جدید میڈیکل سائنس کی بنیاد رکھنے والے مُعالجین
جدید میڈیکل سائنس کی بنیاد رکھنے والے مُعالجین
پیش کردہ
حجئن قارئ نحند ئوبس شاہد میوء
زیرِنظر تحریر سعودی آرامکو ورلڈ میگزین میں شائع ہونے والے انگریزی مضمون کا اُردو ترجمہ ہے، مفید معلومات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شاملِ اشاعت ہے۔ (ادارہ)
طبیب کا استدلال۔
۱۱۲۰ء میں ایک مسلمان طبیب اپنے مریض کے معائنے کے لیے جارہا تھا، مریض اشبیلہ کا حکمران تھا۔ طبیب نے سڑک کے کنارے ایک دوسرا مفلس مریض پڑا دیکھا جس کے قریب پانی کا ایک گھڑا تھا، اس کا پیٹ سوجا ہوا تھا اور سخت تکلیف میں تھا۔ کیا تم بیمار ہو؟’’ طبیب نے اس سے پوچھا اور بیمار آدمی نے اقرار میں سرہلایا۔ ’’تم نے کیا چیز کھائی ہے ؟‘‘ ۔۔۔ ’’صرف روٹی کے چند سوکھے ٹکڑے اور اس گھڑے سے پانی‘‘ ۔۔۔ ’’روٹی تمہیں بیمار نہیں کرسکتی ‘‘ طبیب نے کہا۔’’ ہاں! پانی سے ممکن ہے،کہاں سے پانی بھرا تھا؟‘‘۔۔۔’’بستی کے کنویں سے‘‘ طبیب نے کچھ دیر سوچا:’’ بستی کا کنواں صاف ہے، لیکن گھڑے میں شاید کچھ ہو، اُسے توڑدو اور دیکھو کہ اس میں کیا ہے؟‘‘ آدمی چلانے لگا:’’نہیں، میرے پاس صرف یہی ایک گھڑا ہے ‘‘۔ ’’اب دیکھتے ہیں کہ اس گھڑے سے کیا برآمد ہوتا ہے؟‘‘ طبیب نے جواب دیا اور آدمی کے پیٹ کی طرف اشارہ کیااور کہاکہ:’’ نیا پیٹ خریدنا ناممکن اور گھڑا خریدنا آسان ہے۔‘‘ آدمی نے پھر چیخنا چلانا شروع کیا، لیکن طبیب کے نوکروں میں سے ایک نے پتھر اُٹھایا اور گھڑے پر دے مارا ، ایک مردہ مینڈک بدبودار پانی کے ہمراہ اس میں سے برآمد ہوا۔ ’’میرے دوست! دیکھو تم کیا پیتے رہے؟ یہ مینڈک اپنے ساتھ تجھے بھی مروادیتا۔ یہ اشرفی لو اور جاؤ نیا گھڑا خرید لو!‘‘کچھ دن بعد جب طبیب اس راستے سے گزررہاتھا تو اس نے مریض کو وہاں بیٹھے دیکھا، اس کا پیٹ صحیح سالم تھا، وزن کچھ بڑھ گیا تھا اور رنگ وروپ بھی نکل آیا تھا۔ اس نے طبیب کو دیکھ کر دعائیں دینا شروع کیں۔
(ماخذ:تیرہویں صدی عیسوی کا مشہور ادیب اور مؤرخ ابن ابی اصیبعہ)
استدلال کا یہ مذکورہ بالا فکری عمل (جس میں حقائق سے نتائج کے حصول کے لیے عمومی اصول وضع کیے جاتے ہیں) جس وقت مسلم اسپین میں اپنی جگہ بنا رہا تھا، عیسائی یورپ میں علاج کا عمل ‘ اس کے مقابلے میں لنگڑا لنگڑا کر اس نقطۂ نظر کے مطابق چل رہا تھا کہ طبیب‘مریض کا علاج کر کے خدا کی مرضی للکارتا ہے۔ مریض کو علاج اور ادویات کی بجائے جھاڑ پھونک سے اچھا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
مشرق میں اسلام کی اشاعت ساتویں صدی عیسوی کے اول میں شروع ہوئی۔پہلے سے موجود علوم کا انجذاب اور ان میں ترقی کا ایک ہالہ نمودار ہوا،جن میں علم ادویہ بھی شامل تھا۔عرب فاتحین نے نئی رعایا سے مسلسل یہ علوم اپنے اندر جذب کرلیے۔عربی زبان نے مشرق میں وہی رتبہ حاصل کیا جو مغرب میں یونانی اور لاطینی کو حاصل تھا۔عربی زبان علم و فن اور ادب کی زبان بن گئی۔ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک ِ کاشغر عربی دانشوروں کی زبان بن گئی۔ حج ‘مکہ مکرّمہ میں ہر سال لاکھوں زائرین ایک جگہ جمع کرتا اور ایک دوسرے کے ساتھ کتابوں، نظریات اور خیالات کے تبادلے کا موقع فراہم کرتا تھا۔
بیت الحکمت کا قیام
