداز ہوکر سردی پیداکردے تو اس کا اثرجگرپر بھی ہوگا(اعصابی غدی)مزاج کے لحاظ سے یہ تر گرم اور مزہ میٹھا ہوگا۔
(2)کسیلا:جسم میں ٹھنڈک پیدا کرتا ہے،رطوبت بڑھاتا ہے،شدید مدر بول ہے ، یک دم جسمانی حرارت کو ختم کرنے کا سبب بنتا ہے،گرمی اور بخارکو کم کرنے میں بے حد مفید ہے۔ اگرکوئی دوااعصاب پر اثر انداز سردی پیدا کرد ے تو اس کا اثر اعصاب پر ہوگا(عضلاتی اعصابی ) تواس کامزاج سردتر ہوگااور مزہ کسیلا ہوگا۔
(3)ترش: مفرح و مقوی قلب ہے،رطوبت جسم کو خشک کرتا ہے،قابض ہے،مقوی جسم ہے خون پیداکرتا ہے،فوری ہاضم گرمی کے ساتھ جسمانی رطوبات کو بھی خشک کرتا ہے۔اگر کو ئی دوا قلب پر اثر انداز ہوکرسردی پیدا کردے تو اس اثر اعصاب پر ہوگا(عضلاتی اعصا بی ) تواس کا مزاج سرد خشک ہوگا اور مزہ ترش ہوگا۔
(4)کڑوا:مقوی قلب،مصفی خون ہے،جسم سے رطوبتوں کو خشک کرکے تقویت کا سبب بنتا ہے قابض ہے،پیشاب میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔خون صاف کرتا اور خون پیدا بھی کرتا ہے ۔ اگر کوئی قلب پر اثر انداز ہوکر گرمی پیدا کردے تو اس کا اثر جگر پر بھی ہوگا(عضلاتی غدی)تو مزاج خشک گرم ہوگا(خشکی گرمی سے زیادہ)تو اس کا مزہ کڑوا ہوگا۔
(5)چرپرہ:انتہائی گرم۔ملین و مسہل،مقوی جگر،جسم میں صفراء پیدا کرتا ہے،جسم کے ہر قسم کے زہروں کو ختم کرتا ہے،انتہائی ہاضم ہے ۔ اگر کوئی دوا جگر پر اثر انداز ہوکراپنی خشکی قائم رکھے تو اس کا ثر قلب پر ہوگا(غدی عضلاتی)تو اس کا مزاج گرم خشک ہوگا اور مزہ چرپرہ ہوگا۔
(6) نمکین:گرمی کے ساتھ رطوبتیں پیدا ہوتی ہیں،لذیذ ہے،ملین و مسہل اثر رکھتا ہے، ریاح کا اخراج کرتا ہے،ریاحی دردوں کے لئے اکسیر ہے ۔اگر کوئی دوا جگر پر اثر انداز ہوکر رطوبت کا اثر پیدا کردے تو اس کا اثر اعصاب پر بھی ہوگا(غدی اعصابی)تو مزاج گرم تر ہوگا اور ذائقہ نمکین ہوگا(تحقیقات علم الادویہ۔از مجدد الطب)عاملین اپنے مریضوں سے کیفیات معلوم کرکے انہیں غذا ،پھل اور ادویات تجویز کرسکتے ہیں۔
عملیاتی تشخیصات اور مفرداعضاء۔
عاملین جادو اور جنات کی تشخیصات کے لئے کچھ عملیاتی عبارتیں پڑھ کر حساب و کتاب لگاتے ہیں ضرب و جمع تفریق کے بعد جو اعداد یا ذائقے سامنے آئیں، ان کے مطابق حکم لگاتے ہیں،حکماء و عاملین میں جو بات سب کے لئے باعث کشش ہوتی ہے ،وہ ٹھیک تشخیص مرض اور مجرب و بے خطاء عمل ہیں۔منجملہ ان میں سے ایک تشخیص کا عمل حروف ابجد کے مطابق مریض بمع والدہ اور جس دن سوال کیا جائے سب کو جمع کرتے ہیں، اس کے جملہ اعداد کو چار پر تقسیم کرتے ہیں۔ایک آئے تو جنات کا اثر ، دو آئے تو نظر بد ،تین بچے توجسمانی مرض اور چارآئے (برابر)تو سحر و جادوہوتا ہے۔اسی طرح پانی پلاکر کچھ عمل کرتے اور ذائقہ معلوم کرتے ہیں۔کڑوا ہوتو جادو ، میٹھا ہوتو جنات۔ کسیلا ہوتو پڑھائی ،تعویذات وغیرہ بہت سے لاتعداد اعمال ہیں جو بے شمار لوگ کرتے کراتے ہیں عاملین معاشرہ میں جہاں فیس وصول کرتے ہیں وہیں پر معاشرہ میں طاقتور شخصیات کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔عوام ان سے خوف کھاتے ہیں،یہ باتیں ہمارے موضوع اور بیان سے باہر ہیں البتہ علاج و معالجہ کے سلسلہ میں کچھ مفید باتیں حاضر خدمت ہیں۔
٭نفسیات۔۔جذبات
حدیث مبارکہ ہے۔ جان بوجھ کر بیمار نہ بنا کرو (ورنہ) بیمار پڑجاؤ گے ، اور (مرنے سے پہلے ہی) اپنے لیے قبریں نہ کھود لیا کرو (ورنہ) مرجاؤ گے۔ (الدیلمی عن وھب بن قیس الثقفی)
