
تمہید
سطور اولین جمیل صاحب کا ارشاد ہے کہ رموز حکمت کے لئے تمہیں یہ لکھوں قصور علم اور عدم فرصت مانع ہیں تاہم ارشاد قبیل سے سرتابی نہیں کی جا سکتی ۔
دنیا کی تقریباً تمام چیزوں کی طرح دیبا چہ کا استعمال بھی عموماً غلط کیا جارہا ہے جھول تدوین کے نواسے دیباچہ صرف اس لئے ہوتا ہے کہ جو اہم امور فن سے چھوٹ گئے ہوں یا وہاں ان کا تحریر کرنا غیر موزودن ہو۔ انہیں دیباچہ کے لباس میں پیش کر دیا جائے اور ایسے اہم بالا کثر رہی ہوتے ہیں۔ جو اپنی اہمیت کے اعتبار سے ساری کتاب کے مطالب کی جان ہوں لیکن آج کل دیباچہ میں ایسی غیر متعلق و ناسزا باتیں کی جاتی ہیں۔ جو صاحب کتاب کی تصنیفی قابلیت کا بھانڈا چوراہے میں پھوڑ دیں ۔
رموز حکمت اکسیری مجربات کا گنجینہ ہے۔ اس کے لئے اس علم و یقین کے ساتھ کہ ہیں کی ترتیب وتالیف میں کوئی خامی نہیں ہے۔ ایسے دیا چہ کی ضرورت ہے۔ بہو مجربات سے عملی فائدہ اٹھانے کے لئے بہترین علمی و فنی نظائر کا حامل ہو اور رموز حکمت کی علمی حیثیت کو بلند بسیار تصنیف کے برابر کرنے کا موجب ہو۔
آج سے ڈیڑھ سال پہلے حکیم حاذق میں میرا ایک مضمون شائع ہو چکا ہے جس میں مجربات کی تعریف کی تعریف ترکیب اہمیت احتیاج – اختا اور اصلاح وغیرہ کے سلسلہ میں ایسی لاروشنی ڈالی گئی تھی۔ اس میں سے ایک ضروری حصہ کا اقتباس درج کرتا ہوں ۔ جس کے علمی معارف مجربات سے صحیح استفادہ کی رہنمائی کرتے ہیں۔
ہر دو حرارت فریزی کی وساطت سے قوائے بدنیہ سے مشتعل ہونے کے بعد اثر کرتی نے اس سے اس میں ضروری تغیر ہو کر ایک کیفیت متعلقہ پیدا ہو جاتی ہے اور یہ دوا کا مزاج اولی ہے۔ اگر مختلف کیفیات کی رعایت سے کئی متفرق اجزا کے مواد اور عناصر اچھا نقل و افعال کے بعد ایک نئی کیفیت اختیار کر لیں گے۔ جوائن کے جزوی مزاج سے الگ
ہوگی اسے اور یہ کا مزاج ثانیہ کہتے ہیں اور یہ مزاج ثانیہ قبول کرنے کے بعد پہلے قومی التاثیر ہو جاتی ہیں ۔ لہذا اولیائے کرام عموما ایسی تدابیر اختیار کرتے اور ترکیب تکلیس تصعید وغیرہ کے ذریعہ ادویات میں ایسی کیفیات پیدا کر لیتے ہیں جن سے ضرورت کے وقت استعداد کیا جا سکے ۔ مجربات کیا ہیں : مشہور نظریہ مفتی الطب ہو القياس الذی یوری الی التجربہ کے مطابق طلب تجربہ اور قیاس کے مجموعہ کا نام ہے ۔ دواؤں کے فضل واثر اور ان کی کیفیات معلوم کرنے میں جو تجربہ اور قیاس کی تخلیق ہوں اصطلاح اطیا میں انہیں مجربات کہتے ہیں۔ مجربات اصول فن کے بعد سب سے ضروری قابل اعتنا اور کام کی چیز ہیں”۔


