ربیع الاول کی آمد اور اسلام کا ادھورا تصور
ٰـ(اسلام کو مسخ کرنے کی منظم کوشش)
ربیع الاول کی آمد اور اسلام کا ادھورا تصور
ٰـ(اسلام کو مسخ کرنے کی منظم کوشش)
تحریر۔
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
بحمد اللہ ربیع الاول کا مبارک ماہ شروع ہوچکا ہے۔سوشل میڈیا مبارک بادوں سے بھرا ہوا ہے۔ہر کوئی اپنی عقیدت اور نظریہ کے مطابق مبارک بادونںکے توسط سے اسلام پھیلانے میں لگا ہوا ہے۔یکم ربیع الاول سے ہی کچھ احباب تو اپنے اپنے انداز میںخوشی کاا ظہار کرنا شروع کردیں گے۔گلیوں و محلوں میں ایک شور بے ہنگمی برپاء کردیں گے۔بارہ ربیع الاول کے دن پاکستانی لوگ حب النبیﷺ منانے کی خاطر سرکاری طورپر اور کاروباری طورپر چھٹی منائیں گے۔بچے بڑے چوک چوراہوں پر کاسہ لیسی کرتے دکھائی دیں گے۔
کہ چندہ دو ہم نے میلاد منانا ہے۔
پہاڑیا ں سجانی ہیں۔
جھولے بنانے ہیں۔
محفل میلاد منعقد کرنی ہیں،وغیرہ وغیرہ
غور کیجئے کہ مساجد سے زیادہ گلیاں بازار اور گھروں میں قمقمے اور لائتنگ دکھنے کو ملے گی۔
اونچی آواز میں موسیقی کی طرز پر نعتیں لگی ہونگی۔
لوگ ڈھول کی تھاپ پر رقص کناں ہونگے۔
حلوے مانڈھے۔ختمیں ۔کیک۔دیگیں،شیرینی وغیرہ نہ جانے کیا کیا لوازمات دکھائی دیں گے۔
اس بات میں شک نہیں کہ اسلام کو بگاڑ میں جتنی کوشش مسلمانوں نے کی ہے شاید اس قدر تو کفار و مشرکین سوچ بھی نہ سکیں۔
ہمیں عاشقان رسول کی وارفتگی میں شک نہیں لیکن جو اندا ز اختیار کیا جارہا ہے اس کی کیا توضیح کریں گے؟۔
ان امور کواسلام کے رکن کے ساتھ نتھی کریں گے؟
یا اس عقیدت اور بے سرے پن کو جہاں حقوق اللہ و حقوق العباد کو اسلام کے نام پر تار تار کیا جارہا ہے کیا نام دیں گے۔
یہی نہیں کہ اس ہنگامہ آرائی کو عین اسلام سمجھا جارہا ہے،
جولوگ ان کے اس غیر طبعی عمل میں شرکت سے اظہار برات کرے۔
اسے دائرہ اسلام سے خارج کرنے سے باک نہیں کرتے۔کسی کو گستاخ کہا جاتا ہے تو کسی کو؟؟؟؟؟ وغیرہ وغیرہ
مسلمانوں میں بے عملی کی حد ہوگئی ہے ارکان اسلام چھوٹے تو چھوٹیں لیکن مرجہ رسومات کا اہتمام ضروری ہے۔
عشق رسولﷺ روحانی درجات میں سے بہت اونچا درجہ ہے جسے محسوس کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔
لیکن کیا عشق رسولﷺ کی تشریح عامی اور بازاری لوگوں سے کرائی جائے گی؟۔
کسی بھی مسلک و فرقہ۔جماعت کے علماء اس عمل کو شرعی قرار نہیں دے سکتے۔
دلائل تو گھڑے جاسکتے ہیں لیکن ثابت کرنا ممکن نہیں ۔کیونکہ اسلام کے قواعد و ضوابط موجود ہیں جن کی روشنی میں زندگی گزارنے کا لائحہ عمل طے کیا جاتا ہے۔
اہل اسلام اپنی جدا گانہ طرز زندگی رکھتے ہیں۔
سب سے پہلے قران پھر حدیث۔پھر اصحاب النبیﷺ اور اجماع کے محوری گرش میں زندگی گزارتے ہیں۔
جو اس سے باہر قدم رکھے اسے مسلمان نہیں اس کے علاوہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیجم اجمعین سے بڑا عاشق رسولﷺ پیدا ہوا ہے نہ ہوسکے گا۔
معجزہ رسولﷺ ہےان کی زندگی کا بہت بڑا ذخیرہ ہ ہمارے پاس تحریری صورت میں موجود ہے۔
ان کا طرز زندگی مشعل راہ ہے۔فرمان خداوندی ہے۔
فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ-وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍۚ-فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ(۱۳۷)
پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پاگئے اور اگر منہ پھیریں تو وہ نری ضد میں ہیں تو اے محبوب عنقریب اللہ ان کی طرف سے تمہیں کفایت کرے گا اور وہی ہے سنتا جانتا۔
۔پھر محدثین ،فقہائے امت کی بڑی تعداد کی محنت و کاوش کا ثمرہ کتب کی صورت میں موجود ہے۔تاریخ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے اچھے بڑے حالات اور زمانے کے خش و خاشاک کو اپنے دامن میں چھپا لیا ہے موجود ہے۔اور جو کچھ اسلام کے نام پر آج مسلمان کررہے ہیں یہ بھی موجود رہے گا۔کہیں بھی اس کی گنجائش موجود نہیں ہے۔وہ علماء کرام کہاں ہیں ہلکے اور چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل پر بھی دلائل کے انبار لگانے کے ماہر ہیں ۔مسلکی تنازعات میں نہ جانے کہاں کہاں سے دلائل گھسیٹ لاتے ہیں۔لیکن جہاں دیکھتے ہیں کہ عوامی رجحان ساتھ نہیں دے رہا وہاں انہیں اور ان کے دلائل اور تھقیق کو بھی سانپ سونگھ جاتا ہے۔
اسلامی فرقوں اس وقت۔دیوبندی۔بریلوی۔اہل حدیث۔اور شیعہ لوگ پائے جاتے ہیں۔ہر ایک نے اظہار اسلام کا جداگانہ طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔
بریلوی لوگوں کا اسلام ربیع الاول میں عروج پر ہوتا ہے۔
شیعہ لوگوں کا سلام محرم الحرام میں جوبن دکھا رہا ہوتا ہے۔
رہے دیوبندی اور اہل حدیث یہ لوگ بدعت اور خلاف اسلام باتوں پر نقاد بنتے ہیں اس لئے ایسی کوئی رسم نہیں جسے یہ اسلام کا نام دے سیکں،البتہ ہوا رخ پر چلنا اور مصلحت کوشی اختیار کرنا ہر ایک کی معاشی و معاشرتی ضرورت ہوتی ہے۔عوام ان سے بھی کچھ نہ کچھ ہلہ گلہ چاہتے ہیں۔اس لئے انہوں نے عنوانات اور اپنے اشہارات تبدیل کرکے ساتھ دینا ضروری سمجھا۔اب یہ لوگ بھی بریلویوں سے اور شیعیوں کسی طرح پیچھے نہیں۔یقین نہ آئے تو ربیع الاول کا مبارک مہینہ ہے،تحقیق میں آسانی رہے گی۔
مسئلہ اسلام اور کفر یا بدعت کا نہیں بلکہ معاشرتی ضرورت۔اپنے مسلک اور مسند کو بچانے کا ہے۔عوام خوش رہیں ہمارے ادارے چلتے رہیں اسلام کی خیر ہے یہ خدا کا دین ہے وہ اس کی کود حفاظت کرلیگا۔
مجھے یہ کہنے میں عار محسوس نہیں ہورہی کہ اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں تمام مسلمان پر خلوص کوشش کررہے ہیں۔کو لوگ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ اور یورپ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہے ہیں ۔وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔نکمے اور بے کار لوگوں کے خلاف کون سازش کرے گا،جو لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنے دین مذہب۔تشخص اور عقائد معاشیات،اقدار ہر چیز کو مسخ کرنے میں لگے ہوں ان کے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟۔
مجھے ادراک ہے کہ میری اس تحریر کے نتیجہ میں مجھے دائرہ اسلام سے کارج بھی کیا جاسکتا ہے۔گستاخ کو پکا ٹہرونگا۔لیکن مجھے اسلام سے بے زار علماء،عوام کے فتوئوں کا خوف نہیں جو اپنے مذہب ۔شریعت۔رب رسول اور اپنے عقائد و نظریات،مذہب و مسلک سے چشم پوشی کے مرتکب ہورہے ہیں،ان کی باتوں میں کتنا وزن اور ان کے فتوے بازی میں کتنا اثر ہوگا۔ فتوی دینے والوں سے اتنی گزارش ضرور کرونگا کہ وہ مجھے یا اہل اسلام کو اتنا ضرور بتا دیں کہ ربیع الاول کی رسومات اور اعمال کی شرعی طورپر کیا حیثیت ہےَ فرض۔واجب ۔سنت۔مستحب۔مندوب۔مباح۔وغیرہ