جنگِ خانوا کے بعد  میو قو م  اورمیوات ایک سلطنت کا زوال اور ایک خطے کی نئی تشکیل

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

Contents

1.1 پس منظر: بابر کی آمد اور شمالی ہندوستان کا سیاسی منظرنامہ. 1

جدول 1: میوات کے خانزادہ حکمرانوں کی فہرست (1372-1527) 1

1.2 خانوا کا میدانِ جنگ (1527): اتحاد، وفاداری اور تصادم 2

1.3 جنگ کے نتائج اور حسن خان میواتی کی شہادت.. 2

حصہ دوم: مغلیہ سلطنت کے زیرِ سایہ – میوات کی سیاسی و انتظامی تشکیلِ نو. 3

2.1 الحاق اور انضمام: بابر سے اکبر تک… 3

2.2 مغلیہ دورِ عروج میں میوات کی حیثیت.. 3

جدول 2: مغلیہ دور میں میوات کی سیاسی و انتظامی حیثیت کا خلاصہ. 3

2.3 زوالِ مغلیہ اور میوات کا انتشار. 4

3.1 میو سماج: شناخت اور بقا 4

3.2 معاشی منظرنامہ: زراعت، مزاحمت اور گزر بسر. 4

4.1 شہیدِ وطن: حسن خان میواتی کی یاد 5

4.2 تاریخ کے آئینے میں: متضاد بیانیے اور شناختی مباحث.. 5

حصہ اول: فیصلہ کن موڑ – جنگِ خانوا اور میوات کا مقدر

1.1 پس منظر: بابر کی آمد اور شمالی ہندوستان کا سیاسی منظرنامہ

سولہویں صدی کے اوائل میں شمالی ہندوستان ایک سیاسی انتشار اور طاقت کے خلا کے دور سے گزر رہا تھا۔ دہلی میں قائم لودھی سلطنت، جو برصغیر پر حکمرانی کا روایتی مرکز تھی، داخلی کمزوریوں اور امرا کی بغاوتوں کے باعث زوال پذیر تھی ۔ اس کمزور ہوتی مرکزی طاقت کے پس منظر میں، اصل سیاسی قوت میواڑ کے راجپوت حکمران رانا سانگا کی قیادت میں ابھرنے والی راجپوت کنفیڈریسی تھی، جو شمالی ہندوستان کی سب سے مضبوط طاقت بن چکی تھی ۔  

اسی سیاسی منظرنامے میں، دہلی اور راجپوتانہ کے درمیان واقع میوات کی ریاست ایک منفرد اور تزویراتی اہمیت کی حامل تھی۔ یہ ایک نیم خود مختار مسلم راجپوت سلطنت تھی جس نے تقریباً 155 سال تک اپنی آزادی برقرار رکھی تھی۔ اس کی بنیاد 1372 میں فیروز شاہ تغلق کے دور میں راجا ناہر خان نے رکھی تھی، جو اصلاً کوٹلہ کے جدون راجپوت راجا سونپر پال تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعد میوات کے سردار بنائے گئے ۔ راجا ناہر خان اور ان کی اولاد، جو تاریخ میں “خانزادہ” کہلائی، نے میوات پر ایک موروثی حکومت قائم کی۔ ابتدا میں انہوں نے “ولیِ میوات” کا لقب اختیار کیا، لیکن نویں حکمران حسن خان میواتی کے دور تک یہ لقب “شاہِ میوات” میں تبدیل

ہو چکا تھا، جو ان کی مکمل خود مختاری کا اعلان تھا ۔  

ریاستِ میوات کا جغرافیائی پھیلاؤ بھی اس کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ اس میں موجودہ ہریانہ کے اضلاع نوح اور پلول، راجستھان کے الور، تجارا، رام گڑھ، لکشمن گڑھ اور بھرت پور کی پہاڑی، نگر اور کمان تحصیلیں، اور اتر پردیش کے ضلع متھرا کے کچھ حصے شامل تھے ۔ یہ وسیع علاقہ اسے دہلی-آگرہ کے مراکزِ اقتدار اور راجپوتانہ کی ریاستوں کے درمیان ایک اہم بفر ریاست بناتا تھا۔  

جدول 1: میوات کے خانزادہ حکمرانوں کی فہرست (1372-1527)

