رزق کیاہے؟
رزق کیاہے؟
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب رحمہ اللہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب رحمہ اللہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
اشیاء محرمہ پر رزق کا اطلاق درست ہے یا نہیں؟
اہل سنت والجماعت کے نزدیک حلال او رحرام دونوں پر رزق کا اطلاق درست ہے، فرقہ معتزلہ کے نزدیک رزق کا اطلاق فقط حلال پر کیا جاسکتا ہے، نہ کہ حرام پر ۔ ( النبراس شرح شرح العقائد، ص:197)
رزق کی لغوی وشرعی تعریف
لغت میں رزق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے نفع اٹھایا جائے ۔ اصطلاح شریعت میں رزق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو الله تعالیٰ کی طرف سے ہر ذی حیات کو نفع اٹھانے کے لیے مہیا ہو جائے، یہ چیز حلال بھی ہو سکتی ہے، حرام بھی، بہر صورت رزق ہی کہلائے گی۔ ( النبراس شرح شرح العقائد، ص:196)
معتزلہ کے نزدیک رزق کی تعریف
معتزلہ کے نزدیک رزق فقط اسے کہتے ہیں جس سے نفع اٹھانے کو الله تعالیٰ نے منع نہ فرمایا ہو ۔ چوں کہ حرام سے نفع اٹھانے کو الله تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اس لیے اسے رزق نہیں کہا جا سکتا ۔ لہٰذا رزق کا اطلاق فقط حلال پر ہو گا، نہ کہ حرام پر۔ (( النبراس شرح شرح العقائد، ص:197)
معتزلہ کا موقف قرآن وسنت کے خلاف ہے
معتزلہ کا موقف درست تسلیم کر لینے کی صورت میں قرآنی آیت کی تکذیب لازم آتی ہے، کیوں کہ الله تعالیٰ کے فرمان کے مطابق زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق میرے ذمے نہ ہو ﴿ما من دابة فی الأرض إلاّ علی الله رزقھا﴾ لیکن معتزلہ کے مؤقف کے پیش نظراگر کوئی شخص عمربھر حرام کھا کر مر گیا تو وہ زرق الہٰی سے محروم شمار ہو گا۔
اس کے علاوہ حدیث مبارکہ میں ایک صحابی کا تذکرہ آتا ہے،
جنہوں نے بارگاہ ِ رسالت میں آکر عرض کیا کہ مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ مجھے اپنے ہاتھ سے دف بجانے کے سوا کسی اور ذریعہ سے زرق نہیں ملے گا، لہٰذا مجھے ایسے گانوں کی اجازت مرحمت فرمائیں جن میں کوئی فحش بات نہ ہو ، اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ناراض ہو کر فرمایا :”کذبت یا عدو الله! لقد رزقک الله حلالاً طیباً فاخترت ماحرم الله من رزقہ مکان ما أحل الله من حلال “․ ( المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث:7190،و کذا ابن ماجہ، رقم الحدیث:2711)
ترجمہ:” اے دشمن خدا! تو جھوٹ بولتا ہے ، الله تعالیٰ نے تیرے لیے حلال اور پاکیزہ رزق پیدا فرمایا، لیکن تونے اس رزق کو چھوڑ کر جو الله تعالیٰ نے تیرے لیے حلال فرمایا تھا اپنا وہ رزق اختیا رکیا جو الله تعالیٰ نے تجھ پر حرام فرمایا۔“
دیکھیے حدیث مبارکہ میں حرام کو بھی رزق فرمایا گیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس بات پر ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ انہوں نے رزق کے حصول کے لیے شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ ایسا طریقہ اختیار کیا جوشریعت میں ممنوع تھا۔
معتزلہ کا بنیادی اشکال
