جسمانی۔امراض سے تعوذ
طب نبوی کا سنہرا باب
تحریر
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
صحت و تندرستی کا کوئی نعم البدل نہیں ہے جتنے بھی اسلامی اوامر و نواہی تندرستی میں ہی لاگو ہوتے ہیں، بیماری کی حالت میں اسلامی احکامات بدل جاتے ہیں، صحت و تندرستی ایسی نعمت ہے جس کا اندازہ اس وقت ہوتاہے جب یہ اعلی نعمت سلب کرلی جائے۔اللہ کے نزدیک صحت مند انسان بیمار سے اور کمزور کے مقابلہ میں طاقتو ربہتر شمار ہوتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے طاقتورمسلمان اللہ کو کمزور سے زیادہ پسندہےہر خیر جو تجھے فائدہ دے اس کی طرف لپکتا ہے(مسلم)
رسول اللہﷺ کا کسی بھی معاملہ میں استحضار بڑھا ہوا تھا جو کیفیات عام انسان کو معاملہ میں الجھنے یا ضرورت کو پیش آنے پر ہوتا ہے، وہی کیفیت رسول اللہ ﷺنے ہمارے سامنے پیش فرمادی۔ایک بیمار انسان اپنی بیماری کے بارہ میں اس سے زیادہ احساس نہیں کرسکتا یا اس کے احساسات اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتے جو نبیﷺنے ان دعاؤں میں بتلادئے ہیں۔
اس وقت تک کی معلوم و خطر ناک امراض سے پناہ طلب کی گئی ہیں۔ بنیادی امراض تو جسمانی مواد کے غیر معتدل ہونے سے سامنے آتی ہیں، ایک وقت میں اگر کسی بیماری کو خطرناک سمجھا جارہا ہے، ممکن ہے دوسرے وقت میں کسی دوسری بیماری کو زیادہ خطرناک قرار دیدیا جائے۔ہر اس بات کو بیماری میں شمار کیا جاسکتا ہے جو انسانی مزاج کو حد اعتدال سے منحرف کردے۔
آ ج جن امراض کو سر فہرست شمار کیا جاسکتا ہے وہ بلڈ پریشر ہائی’’رنگ کی گرمی (پیلا ہٹ )امراض معدہ’’معدہ امراض کی آماجگاہ ہے۔امراض جگر وغیرہ ہیں،اسی طرح کینسر جس کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں، جو موذی و خطرناک سمجھا جاتا ہے۔اگر ان سب کا جائزہ لیں حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کسی بیماری کا لاعلاج ہونا الگ بات ہے اور کسی مرض کی تشخیص نہ ہونا، اساس بنیاد پر مرض کا بگڑ جانا دوسری بات ہے۔
ہم لوگ تشخیص کی غلطی یا اپنی معلومات کی کمی کو مرض کے لاعلاج ہونے کا سبب قرار دیتے ہیں ،طب نبوی ﷺ میں امراض اور ان کے اسباب بیان کئے گئے ہیں جوامع الکلم کا خاصہ ہے، اس بحر بے کراں سے تا قیامت لوگ سیرابی حاصل کرتے ہیں ۔علم طب ایسا بنیادی علم ہے جس سے واقفیت پیدا کرنا انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے یہ فن و ہنر جس قدر اہم ہے معاشرہ میں اس سے اتنی ہی زیادہ بے اعتنائی برتی گئی ہے طب و طبیب علاج امراض انسانی صحت کے بارہ میں قران و احادیث میں واضح احکامات موجود ہیں ۔
یہی وہ علاج ہیں جو انسانی جسم میں پیدا ہوتے ہیں ان کے اسباب و علاج پیدا کرنے والے وحی کے توسط سے اپنے حبیبﷺ تک پہنچائے انہوں نے بلاکم و کاست ہمیں پہنچادئے ،پیدا کرنے والا جانتا ہے انسانی جسم کس وجہ سے اعتدال سے منحرف ہوگا ،اس کا تدارک کیا ہے؟ وقتی طور پر کوئی معالج اس کی گہرائی تک نہ پہنچ سکے یہ اس کی کم سمجھی ہے ۔جہاں تک ابھی معالجین و محققین کی رسائی نہ ہوسکی، یا وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ یہ اشیاء بھی امراض کا سبب بن سکتی ہیں جیسے غم و فکر خوف وغیرہ صدیوں بعد یہ گتھیاں آج سلجھ رہی ہیں کہ ذہنی انتشار امراض کا سبب بن سکتا ہے ۔
تعوذ ہمیشہ ایسی باتوں سے طلب کی جاتی ہے جہاں انسانی قوی کام کرنا چھوڑ جائیں یا انسان اس کے خلاف کوئی مؤثر تدبیر نہ کرسکے۔جو خطرات انسانی زندگی کو گرہن لگا سکتے ہیں ان سے پہلے ہی پناہ مانگی گئی ہے، پناہ تو اس سے طلب کی جاتی ہے جو طالب کی ضرورت کو پورا کردے۔اگر پانچ دس منٹ نکال کر یومیہ ان(تعوذات) پناہوں کو اپنے ورد میں شامل کرلیا جائے ،پڑھنے والے کو ایسے فوائد حاصل ہونگے جنہیں سمجھنے اور پرکھنے کی سکت نہیں ہوگی یہ اثرات روح کو متأثر کریں گے طب کا کلیہ۔
طب کا کلیہ ہے بیمار روح، تندرست بدن میں نہیں رہ سکتی جیسے بیمار بدن میںتندرست روح نہیں ٹہرتی۔ کچھ فیصلے مادی دنیا میں نہیں ہوتے جیسے رزق کی تقسیم،امراض و صحت کا فیصلہ۔جنو ن،برص دوسری مہلک بیماریوں سے[نسائی سوم۱۷۹۴]