تشریح :۔انسان نفسیاتی طور پر جب کسی چیز کو اپنے دل و دماغ پر سوار کرلیتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ اس کے دباؤ میں آجاتا ہے، مثلاً جو لوگ جادو ٹونے تعویذ گنڈے اور جنات کا ڈر ہر وقت دل میں رکھتے اور بات بات پر ان سے متاثر ہوتے اور انہیں موثر سمجھتے ہیں وہ اکثر وہمی طور ان چیزوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں دوسرا شخص انہیں لاکھ سمجھائے بجھائے لیکن وہ کسی کی بات قبول نہیں کرتے وہ کہتے ہیں ہم پر جو بیتی ہے وہی سچ ہے، حالانکہ وہ ان کا فقط وہم اور مالیخو لیا ہے، ورنہ جادو بذات خود کسی بیماری کا نام نہیں یہ ایک فن ہے ، اور جنات ایک مخلوق ہے جیسے چیونٹیاں ایک مخلوق ہیں لیکن لوگ چیونٹوں سے نہیں ڈرتے جنات سے خوفزدہ رہتے ہیں، وجہ اصل یہ ہے کہ نسلاً بعد نسل لوگوں میں جنات کا اتنا تاثر پھیلا ہے کہ لوگ ہر انہونی اور عجیب بات کو جنات کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ کنزالعمال:جلد دوم:حدیث نمبر 2297 (
طب،نفسیات۔۔۔جنات
جذبات و نفسیات کو ہم انہی چھ تحریکات میں ضم کرسکتے ہیں کیونکہ یہ اعضائے رئیسہ کی مختلف تحریکوں سے پیدا ہوتے ہیں مثلاَ َ (1)غصہ(2)غم (3) ندامت(4) خوف (5) لذت (6) مسرت ۔ یہ سب چھ تحریکوں سے پیدا ہوتے ہیں اور ہر ایک عضو رئیس دو دو جذبات سے متأثر ہوتا ہے۔
(1)جگر کی غدی عضلاتی تحریک میں غصہ پیدا ہوتاہے ۔غصہ و طیش کی حالت میں چہرہ اور آنکھیں سرخ۔ بھوئیں تنی ہوئی ہونٹ کانپتے ہوئے ذہن پر قابو نہ ہونے کی وجہ سے سوچ سمجھ کر بات نہیں ہوپاتی۔طیش غصہ سے بھی شدید حالت ہے ،اس لئے چہرہ کے تأثرات مزید شدید اور فرد کو نتائج سے بے پروا کردیتے ہیں
(2) غدی اعصابی تحریک میں غم پیدا ہوتا ہے(حدیث میں ہے غم انسان میںبیماری پیدا کرتاہے’’ ابو نعیم فی الطب240/1) ۔شک کی بیماری بھی اسی تحریک میں پیدا ہوتی ہے۔
(3)دماغ کی اعصابی غدی تحریک میں ندامت ۔جن کی طبیعت میں خوف،ندامت اور غم کے جذبات زیادہ ہوں وہ حسن کی لذت سے اول تو لطف اندوز ہوتے ہی نہیں اور اگر ہوں بھی تو بہت کم ،ادویات سے اس قسم کے جذبات پیدا کئے جاسکتے ہیں ، ختم بھی کئے جاسکتے ہیں،رنج و ملال اور افسوس کی حالت میں جسمانی افعال۔غیر کلوی ہارمونز کی وجہ سے مندرجہ ذیل عضویاتی تبدیلیاں دیکھنے میں آسکتی ہیں
(1)دل و پھپھڑوں کی حرکت آہستہ ہوجاتی ہے (2)آنسوؤں کے غدود زیادہ تیزی سے کام کرنا شروع کردیتے ہیں (3)کبھی فرد روتا ، پیٹتا چیختا چلاتا ۔بین کرتا ہے ،لیکن ہوش مندی والے کام کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے(4)دماغ میں تناؤ واقع ہوجاتا ہے(5)فرد بہکی بہکی باتیں کرتا اور انہیں دوہراتا چلاجاتا ہے (6)نیند بھوک تھکان کا احساس مٹ جاتا ہے (7)اگر خود اختیاری نظام عصبی میں گڑ بڑ پیدا ہوجا ئے تو ہیجانات ختم ہوجاتے ہیں اکثر لوگ بے حسی کا شکار ہوکر خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوجاتی ہے اور سکتہ کی یہ کیفیت زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے ۔
(4) اعصابی عضلاتی میں خوف کا غلبہ ہوتا ہے۔ ڈر اور خوف اعصابی عضلاتی میں انسان کا رنگ سفید ہوجاتا ہے رد عمل بخار ہوجاتا ہے، جس کا علاج عضلات کو تحریک دیناہے۔ علاوہ ازیں بال کھڑے ،منہ کھلا دماغی فعلیت مختلف ہوجاتی ہے کبھی فرد بھاگ اٹھتا ہے اور اپنی طاقت زیادہ جمع کرکے خطرے کے مہیج کے مقابلہ پر اتر آتاہے، کبھی اس کی تمام قوت سلب ہوجاتی ہے اور فرط دہشت سے بے ہوش ہوجاتا ہے ۔
خوف کے ہیجانات کے دوران جسمانی اور عضویاتی تبدیلیاں:
خوف کی حالت میں غیر کلوی رطوبت تخفیفی نظام عصبی کے تحت کام کرنے لگتا ہے جس سے غیر کلوی رطوبت کی مقدار تبدیل ہوجاتی ہے عضوی طور پر اس قسم کی تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں(1)نبض سست پڑ جاتی ہے(2)دل پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے(3)دل کی رفتار کم ہوکر دل ڈوبنے لگتا ہے(4)قوت ہاضمہ متأثر ہوتی ہے اکثر اوقات معدہ کام نہیں کرتا یا کم کرتا ہے(5)بھوک کا احساس کم ہوجاتا ہے دماغ ان وظائف کو قابو کرنے لگتا ہے (6)جسمانی طاقت سلب ہوجاتی ہے، فرط جذبات سے بے ہوشی تک نوبت پہنچ جاتی ہے (7)آوز بند حلق خشک ہوجاتا ہے(8) کبھی خطرہ سے حفاظت کے لئے زائد طاقت آجاتی ہے جس سے انسان فراری عمل برق رفتاری کا مظاہرہ کرتا ہے(9) ہنگامی صورت میں محرکات توانائی دہندہ ہوتے ہیں۔