اس میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو ہستی اپنے بندوں کو رزق سے نوازتی ہے وہ فقط الله تعالیٰ کی ذات ہے اور عطائے رزق کی نسبت ہمیشہ اسی کی طرف ہو گی، لیکن معتزلہ کا شبہ یہ ہے کہ اگر رزق حرام کو بھی رزق شمار کیا جائے تو وہ بھی الله تعالیٰ کی طرف منسوب ہو گا او رجو چیز الله تعالیٰ کی طرف منسوب ہو وہ قبیح (بری) نہیں ہو سکتی لہٰذا حرام قبیح نہ رہے گا او راس کا مرتکب دنیا میں مذمت اور آخرت میں مستحق عقاب بھی نہ ہو گا ۔ حالاں کہ حرام کی قباحت پر او راس کے مرتکب کی دنیا میں مذمت اور آخرت میں مستحق عقاب ہونے پر کسی کو اختلاف نہیں۔
جواب
معتزلہ کے اشکال کی یہ بنیاد ہی غلط ہے کہ جو چیز الله تعالیٰ کی طرف منسوب ہو وہ قبیح نہیں ہو سکتی، کیوں کہ الله تعالیٰ کی ذات صرف خالق ہی نہیں،بلکہ حکیم بھی ہے، اس کا کوئی فعلِ خلق ( پیدا کرنے کا عمل) حکمت ومصلحت سے خالی نہیں، اگرچہ وہ ہمیں معلوم نہ ہو ، چناں چہ جن چیزوں کے خلق ( پیدا کرنے) کو ہم قبیح سمجھتے ہیں ان میں بھی حکمت ومصلحت کے بعض پہلو ہونے کا ہمیں یقین ہے ، جیسے اجسامِ خبیثہ مثلاً سانپ، بچھو وغیرہ کی تخلیق میں ہم دیکھتے ہیں
کہ یہ چیزیں ہماری نظر میں اگرچہ خبیث اور قبیح ہیں، مگر ان میں بہت سے فائدے بھی ہیں، مثلاً اطبا کا کہنا ہے کہ بچھو کی راکھ مثانے کی پتھری کو ریزہ ریزہ کرکے خارج کر دیتی ہے ،سانپ کا گوشت اور چربی بہت سے امراض کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہے ، ان مصالح کی بنا پر ان کے خلق ( پیدا کرنے) کو قبیح نہیں کہہ سکتے، لہٰذا اس کے خلق کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف کرنے میں کوئی شبہ نہیں۔
لیکن جب کوئی بندہ، جو نہ خالق ہے، نہ حکیم ہے، شریعت کی ممانعت کے باوجود کسی فعل کا کسب کرتا ہے تو وہ کسب ”کسب قبیح“ شمار ہو گا، لہٰذا اس کسبِ قبیح کی وجہ سے وہ دنیا میں مذمت اور آخرت میں مستحق عقاب ہو گا۔
فائدہ: معتزلہ چوں کہ فعل قبیح کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف جائز نہیں سمجھتے، اس لیے قرآن کریم میں جہاں جہاں قبیح کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف ہو رہی ہے جیسے :﴿ختم الله علی قلوبھم﴾ ﴿یضل بہ کثیراً ﴾ان تمام مقامات پر نسبت حقیقی کو نسبت مجازی قرار دیتے ہیں، لہٰذا آئندہ موقع بموقع اس کی نشان دہی کرکے مذکورہ جواب کی طرف اشارہ کر دیا جائے گا۔
﴿والَّذِیْنَ یُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْکَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِکَ وَبِالآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُون﴾․
ترجمہ: اور وہ لوگ جو ایمان لائے اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا تیری طرف اور اس پر کہ جو کچھ نازل ہوا تجھ سے پہلے اور آخرت کو وہ یقینی جانتے ہیں۔
تفسیر
یہ متقین اور پرہیز گاروں کی چوتھی صفت ہے کہ وہ قرآن کریم پر ہی نہیں ،بلکہ کتب سابقہ ( تورات، انجیل ، زبور) پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ یہ الله تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں اور صدقِ دل سے ان کی تصدیق کرتے ہیں، اگرچہ قرآن کریم کے نازل ہونے کے بعد وہ منسوخ شمار ہوں گی۔
موجودہ توراة وانجیل کے بارے میں شرعی حکم