عباسی خلیفہ ہارون الرشید اور اس کے بیٹے مامون الرشید نے عربی زبان میں یونانی علوم و فنون کے ترجمہ کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے اور اسے سہل الحصول بنانے کے لیے بغداد میں ایک دارالترجمہ ’’Translation Bureau‘‘۔۔۔ ’’بیت الحکمت‘‘ کے نام سے قائم کیا۔ ’’بیت الحکمت‘‘ کا مطلب ہے: ’’دانائی کا گھر‘‘ جس نے آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں ابتدا کی۔اس ادارے نے مسلمانوں کے مقبوضہ اور باہر کے علاقوں میں اپنے نمائندے بھیجے، تاکہ ہر زبان کے علم و دانش کے مخطوطات کو تلاش کریں۔ عربی میں ترجمہ شدہ ان قیمتی کتابوں نے اُس دور میں مسلم سائنس کی مضبوط بنیاد قائم کی، جو صرف علم العلاج پر مبنی نہیں تھا۔
یونان کی طرح مسلم دنیا میں بھی علمِ طب کی بنیاد چار عناصر والے نظرئیے (اخلاطِ اربعہ) پر تھی، جسے دوسری صدی عیسوی کے یونانی طبیب جالینوس نے پیش کیا تھا۔ جب بدن میں چاروں اخلاط تناسب کے ساتھ موجود ہوں گے تو آدمی تندرست ہوگا اور جب طبعی تناسب سے باہر ہوں گے تو وہ بیمار ہوگا۔ جالینوس لکھتا ہے کہ معالج کی ذمہ داری ان اخلاط کے توازن کو غذا،ورزش اور حتمی سرگرمیوں یا دیگر اقدامات کے ذریعے بحال کرنا ہے۔ مثال کے طور پر بخار‘ خون کی کثرت کے سبب لاحق ہوتا ہے، اس کے لیے وہ فصد تجویز کرتا ہے، تا کہ خون کی زیادتی رک جائے۔
تاہم جالینوس کے صحت اور امراض کے بارے میں عقلی تناظر نے مشرق میں غلط طور پر اپنی جگہ بنالی، جبکہ قرآن کریم میں یہ یقین دہانی موجود تھی کہ ’’ہر بیماری کے لیے علاج ہے’’1 ۔ مسلمان معالجین
حاشیہ:1 جس یقین دہانی کے بارے میں مضمون نگار (ڈیویڈ ڈبلیو شانز) نے اپنے اس مضمون میں ذکر کیا ہے وہ صراحت کے ساتھ احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے ۔( مترجم)
اپنے آپ کو علاج کرنے والے اور صحت کے محافظ سمجھتے تھے، نہ کہ امراض کو مافوق الفطرت ہستی کے اسباب کانتیجہ۔اس وقت جبکہ مترجمین‘ بیت الحکمت میں سخت محنت کررہے تھے ،مسلمان معالجین نے جدید ہسپتالوں کی ابتدائی شکل ’’بیمارستان‘‘ کو ترقی دی جو بعدازاں صرف ’’مارستان‘‘ کہلایا جانے لگا،جس کے دروازے سب کے لیے بلاتفریق کھلے رہتے ، جس میں بیماروں کو علاج کے لیے خوش آمدید کہا جاتا اور چھوٹی موٹی تکالیف ،زخموں اور ذہنی امراض سے نجات دلائی جاتی تھی۔ بڑے بڑے ’’ مارستان‘‘ طبی کالجوں اور کتب خانوں سے ملحق ہوتے تھے جہاں نامور معالجین پڑھاتے ،تشخیص کرتے اورآج کل کی طرح پریکٹس کی اجازت دیتے تھے۔
علم الادویہ کا ہسپتالوں میں استعمال۔
ہسپتالوں کی طرح علم الادویہ کو بطور پیشہ متعارف کروانا بھی اسلامی ایجاد ہے۔ مارستان میں تربیت یافتہ ماہرین‘ ادویات کی تیاری اور تجویز‘ ماضی کی نسبت بہتر انداز میں کرتے ، ان کے فارماکوپیا (قرابادین) میں ہر چیز کی جغرافیائی نوعیت ، طبعی خواص اورجن امراض کے استعمال میں وہ برتے جاتے ہیں، تفصیلی طورپر موجود ہے۔مامون کے عہد تک اطباء کی طرح ادویہ سازوں سے بھی امتحان لے کر دواسازی کی اجازت دی جانے لگی اور عوام کو غلطی اور نقصان سے بچانے کے لیے سرکاری انسپکٹر دواسازوں کے مرہموں، گولیوں، شربتوں، مربوں، ٹنکچروں، شافوں اور inhalants کی نگرانی کرتے تھے۔ مارستان میں دواسازی کے شعبے کا سربراہ علاج کے شعبے کے برابر عہدے کا حامل ہوتا تھا۔
علم کا رخ مغرب کی طرف
عباسی خلفاء‘ بیت الحکمت اور ابتدائی بیمارستانوں (اسپتالوں ) کے ساتھ ساتھ اسلامی طریقۂ علاج کے سنہرے دور کی ابتدا کرچکے تھے۔ علم کا مرکز اور ترقی کا سفر آٹھویں صدی عیسوی میں مغرب کی جانب جو آج کل جنوبی اسپین اور اس وقت اَندلس کہلاتا تھا ،کو منتقل ہونا شروع ہوگیا تھا۔عباسیوں نے اقتدار، دمشق کے حکمران خاندان بنو اُمیہ سے حاصل کیا تھا۔۷۵۸ء میں بنو اُمیہ کے دسویں خلیفہ کا پوتا عبدالرحمن اپنے رشتہ داروں کے قتل عام کے وقت فرار ہونے میں کامیاب ہوا اور اسپین میں پناہ حاصل کرلی، چند سالوں میں یہ اپنے دارالحکومت قرطبہ میں بنو عباس کے مقابلے میں ایک متوازی خلافت قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ دسویں صدی عیسوی کے آخر تک قرطبہ علمی اور سائنسی سرگرمیوں میں بغداد کو پیچھے چھوڑ گیا۔