(5) قلب اپنی عضلاتی اعصابی میں لذت ۔حسن کی دلکشی سے وہی دماغ متاثر ہوتے ہیں جن میں لذت اور مسرت کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔
(6) عضلاتی غدی میں مسرت کا اظہار کرتاہے۔ خوشی کی حالت میں چہرے پر اطمنان آنکھوں میں چمک چہرے،پتلیوں،ہونٹوں کے کناروںمیں کشادگی و پھیلاؤ آجا تا ہے ، ہنسی قہقہے اور شدید حالت میں ناچنے کودنے کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ خوشی سکون اور مسرت میں اندرونی تبدیلیاں۔کلوی رطوبتوں کے اخراج میں تیزی آجاتی ہے اندونی طور پر یہ تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں(1)جسم فعال ہوجاتا ہے ہر کام بخوشی تیزی اور کامیابی سے تکمیل کو پہنچتا ہے (2)معدہ معمول سے زیادہ کام کرنے لگتا ہے، بھوک خوب کھل کر لگتی ہے (3)خون کی گردش،دل کی دھڑکن کے بڑھ جانے کے باعث تیز ہوجاتی ہے (4)چہرہ کھل اٹھتا ہے دماغ کے اعصاب میں تناؤ کم ہوکر سکونی کیفیت زیادہ محسوس ہونے لگتی ہے (5)فرد بات بات پر خوشی کا اظہار کرتا ہے ۔لوگوں کو لطیفے کہانیاں سناسنا کر ہنسا تا اور جان محفل بن جاتا ہے (6)جنسی و شہوانی ہیجانات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔چھ قسم کے جذبات انسان کو متأثر کرتے ہیں۔آج کل زیادہ تر لوگوں کو ذہنی تناؤ کا سامنا ہے ہم ایسے نسخہ جات سے مستفید ہوسکتے ہیں جو اُن کی تحریک بدل کر مسرت و شادمانی کی کیفیات کو جنم دے سکیںان نسخہ جات کو مناسب مواقع کی مناسبت سے کام میں لا سکتے ہیں .
جذبات کی زیادتی
جذبات کی شدت نہ صرف جسم میں امراض پیدا کرتی ہے بلکہ جسم کوکثرت سے تحلیل کرتی ہے ،زیادہ کثرت زیادہ تحلیل کا باعث ہے ،زیادہ غصہ و غم سے دل میں زیادہ تحلیل پیدا ہوتی ہے غصہ کی حالت میں فوراََ پانی پینا چاہئے یا لیٹ جانا چاہئے ۔حدیث پاک میں بھی اس کا یہی علاج تجویز فرمایا گیا ہے۔غم کی حالت میں مسرت کے قیام اور خدائے رحیم کی رحمت کا تصور ذہن میں تازہ کرنا چاہئے۔خوف کی حالت میں اعصاب تحلیل ہوتے ہیں اور بعض اوقات بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے ایسے وقت میں خوف ذدہ آدمی میں غصہ پیدا کرنا چاہئے تاکہ خوف رفع ہوجائے ۔ مسرت و لذت کے جذبات کی کثرت سے ضعف جگرپیدا ہوتا ہے اور بعض اوقات جگر اس قدر تحلیل ہوجاتا ہے کہ صحت خطرے میں پڑجاتی ہے، اعتدال سے زیادہ لذت و مسرت میں گرفتار نہیں رہنا چاہئے، زیادہ قہقہے نہیں مارنے چاہئیں اس سے بھی جسم میں اکثر تحلیل کی صورت پیدا ہوجاتی ہے بموجب حدیث دل مردہ ہوتا ہے(سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1073 ) عمومی طورپر جب انسانی طبیعت میں غم و فکر زیادہ ہوجائے عاملین اس کیفیت کو جادو و جنات سے منسوب کرتے ہیں۔احادیث مبارکہ میں انسانی طبیعت پر ہونے والی کیفیات کو بیان فرمایا اور کچھ کا علاج بھی بتادیا کہ(إِنَّ التَّلْبِينَةَ تُجِمُّ فُؤَادَ المَرِيضِ، وَتَذْهَبُ بِبَعْضِ الحُزْنِ.صحيح البخاري (7/ 124)یعنی تلبینہ دل کی مضبوطی اور غم کو دور کرنے کا سبب ہے۔طبی نکتہ یہ کہ جب انسانی کیفیات بدل جاتی ہیں تو سوچ اور نظریات بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔
حواس خمسہ نہیں ستہ ہیں
طبی دنیا میں ہزاروں سال سے لوگ حواس خمسہ کا نظریہ اپناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور طبی کتب میں اس پر الگ سے باب باندھے گئے ہیں آج بھی جب حواس کی بات کی جاتی ہے تو حواس خمسہ کہا جاتا ہے۔جب کہ مشاہدات حواس ستہ کی گواہی دیتے ہیں حواس مشہورہ میں دیکھنا۔ سننا۔ چکھنا۔ چھونا ، سونگھنا۔ وغیرہ ہیں۔جب کہ مفرد اعضا کا قانون کہتا ہے کہ تحریکیں چھ ہوسکتی ہیں تو حواس چھ کیوں نہیں ہو سکتے ؟اگر ان حواس کی فہرست میں ایک احساس کا ھی اضافہ کرلیں تو اس دائرہ کی تکمیل ہوسکتی ہے ۔ مثلاََ جب ہم کسی چیز کاوزن محسوس کرنا چاہتے ہیں تو ہتھیلی پر رکھ کر اسے ایک دو بار اوپر نیچے کرتے ہیں اور اپنا اندازہ ظاہر کردیتے ہیں۔یہ تولہ ہے۔ماشہ ہے۔چھٹانک ہے ۔ یہ اندازہ کس احساس کے ذریعہ لگایا گیا ہے؟ یقینی بات ہے یہ احساس گوشت میں موجود ہے یعنی چھٹی حس انسان کے گوشت کے اندر ہے ۔ اس لئے آج کے بعد خواس خمسہ نہیں حواس ستہ کہنا مناسب ہوگا۔ تحقیقات کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا اہل تحقیق کبھی چین سے نہیں بیٹھا کرتے۔