نسبمیوات ریاست کے حکمراندورِ حکومت
پہلاراجا نہر خان میواتی (سابقہ راجا سونپر پال) – ریاست میوات کے بانی1372–1402
دوسراراجا خانزادہ بہادر خان میواتی1402–1412
تیسراراجا خانزادہ اکلیم خان میواتی1412–1417
چوتھاراجا خانزادہ فیروز خان میواتی1417–1422
پانچواںراجا خانزادہ جلال خان میواتی1422–1443
چھٹاراجا خانزادہ احمد خان میواتی1443–1468
ساتواںراجا خانزادہ زکریا خان میواتی1468–1485
آٹھواںراجا خانزادہ علاول خان میواتی1485–1504
نواںراجا حسن خان میواتی – میوات کا آخری خود مختار حکمران1504–1527

ماخذ:  

1.2 خانوا کا میدانِ جنگ (1527): اتحاد، وفاداری اور تصادم

ظہیر الدین بابر نے 1526 میں پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی اور آگرہ پر تو قبضہ کر لیا تھا، لیکن شمالی ہندوستان پر اس کی حاکمیت ابھی مستحکم نہیں تھی۔ اصل خطرہ رانا سانگا کی قیادت میں متحد ہونے والی طاقتوں سے تھا، جنہوں نے بابر کو ایک غیر ملکی حملہ آور کے طور پر دیکھا اور اسے ہندوستان سے نکالنے کا عزم کیا ۔ رانا سانگا نے مختلف راجپوت اور افغان سرداروں کو اپنے جھنڈے تلے جمع کیا، جن میں سب سے اہم اتحادی ریاستِ میوات کے حکمران حسن خان میواتی تھے ۔  

بابر، جو ایک زیرک سیاستدان بھی تھا، نے اس اتحاد کو توڑنے کی کوشش کی۔ اس نے حسن خان میواتی سے رابطہ کیا اور مشترکہ مذہب کا واسطہ دیتے ہوئے کہا کہ “میں اور آپ مسلمان ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہٰذا بھارت پر قبضہ کرنے میں ہماری مدد کریں” ۔ بابر کا یہ اقدام اس توقع پر مبنی تھا کہ مذہبی شناخت سیاسی وفاداری پر غالب آ جائے گی۔  

تاہم، حسن خان میواتی کا جواب تاریخ میں ایک فیصلہ کن لمحے کے طور پر درج ہے۔ انہوں نے بابر کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ کہے: “سب سے پہلے میں ایک ہندوستانی ہوں اور میرا مذہب اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں اپنے ملک اور ملک سے غداری کروں گا۔ لہٰذا یہ میرا مذہب اور فرض ہے کہ میں اپنے مادری وطن ہندوستان کی حفاظت کروں” ۔ یہ اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ سولہویں صدی میں بھی سیاسی اور وطنی شناخت، مذہبی وابستگی پر فوقیت لے سکتی تھی۔ حسن خان نے ایک بیرونی حملہ آور کے خلاف، چاہے وہ ہم مذہب ہی کیوں نہ ہو، اپنے وطن اور ایک ہندو راجپوت حکمران کے ساتھ کیے گئے اپنے سیاسی عہد کی پاسداری کو ترجیح دی۔ اس اتحاد میں لودھی سلطنت کے آخری دعویدار، ابراہیم لودھی کے بیٹے محمود لودھی بھی شامل تھے، جس نے اس جنگ کو ہندوستان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والا معرکہ بنا دیا ۔  

1.3 جنگ کے نتائج اور حسن خان میواتی کی شہادت

15 مارچ 1527 کو آگرہ کے قریب خانوا کے میدان میں ہونے والی جنگ شمالی ہندوستان کی تاریخ کی سب سے فیصلہ کن لڑائیوں میں سے ایک ثابت ہوئی ۔ بابر کی افواج، تعداد میں کم ہونے کے باوجود، اپنی جدید جنگی حکمت عملی، خاص طور پر توپ خانے اور بارود کے مؤثر استعمال کی وجہ سے راجپوت کنفیڈریسی کی روایتی فوج پر غالب آگئیں ۔ توپوں کی گھن گرج نے رانا سانگا کے جنگی ہاتھیوں کو

