حرکت وسکون بدنی –
طب نبوی ﷺکی نظر میں
حرکت وسکون بدنی –
طب نبوی ﷺکی نظر میں
تحریر ::
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی
کاہنہ نولاہور پاکستان
حرکت ایسی صورت کا نام ہے جب کوئی شے (جسم) کی خاص وضع ( سکون یا قیام )سے فعل میں آئےدر حقیقت اس دنیا میں سکون مطلق کو وجود نہیں ہے البتہ جب اس کا ذکر کیاجاتاہے تو اس سے مراد حرکت و سکون بھی ہوتی ہے۔یعنی جب کوئی جسم بلحاظ دوسرے جسم کے کسی خاص وضع یا خاص حالت پر قائم رہتا ہے تو اس کو ساکن ہوناکہتے ہیں اور جب اس کی وضع یا حالت فعل میںآ جاتی ہے تو اس کو حرکت کہتے ہیں۔ حرکت جسم میں گرمی پیدا کرتی ہے اور اس کی زیادتی جسم تحلیل کرتی ہے۔ سکون سردی پیدا کرتا ہے،اور جسم میں رطوبت کو زیادہ کرتاہے۔البتہ حرکت وسکون دونوں کی انتہائی زیادتی جسم میں خشکی پیدا کرتی ہے۔ معتدل حرکت وسکون غذا کو ہضم کرنے اور جسم کو صحت مند رکھنے میں مدومعاون ہے۔ حرکت وسکون دونوں کی انتہائی زیادتی جسم میں سردی پیدا کر دیتی ہے۔ کیونکہ زیادہ حرکت اور زیادتی سکون میں اول الذکر جسم تحلیل کر کے سردی کا باعث ہوتی ہے۔
ورزش انسانی زندگی کے ضروری ہے:
ابو ہریرہ سے مروی ہے: جہاد کرومالا مال ہوجاؤگے،سفر کرو صحت مند بن جاؤگے(الطب النبوی ابی نعیم )اسی طرح کی روایت ابن عمرسے بھی مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سفر کرو صحت ملے گی اور سلامتی ہوگی(مسند احمد380/2ابن سنی)
انسانی جسم حرکت کرتا رہے تو تندرست رہتا ہے اور خوراک ہضم ہوتی رہتی ہے، ضروری نہیں کہ ورزش کو ان معنوں میں لیا جائےجو ورزش خانوںمیں ہوتی ہے، چہل قدمی اپنے کاموں کو اپنے ہاتھ سے انجام دینا اپنی ضروریات کے لئے چل کر جاناوغیرہ بھی انسانی صحت کے لئے ضروری ہیں۔کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرنے والے لوگ آرام پسند افرادسے زیادہ صحت مند رہتےہیں۔جو صحت کی حالت میںدوسروں سے اپنے کام کرواتے ہیں قدرت انہیں ان سے ان کی طاقتیں سلب کرلیتی ہے کیونکہ قدرت کا اصول ہے جب کوئی چیز کام کی نہ رہے تو اسے ختم کردیاجاتاہے،جس چیز کی طلب کی جائے وہ عطا کردی جاتی ہے اس لئے جولوگ دوسروں سے کام لیتے ہیں بہت جلد ان کے قوی اور اعضا جواب دے جاتے ہیں کم از کم اتنی حرکت تو ہر ایک پرلازم ہےجو خوراک کھائے اسے ہضم کرنے میں کسی دوا یا سہارے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک دن مسجدمیں پیٹ درد کی وجہ سے اوندھا لیٹا ہوا تھا، رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا کیا پیٹ درد ہے ؟میں نے کہا جی ہاں! ارشاد فرمایا: اٹھ نماز پڑھ کیونکہ نماز میں شفاء ہے (ابن ماجہ الطب،ابی نعیم)۔۔جولوگ بیٹھے رہتے ہیں یا ان کا پیشہ اس قسم کا ہے جس میں زیادہ دیر تک بیٹھناپڑےانہیںچاہئے کہ ورزش ضرورکیا کریں۔