

حاجت روائی کے لئے تیر بہدف عمل
منقول از امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ
ناقل ۔حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو
دعا کا بنیادی مقصد اور فلسفہ
اسلام میں صحت، شفا، اور استغفار کی دعاؤں کا بنیادی مقصد اور فلسفہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کے تعلق کو مضبوط کرنا، اس کی رحمت اور مدد کا طلبگار ہونا، اور ہر حال میں اس پر توکل کرنا ہے۔ یہ اعمال انسان کی جسمانی اور روحانی دونوں طرح کی فلاح اور پاکیزگی کا ذریعہ بنتے ہیں۔
دعا کا بنیادی مقصد اور فلسفہ: اسلام میں دعا کو “مومن کا ہتھیار” قرار دیا گیا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رابطے کی ایک اہم شکل ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ انسان اپنی تمام حاجات، پریشانیاں، گناہ اور امیدیں صرف اللہ کے سامنے پیش کرے۔ تمام دعائیں اللہ کی حکمت اور مرضی کے مطابق قبول ہوتی ہیں، چاہے ان کا نتیجہ فوری طور پر ظاہر نہ ہو یا کسی اور صورت میں ملے، جیسے کہ گناہوں کی معافی یا کسی برائی کا ٹل جانا۔
صحت اور شفا کے لیے دعاؤں کا مقصد اور فلسفہ: صحت اور تندرستی کو اللہ کی طرف سے عظیم نعمتیں سمجھا جاتا ہے۔ بیماری اور صحت کے چیلنجز کو اللہ کی طرف سے آزمائش کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کا مقصد ایمان کو مضبوط کرنا، گناہوں کو صاف کرنا، اور بندے کو اپنے خالق کے قریب لانا ہوتا ہے۔
توکل اور رحمتِ الٰہی کا حصول: مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ شفا دینے کی طاقت صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، اور دعا اس کی رحمت کے حصول کا ایک طریقہ ہے۔ بیماری کے وقت بھی اللہ کی حکمت اور رحمت پر مکمل بھروسہ رکھنا چاہیے۔
گناہوں کا کفارہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان پر کوئی مصیبت نہیں آتی مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماری روحانی ترقی کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔
صبر اور شکر گزاری: بیماری کے دوران صبر اور شکر گزاری کو ایک خوبی کے طور پر زور دیا جاتا ہے۔ مشکل وقت میں بھی اللہ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے سے عظیم اجر ملتا ہے اور یہ اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرنے میں مدد کرتا ہے۔
خاص دعائیں: قرآن کریم اور احادیث میں صحت اور شفا کے لیے کئی دعائیں بتائی گئی ہیں، جیسے سورہ فاتحہ جو عمومی فلاح اور ہر قسم کے نقصان سے حفاظت کے لیے پڑھی جاتی ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا (بے شک مجھے مصیبت نے چھو لیا ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے) بیماری سے نجات کے لیے ایک طاقتور دعا ہے اور اللہ کی رحمت پر مکمل اعتماد کا مظہر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بری بیماریوں سے حفاظت کے لیے بھی دعا سکھائی ہے، مثلاً “اے اللہ میں تجھ سے کوڑھ، پاگل پن، فالج اور بری بیماریوں سے پناہ مانگتا ہوں”۔
استغفار (توبہ اور مغفرت طلب کرنا) کا مقصد اور فلسفہ: استغفار کا لغوی معنی اپنے گناہوں سے معافی طلب کرنا ہے۔ توبہ اس گناہ پر نادم ہونے اور آئندہ اسے نہ کرنے کا پختہ عزم کرنے کو کہتے ہیں۔ چونکہ انسان خطا کار ہے اور اس سے غلطیاں ہوتی رہتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے استغفار کا طریقہ عطا فرمایا ہے تاکہ بندہ اپنے گناہوں سے نجات حاصل کر سکے۔
دلوں کی صفائی: دلوں کو بھی لوہے کی طرح زنگ لگ جاتا ہے اور اس کی صفائی استغفار کرنے سے ہوتی ہے۔
پریشانیوں اور تنگیوں سے نجات: جس نے استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لیا، اللہ پاک اس کی ہر پریشانی دور فرمائے گا، ہر تنگی سے اسے راحت عطا فرمائے گا، اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو گا۔
نامہ اعمال میں برکت: خوشخبری ہے اس کے لیے جو اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پائے۔
اللہ کی پسندیدگی: اللہ تعالیٰ بہت توبہ کرنے والوں اور صاف ستھرے رہنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
انبیاء کا طریقہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، جو گناہوں سے معصوم تھے، دن میں 70 سے 100 مرتبہ اللہ سے استغفار کرتے تھے۔ یہ عمل امت کی تعلیم کے لیے تھا۔
گناہوں کی معافی اور درجات میں بلندی: استغفار گناہوں کی بخشش، انہیں نیکیوں میں بدلنے، اور درجات کو بلند کرنے کا ذریعہ ہے۔
دنیاوی فوائد: استغفار کی کثرت بارش کے نزول، مال و اولاد کی ترقی، عمر میں درازی، اور خوشحال زندگی کا باعث بنتی ہے۔
سید الاستغفار: ایک خاص دعا جسے “سید الاستغفار” کہا جاتا ہے، اسے ایمان و یقین کے ساتھ پڑھنے والے کے لیے جنت کی بشارت ہے۔
ذہنی سکون کا حصول: ذکرِ الٰہی اور عبادات، بشمول دعا اور استغفار، قلبی سکون کا باعث بنتے ہیں۔ اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔ یہ تمام اعمال انسان کو منفی سوچوں، پریشانیوں، اور دباؤ سے دور رکھنے میں مدد کرتے ہیں، اور انسان کو اللہ کی رضا میں راضی رہنے کی توفیق دیتے ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق فرموده هر کسی را حاجتی باشد بر کاغذی بنویسد:
بسم الله الرحمن الرحیم من عبده العبید الذلیل الی ربه الجلیل. رب انی مسّنی الضُر و أنت ارحم الراحمین.
و رقعه را در آب روان عظیم انداخته و بگوید: اللهم بمحمد و آله الطیبین الطاهرین و صحبة المرتضین اِقض حاجاتی یا اکرم الاکرمین.
و ان حاجت از دل گذراند البته مستجاب گردد.
۲۲ منقول از امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ :
جس کسی کو کوئی سخت مشکل پیش آئی ہو یا مخالف سے خوف زدہ ہو اس دعاء کو با خلاص تمام کاغذ کے تین پرزوں یا تین پتوں پر لکھے اور آب جاری یا کنویں میں ڈالے، اگر اسی وقت اس کی کار براری نہ ہو تو قیامت کے دن میرا دامن پکڑے اور مجھ سے داد چاہے وہ یہ ہے۔
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم – بسم الله الملك المبين من العبد الذليل الى المولى الجليل رَبِّ إِنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ بحرمة الله عَفْحَمُ الرَّاحِمِينَ بِرَحْمَتِكَ يا لرحمـ الراحمين وصلى الله على سيدنا محمد وآله اجمعين الطيبين الطاهرين.