ہدایات برائے عاملین،روحانیات
طب و حکمت سائنسی انداز میں صرف ان باتوں کو موضوع سخن بناتے ہیں جو دیکھے اور چھوئے جاسکیں یہی اصول سائنسی علوم کیمسٹری ، فزکس،بیالوجی وغیرہ میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے اس سے انکاری ہیں یعنی جو چیز حاسہ انسانی سے باہر ہے وہ ان کے موضوع سے بھی خارج ہے ،تاریخ میں اس کے شواہد پائے جاتے ہیں کہ مذکورہ بالاعلوم کے ماہرین تجرباتی زندگی میںکسی نہ کسی اندازمیں روحانیت کی طرف ضرور راغب ہوئے، بساط بھر انہوں نے روحانیات میں دلچسپی بھی لی۔کئی سائنس دانوں نے اس قسم کے آلات ایجاد کرنے کی کوشش کی جن کی وساطت سے اَن دیکھی دنیا کے باشندوں سے رابطہ کیا جا سکے ،سائنسدانوں کا اپنا انداز تھا،وہ ایک خاص زاویہ سے سوچتے اور اشیاء کو پرکھتے ہیں ۔ دوسری طرف آسمانی ادیان و مذاہب نے روحانیات یا اَن دیکھی دنیا کے بارہ میں خاص زور دیا ہے ،مختلف ادیان و مذاہب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے ،انداز سب کے مختلف ہیں لیکن منزل ایک سی دکھائی دیتی ہے۔جزاء و سزاء پر ہرایک آسمانی مذہب نے یقین دلایا ہے مرنے کے بعد بھی زندگی کا تسلسل اسی طرح باقی و جاری رہے گا ۔اس جگہ ہمارا روئے سخن جادو جنات، دیگر روحانیات ہیں، جن کے بارہ میں دم جھاڑا کرنے والے معالجین کا کہنا ہے کہ ہم انسانی جسم پر اَن دیکھی چیزوں کے منفی اثرات ، دکھ و تکالیف کا ازالہ کرتے ہیں،اس بارہ میں مخصوص علامات و نشانات کے عمل تشخیص سرانجام دیتے ہیں۔اس موضوع پر لکھی جانے والی کتب میںیہ علامات و تشخیصات بصراحت لکھی ہوئی ملتی ہیں۔عملیات کے موضوع پر راقم الحروف کی کئی تصنیفات ہیں ،جادو کی تاریخ،جادو کے بنیادی قوانین اور ان کا توڑ۔جادو و جنات کے توڑ کے بارہ میں عرب و عجم کے مجربات۔منزل اور اس کے فوائد۔طلسماتی ابجدیں، میرے عملیاتی مجربات قدیم لوگوں کی بیاضیں۔جو مانگو سو ملے،آپ کی ضرورتیں اور ان کا حل،وغیرہ)
علاج و معالجہ۔جادو گر اور طبیب
کہتے ہیں جادو ادیان کے مقابلہ کی چیز ہے، جب اس پر پابندی عائد کی گئی تو اس نے اپنا روپ بدل لیا اور جادو ایک ہوا بن کر نفوس پر چھا گیا، لوگوں میں اس کی اہمیت کی بنا پر خفیہ طور پر اسے اپنا لیا گیا، جادو ایک سلسلہ وار کڑی کی صورت میں لوگوں میں ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں منتقل ہوتا گیا ، جادو کو لوگ ہر کام کے لئے استعمال کرتے تھے اگر اس سے دشمن کو ہلاک کیا جاسکتا تھا تو اس سے مریضوں کا علاج و معالجہ بھی کیا جاسکتا تھا، ہم چشموں میں برتری جتانا اور مفادات کا حصول اور نقصانات سے بچائو کی صورتیں بھی اختیار کیا جاتی تھیں ،حب و بغض کی کاروائیاں کی جاتی تھیں، عاشق لوگوں پر جب جنون طاری ہوجاتھا تو اس کا علاج بھی سحری طریقے پر کیا جاتا تھا۔
ایک جادو گر ماہر طبیب بھی ہوتا تھا جادو گر اور کاہن میں جب کبھی مقابلہ معالجہ ہوتا تو ساحر کاہن سے زیادہ حاذق ثابت ہوتا تھا کیونکہ کاہن صرف اپنی معلومات کی بنیاد پر کام کرتا تھا جب کہ جادو گر جڑی بوٹیوں درختوںکے پتے۔نمکیات۔وغیرہ سے بھی کام لیتا تھا اس لئے ساحر اپنے کام میں زیادہ مہارت کا مظاہرہ کرتا تھا۔کاہن جنات و جنون کا علاج نہیں کرتے تھے لیکن ساحر اس میں کامل مہارت رکھتاتھا، وہ جنون و جنات کو دور کرنے کی خاطر اوراد بھی کرتا تھا ،مخصوص حرکات بھی کیا کرتاتھا اگر کسی طرح بات بنتی دکھائی نہ دیتی تو چھڑی سے پٹائی بھی کیا کرتا تھا، آج کل بھی جادو گر اور عاملین حضرات جناتی مریضوں کو مارتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سحر و جناتی اعمال میں آج بھی بہت سی اشیاء وہی استعمال کی جارہی ہیں جو قبل از تاریخ یا زمانہ جاہلیت میں ساحر و کاہن لوگ استعمال کرتے تھے ۔جیسے اونٹ کی ہڈیاں ۔ خرگوش کا پنجہ وغیرہ اکثر طبیب جادو گر ہوتے ہیں۔ اس معمہ کے لئے طبی کتب کا مطالعہ مفید رہے گا۔