پنج وقتہ نماز کی پابندی ،سال میں مہینے بھر کے روزے، ان تکالیف اور اسباب کا ازالہ کرسکتے ہیں جو زیادہ بیٹھنے کی وجہ سے لاحق ہوتے ہیں جیسےپیٹ کاہرنیا۔گیس،بڑی آنت کےسدے۔منہ سےبدبوکے بھبکارے ہر وقت پیٹ کا تنا ہوا رہنا ۔گیس میں اضافہ ہوتاہے تو سانس لینے میں دشواری ہونے لگتی ہے۔پیٹ بڑھ جاتاہے تھکاوٹ اور سستی کاعمل ہونے لگتا ہے۔جو لوگ دماغی محنت کرتے ہیں انہیں چاہئے کہ ورزش ضرورکریں،نماز میں لمبے رکوع و سجود کریں تاکہ خون کا بہاؤ اُن اعضاء کی طرف بھی ہوجائے جن میں مخصوص نششت کی وجہ سے کم ہوگیا تھا۔سوچ و فکر والے کام اعصابی کمزوری کا سبب بنتے ہیں اس لئے کچھ وقت ایسا بھی نکالیں کہ ان تفکرات سےبے فکر ہوسکیں،مشاہدہ ہے بیٹھے رہنے والے لوگ عمومی طور پر بد ہضمی گیس اور پیٹ کے امراض میں مبتلا ء ہوجاتے ہیں پیٹ کی بڑھی ہوئی گیس سے پیدا ہونے والے دباؤ کو بلڈ پریشر سمجھ لیتے ہیں،معالجین بھی انہیں بلڈ لو کرنے کی دوا تجویز کردیتے ہیں کیونکہ آلات کی پیمائش ان کا بلڈ پریشر ہائی بتاتے ہیں۔فوری طور پر ان کا نمک مرچ دیگر محرک اشیاء بند کردی جاتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتاہے بلڈ پریشر تو اپنی جگہ ہائی رہتا ہے لیکن اعضاء و اعصاب مسلسل کمزوری کا شکار ہونے لگتے ہیں ،جسم بے جان ہونے لگتا ہے، وزن مسلسل کم ہوناشروع ہوجاتا ہے۔کڑیل جوان ہڈیوں کاڈھانچہ دکھائی دیتے ہیں،اگر معمولی حرکت کرلی جائے نماز بروقت لمبے رکوع و سجود والی اختیار کرلی جائے تو صحت بھی پائیں اوردواؤں میں خرچ ہونےوالی دولت بھی بچائیں۔ جو لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ غذا سے پیدا ہونے والی قوت کو خرچ ہونے کے لئے ہل جل کی ضرورت ہوتی ہے، اگر اس طاقت کو خرچ نہ کیا گیا تو غیر طبعی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجائیںگی جو لوگ غذا کھاکر اسے ہضم نہیں کرپاتے ایک وقت ایک بھی آتا ہے جب معالج ان کی ساری غذائیں بند کرکے کوئی ایک غذا کھانے کا حکم دیتا ہے کہ زندگی چاہتے ہوتو ایک ہی قسم کی غذا کھانی پڑے گی پھر یہ لوگ دنیا کی دوسری نعمتوں کے ترستے ہیں۔
ورزش اور صحت:
جسمانی ورزشوں کی باقاعدگی بے شمار فوائد رکھتی ہے ان میں کچھ ذیل میں مذکور ہیں (1)باقاعدہ ورزش جسم کی خوراک کی ضروریات کو بڑھا دیتی ہے ۔ خوراک کے جزو بدن بننے کی شرح بڑھتی ہے۔ورزش سے جسمانی ٹمپریچر بڑھتا ہے جو حسن و نکھار کا سبب بنتا ہے نکھار پیدا ہونے سے جسم توانائیوں سے بھرپور دکھائی دینے لگتا ہے (2)باقاعدگی سے ورزشیں کرتے ہوئے ان میں بتدریج اضافہ کیا جائےتوجسم خودکار طریقےسےمتوازن ہوجاتاہے اعصابی نظام بہتر انداز میں کام کرنے لگتا ہے پھپھڑوں اور معدے کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے احساسات و حرکات کو کنٹرول کرنے والی رگیں مضبوط ہوکر اپنی گرفت کو بہتر بنالیتی ہیں۔غذا ہضم کرنے کی صلاحیت اور گردش خون میں بہتری آجاتی ہے
