حالات زندگی علامہ دمیری بادینیہ
آپ کا اسم گرامی کمال الدین محمد کنیت ابوالبقاء والد کا نام موسیٰ بن عیسی ہے۔ ان کا نام پہلے کمال دین تھا بعد میں کمال الدین محمد رکھا تھا کہ حضوروﷺ کے نام کے ساتھ بطور تبرک نسبت ہو جائے۔
۷۴۲ء مطابق ۱۳۴۴ء کے اوائل میں قاہرہ میں ولادت ہوئی۔ جس کا ذکر خود انہوں نے اپنی کتابوں میں کیا ہے
آپ نے قاہرہ میں تربیت حاصل کی اور یہیں پرورش پائی۔
یوں تو آپ قاہرہ میں پیدا ہوئے لیکن (دمیرۃ کی طرف منسوب ہو کر مشہور ہوئے ) دمیرۃ مصر میں ایک بستی کا نام ہے ) دمیرۃ کو بعض لوگ دال اور میم دونوں پر کسرہ پڑھتے ہیں اس طرح دمیری پڑھا جائے گا اور بعض لوگ دال پر فتح اور میم پر کسرہ پڑھتے ہیں اس طرح دمیری پڑھا جائے گا۔
مستند علماء نے اسی آخری قول کو ترجیح دی ہے۔
جب سن شعور کو پہنچے تو خیاط (درزی) کا کام شروع کر دیا۔ چند دنوں کے بعد یہ شغل ترک کر دیا اور علم وفن کی اہمیت معلوم ہونے پر جامعہ الازہر میں تحصیل علم شروع کر دی۔ پھر ایسے مشغول و متوجہ ہوئے کہ اپنے وقت کے قابل احترام اور جلیل القدر علماء میں آپ کا شمار ہونے لگا۔
یہاں تک کہ عہدہ قضاء کی پیشکش بھی کی گئی لیکن آپ نے اس عہدہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ عقائد میں اہلسنت اور فقہ میں شافعی مذہب سے وابستہ تھے اور تصوف میں کافی دسترس و ادراک رکھتے تھے عابد وزاہد تھے آخری عمر میں تسلسل کے ساتھ روزے رکھنے لگے تھے۔
اہل علم وفن کہتے ہیں کہ استاذ کے اخلاق اور اس کے علوم کا اثر اس کے شاگردوں میں ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ کی شخصیت ، رفعت علمی، علو مرتبت کا اندازہ لگانا ہو تو اس کے شاگرد امام ابو یوسف ” امام محمد اور عبد اللہ بن مبارک وغیرہ کا جائزہ لے لیجئے۔ اسی طرح علامہ ابن تیمیہ کے علوم اور ان کے شان علمی سے واقف ہونا ہو تو ان کے شاگر د حافظ ابن قیم کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے۔
اسی طرح آپ نے علامہ دمیری رحمتہ اللہ علیہ کی وسعت معلومات، ان کی شان علمی و شخصیت کا مشاہدہ کر نا ہوتو آپ
کی تصانیف میں خصوصی طور پر حیات الحیوان اور ان کے اساتذہ کرام کی علمی رفعت و بلندی کو دیکھئے ۔ آپ نے اپنے وقت کے جید و یکتائے روزگار علماء وفقہاء سے علوم حاصل کئے۔
علم فقہ شیخ بہاء الدین سبکی، جمال الدین اسنوی ، کمال الدین نویری مالکی وغیرہ سے پڑھنے کا شرف حاصل کیا اور علم ادب شیخ برہان الدین قیراطی اور بہاء بن عقیل سے حاصل کیا۔ اور علم حدیث میں شیخ على المنظفر عطار مصری الجامع لعلام الترندی ابوالفرج بن القاری اور محمد بن علی حراوی وغیرہ کے سامنے زانوائے تلمذ تہ کیا۔
علوم معرفت، وظائف و عملیات امام یافعی سے بھی سیکھے۔ آپ نے علم حاصل کرنے کے بعد متعدد مقامات پر تدریس کا
کام انجام دیا۔
آپ مکہ میں دو سال تک تعلیم و تدریس میں مشغول رہے۔ القبہ ، جامعہ الازہر، جامعہ الظاہر میں درس حدیث کی خدمات انجام دیں۔ حافظ سخاوی فرماتے ہیں کہ میں بھی ان کے درس حدیث میں شریک رہا اور سبق سے محفوظ ہوا اسی طرح مدرسہ ابن البقری باب النصر میں بروز جمعہ بعد نماز عصر وعظ و تبلیغ فرماتے۔
زیادہ تر مکہ مکرمہ اور قاہرہ میں تدریس و افتاء کا سلسلہ جاری رکھا۔ چنانچہ شیخ صلاح الدین اقلمی نے مکہ میں اور شیخ تقی الدین الفاسی نے قاہرہ میں آپ سے شاگردی کا شرف حاصل کیا۔
علامہ دمیری علم و عمل دونوں کے نمونہ تھے۔ عبادت وریاضت کے پیکر، تلاوت قرآن کی بیش بہا نعمت سے مالا مال تھے۔ حج بیت اللہ اور کثرت صیام کے دلدادہ تواضع و خاکساری کے مجسمہ تھے اور ذکر اللہ کے وقت غلبہ خوف وخشیت سےآپ پر گریہ طاری ہو جاتا۔