بدحواس کر دیا، جنہوں نے پلٹ کر اپنی ہی فوج کو روند ڈالا۔  

اس شدید جنگ میں راجا حسن خان میواتی نے بہادری سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا ۔ ان کی شہادت صرف ایک حکمران کی موت نہیں تھی، بلکہ یہ ریاستِ میوات کی ڈیڑھ صدی پر محیط خود مختاری کے خاتمے کا اعلان بھی تھی۔ وہ خانزادہ سلسلے کے نویں اور آخری آزاد حکمران تھے ۔ جنگِ خانوا میں شکست کے ساتھ ہی میوات کی آزاد سیاسی حیثیت ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی اور یہ خطہ، جو ایک طویل عرصے تک ایک طاقتور اکائی کے طور پر موجود رہا تھا، اب ایک فاتح سلطنت کے رحم و کرم پر تھا ۔ اس جنگ نے نہ صرف میوات کا مقدر طے کیا بلکہ اگلے دو سو سال کے لیے شمالی ہندوستان پر مغلیہ سلطنت کی بالادستی پر بھی مہر ثبت کر دی ۔  

حصہ دوم: مغلیہ سلطنت کے زیرِ سایہ – میوات کی سیاسی و انتظامی تشکیلِ نو

2.1 الحاق اور انضمام: بابر سے اکبر تک

جنگِ خانوا میں فیصلہ کن فتح کے بعد، بابر نے اپنی نوزائیدہ سلطنت کو مستحکم کرنے کے لیے تیزی سے اقدامات کیے۔ اس نے شمالی ہندوستان کی کلیدی ریاستوں اور علاقوں کو یکے بعد دیگرے فتح کرنا شروع کیا، اور اسی سلسلے میں گوالیار، حصار اور بنگال کے ساتھ ساتھ “ریاست میوات” کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا ۔ میوات کی فتح صرف ایک فوجی کامیابی نہیں تھی، بلکہ یہ اس خطے کی سیاسی حیثیت میں ایک بنیادی تبدیلی کا آغاز تھا۔

 

اس تبدیلی کا سب سے واضح ثبوت بابر کے جانشین ہمایوں کے دور میں ملتا ہے۔ ہمایوں نے تخت نشین ہونے کے بعد اپنی سلطنت بھائیوں میں تقسیم کی اور میوات کا علاقہ بطور جاگیر اپنے بھائی ہندال مرزا کو عطا کر دیا ۔ یہ عمل علامتی اور حقیقی، دونوں اعتبار سے انتہائی اہم تھا۔ اس نے میوات کو ایک خود مختار ریاست سے گھٹا کر مغل شہزادے کی ذاتی جاگیر بنا دیا، جو اس کی سیاسی تنزلی کا واضح اشارہ تھا۔  

تاہم، مغلوں کی حکمت عملی صرف فتح اور تسلط پر مبنی نہیں تھی، بلکہ اس میں شکست خوردہ مقامی اشرافیہ کو اپنے نظام میں ضم کرنے کا عنصر بھی شامل تھا۔ خانزادہ خاندان، جو اب اپنی خود مختاری کھو چکا تھا، کو مکمل طور پر ختم کرنے کے بجائے مغل اشرافیہ کا حصہ بنا لیا گیا ۔ وہ اب آزاد حکمران نہیں رہے، بلکہ مغل بادشاہ کے ماتحت منصب دار اور فوجی عہدیدار بن گئے۔ ان کی طاقت کا سرچشمہ اب ان کی اپنی وراثت نہیں، بلکہ مغل دربار سے وفاداری تھا۔ اکبر کے دور میں لکھی گئی “آئینِ اکبری” میں میوات کے خانزادوں کا ذکر امروہہ کے سادات اور دیگر اہم گروہوں کے ساتھ کیا گیا ہے، جو مغل انتظامی ڈھانچے میں ان کی شمولیت کا ثبوت ہے ۔ یہ حکمت عملی انتہائی کامیاب ثابت ہوئی، کیونکہ اس نے ایک ممکنہ بغاوت کے مرکز کو غیر مؤثر کر دیا اور مقامی قیادت کو شاہی مفادات کے ساتھ وابستہ کر دیا۔  

2.2 مغلیہ دورِ عروج میں میوات کی حیثیت

اکبر کے دورِ حکومت میں جب مغلیہ سلطنت اپنے انتظامی عروج پر پہنچی تو میوات کو بھی باقاعدہ طور پر سلطنتی ڈھانچے میں ضم کر دیا گیا۔ غالب امکان یہی ہے کہ میوات کو ایک “سرکار” (ضلع) کی حیثیت دی گئی جو کسی بڑے “صوبے” (جیسے آگرہ یا دہلی) کا حصہ تھی۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ اکبری دور میں کوٹ قاسم کو میوات کا ایک اہم مرکز یا “راجدھانی” سمجھا جاتا تھا اور اس کا انتظامی تعلق الور اور تجارہ جیسے علاقوں سے تھا ۔  