(3)باقاعدہ ورزش سے جسمانی عضلات کے ڈھیلا پڑنے کی رفتار کم ہوکر نارمل ہوجاتی ہے ڈھیلاپن،نچلے دھڑے کا فالج پاؤں کی طر ف خون کی غیر متوازی گردش کی وجہ سے ہوتا ہے ورزش سے توازن پیدا ہوجاتا ہے۔
(4)ورزش سے عضلات و اعصاب کی بافتوں (ٹیشوز) کی کاکردگی میں اضافہ ہونے کی وجہ سے خون کی گردش بہتر ہوجاتی ہے خون باریک نالیوں تک پہنچنے لگتا ہے، جس سے جسم میں توانائی محسوس ہونے لگتی ہے۔ورزش اتنی کافی ہے کہ پسینہ بہنے لگے اور تھکاوٹ محسوس ہونے لگے۔
(5)ورزش کی وجہ سے انتڑیوں میں جمع شدہ گیس خارج ہونے لگتی ہے اور گیس سے پرورش پانے والی علامات یکے بعد دیگرے دم دباکر بھاگ جاتی ہیں ۔
(6) ورزش سے نظام تنفس بہتر ہوجاتا ہے سانس روکنے اور مشقت برداشت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتاہے۔جب یہ صلاحیت بڑھتی ہے تو کام کرنے کی رفتار بھی بہتر ہوجاتی ہے۔(7)ورزش سے خون کی رفتار بہتر ہوجاتی ہے،وریدوں کی کارکردگی میںاضافہ ہوجاتاہے (8)ورزش کے دوران آنے والا پسینہ گردوں کو جسم سے فاضل مواد کے اخراج میں مدد فراہم کرتا ہے۔رکے ہوئے فضلات جو تکلیف کا سبب ہوتے ہیں پیشاب کی راہ خارج ہوجاتے ہیں۔
(9)ورزش سے خون کے سرخ ذرات بتدریج بڑھنے لگتے ہیں اور جسمانی قوت مدافعت میں اضافہ ہوجاتاہےاور بیماریاںپیدا کرنے والے عناصر یکے بعد دیگرے دم دباکر بھاگ جاتے ہیں۔
(10)مسلسل اور باقاعدہ ورزش کرنے سے جسمانی قوت ذہنی استعداد خود پر قابو پانے کی صلاحیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ جسمانی نظام کی مجموعی کارکردگی بہتر ہوجاتی ہے۔
ننگے پاؤں چلنا:
قَالَ) فَضَالَةُ بْنِ عُبَيْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ (كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَحْتَفِيَ أَحْيَانًا۔سنن ابی داؤد، کتاب الترجل، حدیث نمبر3629ترجمہ: حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس بات کا حکم فرماتے تھے کہ کبھی کبھی ننگے پاؤں بھی چلا کرو۔
فائدہ: موسم گرما میں صبح کے وقت گھاس پر ننگے پاؤں چلنے سے جسم کی گرمی دور ہوتی ہے اور دماغ کو سکون ملتا ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین فرما لیں کہ ننگے پاؤں وہاں چلیں جہاں جگہ کا پاک ہونا یقینی ہو، اگر گھر میں ایسی جگہ ہے جہاں چھوٹے بچےپیشاب کرتے رہتے ہیں تو ایسی جگہ پر ننگے پاؤں بالکل نہیں چلناچاہیے۔
روزانہ 45منٹ پیدل چلئےشروع میں 15مِنَٹ تیز قدم، پھر 15 مِنَٹ معتدل، آخِر میں15مِنَٹ پھر تیز قدم چلئے، اس طرح چلنے سے نظامِ انہضام (Digestive system ) درست رہے گا، قبض، دِل کے اَمراض اور دیگر کئی بیماریوں سے حفاظت کے ساتھ وَزْن میں بھی کمی آئے گی.