قرطبہ کی ستر لائبریریاں ، نوسو عوامی حمام، تین سو مساجد اور پچاس ہسپتال اس کے لاکھوں باشندگان کے لیے ہر وقت کھلے رہتے۔ اولین علمی مرکز قرطبہ یونیورسٹی کی بنیاد آٹھویں صدی عیسوی میں رکھی گئی اور اس کی لائبریری میں کم از کم دو لاکھ پچیس ہزار کتا بوں کی جلدیں موجود تھیں ( یاد رہے کہ اس وقت یونیورسٹی آف پیرس کی لائبریری میں کتابوں کی چارسو جلدیں تھیں) اس علمی ذخیرے نے پورے یورپ سے علم وہنر کے دلدادوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، جن میں فرانس کے گربرٹ (Gerbert) جو بعد میں کلیسا کا اسقفِ اعظم قرار پایا اور سلویسٹر دوم (Sylvester ii) کے نام سے شہرت پائی ‘ بھی شامل تھا۔ اسی سلویسٹر دوم نے پیچیدہ رومن اعداد کی بجائے عربی اعداد کو رواج دیا۔ اندلس جلد ہی تخلیقی اور ہنرمند فلسفیوں، جغرافیہ دانوں، انجینئروں، ماہرینِ تعمیرات اور ڈاکٹروں کا مرکز بن گیا۔
مغربی خلافت میں‘ معالجین اپنے ان ہم منصبوں سے جو مشرقی خلافت میں موجود تھے، امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔اگرچہ قرطبہ اور بغداد تعقُّل میں ایک دوسرے سے قریب تھے، لیکن مغربی خلافت کے معالجین نے یونان سے بندھے مشرقی خلافت کے معالجین کی نسبت زیادہ فکری آزادی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے جالینوس کی اندھی تقلید کی اور نہ ہی ابن سینا کی۔ اگرچہ ابن سینا کا رتبہ عرب دنیا میں ارسطو اور لیونارڈو کے برابر تھا۔ اس کی بجائے انہوں نے جب کسی چیز کو اپنے تجربات میں درست پایا تو ان دونوں ( جالینوس اور ابن سینا) کے نظریات کو للکارا یا مسترد کردیا۔ ان کی تحریروں اور تحقیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بلیغ، مختصر اور ٹھیک ٹھیک عقلی موازنہ کرنے والے، اکثر علمی تحقیق میں بال کی کھال اُتارنے والے اور باریک بین تھے۔مغربی اسلامی دنیا نے نویں اور پندرہویں صدی عیسوی کے درمیان‘ دقتِ نظر کے حامل سینکڑوں طبی ماہرین پیدا کیے، ان میں سے پانچ طبی ماہرین اپنے دور کے علم طب کے مینار تھے اورایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے طبی اثرات آج محسوس کیے جاتے ہیں۔
۱:۔۔۔۔سرجری(جراحت) کا باوا آدم
ابوالقاسم خلف ابن العباس جو اپنے ہم عصروں میں ’’ الزہراوی‘‘ کے نام سے معروف ہے، عبدالرحمٰن سوم کے دار الحکومت قرطبہ کے شمال میں شاہی شہر الزہرا میں ۹۳۸ ء میں پیدا ہوا۔ لاطینی میں اسے Albucasis کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ا؎س کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت ہی کم معلومات موجود ہیں، لیکن اس کی جراحتی (سرجیکل) مہارت بے مثال تھی۔الزہراوی نے صرف ایک کتاب چھوڑی ہے جس کا نام ’’ التصریف لمن عجز عن التالیف‘‘ ہے۔ اس کتاب کے نام کا ترجمہ یوں کیا جاسکتا ہے : ’’ اس شخص کے لیے علمِ طب کی موزوں ترتیب جو اپنے لیے کوئی کتاب تالیف نہ کرسکتا ہو۔‘‘اس نے اپنے پچاس سالہ پیشہ وارانہ عہد میں تیس جلدوں پر مشتمل ایسا جامع مجموعہ تیار کیا ہے جس میں طب ، جراحت ، علم الادویہ اور صحت سے متعلق دوسرے موضوعات موجود ہیں۔ اس کتاب کی آخری جلد جو تین سو صفحات پر مشتمل ہے صرف سرجری سے متعلق ہے اور یہ پہلی کتاب تھی جو علم جراحت کو باتصویر اورعلیحدہ مضمون کے طور پر پیش کرتی تھی۔اس میں علمِ امراضِ چشم(ophthalmology)، بچہ جنائی کا فن(obstetrics)، علمِ امراضِ نسواں (gynecology)، میدانِ جنگ میں کام آنے والی ادویات(medicine military) علم البول (urology) ، علمِ تقویم الاعضاء (orthopedics) وغیرہ۔ یہ کتاب سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں علمِ جراحت کے موضوع پر حوالے کی کتاب (ریفرنس بک) سمجھی جاتی رہی۔