مغلوں نے اس علاقے میں اپنے محصولات کے نظام، خصوصاً “ضبط سسٹم” کو نافذ کیا، جس کے تحت زرعی پیداوار پر ٹیکس وصول کرنے کے لیے زمین کی وسیع پیمائش کی جاتی تھی ۔ مغل ریاست نے مزید زمین کو کاشت میں لانے کی حوصلہ افزائی بھی کی، جس سے ایک طرف زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف کسانوں پر ٹیکس کا بوجھ بھی بڑھا۔  

تاہم، میوات پر مغل کنٹرول ہمیشہ پرامن نہیں رہا۔ میو قوم اپنی جنگجو فطرت اور آزادی پسندی کے لیے مشہور تھی۔ تاریخی ذرائع میں راجپوتوں اور میوات جیسے پہاڑی علاقوں کے باشندوں کی “سرکشیوں” کا ذکر ملتا ہے، جو شاہی حکومت کے لیے ایک مستقل چیلنج تھیں ۔ اکبر کے دور میں بھی مقامی معاملات میں براہِ راست مداخلت کی ضرورت پڑتی تھی۔ ایک واقعہ کا ذکر ملتا ہے جس میں “میوات کے مغل حاکم” کے ظلم کی شکایت پر اکبر نے ذاتی طور پر مداخلت کی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کو مقامی سطح پر اپنا اختیار قائم رکھنے کے لیے مسلسل متحرک رہنا پڑتا تھا۔  

جدول 2: مغلیہ دور میں میوات کی سیاسی و انتظامی حیثیت کا خلاصہ

مغلیہ شہنشاہدورِ حکومتمیوات کی حیثیتاہم تعیناتیاں / واقعات
ظہیر الدین بابر1526–1530مفتوحہ علاقہجنگِ خانوا کے بعد سلطنت میں الحاق  
نصیر الدین ہمایوں1530–1556جاگیرشہزادہ ہندال مرزا کو بطور جاگیر عطا کیا گیا  
جلال الدین اکبر1556–1605سرکار/انتظامی اکائیشاہی انتظامی ڈھانچے میں باقاعدہ انضمام۔ کوٹ قاسم ایک اہم مرکز تھا۔ خانزادوں کو شاہی امرا میں شامل کیا گیا  
اورنگزیب تا اواخرِ مغل1658–18ویں صدیمنتشر ہوتا ہوا علاقہمرکزی کنٹرول کا خاتمہ۔ جاٹوں اور جے پور کی ریاست کا عروج۔ میوات کا علاقہ الور اور بھرت پور کی ریاستوں میں تقسیم ہوگیا  

ماخذ: متعدد ذرائع سے مرتب کردہ  

2.3 زوالِ مغلیہ اور میوات کا انتشار

اٹھارہویں صدی میں جب اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کا شیرازہ بکھرنے لگا تو اس کے اثرات میوات پر بھی مرتب ہوئے۔ مرکزی حکومت کی کمزوری نے “طوائف الملوکی” کو جنم دیا، جس میں علاقائی طاقتیں خود مختار ہونے لگیں ۔ میوات کا تاریخی خطہ، جو دہلی کے قریب ہونے کی وجہ سے تزویراتی طور پر اہم تھا، ابھرتی ہوئی طاقتوں کے لیے میدانِ جنگ بن گیا۔  

اس دور میں بھرت پور کے جاٹ اور جے پور کے کچھواہا راجپوتوں نے اپنی سلطنتوں کو وسعت دینا شروع کیا اور میوات کے علاقوں پر قبضہ جما لیا۔ اس سیاسی کھینچا تانی کے نتیجے میں میوات کی متحدہ سیاسی اور انتظامی شناخت، جو مغل دور میں کسی حد تک قائم رہی تھی، مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ میوات کا بڑا حصہ الور اور بھرت پور کی نئی قائم ہونے والی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا ۔ وہ چھوٹی چھوٹی میو سرداریاں جو اورنگزیب کے زمانے تک کسی نہ کسی شکل میں باقی تھیں، وہ بھی اس انتشار میں ختم ہو گئیں ۔  

