خلیفہ ہارون رشید کے دربارمیں تشخیص کا عجیب واقعہ
خلیفہ ہارون رشید کے دربارمیں تشخیص کا عجیب واقعہ
تحریر:۔حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور پاکستان
تاریخ میں حکماء کی حذاقتکے بہت سے واقعات لکھے ہوئے ملتے ہیں۔یہ لوگ پہلے اپنے فن میں مہارت بہم پہنچاتے تھے اس کے بعد اپنی فن کا اظہار کرتے تھے۔ان میں مذہب و مسلک کی تفریق نہ تھی۔جو بھی صاحب ہنر و تجربہ کار ہوا اس نے عزت کا تاج اپنے سر سجایا۔
یہ قانون فطرت ہے محنت کرنے والوں کو عزت ملا کرتی ہے۔مہارت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جب کوئی محنت و مہارت کے بل بوتے پر کسی اعلی مقام تک پہنچتا ہےتو سطحی الذہن لوگ اپنے اندازہ کے مطابق باتیں بناتے ہیں ۔لیکن کسی بھی فن و ہنر کا ماہر معاشرہ کو ہمیشہ اس کی ضرورت رہی ہے اور ضرورت رہے گی۔
امراض کی تشخیص صدیوں پہلے جتنی اہمیت رکھتی تھی آج بھی اس کی قدر میں کمی نہیں ہوئی،ماہر مشخص آج بھی اپنا الگ سے مقام رکھتا ہے۔
خلیفہ ہارون الرشید نے حکماءکے ایک گروہ کے سامنے حکیم بختيشوع کا امتحان کرنا چاہا الرشید نے کچھ نوکروں سے کہا: اس کےسامنے جانوروں کاپیشاب لاؤ تاکہ اس کی حاذقیت کا ٹیسٹ کرسکوں۔ چنانچہ خادم گیا اور قارورہ یعنی پیشاب والی ایک بوتل لے آیا، اسے دیکھ کر بختيشوع کہنے لگا: اے امیر المؤمنین، یہ انسانی پیشاب نہیں ہے۔ ابو قریش نے اسے ٹوکا کیونکہ وہ اس وقت دربار میں موجود تھے: یہ تو خلیفہ کاپیشاب ہے۔اور تم کیا کہہ رہے تو؟: شیخ محترم کیا آپ کے نزدیک یہ آدمی کا پیشاب نہیں ہے؟اور اگر معاملہ آپ کے کہنے کے مطابق ہو تو شاید انسان جانور بن گیا ہو؟
۔ خلیفہ نے بختيشوع سے پوچھا: تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ انسان کا پیشاب نہیں ہے؟
بختيشوع نے کہا: کیونکہ اس پیشاب کا لوگوں کے پیشاب کی طرح، اس پیشاب کا رنگ اور اس کی بو کی مطابقت نہیں کررہی، اس کے بعد خلیفہ بختيشوع کی طرف متوجہ ہوا اور اس سے کہا: تمہارا کیا خیال ہے کہ ہمیں اس پیشاب کے مالک کوکیا کھلانا چاہیے؟ بختيشوع نے کہا اسے اچھے جَو(کھلائو)۔ الرشید بہت ہنسا، اور حکم دیا کہ بختيشوع کو ایک اچھا اور عمدہ لباس پہنایا جائے، اور اسے بہت ساری رقم دی جائے، اور کہا: بختيشوع تمام طبیبوں کا سردار ہے، اس کے بعد وہ اس کی بات سنتے اور مانتے ہیں۔اسلام میں بیمارستان کی تاریخ” (ص 35)