الزہراوی نے بے شمار جراحتی طریقوں کی ایک فہرست دی ہے جس میں سرجیکل ایجادات ، تکنیکیں جس میں thyroidectomy (غدہ درقیہ کی سرجری) ، آپریشن کے ذریعے آنکھ کا موتیا نکالنا اور ایک جدید طریقے سے گردوں کی پتھریوں کا رخ امعائے مستقیم کے طرف پھیرتے ہوئے نکالنے کا عمل شامل ہے جو جالینوس کے تجویز کردہ طریقہ کی نسبت آپریشن کے دوران شرح اموات میں ڈرامائی کمی لاتا تھا۔
’’التصریف‘‘ وہ پہلی کتاب تھی جس میں دانتوں کی جراحت کے متعلق تفصیلی بحث تھی۔اس میں نکالے ہوئے دانت کی دوبارہ تنصیب بھی شامل تھی اور اس میں حیوانی ہڈیوں سے مصنوعی دانتوں کی تراش کا تذکرہ بھی تھا۔ کس طرح بدوضع دانتوں کو خوبصورت بنایا جاتا ہے؟ آج کے ماہرینِ دندان ، دانت کی سطح پر بننے والی تہہ کو دور کرنے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کرتے ہیں، وہ سب سے پہلے الزہراوی نے تفصیلاً بیان کیاتھا۔
آج عالمی طور پر یہ طریقہ معیاری جانا جاتا ہے کہ آپریشن سے قبل مریض کی جلد پر شگاف ڈالنے کے لیے سیاہی استعمال کی جاتی ہے ، اس طریقہ کا موجد الزہراوی ہے۔اس نے سب سے پہلے اندرونی زخموں کو سینے کے لیے ،سرجری میں catgut (زخم کو سینے کا ایک مَخصوص دھاگہ
) استعمال کیا۔
۲:
۔۔۔۔اشبیلہ کا طبیب
اس مضمون کی ابتدا میں جس طبیب کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اس نے سڑک کے کنارے ایک غریب مریض کا معائنہ کرکے اس کا علاج کیا تھا، وہ اشبیلہ کا طبیب ابو مروان عبد الملک ابن زہر تھا۔ لاطینی میں’’Avenzoar‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ ۱۰۹۱ء کو اشبیلہ میں پیدا ہوا۔ بنو زہر (اَندلس کے معروف طبیب خانوادے کا نام) میں علمِ طب سات پشتوں تک جاری رہا اور ابو مروان ابن زہر بھی اس خاندان کی تیسری پشت سے تعلق رکھتے تھے اور پانچ اس کے بعد پیدا ہوئے۔اس لیے ابن زہر کے پیشے کے متعلق کوئی ابہام باقی نہیں رہتا کہ وہ طب کے علاوہ کوئی دوسرا پیشہ اختیار کرتا۔
ابن زہر نے متقدمین اطباء کی نری تقلید نہیں کی، بلکہ وہ پہلا مسلمان طبیب تھا جس نے اپنے آپ کو علمِ علاج کے لیے وقف کیا۔اس کی کتابوں میں ،اس کی کئی بڑی دریافتیں درج ہیں، جیسے: ’’التیسیر فی المداواۃ و التدبیر‘‘(Practical Manual of Treatments & Diets)، علم نفسیات پر ایک رسالہ جس کے نام کا ترجمہ اعضاء اور ارواح کی اصلاح کے متعلق ایک معتدل راستہ تجویز کرتا ہے اور ’’کتاب الأغذیۃ‘‘ نامی ایک کتاب جو صحت پر پرہیزی غذاؤں ، مشروبات اور مسالوں کے اثرات کو بیان کرتی ہے۔ اس کی دریافتوں میں ایک چھوٹا سا لیکن مؤثر کارنامہ اس امر کا ثبوت پہنچانا تھا کہ خارش کا سبب چھوٹے کیڑے ہیں، جو مریض کے بدن سے بغیر جلاب یا فصد کے ختم کیے جاسکتے ہیں، اسی طرح ان کیڑوں کو کسی بھی دوسرے ایسے (اذیت ناک) طریقۂ علاج کے بغیر ختم کیا جا سکتا ہے، جس کا تعلق اخلاط ِ اربعہ کے نظریہ سے ہو۔