عملیاتی تشخیصات اور مفرداعضاء۔
عاملین جادو اور جنات کی تشخیصات کے لئے کچھ عملیاتی عبارتیں پڑھ کر حساب و کتاب لگاتے ہیں ضرب و جمع تفریق کے بعد جو اعداد یا ذائقے سامنے آئیں، ان کے مطابق حکم لگاتے ہیں،حکماء و عاملین میں جو بات سب کے لئے باعث کشش ہوتی ہے ،وہ ٹھیک تشخیص مرض اور مجرب و بے خطاء عمل ہیں۔منجملہ ان میں سے ایک تشخیص کا عمل حروف ابجد کے مطابق مریض بمع والدہ اور جس دن سوال کیا جائے سب کو جمع کرتے ہیں، اس کے جملہ اعداد کو چار پر تقسیم کرتے ہیں۔ایک آئے تو جنات کا اثر ، دو آئے تو نظر بد ،تین بچے توجسمانی مرض اور چارآئے (برابر)تو سحر و جادوہوتا ہے۔اسی طرح پانی پلاکر کچھ عمل کرتے اور ذائقہ معلوم کرتے ہیں۔کڑوا ہوتو جادو ، میٹھا ہوتو جنات۔ کسیلا ہوتو پڑھائی ،تعویذات وغیرہ بہت سے لاتعداد اعمال ہیں جو بے شمار لوگ کرتے کراتے ہیں عاملین معاشرہ میں جہاں فیس وصول کرتے ہیں وہیں پر معاشرہ میں طاقتور شخصیات کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔عوام ان سے خوف کھاتے ہیں،یہ باتیں ہمارے موضوع اور بیان سے باہر ہیں البتہ علاج و معالجہ کے سلسلہ میں کچھ مفید باتیں حاضر خدمت ہیں۔
ہدایات برائے عاملین،روحانیات
طب و حکمت سائنسی انداز میں صرف ان باتوں کو موضوع سخن بناتے ہیں جو دیکھے اور چھوئے جاسکیں یہی اصول سائنسی علوم کیمسٹری ، فزکس،بیالوجی وغیرہ میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے اس سے انکاری ہیں یعنی جو چیز حاسہ انسانی سے باہر ہے وہ ان کے موضوع سے بھی خارج ہے ،تاریخ میں اس کے شواہد پائے جاتے ہیں کہ مذکورہ بالاعلوم کے ماہرین تجرباتی زندگی میںکسی نہ کسی اندازمیں روحانیت کی طرف ضرور راغب ہوئے، بساط بھر انہوں نے روحانیات میں دلچسپی بھی لی۔کئی سائنس دانوں نے اس قسم کے آلات ایجاد کرنے کی کوشش کی جن کی وساطت سے اَن دیکھی دنیا کے باشندوں سے رابطہ کیا جا سکے ،سائنسدانوں کا اپنا انداز تھا،وہ ایک خاص زاویہ سے سوچتے اور اشیاء کو پرکھتے ہیں ۔ دوسری طرف آسمانی ادیان و مذاہب نے روحانیات یا اَن دیکھی دنیا کے بارہ میں خاص زور دیا ہے ،مختلف ادیان و مذاہب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے ،انداز سب کے مختلف ہیں لیکن منزل ایک سی دکھائی دیتی ہے۔جزاء و سزاء پر ہرایک آسمانی مذہب نے یقین دلایا ہے مرنے کے بعد بھی زندگی کا تسلسل اسی طرح باقی و جاری رہے گا ۔اس جگہ ہمارا روئے سخن جادو جنات، دیگر روحانیات ہیں، جن کے بارہ میں دم جھاڑا کرنے والے معالجین کا کہنا ہے کہ ہم انسانی جسم پر اَن دیکھی چیزوں کے منفی اثرات ، دکھ و تکالیف کا ازالہ کرتے ہیں،اس بارہ میں مخصوص علامات و نشانات کے عمل تشخیص سرانجام دیتے ہیں۔اس موضوع پر لکھی جانے والی کتب میںیہ علامات و تشخیصات بصراحت لکھی ہوئی ملتی ہیں۔عملیات کے موضوع پر راقم الحروف کی کئی تصنیفات ہیں ،جادو کی تاریخ،جادو کے بنیادی قوانین اور ان کا توڑ۔جادو و جنات کے توڑ کے بارہ میں عرب و عجم کے مجربات۔منزل اور اس کے فوائد۔طلسماتی ابجدیں، میرے عملیاتی مجربات قدیم لوگوں کی بیاضیں۔جو مانگو سو ملے،آپ کی ضرورتیں اور ان کا حل،وغیرہ)
علاج و معالجہ۔جادو گر اور طبیب
کہتے ہیں جادو ادیان کے مقابلہ کی چیز ہے، جب اس پر پابندی عائد کی گئی تو اس نے اپنا روپ بدل لیا اور جادو ایک ہوا بن کر نفوس پر چھا گیا، لوگوں میں اس کی اہمیت کی بنا پر خفیہ طور پر اسے اپنا لیا گیا، جادو ایک سلسلہ وار کڑی کی صورت میں لوگوں میں ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں منتقل ہوتا گیا ، جادو کو لوگ ہر کام کے لئے استعمال کرتے تھے اگر اس سے دشمن کو ہلاک کیا جاسکتا تھا تو اس سے مریضوں کا علاج و معالجہ بھی کیا جاسکتا تھا، ہم چشموں میں برتری جتانا اور مفادات کا حصول اور نقصانات سے بچائو کی صورتیں بھی اختیار کیا جاتی تھیں ،حب و بغض کی کاروائیاں کی جاتی تھیں، عاشق لوگوں پر جب جنون طاری ہوجاتھا تو اس کا علاج بھی سحری طریقے پر کیا جاتا تھا۔
