جنات اور انسانی صلاحیت و فراست میں فرق
جنات اور انسانی صلاحیت و فراست میں فرق
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی @ﷺکاہنہ نولاہور پاکستان
جنات سے انسانی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اس کے خمیر میں شروع دن ہی سے اللہ نے علوم کے جذب کرنے کی صلاحیت ودیعت کردی تھی۔قران کریم کے بیان مطابق انسان کو سب سے پہلا سبق ہی علم الاسما القاء کیا تھا اس کی جسمانی و روحانی صلاحیت اس قابل ہوتی ہے اپنی ضرورت کی چیزوں کا ادراک کرسکے۔فراست ایک انمول تحفہ خدا وندی ہے اس پر تفصیل تو ہم کسی دوسری کتاب میں کردی ہے اس جگہ کچھ باتیں ہدیہ قارئین ہیں۔
العین والے لکھتے ہیں۔فِراسةٌ ذاتُ بَصيرةٍ. والبَصيرة: العِبْرة»«العين» (7/ 118):
حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مومن کی فراست سے بچو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی (اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُتَوَسِّمِيْنَ ) 15 ۔ الحجر : 75) (بےشک اس واقعہ میں اہل بصیرت کے لیے کئی نشانیاں ہیں)بعض علماءنے اس حدیث کی تفسیر میں کہا ہے کہ متوسمین کے معنی فراست والوں کے ہیں۔سنن الترمذي ت شاكر (5/ 298)
ارشاد فرمایا کہ ہر قوم کی فراست ہے اس کو اس کے اشراف پہچانتے ہیں ضعیف الجامع 939 کشف الخفاء 80) کنزالعمال:جلد ششم:حدیث نمبر 365 / ارشاد فرمایا کہ مسلم کی بددعا اور اس کی فراست سے بچو۔ حلیة الاولیا بروایت لوبان۔ کنزالعمال:جلد ششم:حدیث نمبر 401
نْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ «اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ» يُرِيدُ الْعَالِمَ الْفَاضِلَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ، [ص:678]جامع بيان العلم وفضله (1/ 677) یعنی اس حدیث سے مراد عالم و فاضل کی نگاہ ہے۔
«وَرُبمَا كَانَ تبصرا فِي أَمر خَفِي»«الإشارات في علم العبارات» (ص675)اس بارہ میں حضرت شاہ ولی اللہ کا حوالہ مناسب رہے گا۔امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ظاہری اعمال باطنی اعمال کا عکاس ہوتے ہیں ۔ اگر اندر اصلاح یا فساد ہوگا تو اس کے ظاہری اعمال سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔اگر کسی کے باطن کو دیکھنا ہوتو ظاہری اعمال سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔فيض القدير (2/ 558)
حضرت ملا علی القاری لکھتے ہیں: وَالْفَرَاسَةُ عِلْمٌ يَنْكَشِفُ مِنَ الْغَيْبِ بِسَبَبِ تَفَرُّسِ آثَارِ الصُّوَرِ، «اتَّقَوْا فَرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ» فَالْفَرْقُ بَيْنَ الْإِلْهَامِ وَالْفِرَاسَةِ أَنَّهَا كَشْفُ الْأُمُورِ الْغَيْبِيَّةِ بِوَاسِطَةِ تَفَرُّسِ آثَارِ الصُّوَرِ، وَالْإِلْهَامُ كَشْفُهَا بِلَا وَاسِطَةٍ، وَالْفَرْقُ بَيْنَ الْإِلْهَامِ وَالْوَحْيِ أَنَّهُ تَابِعٌ لِلْوَحْيِ مِنْ غَيْرِ عَكْسٍ، ثُمَّ عِلْمُ الْيَقِينِ مَا كَانَ مِنْ طَرِيقِ النَّظَرِ وَالِاسْتِدْلَالِ،وَعَيْنُ الْيَقِينِ مَاكَانَ بِطَرِيقِ الْكَشْفِ وَالنَّوَالِ،وَحَقُّ الْيَقِينِ مَا كَانَ بِتَحْقِيقِ الِانْفِصَالِ عَنْ لَوْثِ الصَّلْصَالِ لِوُرُودِ رَائِدِ الْوِصَالِ۔مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 280)
اسی طرح جامع الصغیر کی شرح میں لکھا ہے۔فراست کے دو معنی لئے جاتے ہیں ۔ایک یہ جس پر ظاہری حدیث دلالت کرے،جو اللہ نیک لوگوںکے دلوں میں القاء کرتا ہے ،اس فرست کی مدد سے لوگوں کے کچھ احوال کان سکتا ہے ،یہ کرامات کی قبیل سے ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے تجربات اور زندگی کے معاملات میں مہارت کی بنیاد پر وہ بہت سی باتوں کو سمجھ لیتا ہےجو غیر تجربہ کارلوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا کرتیں۔آپ لوگوں کی لکھی ہوئی کتب میں ان کے نظائر دیکھے جاسکتے ہیں۔التنوير شرح الجامع الصغير (1/ 346)اگر کوئی کشف یا فراست پر عبور حاصل کرنا چاہے تو اس کی باقاعدہ مشقیں ہیں، کتب صوفیاء کرام۔ہپناٹزم۔ وغیرہ میں اس کی صراحت موجود ہے۔کشف اور وقائع آئندہ کا سراغ لگانا بنیادی طورپر انسانی صلاحیت کا ایک پہلو ہے لیکن عوام اور جہلاء نے اپنے مفاد کی خاطر اسے جنات کی طرف منسوب کردیا ہے۔
Pingback: ہمیں اپنی روش بدلنی ہوگی۔ - Dunya Ka ilm
Pingback: قرآن مجید اور عصر حاضر - Dunya Ka ilm
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حکیم قاری یونس صاحب
قاری صاحب آپ علم عملیات بھی پڑھاتے ہی یاپھر صرف لوگوں کے کام کرتے ہیں تعویزات سے برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں آپ کی رہنمائی کا طلب گار ہوں شفقت فرمائیں