جس میڈیکل سائنس نے جالینوس اور ابن سینا پر اندھا اعتماد کیا تھا، ابن زہر کی مذکورہ دریافت نے اس پوری میڈیکل سائنس پر لرزہ طاری کیا اور نظریۂ اخلاط پر غیر متزلزل یقین سے بھی نجات دلائی۔ ابن زہر نے یہ بھی لکھا کہ کس طرح غذا اور طرزِ حیات سے گردے کی پتھری بننے کے عمل کو روکا جاسکتا ہے۔ اس نے سب سے پہلے اعصابی امراض کو درست طور پر تفصیلاً بیان کیا، جیسے سرسام، کھوپڑی کے اندر کسی نالی کا ورم جس کے ساتھ خون کی رکاوٹ بھی ہو، حجابی رسولیاں۔ اسی طرح اس کی کچھ جدید دریافتوں نے جدید علم الادویہ کے ایسے شعبے کی بنیاد ڈالی جو اعصاب کے مخصوص امراض اور ادویات (Neuropharmacology) پر مشتمل ہے۔ اس نے سب سے پہلے بڑی آنت کے سرطان کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ ابن زہر ہی وہ پہلا طبیب ہے جس نے نرخرے یا ورید کے ذریعے خوراک کی فراہمی کی وضاحت کی، جب مریض کو نارمل طریقے سے خوراک کی فراہمی ممکن نہ ہو۔ یہ تکنیک آج بھی ’’Parental Feeding‘‘ کے نام سے معروف ہے۔
ابن زہر نے سرجری میں تجرباتی طریقہ متعارف کرایا۔ وہ جانوروں کے مردہ اجسام کو تجربات کے لیے بروئے کار لاتا تھا، جیسے بکری کے مردہ جسم کو وہ اس طریقۂ کار کے لیے استعمال کرتے تھے جو اس نے ہوا کی نالی سرجری کے لیے دریافت کیا تھا۔ اپنی طبی تحقیق کے دوران ،اس نے بھیڑ پر پوسٹ مارٹم کا عمل بھی انجام دیا، تاکہ یہ معلوم کرسکے کہ زخم خوردہ پھیپھڑوں کی بیماریوں کا علاج کس طرح کیا جائے۔ ابن زہر پہلا طبیب معلوم ہوتا ہے جس نے انسانی لاش کا پس از مرگ معائنہ کرنے کے لیے اس کی چیرپھاڑ کی، تاکہ اپنے جراحتی طریقوں کی سمجھ بوجھ میں اضافہ کرسکے۔ 1
ابن زہر نے سرجری کو بالکل ایک علیحدہ شعبہ بنایا اور اس کے لیے ایک نصاب مقرر کیا، بالخصوص مستقبل کے سرجنوں کے لیے جنہیں پریکٹس کی اجازت سے پہلے اس نصاب کی تکمیل لازمی تھی۔ اس نے عام طبیب اور سرجن دونوں کے دائرۂ عمل کے درمیان ایک سرخ علامتی خطِ امتیاز کھینچا کہ ایک عام طبیب کو جراحتی کیفیت میں علاج سے دستبردار ہونا چاہیے اور اسی طرح سرجری کو ایک مخصوص طبی میدان قراردیا۔ وہ ان اولین معالجین میں سے ہے جس نے مصنوعی بے ہوشی کا استعمال کیا۔ سینکڑوں آپریشنوں میں اس نے بھنگ ، افیون اور اجوائن خراسانی کے مکسچر میں لتھڑی ہوئی روئی کو مریض کے چہرے پر رکھا۔
حاشیہ:1 مسلمان اطبا تکریمِ انسانیت کے قائل تھے اور ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام کے عہدِ زریں میں انسانی لاش کی چیر پھاڑ کا کوئی مستند ثبوت نہیں ملتا۔ابن ابی اصیبعہ کی تاریخ الاطباء اور اطباء کی سوانح پر مشتمل تاریخ کی دیگر کتابوں میں ابن زہر کے متعلق اس امر کا ثبوت مترجم کو نہیں ملا کہ اس نے تشریح کے لیے انسانی لاش کی چیر پھاڑ کی ہو۔ غالباً ڈاکٹر حمید اللہ ؒ (پیرس) کے مجموعہ مکاتیب میں انہوں نے ایک اہلِ علم سے یہ استفسار بھی کیا ہے کہ مسلم ماہرینِ تشریح نے اگر انسانی لاش کی تشریح کی ہے تو اس کا حوالہ مہیا کیجیے۔ (مترجم)
قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس کی بیٹی اور نواسی دونوں نے طبی علوم حاصل کیے۔ اس امر کو دیکھتے ہوئے ، اْسے عورتوں کو طبی تعلیم دینے کا بانی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر چہ ان عورتوں کی طبی تعلیم صرف دایہ گیری تک محدود تھی، لیکن ان عورتوں نے ایک ایسی روایت کی بنیاد رکھی کہ جدید مغرب کے مقابلے میں مسلمان عورتیں مسلم دنیا میں سات سو سال پہلے طب کی تعلیم حاصل کرتی رہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں پہلی امریکی خاتون نے جوہان ہاپکنز یونیورسٹی سے اس واقعے کے سات سو سال بعد میڈیکل کی تعلیم مکمل کی۔
۳:۔۔۔۔فلسفی اور طبیب