چوں کہ موجودہ تورات وانجیل تحریف شدہ ہیں ، اہل کتاب نے وقتاً فوقتاً ان میں ردّ بدل کرکے ان کی حقیقی تعلیمات مسخ کر ڈالی ہیں۔ ( اس دعوی پر مفصل دلائل البقرة ، آیت: نمبر75 کی تفسیر کے تحت دیکھیے)لہٰذا ان کتابوں سے جو مندرجات ( ذکر کردہ روایات) قرآن وسنت کے موافق ہوں تو ان کے مفہوم کو فقط اس بنا پر تسلیم کر لیا جائے کہ قرآن وسنت سے ان کی تصدیق ہو رہی ہے اور جومندرجات قرآن وسنت سے معارض او رمخالف ہوں انہیں رد کر دیا جائے او رجو قرآن سنت کے موافق ہوں نہ مخالف، ان کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، نہ تصدیق کی جائے نہ تکذیب، کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” اہل کتاب کی تصدیق کرو نہ تکذیب، بلکہ ان سے کہو ہم الله پر ایمان لاتے ہیں او ران چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جو الله تعالیٰ نے ہماری طرف نازل فرمائی اور جو تمہاری طرف نازل فرمائی۔ (صحیح البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، رقم الحدیث:7362)
فائدہ: قرآن کریم کی تفسیر میں حدیث رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو چھوڑ کر قدیم آسمانی صحیفوں پر اعتماد کرنا بجھے ہوئے چراغوں سے روشنی لینے کے مترادف ہے ، جن مفسرین نے اس طرز پر تفسیری کوششیں کی ہیں انہوں نے جا بجا ٹھوکر کھائی ہے۔
عقیدہ ختم نبوت کی واضح دلیل
آیت کے طرز بیان سے واضح معلوم ہورہا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور قرآن کریم آخری کتاب ہے ،کیوں کہ اگر نبوت کا سلسلہ جاری ہوتا اور حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے بعد بھی وحی نازل ہوتی تو اس پر بھی ایمان لانے کا ذکر ہوتا اور آیت یوں ہوتی ” وما انزل من قبلک وما ینزل من بعدک․“ جس طرح قدیم آسمانی صحیفوں پر ایمان لانے کا ذکر ہے، اسی طرح بعد میں آنے والی کتاب کا یا وحی کا ذکر ہونا چاہیے تھا، لیکن قرآن کریم میں کہیں اس طرح کا ذکر نہیں ۔ لہٰذا مذکورہ آیت ختم نبوت کی واضح دلیل ہے اور متنبی قادیان کی نبوت کی نفی ظاہر ہے۔
﴿وَبِالآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُون﴾․
ترجمہ: اور آخرت کو وہ یقینی جانتے ہیں۔
تفسیر
یہ متقین کی پانچویں صفت ہے کہ وہ یوم آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جو انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیتا ہے ،جسے اپنانے کے بعد مومن اپنی زندگی کا ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے اور اس کے اعمال وافعال جلوت وخلوت میں یکساں ہو جاتے ہیں۔
یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ لفظ ﴿ یُوقِنُون﴾ فرمایا، ﴿یؤمنون﴾ نہیں فرمایا، یعنی یہ نہیں فرمایا کہ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ، بلکہ فرمایا آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ کیوں کہ ایمان کامقابل تکذیب وانکار ہے او ریقین کا مقابل شک او رتردد ہے ﴿یوقنون﴾ میں اسی طرف اشارہ ہے کہ یومِ آخرت پر فقط عدم تکذیب او رانکار کی نفی کافی نہیں، بلکہ آخرت پر ایسا یقین ضروری ہے جو شک وشبہ سے بالاتر ہو ۔
یقین تین طرح کا ہوتا ہے:
1. یقین عیان: جیسے جلتی آگ دیکھ کر آگ کا یقین کرلینا۔
2. یقین دلالت:جیسے دھواں دیکھ کر آگ پر یقین کر لینا۔
3. یقین خبر: جیسے کسی ثقہ آدمی نے خبر دی، ہم نے یقین کر لیا۔
مذکورہ آیت میں ، یقین خبر مراد ہے۔
مرزا قادیانی کی تحریف اور دھوکہ دہی
مرزا قادیانی نے ﴿وَبِالآخِرَةِ ہُمْ یُوقِنُون﴾ میں آخرة سے آخری نبی مراد لے کر خود کو آخری نبی قرار دیا۔ مرزا کا دعویٰ پڑھیے آج میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن شریف کی وحی اور اس سے پہلے وحی پر ایمان لانے کا ذکر تو قرآن شریف میں موجود ہے ، ہماری وحی پر ایمان لانے کاذکر کیوں نہیں؟ اسی امر پر توجہ کر رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے القاہو اور یکایک میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آیة کریمہ مذکورہ میں تینوں وحیوں کا ذکر ہے ﴿ماأنزل الیک﴾ سے قرآن شریف کی وحی اور ﴿ما أنزل من قبلک﴾ سے انبیائے سابقین کی وحی اور ﴿بالاٰخرة﴾ سے مراد مسیح موعود ( مرزا قادیانی) ہے۔
قرآن کریم میں ”آخرة“ پر ایمان ویقین لانے کا تذکرہ جہاں بھی ہے وہاں ”آخرة“ سے دوسری زندگی اورجہاں مراد ہے ۔ ( مفردات الفاظ القرآن للراغب، ص:20)
آج تک کسی مفسر نے ”آخرة“ سے آخری نبی یا مسیح موعود کا احتمال تک بیان نہیں کیا، مرزا قادیانی نے اپنی جھوٹی نبوت پر پردہ ڈالنے کے لیے اور مسلمانوں کو فریب میں رکھنے کے لیے یہ معنی گھڑا۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ قادیانیوں نے اس مقام کے علاوہ کہیں بھی ”آخرة“ کا ترجمہ مسیح موعود سے نہیں کیا، بلکہ آخرت ہی سے کیا۔
﴿أُوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِّن رَّبِّہِمْ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون﴾
ترجمہ: وہی لوگ ہیں ہدایت پر اپنے پرودگار کی طرف سے اور وہی ہیں مراد کو پہنچنے والے۔
تفسیر
جن لوگوں نے مذکورہ صفات اپنا لیے در حقیقت یہی لوگ اپنے رب کے فضل سے سفینہ ہدایت پر سوار ہیں اور یہی لوگ دنیا وآخرت میں حقیقی فلاح سے سرفراز ہوں گے۔
بلاغت
﴿أُوْلَئِکَ عَلَی ہُدًی مِّن رَّبِّہِمْ﴾: کلمہ ”علی“ ”استعلاء“ کے لیے استعمال ہوتا ہے ، یعنی متقین کو ہدایت پر خصوصی اختیار اور قدرت حاصل ہے ﴿ من ربھم﴾میں اس طرف اشارہ ہے کہ اس میں متقین کا کوئی ذاتی کمال نہیں، بلکہ اس میں الله تعالیٰ کا محض فضل وکرم شامل حال ہے۔
﴿وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون﴾آیت کریمہ میں ”ھم“ بطور کلمہ فصل تاکید اور تخصیص کے لیے ہے، جس سے معنی میں حصر پیدا ہو گیا۔
فلاحِ مطلق او رمطلق فلاح کے درمیان فرق اور معتزلہ کی غلط فہمی
﴿أُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون﴾ میں جو حصر ہے اس کا تعلق فلاح مطلق ( فلاحِ کامل) سے ہے ۔ یعنی کام یابی اور فلاح کے اعلیٰ درجے پر تو وہی لوگ فائز ہوں گے جو مذکورہ صفات سے متصف ہوں،البتہ صحیح العقیدہ مسلمان، جو نماز وزکوٰة کی ادائیگی سے غفلت برت رہا ہو
وہ فلاح( کام یابی) کے اعلیٰ درجے پرتو فائز نہ ہو گا، لیکن صاحبِ ایمان ہونے کی وجہ سے نفس فلاح (ایسی کام یابی جس پر نجات کا مدار ہو) اسے حاصل ہو گی، یعنی اس قدر کا م یابی سے سرفراز ہو گا کہ وہ اپنے برے اعمال کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہو سکے۔