چلنے کا سنّت طریقہ اور جدید سائنس۔
تحقیق سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چلنے کے انداز میںپاؤں کے پنجوںپر وَزْن زیادہ پڑتاہے میڈیکل ریسرچ کے لحاظ سےاس میں کئی فوائد ہیں:اس سنّت کے مطابق چلنے والا (۱)جَوڑوں کے مرض سے محفوظ رہے گا۔ (2)لمبے سفر میں جلدی نہیں تھکے گا(3)سفر جلدی طے ہو جائے گا(4)بینائی تیز ہوگی۔ (5)اَعْصَابی کھِچاؤ اور بے چینی ختم ہوگی۔
انسان پاؤں کی حفاظت کےلئےجوتےپہنتاہے پہلے لوگ چمڑے کے جوتے پہنا کرتےتھے بعد میں دیگر ذرائع سےپیداشدہ مواد سے جوتے بنائے جانے لگے جس کی وجہ سے کئی ایک علامات و امراض انسانی جسم میں رونما ہونے لگے ہاتھ پاؤں اور کانوں میں ایسے اعضاء موجود ہیں جو وجود پر اثر انداز ہوتے ہیں مختلف کیمیکلوں سے بنائے گئے جوتے گھن کی طرح صحت کو کھوکھلا کردیتے ہیں اس لئے جب کبھی صاف زمین کھیت،جنگل میں جائیں تو ضرور ننگے پاؤں چلا کریں تاکہ ان اعضاء کو راحت ملے، جو مٹی لگنےسے سکون محسوس کرتے ہیں،اگر موقع ملےتو یومیہ دس پندہ منٹ ننگے پاؤں زمین پر چل لیا کریں،اس سے حیرت انگیز طور پر صحت میں اضافہ ہوگابالخصوص رات کے وقت ضرور ننگے پاؤں چلیں۔کسی جگہ پڑھا تھا کہ حضرت عیسی ؑ خود ننگے پاؤں چلنا پسند فرماتے تھے اور اپنے ماننے والوں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے۔
احتیاطیں:
کھانے سے پہلے اور کھانے کے ڈیڑھ گھنٹہ بعد کے اوقات میں ورزش ہرگز نہ کریں کیونکہ ورزش سے جو قوتیں ہاضمہ کی طرف متوجہ ہوتی ہیں وہ دیگر اعمال کی طرف لگ جائیں گی اور کھانا ہضم ہونے کے بجائے متعفن ہوجا ئے گااس لئے کھانے کے فورا بعد ورزش ہرگز نہ کر یں ۔
اسی طرح جسم تھکاہوا ہو اس وقت بھی ورزش نہ کریں پہلے آرام کریں، اس کے بعد جب اعضاء راحت پکڑ لیں تو ورزش شروع کریں۔ورزش کے وقت مکمل توجہ ورزش کی طرف رکھے دیگر افکار و خیالات کو ذہن سے جھٹک دیں تاکہ ورزش کا مقصد ہاتھ آئے ۔
ورزش کا اندازہ نبض سے:
ورزش کرنے والے کو کس قدر ورزش کرنی چاہئے اس کا ٹھیک اندازہ خود ورزش کرنےوالا ہی لگاسکتا ہے، البتہ ایچ کے باکھرو صاحب نے ایک قاعدہ لکھا ہے ’’نبض شماری آسان چیز ہے،اپنی کلائی پردائیں ہاتھ کی تین انگلیاں رکھیں انہیں سختی سے اتنا دبائیں کہ نبض محسوس ہو نے لگے،گھڑی کی سیکنڈوں والی سوئی کو پندرہ منٹ تک دیکھتے ہوئے نبض کی رفتار کا شمار کریں ۔اب دھڑکنوں کو 4سے ضرب دیں۔حالت سکون میں نبض(دل)کی حرکت اگر 70 یا 80ہوگی۔ورزش شروع کرتے ہی اس کی رفتار میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا اور نبض کی رفتار فی منٹ200یا اس سے بھی زیادہ ہوجائے گی، مقصد یہ ہونا چاہئے کہ ورز ش مکمل ہونےپر زیادہ سے زیادہ صلاحیت کا دو تہائی یعنی نبض کی رفتار130بار فی منٹ ہوجائے گی۔زیادہ ورزش سے ہمیشہ گریز کیجئے۔اپنی نبض کی رفتار کو190بار فی منٹ منفی آپ کی عمر سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے مثلاََ آپ کی عمر30سال ہے ورزش کے بعد نبض کی رفتار190ہوگی اس میں سے 30منہا کیجئے تو رفتار 160بالکل مناسب ہوگی۔آپ کی عمر50سال ہے تو نبض کی رفتار140 ہونی چاہئے ۔ساٹھ سال ہے تو130ہونی چاہئے (ایچ کے باکھرو۔39/1)