ایک جادو گر ماہر طبیب بھی ہوتا تھا جادو گر اور کاہن میں جب کبھی مقابلہ معالجہ ہوتا تو ساحر کاہن سے زیادہ حاذق ثابت ہوتا تھا کیونکہ کاہن صرف اپنی معلومات کی بنیاد پر کام کرتا تھا جب کہ جادو گر جڑی بوٹیوں درختوں کے پتے۔نمکیات۔وغیرہ سے بھی کام لیتا تھا اس لئے ساحر اپنے کام میں زیادہ مہارت کا مظاہرہ کرتا تھا۔کاہن جنات و جنون کا علاج نہیں کرتے تھے لیکن ساحر اس میں کامل مہارت رکھتاتھا، وہ جنون و جنات کو دور کرنے کی خاطر اوراد بھی کرتا تھا ،مخصوص حرکات بھی کیا کرتاتھا اگر کسی طرح بات بنتی دکھائی نہ دیتی تو چھڑی سے پٹائی بھی کیا کرتا تھا، آج کل بھی جادو گر اور عاملین حضرات جناتی مریضوں کو مارتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سحر و جناتی اعمال میں آج بھی بہت سی اشیاء وہی استعمال کی جارہی ہیں جو قبل از تاریخ یا زمانہ جاہلیت میں ساحر و کاہن لوگ استعمال کرتے تھے ۔جیسے اونٹ کی ہڈیاں ۔ خرگوش کا پنجہ وغیرہ اکثر طبیب جادو گر ہوتے ہیں۔ اس معمہ کے لئے طبی کتب کا مطالعہ مفید رہے گا۔
1/(صفراوی(غدی) علامات۔گرمی کی بیماریاں)
جادو کی علامات میں جو باتیں مشہور عام ہیں ان میں کندھوں پر وزن رہنا۔ خیالات کا منتشر رہنا، گھر میں دل نہ لگنا ،بات بات پر غصہ آنا،قوت فیصلہ کا فقدان ،نیند کا ختم ہونا یا کم آنا۔گھر میں دل نہ لگنا، باہر پر فضا ء مقام پر خوش رہنا ۔ کھانے کی طرف رغبت کا نہ ہو نا۔ہر بات میں شک کا اظہار کرنا ۔ سینہ پر جلن اور سوئیاں چبھنا ۔ خواب میں مردے ،کفن، آگ، لڑائی جھگڑا دیکھنا ۔دن بدن طبیعت کا گرنا ،منہ کا ذائقہ کڑوا ہونا۔اگر کوئی بات نہ مانے یا مریض محسوس کرے کہ میری کوئی اہمیت نہیں تو رونے چیخنے چلانے لگنا۔بیٹھے بیٹھے رونے لگنا ۔ شادی شدہ لوگوں کا بیوی کی طرف رجحان کا نہ ہونا ، سرعت انزال۔منی کا پانی طرح پتلا ہونا ،خواب میں بندر دکھائی دیناوغیرہ وغیرہ جادو سحر بندش اور پڑھائی وغیرہ کے اثرات کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
عورتوں میں نلوں کا درد،حمل کا تیسرے ماہ ساقط ہونا۔کمرو کندھوں پر بوجھ رہنا ،خاوند و بچوں سے خفا رہنا۔گھریلو کام کاج کی طرف دھیان نہ دینا۔خاوند کے ساتھ بے رخی، ہم بستری سے خوف کھانا۔معمولی معمولی باتوںپر لڑائی جھگڑے پر اتر آنا۔خواب میں مصیبت ، لڑائی جھگڑے،آگ وغیرہ دیکھنا۔مجمع اور لوگوں کی بھیڑ سے دل گھبرانا۔تنہائی پسند ہونا۔حواس کا معمول سے زیادہ تیز ہو نا ۔ ماہواری کا بے قاعدہ کم اور درد کے ساتھ آنا وغیرہ سحر و جادو پڑھائی تقش وغیرہ کی علامات کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔
بچوں میں جسمانی طورپر سوکھنا۔چڑچڑا پن ہونا۔بات بات پر ضد کرنا۔کھانے پینے کی طرف رغبت نہ کرنا۔پیشاب کا جل کر آنا۔پڑھائی کی طرف دھیان نہ دینا۔ ہم عمر بچوں کے ساتھ اکثر لڑائی جھگڑا کرنا۔اچھی اور معقول خوراک کے باوجود سوکھتے جانا۔دورے پڑنا،ہاتھ پاؤں کاا کڑ جانا، دورے کے وقت جھٹکے لگنا ،قد کا مناسب انداز میں نہ بڑھنا،نیند کا کم ہونا،معمولی کھڑاک سے بیدار ہوجاناوغیرہ