باقی معتزلہ وخوارج نے حصر کا تعلق مطلق فلاح ( نفس فلاح) سے جوڑ دیا، یعنی نفس فلاح ( بنیادی مدار نجات) بھی اسے حاصل ہو گی جو مذکورہ تمام صفات سے متصف ہو ، لہٰذا اگر کسی نے نماز وزکوٰة میں غفلت سے کام لیا
تواسے نفس فلاح ( جس پر نجات کا مدار ہے ) بھی حاصل نہ ہوگی ،اب وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔اس لیے ان کا عقیدہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ معتزلہ وخوارج کو گم راہی، فلاح مطلق ( فلاح کامل) اور مطلق فلاح(نفس فلاح جو مدار نجات ہے) میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے ہوئی۔
﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ سَوَاء ٌ عَلَیْْہِمْ أَأَنذَرْتَہُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْہُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ ﴾
ترجمہ: بے شک جو لوگ کافر ہو چکے، برابر ہے ان کو تو ڈرائے یا نہ ڈرائے ،وہ ایمان نہ لائیں گے۔
تفسیر: کافروں کے اوصاف
اس سے قبل متقین او ران کی صفات کاتذکرہ تھا، جسے اپنا کر وہ جادہ مستقیم پر گام زن ہوئے اور دنیا وآخرت کی بھلائی سے سرفراز ہوئے، یہاں سے ان بد نصیبوں کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے جنہوں نے راہ ہدایت سے انحراف کیا اور گم راہی میں پڑے رہے ، قرآن کریم کی زبان میں انہیں کافر کہا گیا ہے۔
آیت کریمہ میں ﴿الذین کفروا﴾ سے وہ کافر مراد ہیں جن کا خاتمہ علم الہیٰ کے مطابق کفر پر ہی ہونا تھا، انہیں کافروں کے بارے میں فرمایاگیا کہ ان کو ڈرانا یانہ ڈرانا برابر ہے ۔ لیکن مبلغ ان کی ہٹ دھرمی سے غمگین ہو کر رشد وہدایت کا سلسلہ ترک نہ کرے، کیوں کہ ایسے تو بہرحال اجر ملے گا، اس لیے ہدایت کی شمع جلائے رکھے۔ ( بعض مفسرین نے اس آیت کے تحت جبر کی بحث چھیڑی ہے اس کی تفصیل آل عمران آیت:26 کے تحت دیکھیے)
کفر کی تعریف
کفر کی تعریف فقہاء نے ان الفاظ سے کی ہے” آپ صلی الله علیہ وسلم جن ضروریاتِ دین کے ساتھ معبوث ہوئے ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے ۔“ ( الدرالمختار، کتاب الجہاد:223/4، سعید)
لیکن فقہاء کی یہ تعریف جامعیت سے محروم ہے ، کیوں کہ جوشخص ضروریات دین کا انکار تو نہ کرے لیکن تصدیق بھی نہ کرے تو ایسا شخص بلاشبہ کافر ہے ، لیکن فقہاء کی تعریف اس پر صادق نہیں آتی، اس لیے علامہ رازی رحمہ الله نے کفر کی ایک او رتعریف کی، جو انتہائی جامع او رکفر کی تمام اقسام کو شامل ہے، چناں چہ وہ کفر کی تعریف ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں :
”الکفر عدم تصدیق الرسول فی شيٴ مما علم بالضرورة مجیئہ بہ“․ (التفسیر الکبیر،البقرة، تحت آیة رقم:6)
یعنی” رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اس چیز میں تصدیق نہ کرنا جس کا بدیہی اور قطعی طور پر دین سے ہونا معلوم ہو چکا ہو ۔“ یہ تعریف اس شخص پر بھی صادق آئے گی، جس نے ضروریات دین میں سے کسی کا انکار تو نہیں کیا، لیکن تصدیق بھی نہیں کی۔
کافروں کی اقسام اور نام