ابو الولید محمد ابن احمد بن محمد ابن رشد ۱۱۲۶ء کو قرطبہ میں پیدا ہوا۔ ابن رشد مغربی خلافت کے لیے ابن سینا سے (جو مشرقی خلافت کے لیے معزز سمجھا جاتا تھا) زیادہ قابلِ احترام تھا۔یورپ میں ’’Averroës ‘‘کے نام سے معروف ہے اور زیادہ تر فلسفہ پر تحقیق کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ ابن رشد کا طب پر اُصولی کام ایک چھوٹی سی جلد میں ہے جس کا نام ’’کتاب الکلیات فی الطب‘‘ ہے، یعنی طب کے عمومی اصول۔ یہ کتاب ایک اہم طبی تلخیص ثابت ہوئی۔ اس کتاب کی ابتدا میں اس نے مختصر لیکن جامع طور پر انسانی جسم کی تشریح کا جائزہ لیا ہے، پھربدن کے مختلف حصوں اور اعضاء کے افعال، انسانی جسم کے مختلف نظاموں کی بیماریوں، غذاؤں، ادویات، زہروں، طبی غسل اور صحت کو برقرار رکھنے میں ورزش کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب میں سرجری کا حصہ مختصر طور پر پٹی باندھنے، طبی داغ لگانے، خون بند کرنے والی ادویات اور پھوڑوں کے علاج پر مشتمل ہے۔ خاص طور پر سب سے زیادہ یادگاری کام اس کا چیچک کا دقیق مطالعہ ہے۔ ابن رشد لکھتا ہے کہ چیچک زندگی میں صرف ایک دفعہ حملہ کرتا ہے۔ اب تک یہ قوتِ مناعت حاصل کرنے کا پہلا معلوم حوالہ ہے۔
۴:
۔۔۔۔جلاوطن طبیب
موسیٰ ابن میمون (لاطینی میں ’’Maimonides‘‘ کہا جاتا ہے) نشاۃِ ثانیہ کے دور سے اگر چہ پہلے پیدا ہوا تھا، لیکن وہ اسی دور (نشاۃِثانیہ) کا آدمی تھا۔ ابنِ رشد سے صرف بارہ سال بعد وہ بھی قرطبہ میں پیدا ہوا۔ ایک ایسے خاندان میں جس نے آٹھ نسلوں تک دانشور ہی پیدا کیے۔ مسلم دنیا میں رہنے والا، یہودی مذہب کا پیروکار، اپنے زمانے کا بے حد ذہین اور فطین شخص تھا جس کی علمی کامیابیاں قانون، فلسفہ اور طب کے شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ بالکل ابتدائی دور میں اس نے سائنس اور فلسفہ میں دلچسپی ظاہر کی۔ مسلمان دانشوروں کے علمی کام کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ اس نے یونانی فلاسفہ کے کام کا بھی مطالعہ کیا جو عربی تراجم کے ذریعے اس زمانے میں قابلِ رسائی تھے۔ یہودی قانون پر اس کا اہم علمی کام عربی زبان میں ہے، جس کے لیے اس نے عبرانی رسم الخط استعمال کیا اور ایک مذہبی دانشور کی حیثیت سے اس نے مذہب اور طب کے اختلاط کی مخالفت کی ہے۔ قرونِ وسطیٰ کا وہ واحد دانشور شخص تھا جس میں حقیقتاً چار تہذیبوں کا ملاپ نظر آتا ہے، یعنی ۱:-یونانی رومی تہذیب، ۲:-عرب تہذیب، ۳:-یہودی تہذیب اور یورپی تہذیب۔
جب وہ دس سال کا تھا تو تنگ نظر موحدین1 نے قرطبہ کو فتح کرلیا۔ انہوں نے شہر کے یہودی اور عیسائیوں کے سامنے تین مطالبات رکھے: مسلمان ہوجاؤ، جلاوطنی اختیار کرو یا مرنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ موسیٰ ابن میمون کے خاندان نے جلاوطنی اختیار کی، بالآخر انہوں نے قاہرہ کے نزدیک سکونت اختیار کی۔ جب خاندان کے حادثات نے اُسے تنگ دستی کی وادی میں دھکیلا تو اس نے طب کا پیشہ اختیار کیا۔
موسیٰ ابن میمون نے عربی زبان میں دس معروف طبی کتابیں لکھی ہیں۔ اس نے بہت سی دوسری چیزوں کے ساتھ امراض کی کیفیتیں بشمول دمہ ، ذیابیطس ، ہیپاٹائٹس ، اور نمونیا بیان کی ہیں۔ اس نے اعتدال اور صحت مندانہ طرزِ زندگی پر زور دیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ایک طبیب کو کئی طریقوں سے ذی علم ہونا چاہیے۔ مرض اور مریض دونوں کا علاج کرنا چاہیے۔طبیب صرف مرض کا علاج نہ کرے، بلکہ جسم اور روح دونوں کی تندرستی کی کوشش کرے اور اپنے آپ کو انسانی اور روحانی اقدار سے مزین کرے جس میں سب سے نمایاں رحم دلی اور ترس ہے۔