مفرد اعضاء والے ان تمام علامات کو گرمی کی زیادتی جسم کی سوزش۔جگر و غدد کی تیزی۔جسم میں صفراء کی زیادتی مانتے ہیں اگر یہ علامات کسی میں دیکھی جائیں تو انہیں اعصابی غدی اور اعصابی عضلاتی ادویات اور غذائیں دی جائیں کیونکہ یہ لوگ غدی عضلاتی(جسم میں حد اعتدال سے بڑھے ہوئے صفرا )کے مریض ہوتے ہیں ۔گر م چیزیں برائیلرمرغی۔انڈے ،تیز مرچ مصالحہ سے پرہیز کرایا جائے، انشاء اللہ مریض دنوں میں ٹھیک ہوجائے گا۔ایسے مریضوں کو عرق سونف۔عرق گلاب پلانا۔زیرہ سفید گلاب کے پھول،الائچی سبز کا قہوہ پلانا فرحت بخشتا ہے۔اگر مریض کو دودھ جلیبیاں کھلائی جائیں۔ناشتہ میں گاجرکا مربہ دودھ کے ساتھ۔اور شام کوایک چمچ گلقند کے ساتھ دیں تو علامات میں بہت افاقہ محسوس ہوتا ہے۔کھلی تازہ ہوا میں چہل قدمی کرنا،صبح کے وقت کی سیر۔موسم کے لحاظ سے ٹھنڈے پانی سے غسل کرنا بہترین نتائج کا حامل علاج ہے۔میں نے کسی جگہ پڑھا کہ صبح کے وقت چلتے ہوئے پانی سے غسل کرنا بڑے سے بڑے جادوکو ختم کردیتا ہے۔(الداء والدواء للصدیق حسن خاں)
2(سوداوی)عضلاتی علامات
ہونٹوں کا سیاہ ہونا،خواب میں بھینس،کالے بادل،خوفناک چیزیںدکھائی دینا،سوتے میں سانس کا گھٹنا ،کھاتے وقت لقمہ کا حلق میں پھنسنا، خون،لڑائی فساد،گہرا کالاپانی دیکھنا،خواب میں ایسی جگہ پھنس جانا جہاں سے بھاگنا چاہے تو نہ بھاگ سکے،کمر اور پٹھوں میں خشک درد،منہ کا خشک رہنا، قبض کا رہنا،ہاتھ پاؤں میں جلن ہونا ،جسم کے نازک حصوں سے خون کا پھوٹ نکلنا ،نکسیر کا پھوٹنا، معدہ کا سکڑ کر چھوٹا ہو جانا کہ جو بھی کھایا جائے فوراََقے کرد ے، چہرے اور آنکھوں کا اندر کی طرف دھنس جانا،چہرے کے گوشت کا کھچ جا نا، ناخونوں کا موٹا ہونا اور پھٹ جانا وغیرہ عضلاتی یعنی خشکی کی علامات ہیں۔علاج کے لئے گرم (غدی ) اشیاء کا استعمال کرائیں انشاء اللہ بہت جلد مریض ٹھیک ہوگا اور معالج کی شہرت کا سبب بنے گا۔
3۔۔(بلغمی)اعصابی علامات
جادو وجنات کے مریضوں کے لئے عاملین نے بہت سی علامات کے یہ بھی مقرر کی ہوئی ہیں کمر درد، لیکوریا،اعصاب کا کمزور ہونا،کثرت بلغم کی وجہ سے جسم کا معمول سے زیادہ ٹھنڈا ہو نا ،خواب میں کشتی،پانی،سیلاب دیکھنا۔دل کا ڈوبنا۔ رات بھر نیند کا نہ آنا، اندھیرے اور تنہائی میںڈر و خوف محسوس کرنا۔ نزلہ ،کھانسی، بلغمی علامات،سفید لیکوریا، ماہواری کا بند ہو نا،جسم کادرد کرنا، چلنے سے راحت محسوس کرنا،ہ ڈیوں کا نرم ہوجانا ۔ الٹی،قے کا ہونا،مرگی کا دورہ پڑنا جس میں منہ جھاگوں سے بھرجاتا ہے۔عورتوںکو ایسے دورے پڑنا کہ انہیں ساری باتیں سنائی دیں لیکن بول نہ سکے۔دورے کے بعد جسم کا درد کرنا۔ہڈیاں ٹوٹی ہوئی محسوس ہونا،دوسرے کے وقت گرم اشیاء سے فائدہ ہونا۔،وغیرہ اعصابی (بلغمی) علامات ہیں جن کا علاج عضلاتی(خشک مزاج) کی اشیاء ہیں ،انہیں بڑاگوشت ،مرچ مصالحہ کھٹی اشیاء کھلائی جائیں،انار ،سٹابری،سیب ۔کھٹی لسی۔آملہ کامربہ،لونگ دار چینی کا قہوہ کھلائیں،پلائیں،بہت جلد مریض صحت یاب ہوجائیگا۔کسی بھی میدان میں کی گئی تشخیص میں کسی حد تک گنجائش باقی رہتی ہے، انسانی کاوش تجرباتی عمل میں بہرحال کہیں نہ کہیں جھول اور گنجائش ضرور موجود ہوتی ہے،حکیم و معالج ہو یا روحانیت کا دعویدار عامل کوئی بھی دعوی ہے یہ بات نہیں کہہ سکتا مریض کے بارہ میں جو فیصلہ کیا ہے وہ سوفیصد درست و صحیح ہے ممکن ہے کوئی پہلو نظروں سے اوجھل رہ گیا ہو، جو معالج کی سمجھ میںاس وقت نہ آئے ،دوسرے معالجین اسے بروقت محسوس کرلیں ۔عاملین سے اتنی گزارش ہے اپنے فن میں پختگی پیدا کریں اور دیگر فنون سے استفادہ کریں تاکہ حصول نتائج میں آسانی رہے اور یقینی صورت سامنے آسکے،ایک عامل کسی مریض پر جادو و جنات کا حکم لگاتا ہے اور دعوی کرتا ہے کہ اسکا علاج سوائے دم جھاڑے کے کہیں موجود نہیں ہے، لیکن وہی مریض جب کسی حکیم،ڈاکٹر یا دیگر کسی طریق علاج سے وابسطہ معالج سے دوا کھاکر تندرست ہوجاتا ہے تو عامل کو عجیب نگاہوں سے دیکھتا ہے، اس کے دعوی کے خلاف جب اسے صحت ملتی ہے ،تو عاملین سے اس کا اعتماد ختم ہوکر رہ جاتا ہے،اگر عامل طبیب بھی ہوتا تو کبھی خفت کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔یاد رکھئے تشخیص اور علاج اور چیز ہے ، شفاء دوسری چیز ہے، تشخیص اور نیک نیتی سے علاج معالج کی ذمہ داری ہے، شفاء کے لئے اس بارہ گاہ میں التجاء کرے جہاں سے یہ ملتی ہے، لیکن کائنات کا اصول ہے جو بیجوگے وہی کاٹوگے ۔اتنا سمجھ لیں بیماری اخلاقی ہویاجسمانی ہو یا روحانی، بیماری کہا جائے وہ نمودار تواسی خاکی وجود میںہوتی ہے، روح کس نے دیکھی ہے ؟ کون روح سے واقف ہے ؟جو ہوناہے وہ اسی خاکی وجود پر ہونا ہے، جب اس کی صحت و تندرستی اور علامات امراض کو سمجھ لو گے تو اس کی اس بے اعتدالی کو دور کرسکوگے جو بیماری کا سبب بنی ہوئی۔