کافرہر اس شخصیت کا نام ہے جو مؤمن نہ ہو ، اب اگر وہ زبان سے اسلام کا دعوی کرتا ہے تو اس کا خاص نام منافق ہے او راگر پہلے مسلمان تھا، پھر کافر ہو گیا تو ”مرتد“ ہے او راگر ایک سے زیادہ معبود مانتا ہے تو ”مشرک“ ہے، اس لیے کہ وہ خدا کا شریک مانتا ہے
او راگر کسی منسوخ آسمانی مذہب اورکتاب کا پیروکار ہے تو ”کتابی“ ہے، جیسے یہودی، نصرانی او راگر زمانہ کو قدیم اور دنیا کے تمام حادثات وموجودات کو زمانہ کی طرف منسوب کرتاہے تو ”دھریہ“ ہے او راگر خالق عالم کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتا اور سمجھتا ہے کہ عالم باقتضاء مادہ خود بخود وجود میں آیا ہے
تو معطل ہے ۔ اور اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار اور اسلامی شعائر کا اظہار کرنے کے باوجود ایسے عقیدے رکھتا ہے جو متفقہ طور پر کفر ہیں تو ”زندیق“ ہے۔ ( شرح المقاصد، المقصد السادس،:460/3، دارالکتب العلمیہ، بیروت)
﴿خَتَمَ اللّہُ عَلَی قُلُوبِہمْ وَعَلَی سَمْعِہِمْ وَعَلَی أَبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عظِیْمٌ ﴾․
ترجمہ: مہر کر دی الله نے ان کے دلوں پر۔ او ران کے کانوں پر اوران کی آنکھوں پر پردہ ہے او ران کے لیے بڑا عذاب ہے۔
تفسیر
ان کافروں کو تو چاہیے تھاکہ وہ شمع ہدایت پر پروانہ وار گرتے اور رسول الله کی ہر صدا پر لبیک کہتے، لیکن یہ دنیا پر ستی میں اور ذاتی مفادات کے پیش نظر رسول الله کی مخالفت پر اتر آئے، اس ناشکری پر الله تعالیٰ نے یہ سزا دی کہ ان کے دلوں او رکانوں پر مہر لگادی اور آنکھوں پرپردہ ڈال دیا، اب یہ حق بات پر کان دھرسکتے ہیں، نہ اس پر غور وفکر کی آنکھ کھول سکتے ہیں، اس میں سارا قصور ان کے اپنے مزاج اور برے اعمال اور شرارت کا ہے ، جس نے ان کی فطرت سلیمہ مسخ کر ڈالی ہے۔ جب فطرت سلیمہ مسخ ہو جاتی ہے تو امور فطرت ناگوار گرزتے ہیں، اسی حالت کو بطور استعارہ ﴿ختم الله علی قلوبھم﴾ سے تعبیر فرمایا۔
معتزلہ کی سوئے فہمی
چوں کہ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ جوچیز الله تعالیٰ کی طرف منسوب ہو وہ قبیح ( بری) نہیں ہو سکتی، لیکن مذکور ہ آیت میں ایک قبیح فعل، دلوں اور کانوں پر مہر لگانے کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف ہو رہی ہے، جس سے معتزلہ کے عقیدے پر واضح زد پڑ رہی ہے ،اس لیے انہوں نے نے یہاں تاویل کی راہ اختیار کی اور اس اسناد حقیقی کو اسناد مجازی سے بدل ڈالا، چناں چہ علامہ زمحشری نے ختم الله کا حقیقی فاعل شیطان کو قرار دیا او رمجازاً فاعل کی نسبت الله تعالیٰ کی طرف اس لیے ہے کہ شیطان کو یہ قدرت الله تعالیٰ کی طرف سے ملی ہے۔ معتزلہ کے مذکورہ عقیدے پر مکمل بحث سورة البقرہ کی آیت نمبر3 کے تحت گزر چکی ہے۔
مہر اور پردہ حقیقت پر محمول ہیں یامجاز پر؟
مہر اور پردے کی نسبت تو الله تعالیٰ کی طرف حقیقی ہے، لیکن مہر اور پردہ حقیقی ہیں یا مجازی؟ جمہور اہل سنت والجماعت کے نزدیک مہر اور پردے سے حقیقتاً مہر اور پردہ مراد نہیں، بلکہ مجازاً بطور استعارة ان کا ذکر ہوا ہے ، حسن بصری، علامہ قرطبی ان کے علاوہ بعض علما کے نرذیک حقیقی مہر اور پردہ مراد ہیں، اگرچہ ہماری نظروں سے پوشیدہ ہیں۔ ( حاشیة الشہاب، الجامع لاحکام القرآن، البقرة، تحت آیہ رقم:7)