اس کائنات میں کو باتدبیر خالق نے بڑی حکمت وبصیرت سے تخلیق کیا ہے،جو نقشہ اور راستہ مقرر کردئے ہیں اس کی اجازت کے بغیر ایک پتہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا ، زندگی کی راہیں متعین کردی گئی ہیں،کائنات کو ایک محور کے گرد گھما دیا گیاہے جو بھی اس سے منحرف ہوگا ،وہ پریشان ہوگا،جس طرح اس کائنا ت کو علیم و خبیر باتدبیر نے تخلیق کیاتھا اسی باریک بینی سے وہ اسے تاقیامت چلاتا رہے گا،صحت و تندرستی ،سقم و بیماری اس زندگی کا جزو لازم ہیں۔ اس لئے جب بیماری آتی ہے تو علاج کی طرف توجہ کی جاتی ہے ، بسااوقات انسانی تجربات اس حد تک نہیں پہنچ پاتے کہ بیماری کا علاج کرسکیں جہاں یہ کیفیت ہو وہاں تعوذات کا اہتمام اور اللہ کی پناہ طلب کرنے کی ہدایات موجود ہیں ۔
انسانی تجربات امراض کے علاج کی کھوج،پرکھ میں تسلسل کے ساتھ جاری رہتے ہیں اللہ ذہنوں میںامراض کا علاج القاء کرتے ہیں کیا دیکھتے نہیں کہ صدیوں تک جو امراض لاعلاج تصور کئے جاتےتھے آج ان کا سہل الحصول علاج موجود ہے ۔آج جن امراض کو صعب و مشکل سمجھا جارہاہے آنے والا کل ان کی اہمیت کم کردے گا ۔ جن امراض سے پناہ طلب کی گئی ہے کل تک یہ لاعلاج سمجھے جاتے تھے آج ایسانہیں ہے ،مرض کوئی بھی ہو جس سے انسانی زندگی میں دکھ درد اور تکلیف کا احساس ابھرے اس سے پناہ مانگنا رسول اللہ ﷺکی سنت ہے۔ بیماریاں انسانی زندگی کا جزو لازم ہیں اس کی کوئی بھی صورت یا شکل ہوسکتی ہے،اس لئے امراض سے پناہ اور تعوذات کے ورد کو معمولات زندگی میں شامل کرلینا چاہئے۔
رسول اللہﷺ نے انسانیت کے لئے امیدکی راہیں کشادہ فرمائی ہیں جہان مایوسی / ناامیدی کا گزر نہیں۔ایک مرض کو سمجھنے اور علاج کے دریافت میں سالوں لگا جاتے ہیں ۔بات اتنی سی ہے کہ بمطابق قول رسول :کہ ہر بیماری کی دوا موجود ہے۔جب دوا اس بیماری سے مطابقت اختیار کرجاتی توشفاء کی راہیں ہموار ہوجاتی ہیں۔کوئی بیماری ایسی نہیں جس کی دوا موجود نہ ہو۔اگر علاج میں ناکامی ہے تو وہ معلومات کی کمی کی وجہ سے ہے۔تحقیقات کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی ادویات پہلے سے موجود ہوتی ہیں لیکن معالجین ان سے لاعلم ہوتے ہیں۔محققین صرف انہیں تلاش کرتے ہیں
اہل عرب کہتے ہیں کوڑھ، پھلبہری ،اندھاپن اور بڑی آفت یہ سب بری باتیں ہیں [تفسیر الطبری۱۳/۱۲۱]جسمانی درد سے(صحیح مسلم)بخار کے شر سے(ابن ماجہ)
٭بے خوف دل سے
٭سینہ کے فتنہ سے
٭ کان و آنکھ کے فتنہ سے
٭نہ ڈرنے والے نفس سے
٭عضو تناسل کے شر سےاھادیث میں مذکورہ امراض کے علاج آج دریافت ہونے کی وجہ سے انہیں غیراہم سمجھا جاتا ہے لیکن کبھی یہی امراض انسانیت کے لئے سیوہان روح بنے ہوئے تھے۔ آج بھی بے شمار امراض و تکالیف ایسی ہین جنہیں مشکل و لاعلاج سمجھا جاتا ہے لیکن یہ کہنا کہ ان کی دوا موجود نہیں ہے مناسب نہیں کیونکہ دوا تو مرض کے پیدا کرنے سے پہلے پیدا کردی گئی ہے۔لیکن انسانی علم ناقص ہونے کی وجہ سے استفادہ کیراہیں نہ کھلی تھیں۔جب تک علاج معلوم نہ ہو اس وقت تک ہمیں راھت کے سامان مہیا کردئے گئے ہیں۔
تکالیف و امراض اور دردیں انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں ،کچھ دعائیں اور تعوذات ان سے متعلق بھی منقول ہیں۔ ان تکالیف کو انسانی حسی انداز میں محسوس کرتا ہے مثلا ایک صحابی اپنی تکلیف کی شکایت لیکر دربار نبوت میں حاضر ہوتے ہیں۔
حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کی خدمت میں اپنی تکلیف عرض کی کہ : جب سے میں اسلام لایا ہوں جسم کے فلاں حصہ میں درد رہتا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا : جس جگہ درد ہے اس جگہ اپنا ہاتھ رکھو اور تین دفعہ بسم اللہ پڑھ کر سات دفعہ کہو : “أَعُوذُ بِاللهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ” (میں اللہ تعالیٰ اور اس کی قدرت کاملہ کی پناہ چاہتا ہوں اس تکلیف کے شر سے جو مجھے لاحق ہے اور اس سے بھی جس کا مجھے خطرہ ہے) ۔ (صحیح مسلم)