حقیقت یا حکایت۔ عجیبہ
حقیقت یا حکایت۔ عجیبہ
طب نبویﷺ کو سمجھنے اور حقیقت کو جاننے کے لئے یہ حکایت عجیبہ ذہن کے دریچے کھولنے کے لئے کافی ہے
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
پرانے لوگ کہتے ہیں کسی دانا انسان نے شہر کے شور و غل سے تنگ آکر کسی پہاڑی پر اپنا گھر بنا لیا وہاں کھلی فضا میں رہنے لگا اس نے اپنے صحن میں ایک خوشبو دار گھاس بڑے اہتمام کے ساتھ اُگائی اس کی خصوصی دیکھ بھال کی،اس گھاس سے خوشبو آتی تھی،بڑے میاں جب تک زندہ رہے اس گھاس کی حفاظت کرتے رہے،آخر جسے زندگی ملی اسکی موت پہلے سے مقدر ٹہری،مرتے وقت بیٹے کو جہاں اور بہت ساری نصیحتیں اور وصیتیں کی اس گھاس کی حفاظت خصوصی تلقین کی،بڑے میاں آنکھ موندھ گئے،گھر بیٹے کے تصرف میں آگیا،
بہار آئی توپہاڑوں کی وادیوںمیںاونچائی اور ڈھلوانوں میں موسمی پھولوں کی لہلہاہٹ نے آنکھیں خیرہ کردیں ،اس نے پھولوں کی کثرت دیکھ کر باپ کی لگائی ہوئی خوشبودار گھاس کو اکھاڑ پھینکا کیونکہ موسم بہار میں اگنے والوں پھولوں کی خوشبو ا س مخصوص گھاس کی خوشبو سے زیادہ تھی،اس گھاس کا اکھاڑنا تھا کہ کچھ دنوں بعد پہاڑ کے کسی کونے سے ایک اژدھانکلا ،جوان کوڈسا،زہر گھاتک تھا،وہیںپرایڑیاںرگڑرگڑکرجان دیدی۔بوڑھے نے اس راز کو پالیا تھا کہ صحن میں اُگائی گئی گھاس سانپ کے زہر کا تریاق بھی ہے اس کی موجود گی میں سانپ کا گزر نہ ہوسکتاتھا،بیٹا اس راز کو نہ پاسکا ۔ اس نے اس گھاس کی خوشبو کو مد نظر رکھا۔
طب نبویﷺوہی خوشبودار گھاس ہےجسے ہمارےآبائواجداد نے بڑی محنت سےپالا،جیتے جی اس کی حفاظت کی کیونکہ وہ اس راز کو جان چکے تھے اس میں رازحیات چھپاہے،یہ وہ امرت ہے جس کا ایک گھونٹ دکھوںسے نجات دے سکتا ہے،بعد والوں نے طرح طرح کے طرُق علاج دیکھے نادانی سے سمجھے کہ ان کی موجودگی میں اس معطر گھاس کو اکھاڑ کر پھینک دینا مناسب ہے۔جب یہ نادان سوچ کام کرگئی تو لالچ کے اژدھا نے سر نکالا اور انسانیت کو ڈسنا شروع کردیا۔
علاج یا شور و غوغا
علاج کے نام پر اُدھم مچایا ہوا ہے،غریب و امیر سب پریشان ہیں،ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق خرچہ کرتے ہیں زندگی بھر کی جمع پونجی معالجین کے ہاتھ میں تھمادیتے ہیں کہ ہمیں چند لمحات سکھ کے دیدو۔لمحہ بھر سکھ کی نیند دیدو،بیماری کے نام پر پرہیزوں کی لمبی فہرست بناکر جو اُن کے گلے میں لٹکا دی گئی ہے اس میں تخفیف کردی جائے،دسترخوان پرمختلف انواع و اقسام کے کھانوں میں سےچند لقموں کی اجازت دیدی جائے۔عجیب بات ہے جب جنت سے نکل کر ماڈریٹیٹ کی چادر اوڑھی تو اس جدت نےان کی سانسیں گھوٹ دیں،ان کے ہاتھوں سے نوالہ چھین لئے۔
حدیث مبارکہ میں تین مال اپنے کہے گئے ہیں(1)کھاکر ہضم کردیا (2) پہن کر پرانا کردیا(3)آگے بھیج دیا۔ یعنی فلاح کے کاموں میںخرچ کردیا۔