پرانے زمانے کے عاملین:
کتب عملیات کے مطالعہ سے جو بات سامنے آتی ہے وہ کہ عسیر العلاج امراض میں وہ لوگ تعویذات لکھنے کی لئے زعفران ،مشک و عبنر،عرق گلاب بطور روشنائی استعمال کیا کرتے تھے ،وہ لوگ ادراک رکھتے تھے کہ جو علامات جادو و جنات کے لئے مخصوص ہیں ان کے جسمانی طورپر
کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ؟عرق گلاب امراض گرما میں اعلی دوا ہے، دل کو تسکین دیتا ہے، جسم میں لگی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کرتا ہے، زعفران۔بلغمی امراض کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتاہے ،یہی حال مشک و عنبرکا ہے بھی ہے۔ان چیزوں کے استعمال میں روحانیت سے زیادہ جسمانیت کو دخل تھا، جو عامل اس نکتہ پر غور کرے گا اس کے لئے تجربات کی نئی راہیں کشادہ ہونگی۔
جادو والے مریض اعصابی کمزوری کا شکار ہوجاتے ہیں
در اصل ایسے مریض کے اعصابی نظام میں ایک قسم کا تغیر واقع ہوجاتا ہے ،جو ایک روحانی خمیر کی مانند ہوتا ہے جب تک اسے صاف نہ کیا جائے اس وقت تک ہر قسم کا علاج وبال جان بنا رہتا ہے جیسے دہی کے برتن کو صاف کئے بغیراس میں دودھ بھردیا جائے تو دودھ پھٹے گا یا پھر دہی بنے گا۔اس میں تازہ دودھ ڈالو ۔اس میں گرم دودھ ڈالو، رات کا دودھ ڈالو، اس کا تنیجہ یہی برآمد ہوگا۔اس کے قوی میں جو خلل جادو کی وجہ سے آچکا ہے وہ ایک قسم کا خمیر ہے جو منفی روحانی قوت کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے ،اسے دور کرنا ہوگا۔اگر وہ خلل دور نہ ہوا تو مریض جو پڑھائی بھی کریگا فائدہ کے بجائے نقصان ہوگاکیونکہ پڑھائی کے لامحالہ اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس بحث نہیں کہ وہ پڑھائی کالے پیلے اور چٹے علم خواہ کسی بھی نوعیت کی ہو جادوئی خمیر اسے اپنے انداز میں ڈھال لیتا ہے۔اگر مسحور کی طاقت اتنی زیادہ ہوتی تو اس پر کسی کا جادو اثر نہ کرسکتا لیکن جادو گر کی قوت اس سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے اس لئے اس کا عمل اثر انداز ہوکر اس کی زندگی میں خلل پیدا کردیتا ہے۔جو مسحور کو صحت کی حالت میں بیماری مبتلاء کردیتا ہے اور اس کے اعمال سے پیدا ہونے والے اثرات کو اپنے ڈھب میں کیوں نہیں لاسکتا؟ بس یہی وہ نکتہ ہے جسے جس انداز میں بھی چاہو سمجھ لو۔
خوشبو و بدبو کافرشتوں اور جنات کا گہرا تعلق ہوتاہے۔
رسول اللہﷺکا فرمان ذٰیشان ہے جسے خوشبو پیش کی جائے وہ اسے رد نہ کرے کیونکہ وہ احسان کے اعتبار سے ہلکی اور خوشبو کے لحاظ سے عمدہ ہے(سنن ابی دائود مسند احمد)خوشبو کو فرشتے پسند کرتے ہیں اور جنات و شیاطین اس سے دور بھاگتے ہیں۔شیطانوں کی پسندیدہ چیزیں بدبودار اور مکروہ چیزیں ہوتی ہیں۔
جنات و شیاطین کی انسانوں سے چھیڑ چھاڑ ہمہ وقتی مشغلہ ہے۔ایک حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ سوتے وقت شیطان انسان کی ناک میں رات بسر کرتا ہے بیداری کے بعد ناک تین بار زوردار طریقے سے صاف کرے تاکہ سستی دور ہوجائے۔
قران و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے پاکیزگی طہارت/خوشبو وغیرہ کے احکامات دئے ہیں کہ مسلمان ہر وقت پاکیزہ و صاف ستھرا رہے۔مسواک کا استعمال کرے۔بوقت ضرورت غسل کا اہتمام کرے۔جسم و لباس کی پاکیزگی کو یقینی بنائے۔ایک مسلمان کی زندگی کے طرز عمل اس طرح مرتب کیاگیا ہے کہ جنات کے شرور سے بچنے کا انتظام قائم رہے۔
Itís hard to find knowledgeable people for this subject, but you seem like you know what youíre talking about! Thanks