اس کے تمام طبی علمی کام میں اکثر اس طرح کی للکار دکھائی دیتی ہے، جسے وہ جالینوس کی ’’قیاسی اُپج’’ قرار دیتا ہے جب کوئی چیز اس کے تجربات کے خلاف ہو۔ اس کی تحریروں میں یہ خیال بھی ہے کہ طب میں ذاتی مشاہدہ و تجربہ کتابوں میں تحریری سند سے زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ مذکورہ خیال کے باوجود اس کے شوق نے اُسے رومی (عیسائی) اطباء کے وسیع ادبی کام کی تلخیص پر آمادہ کیا جو اس نے ایک چھوٹی سی کتاب میں کر دکھایا، جسے ایک طبیب جیب میں رکھ کر لے جا سکتا ہے۔ اگر چہ وہ تالمود (یہودیوں کی مذہبی کتاب) کا عالم تھا، جب امراض کی شناخت کا مرحلہ پیش آتا تو موسیٰ بن میمون کو ہم آج کل کی اصطلاح میں خالص ’’طبیعی سائنسدان’’ یعنی مشاہدہ پر سختی سے یقین رکھنے والا معالج کہہ سکتے ہیں۔ اس نے کوشش کی ہے کہ مذہب اور طب کو واضح طور پر الگ الگ کرے۔ اس وقت جبکہ جادو، توہم پرستی اور علمِ نجوم جیسی چیزیں طب کے شعبے میں دور دور تک رواج پاچکی تھیں، اس کی تحریروں میں ان چیزوں یا تالمود میں مندرج ادویات کا ذکر نہیں ملتا، البتہ جوچیز درست اور فائدہ مند ہے موسیٰ ابن میمون نے استدلال کے ساتھ پیش کیا۔
موسیٰ ابن میمون فرد کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ اپنی صحت کا خیال اس طریقے پر رکھے کہ بری عادتوں سے اجتناب کرے اور جب بیمار ہو تو بلاتوقف علاج ومعالجہ کی تلاش میں توجہ کرے۔ وہ لکھتا ہے
حاشیہ:1 مضمون نگار (ڈیویڈ ڈبلیو شانز) نے سلطنتِ موحدین کی مبینہ ’’تنگ نظری‘‘ پر کوئی حوالہ پیش نہیں کیا ہے ۔ انٹر نیٹ پر یہودی اور عیسائی تاریخ کے علاوہ دستیاب مستند تاریخی مواد میں کچھ بھی اس حوالے سے ذکر نہیں ۔ (مترجم)
کہ: ’’فرد کی توجہ اس کے بدن کی طبعی حرارت پر ہر چیز سے پہلے ہونی چاہیے۔ اس معاملے میں سب سے بہتر (کارکردگی کے حوالے سے) معتدل جسمانی ورزش ہے جو جسم اور روح دونوں کے لیے مفید ہے۔‘‘ وہ اس زمانے میں معمر مریضوں کے لیے ورزش کا ایک روزانہ علاج بیان کرتا ہے جو جدید طریقۂ علاج کے زیادہ قریب ہے۔ اس نے مساج(مالش) کے فوائد بھی بیان کیے ہیں کہ یہ بدن کی قدرتی حرارت کو تحریک دیتا ہے، یہاں تک کہ بدن کو قدرتی انداز سے دوبارہ صحت سے مالا مال کردیتا ہے۔
اس نے سب سے پہلے مثبت سوچ کے طبی فوائد جان لیے تھے جس نے بعد میں سائیکوسومیٹکس (جہاں جذباتی عوامل مرض پیدا کرتے ہیں) ادویات کی ابتدائی شکل اختیار کرلی۔ تعویذ یا جادو ٹونا اگرچہ اس کے عقلی تناظر کی دنیا میں قابلِ نفرت ہیں،لیکن کیامریض کی طبی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے غیراہم ہوجاتے ہیں؟ وہ لکھتا ہے کہ اگر یہ چیزیں مریض کی حالت کو بہتر کرتی ہیں تو اُنہیں برقرار رکھنا چاہیے، تاکہ مریض کا ذہن اور زیادہ خلل کا شکار نہ ہوجائے۔
۵:۔۔۔۔۔قلب کے سر بستہ راز
علاؤ الدین ابو الحسن علی ابن حزم القرشی الدمشقی جس کو مختصر طور پر ابن النفیس کے نام سے علمی دنیا میں جانا جاتا ہے ۱۲۱۳ء کو دمشق میں پیدا ہوا۔ ایوبی دور میں اسلامی دنیا کے علم و دانش کا مرکز قاہرہ قرار پایا۔ اپنی عمر کے ابتدائی بیس سالوں میں وہ قاہرہ منتقل ہوا اور بالآخر آٹھ سو بیڈ پر مشتمل المنصوری ہاسپٹل کا سربراہ مقرر ہوا۔انتیس سال کی عمر میں اس نے ’’شرح تشریح القانون‘‘ لکھی جو ابن سینا کی ’’القانون‘‘ کے اناٹومی والے حصے کی تشریح ہے۔ اس کتاب میں علم تشریح (Anotomy) سے متعلق انکشافات کی ایک بڑی تعداد بشمول پھیپھڑوں کے دوران خون کے متعلق ابتدائی تشریح کا بیان موجود ہے۔