کبھی کسی سے سختی اور ترش روئی سے گفتگو نہیں فرماتے تھے ۔ اور نہ کبھی فخریہ لباس زیب تن کیا۔ آپ ان مبارک ہستیوں میں سے تھے جن کو اللہ جل شانہ نے حرمین شریفین کی مجاورت کا اعزاز بخشا تھا۔ اگر آپ سے خرق عادت کے طور پر کبھی کشف و کرامت کا ظہور ہوتا تو اس کو چھپانے کی کوشش کرتے۔
شیخ مقریز کی تحریر فرماتے ہیں کہ میں امام دمیری کی خدمت میں غالباً دو سال کا عرصہ رہا۔ مجھے ان کی مجلس پسند آئی ، شفقت و محبت سے پیش آتے اور مجھے ان سے عشق ہو گیا تھا۔ ان کے عالی مرتبت بلند پایہ شخصیت، شہرت اخلاق و کردار عبادت و ریاضت میں مستقل طور پر پابندی کرنے کی وجہ سے میں ان پر فریضہ تھا۔
پھر آپ ۳ ۷۷ تشریف لائے اور اسی سال آپ کے شیخ بہاؤ الدین سیکی کا انتقال ہو گیا۔ علامہ دمیری اللہ نے اسے کے ھ میں مکہ مکرمہ میں آگری سکونت اختیار کر لی پھر سکونت ترک کر کے قاہرہ چلے گئے۔ پھر جب بھی مکہ میں تشریف لاتے تو حج بیت اللہ کا فریضہ ضرورآپ نے اکھ میں حسب عادت حج کا فریضہ ادا فرمایا پھر مصر تشریف Moue PKSYادا کرتے۔
مکہ مکرمہ کی رہائش و سکونت کے زمانہ میں فاطمہ بنت کئی بن عیاد الصنہا جی مکیہ سے نکاح کیا ان سے تین بچیاں پیدا
ہوئیں۔ علامہ دمیری نے جہاں علوم سے طلباء کو مستفید اور خلق خدا کو فیض یاب کیا وہیں آپ نے قلم و کاغذ سے کام لے کر آئندہ آنے والوں کو کتابی شاگرد بننے کا موقع مرحمت فرمایا۔ آپ کی تصانیف کا دائرہ وسیع ہے جن میں سے کچھ تو شائع ہو سکیں اور کچھ طباعت سے رہ گئیں اور مخطوطات سے آگے نہ بڑھ سکیں۔
ان میں سے آپ کی کتاب حیات الحیوان الکبریٰ نے خاصی شہرت حاصل کی ہے کتاب کی ترتیب 773ھ میں مکمل ہوئی۔ اس میں حروف تہجی کی ترتیب کے لحاظ سے حسب معلومات اکثر جانوروں کے خصائص و عادات کا تفصیلی طور پر ذکر
کیا گیا ہے۔ جانوروں سے متعلق معلومات اس طرح جمع کی ہیں کہ پہلے لغوی حل، جانوروں کے نام اور کنیت، خصوصیات و عادات ، احادیث میں ان کا تذکرہ ، شرعی حلت و حرمت، ضرب الامثال طبی خاصیتیں، خواب میں دکھائی دینے والے جانور کی تعبیر اور ان سے متعلقہ تاریخی واقعات، اشعار، گاہے بگا ہے اور ادو وظائف تعویذات و عملیات وغیرہ درج کیے ہیں اور اس میں ہر فن کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ علامہ کمال الدین دمیری نے کتاب حیوۃ الحیوان اس غرض سے لکھی ہے کہ عربی کے مغلق و مشکل الفاظ کی شرح اور پیچیدہ لفظوں کی تصحیح ہو جائے اس لئے کہ بعض عبارتیں بہت دشوار ہوتی ہیں اور اس بات کی تائید میں مصنف کتاب علامہ
دمیری کی عبارت پیش خدمت ہے جو انہوں نے کتاب کے مقدمہ میں تحریر فرمائی ہے۔
هذا كتاب لم يسالني احد تصنيفه ولا كلفت القريحة تاليفه وانما دعانى الى ذلك انه وقع في بعض الدروس اللتي لا مخبأ فيها لعطر بعد عروس.
پیچیدگی اس کا باعث ہوئی اور یہ تقاضا اتنا بڑھا کہ اسے قابو میں رکھنا مشکل ہو گیا۔
اس کتاب کی تصنیف کے لیے کسی کا تقاضا نہیں تھا اور نہ یہ کسی دوست کی فرمائش پر لکھی گئی بلکہ بعض اسباب Sturdubooks
عجیب و غریب معلومات کے بیش بہا مجموعہ کے باوجود اس میں ربط و یا بسی کی بھر مار ہے، خصوصی طبی خواص پر عمل کرنا کسی پریشانی کا سبب بن سکتا ۔۔ بعض دیگر معلومات بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی اور آج کے سائنسی دور میں تحقیقات کےذریعہ ناقص ثابت ہو چکی ہیں ۔
علامہ دمیری اللہ کا انتقال کرہ میں جمادی الاول ۸۰۸ ھ بمطابق ۱۴۰۵ ء میں ہوا ۔ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائے
اور ان کے درجات بلند فرمائے۔
فقط۔خلیق ساجد بخاری عفی اللہ عنہ