یہ ایک تاریخی ستم ظریفی ہے کہ جس مغلیہ سلطنت نے میوات کی آزادی چھینی تھی، اسی نے اپنی مرکزیت کے ذریعے اس کی علاقائی وحدت کو بھی برقرار رکھا تھا۔ جب یہ مرکزی طاقت ختم ہوئی تو میوات کا وجود ہی بکھر گیا اور میو قوم مختلف حکمرانوں کے ماتحت تقسیم ہو کر رہ گئی۔

حصہ سوم: سماجی و معاشی تحولات – میو قوم پر جنگ کے طویل مدتی اثرات

3.1 میو سماج: شناخت اور بقا

جنگِ خانوا کے بعد میوات کی سیاسی تقدیر بدل گئی، لیکن میو قوم کی سماجی اور ثقافتی شناخت نے قابلِ ذکر لچک کا مظاہرہ کیا۔ میو قوم کی جڑیں آرین نسل کے چھتری (کشتریا) راجپوتوں میں ہیں، اور ان کا تعلق تومر، جادوبنسی اور چوہان جیسی مشہور گوتوں (قبیلوں) سے ہے ۔ یہ ایک ایسی قوم تھی جس کی اپنی منفرد تاریخ، روایات اور جنگجویانہ کردار تھا۔  

سیاسی شکست کے بعد، خانزادہ اشرافیہ نے بقا کے لیے ایک نئی سماجی حکمت عملی اپنائی۔ انہوں نے “سماجی تنہائی” سے بچنے کے لیے دیگر مقامی مسلم برادریوں میں شادیاں کرنا شروع کر دیں ۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کی ترجیح اب خالص راجپوت نسب کو برقرار رکھنے کے بجائے مقامی مسلم معاشرے میں وسیع تر اتحاد قائم کرنا بن گئی تھی۔  

اس کے برعکس، عام میو عوام نے اپنی بنیادی شناخت کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ وہ ایک جنگجو قوم کے طور پر مشہور رہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی عورتیں اور مرد، دونوں اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے گوریلا جنگ میں حصہ لیتے تھے ۔ یہ مزاحمتی کردار مغل دور اور اس کے بعد بھی ان کی پہچان بنا رہا۔  

مغل دور میں اس خطے میں اسلامی روایات مزید گہری ہوئیں، لیکن راجپوت ثقافت کے اثرات بھی باقی رہے۔ الور میں حضرت سید مبارک شاہ جیسے صوفی بزرگوں کا کام جاری رہا، اور حسن خان میواتی جیسے حکمران خود بھی ان کا احترام کرتے تھے ۔ اس طرح میوات میں ایک ملی جلی ثقافت نے جنم لیا جو آج بھی اس خطے کی خصوصیت ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت کی تبدیلی کے باوجود عوام کی ثقافتی اور سماجی زندگی اپنی رفتار سے چلتی رہی اور ان کی بنیادی شناخت سیاسی تبدیلیوں سے زیادہ مضبوط ثابت ہوئی۔  

3.2 معاشی منظرنامہ: زراعت، مزاحمت اور گزر بسر

میو قوم کا بنیادی پیشہ ہمیشہ سے زراعت رہا ہے ۔ مغل انتظامیہ کی آمد نے ان کی معاشی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ایک طرف، مغلوں کی جانب سے مزید زمین کو کاشت میں لانے کی حوصلہ افزائی کی پالیسی نے زرعی رقبے میں اضافہ کیا ہوگا ۔ لیکن دوسری طرف، منظم ریاستی محصولاتی نظام نے کسانوں پر ٹیکس کا بوجھ بھی بڑھا دیا۔  

میو قوم کی معاشی نفسیات کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ کہی جاتی ہے کہ وہ “قناعت پسند” ہوتے ہیں، اور یہ ضرب المثل مشہور ہے کہ “میو بھوکا کماتا ہے” ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی معیشت بڑی حد تک خود کفیل اور گزر بسر پر مبنی تھی، نہ کہ تجارتی منافع خوری پر۔ وہ اپنی آبائی پیشے یعنی زراعت سے ہی وابستہ رہے۔  