ابن النفیس نے یہاں تک وضاحت کی ہے کہ دل کے دونوں بطون(خانوں) کی درمیانی دیوار مضبوط ہے اور بغیر سوراخ کے ہے۔ اسی طرح اس نے جالینوس کے اس قدیم نظریے کو غلط قرار دیا ہے کہ خون دل کے دائیں حصے سے بائیں حصے کو بلا واسطہ گزر کر جاتا ہے۔ ابن النفیس درست طور پر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خون کو دائیں بطن سے گزر کر پھیپھڑوں میں داخل ہونا چاہیے، جہاں اس کے ہلکے اجزاء پھیپھڑوں کی ورید میں سرایت کرجاتے ہیں، تاکہ اس کے ساتھ ہوا(آکسیجن) مل جائے، پھر بائیں جوف میں داخل ہو جاتا ہے اور آخر کار پورے جسم میں چلا جاتا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کوئی اس قابل ہوا کہ وہ یہ بتائے کہ کس طرح ہوا (آکسیجن) خون کے ساتھ ملاپ کرتی ہے۔
ابن النفیس نے شعری دورانِ خون کی موجودگی کی طرف بھی اشارہ کیا، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ: ’’پھیپھڑوں کی شریان اور ورید کے مابین چھوٹے سوراخ یا راستے (منافذ) ہیں‘‘ اگرچہ پھیپھڑوں سے متعلق دورانِ خون کا نظریہ محدود تھا، لیکن چار سو سال بعد مارسلو مالپیگی ’’Marcello Malpighi‘‘ نے پورے بدن میں شعری دورانِ خون کا فعل بیان کرکے ثابت کیا۔ چودھویں صدی تک ابن النفیس کا یہ انکشاف ضائع ہو چکا تھا اور ۱۹۲۴ء تک اس کا کچھ پتہ نہیں تھا، لیکن جب مصری طبیب محی الدین التطاوی نے برلن کی پروشین سٹیٹ لائبریری میں ’’شرح تشریح القانون‘‘ کا ایک نسخہ معلوم کیا جس سے ابن النفیس کی دریافت کا صحیح اندازہ لگایا گیا، جس سے چار سو سال بعد یہ بھی واضح ہوا کہ یہ ولیم ہاروے ’’Harvey William‘‘ نہیں، بلکہ ابن النفیس ہی تھا جس نے دورانِ خون کا نظام دریافت کیا تھا۔
بدقسمتی سے ابن النفیس کا بے جا طور پر گمنامی میں رہنا کوئی انوکھی یا غیر معمولی بات نہیں۔ قرونِ وسطیٰ کی صدیوں میں ہزاروں مسلم طبیبوں نے، چاہے وہ معمولی طبیب ہوں یا غیر معمولی قابلیت کے حامل، زیادہ تر میڈیکل سائنس کے مراکز سے باہر کام کیا اور رہائش اختیار کی۔ ان طبیبوں نے جان جوکھوں میں ڈال کر علمی اور تحقیقی کام کیا، کچھ عیسائی اور یہودی دانشوروں پر مشتمل چھوٹی جماعتوں نے بھی ذہنی مشقت کی، تاکہ آنے والے دور کے تقاضے پورے ہوسکیں۔ مترجمین اور علمی تحقیق پھیلانے والوں کا کردار کہ ان کے مسلمان پیش روؤں نے بغداد میں المامون کی گنجائش کو پورا کیا ہے۔ بہت سے طبیب غیر مستقل طور پر کسی جگہ رہے یامتنوع ثقافتوں / نسلوں پر مشتمل ملک ہسپانیہ جہاں طلیطلہ، بارسلونا، اور سیگوویا Segovia نقل مکانی کرتے رہے جس نے ان کی مدد کی۔ دوسرے طبیب فرانس، اٹلی اور سسلی کے شہروں میں جمع ہوئے جو اسلامی دنیا کے قریب تھے۔ یہ مسلم طبیب ثقافتی واسطہ بھی ثابت ہوئے کہ مغرب کو ایک ہزار سالہ قدیم علم و دانش کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا اور قیمتی علمی ورثہ بھی عطا کیا جس نے آج کی مغربی طب (جدید میڈیکل سائنس) کی بنیاد رکھی۔
یہ سب وہ طبیب ہیں جنہوں نے مسلم دنیا میں قیمتی علمی ورثہ اور تدابیردریافت کیں، اور مزید یہ کہ انسانی جسم اور دماغ کی لاینحل معمے حل کیے۔ انہوں نے ہسپتال، سرجری اور علم ادویہ کے شعبوں کی بنیاد رکھی۔ سرجیکل آلات ایجاد کیے اور ایسے عملی طریقے استعمال میں لائے جن کی بنیاد ذاتی تجربے پر تھی، تاکہ مفروضات/ نظریات کی جانچ پرکھ کرسکیں۔ انہوں نے مذہب اور طب کو جدا جدا خانوں میں رکھا اور عورتوں کے لیے طب کا دروازہ کھول دیا۔ شخصی صحت، خوراک اور حفظانِ صحت کے متعلق ان کے اکثر اصول آج بھی درست تسلیم کیے
جاتے ہیں۔ شاید ان اصولوں میں سب سے زیادہ اہم اصول ان کا یورپی معالجین کو یہ سبق دینا ہے کہ بیماری صرف صحت کے صحیح راستے سے انحراف کا نام ہے اور دوا کا کام بیماری کا علاج ہے۔
اگر ان میں سے کچھ اصول ہمیں بہت ہی آسان اور واضح دکھائی دیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسی ترقی نے گزشتہ کل کی ایجاد کو آج کی معلومات کا علم بنا دیا ہے۔