تاہم، میوات کی تاریخ مسلسل سیاسی عدم استحکام اور جنگ و جدل سے عبارت ہے۔ مورخین کے مطابق، میوات کی تاریخ میں چار ایسے بڑے مواقع آئے جب یہ خطہ “اجڑ کر تہس نہس” ہوگیا، اور جنگِ خانوا ان میں سے ایک تھی ۔ یہ تباہی صرف سیاسی نہیں تھی، بلکہ اس نے معیشت کی کمر توڑ دی، فصلیں تباہ کیں، اور آبادی کو غربت میں دھکیل دیا۔ تاریخ میں مذکور “سرکشیاں” بھی اکثر معاشی بدحالی اور بھاری ٹیکسوں کا نتیجہ ہوتی تھیں۔ تباہی اور تعمیر نو کا یہ لامتناہی سلسلہ خطے میں طویل مدتی معاشی خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا رہا۔ بعد کے ادوار، خصوصاً برطانوی راج میں، مسلمانوں کی معاشی حالت مزید ابتر ہوئی، جس کی جڑیں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی انتشار میں پیوست تھیں ۔  

حصہ چہارم: ورثہ، یادداشت اور تاریخ نویسی

4.1 شہیدِ وطن: حسن خان میواتی کی یاد

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حسن خان میواتی کی تاریخی شخصیت نے ایک نئی اور طاقتور علامت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ آج کے ہندوستان میں، انہیں ایک علاقائی حکمران کے بجائے ایک عظیم محبِ وطن اور “شہیدِ وطن” کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کا بابر کے خلاف رانا سانگا کا ساتھ دینے کا فیصلہ، ان کی “مادری وطن ہندوستان” کے لیے ایک عظیم قربانی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔  

اس ورثے کو سرکاری سطح پر بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ ریاست ہریانہ کے ضلع نوح (میوات) میں قائم سرکاری میڈیکل کالج کا نام “شہید حسن خان میواتی گورنمنٹ میڈیکل کالج” رکھا گیا ہے، جو ان کی خدمات کا سرکاری اعتراف ہے ۔  

اس سے بھی بڑھ کر، ان کا یومِ شہادت ہر سال منایا جاتا ہے، جس میں مختلف سیاسی جماعتوں، بشمول بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما، شرکت کرتے ہیں اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ ان تقاریب میں حسن خان کو ایک ایسے ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس پر ہر ہندوستانی کو فخر ہے۔ ان کی شخصیت کو ایک ایسی مثال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں ایک مسلمان حکمران نے مذہبی وابستگی پر وطنی وفاداری کو ترجیح دی۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح ایک تاریخی شخصیت کو اس کے اصل تناظر سے نکال کر جدید قومی ریاست کی تعمیر اور تکثیری قوم پرستی کے نظریے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہریانہ حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ ان کے یومِ شہادت پر عام تعطیل کا اعلان کیا جائے تاکہ پوری ریاست ان کی قربانی کو یاد رکھ سکے ۔  

4.2 تاریخ کے آئینے میں: متضاد بیانیے اور شناختی مباحث

حسن خان میواتی اور خانزادہ راجپوتوں کی تاریخ متعدد کلاسیکی اور جدید ذرائع میں محفوظ ہے، جن میں مغل دور کی تواریخ جیسے “آئینِ اکبری” اور “تاریخِ فرشتہ” سے لے کر برطانوی دور کے گزیٹیئرز اور سروے رپورٹس تک شامل ہیں ۔ تاہم، اس تاریخ کی تشریح اور تحریر پر جدید دور میں شدید تنازعات بھی سامنے آئے ہیں۔  

کچھ ذرائع میں ایک “تاریخ چور طبقے” کا ذکر شدید مذمتی لہجے میں کیا گیا ہے ۔ ان ذرائع کے مطابق، تقسیمِ ہند کے بعد کچھ خود ساختہ مورخین نے میوات اور میواتی قوم کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ الزام یہ ہے کہ ان افراد نے خانزادگانِ میوات کی مستند تاریخ میں خود کو شامل کرکے “زبردستی معزز بننے کی کوشش کی ہے” ۔ یہ تنازع اس وسیع تر سماجی رجحان کی عکاسی کرتا ہے جہاں تقسیم کے بعد مختلف برادریوں نے اعلیٰ سماجی حیثیت، خصوصاً راجپوت نسب، کا دعویٰ کرنا شروع کیا۔  

یہ مباحثہ ظاہر کرتا ہے کہ تاریخ صرف ماضی کا مطالعہ نہیں ہے، بلکہ یہ حال میں شناخت، سماجی حیثیت اور قانونی حیثیت کے لیے ایک میدانِ جنگ بھی ہے۔ جنوبی ایشیا میں نسب اور شجرہ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، اور تاریخی بیانیے پر کنٹرول حاصل کرنا دراصل سماجی سرمائے پر کنٹرول حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ یہ لڑائی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ میوات کی تاریخ آج بھی زندہ ہے اور اس کی تشریح پر برادری کے اندر گہرے سماجی اور شناختی مفادات وابستہ ہیں۔ یہ تنازع قارئین پر زور دیتا ہے کہ وہ “معتبر، غیر جانبدار مورخین” کو پڑھیں اور تاریخ کو مسخ کرنے والوں کی مذمت کریں ۔  

حصہ پنجم: تجزیہ و نتائج

جنگِ خانوا بلاشبہ گزشتہ ہزار سال میں میوات کی تاریخ کا سب سے اہم اور فیصلہ کن واقعہ تھا۔ یہ صرف ایک جنگ میں شکست نہیں تھی، بلکہ ایک دور کا خاتمہ اور ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ اس رپورٹ کا تجزیہ مندرجہ ذیل کلیدی نتائج پر منتج ہوتا ہے:

  1. خودمختاری کا مکمل خاتمہ: 1527 میں جنگِ خانوا اور اس میں حسن خان میواتی کی شہادت نے ریاستِ میوات کی 155 سالہ خودمختاری کو یکسر ختم کر دیا۔ یہ خطہ ایک آزاد مملکت سے براہِ راست مغلیہ سلطنت کی ایک subordinate اکائی میں تبدیل ہو گیا، ایک ایسی تبدیلی جس سے یہ پھر کبھی ابھر نہ سکا۔
  2. مغلیہ انضمام کی دوہری نوعیت: مغلوں نے میوات پر قبضہ کرنے کے بعد ایک دوہری حکمت عملی اپنائی۔ ایک طرف، انہوں نے شکست خوردہ خانزادہ اشرافیہ کو اپنے شاہی نظام میں ضم کر کے ایک ممکنہ خطرے کو وفادار اتحادی میں تبدیل کر دیا ۔ دوسری طرف، انہوں نے ایک مضبوط انتظامی ڈھانچہ قائم کیا جس نے میوات کی علاقائی وحدت کو، اگرچہ محکومیت کی حالت میں، برقرار رکھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب اٹھارہویں صدی میں یہی مغلیہ طاقت کمزور پڑی تو میوات کا شیرازہ بکھر گیا اور وہ جاٹ اور راجپوت ریاستوں میں تقسیم ہو کر اپنی متحدہ شناخت بھی کھو بیٹھا ۔  
  3. سماجی و معاشی اثرات: جنگ اور اس کے بعد کی سیاسی تبدیلیوں نے میواتی سماج پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ خانزادہ اشرافیہ نے اپنا مقام برقرار رکھنے کے لیے سماجی طور پر خود کو ڈھال لیا، جبکہ عام میو عوام نے اپنی جنگجویانہ روایات اور زرعی طرزِ زندگی کو برقرار رکھتے ہوئے قابلِ ذکر لچک کا مظاہرہ کیا ۔ تاہم، مسلسل جنگ و جدل اور سیاسی عدم استحکام نے خطے کو معاشی طور پر کبھی پنپنے نہیں دیا اور یہ دائمی معاشی پسماندگی کا شکار رہا ۔  
  4. حسن خان میواتی کا متحرک ورثہ: حسن خان میواتی کی شخصیت کا ورثہ وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا رہا ہے۔ وہ اپنے دور میں ایک علاقائی حکمران تھے جنہوں نے ایک سیاسی اور تزویراتی فیصلہ کیا۔ آج، وہ جدید ہندوستان میں ایک قومی ہیرو اور سیکولر حب الوطنی کی علامت بن چکے ہیں ۔ ان کی یاد اور ان کی تاریخ پر ہونے والے مباحثے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تاریخ کوئی جامد شے نہیں، بلکہ یہ حال میں شناختوں کی تشکیل اور سماجی حیثیت کی جنگ میں ایک زندہ اور متحرک کردار ادا کرتی ہے۔  

خلاصہ یہ کہ جنگِ خانوا نے میوات کو سیاسی نقشے سے مٹا دیا، لیکن اس نے میو قوم کے تشخص کو ختم نہیں کیا۔ اس جنگ نے خطے کو ایک نئے سیاسی، سماجی اور معاشی راستے پر گامزن کیا، جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Instagram