تحریک آزادی اور میوات
تحریک آزادی اور میوات
مرتب۔کشمیری لال ذاکر
پہلی جنگ آزادی میں میووں کا حصہ
ڈاکٹر اعجاز احمد
یسین میوڈگری کالج نوح ضلع میوات، ہریانہ
(خلاصہ مضمون۔۔۔
1۔میوات کا علاقہ
2۔میو حریت پسند قوم
3۔1835 اور1857 کی جنگوں کا باہمی ربط۔
4۔ہندستان کی جنگوں میں میوات کا کردار
5۔مجاہدین کا جیل پر دھاوا۔
6۔میو خواتین کےبہادر ی کے گیت
7۔جنگ آزادی1857 کے میو ہیروز
8۔انگریزوں کے میوات پر ظالم کی انتہا
9۔ بہادر شاہ ظفر کے اشعار)
میوات کا علاقہ
میوات کا علاقہ ۱۸۵۷ کے وقت بنگال پریسیڈنسی کے نارتھ ویسٹ پر اونس کے دہلی ڈویژن کا حصہ تھا۔ اس کا ایک بڑا علاقہ گوڑ گاؤں ضلع میں آتا تھا۔ یہ علاقہ خاص طور پر ۱۸۵۷ کے غدر میں میو عوام کی جانبازی اور بہادری کا چشم دید گواہ رہا ہے۔ یہ عالم انسانیت کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ سارے کے سارے میوات کے گاؤں کے لوگوں نے انگریزی ظلم وستم کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہو اور اپنی سرزمین سے ان کی حکومت کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی ہو۔ ان کے اس کام کیلئے انکو دُنیا کے سب سے زیادہ مہذب کہے جانے والے لوگوں کے ہاتھوں بہت ہی گھناؤنے اور تباہ کن ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑا جس کا پورے ہندوستان کی تاریخ میں کوئی جواب نہیں۔
میو حریت پسند قوم
میو جو ایک حریت پسند قوم ہے پرانے زمانے سے کاشتکاری ہی ان کا پیشہ رہا ہے۔ کئی سالوں سے یہ قوم انگریزی سرکار کی نظام برتری اور ظلم وستم کے شکار تھے۔ وہ اپنے ہی گھر میں اور اپنی ہی زمین پر غلامی کی زنجیروں سے جکڑا ہوا محسوس کر رہے تھے اور جب بھی انہیں غلامی سے نجات پانے کا موقع ملا وہ اس میں کود پڑے۔
1835 اور1857 کی جنگوں کا باہمی ربط
اس کی تاریخی مثال ۱۸۳۵ کی ہے جب میووں نے انگریزوں کے خلاف ایک نا کامیاب کوشش کی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سازش میں فیروز پور جھر کا کے نواب شمس الدین سیدھے طور پر ملوث تھے لیکن کریم خان اور انیا میو نے انگریز ایجنٹ ولیم فریزر کو مارنے میں نواب کا ساتھ دیا تھا جس میں نواب اور کریم خان
کو پھانسی ہوئی تھی۔
ہندستان کی جنگوں میں میوات کا کردار
اسکا پورے میوات پر گہرا اثر پڑا اور یہ بھی ایک وجہ تھی جس میں ۱۸۵۷ء کے دوران پورے میوات کے لوگوں نے اپنی ساری طاقت انگریزی سامراج کیخلاف جھونک دی(تاریخ میو چھتری442)۔ جب ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی کی شروعات پہلے میرٹھ اور بعد میں دہلی سے ہوئی تو تقریباً ۳۰۰ مجاہدین آزادی جو تیسری ہلکی گھوڑ سوار فوج سے تعلق رکھتے تھے، نے ۱۳ مئی ۱۸۵۷ء کو گوڑ گاؤں پر حملہ کر دیا۔
اس وقت گوڑ گاؤں کا کلکٹر اور ضلع مجسٹریٹ ولیم فورڈ نے پٹودی کے کچھ سواروں کی مدد سے بجو اسن گاؤں کے قریب انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوا کیونکہ اس وقت تک مجاہدین کے ساتھ بہت سے مقامی میو، جاٹ اور اہیر شامل ہو گئے تھے۔
مجاہدین کا مقابلہ نہ کر پانے پر فورڈ بھونڈی، پلول اور ہوڈل ہوتا ہوا متھر ابھاگ گیا۔
گوڑ گاؤں میں مجاہدین کو ایک بڑی رقم (۷۸۴۰۰ روپئے) (کے،سی یادو ہریانہ اتہاس1یومسنسکرتی حصہ2 نئی دہلی1992ص105)ہاتھ لگی ساتھ ہی ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ بھی ہاتھ لگا۔ مجاہدین نے ۲۵ انگریزوں کو ہلاک کر دیا اور سرکاری مالگزاری کے کاغذات کو جلا دیا۔
مجاہدین کا جیل پر دھاوا۔
مجاہدین نے جیل پر بھی دھاوا بول کر سارے قیدیوں کو چھڑالیا۔(3) سارے مجاہدین نے ملکر پورے ضلع کے نظام کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو پورے علاقے کا بادشاہ تسلیم کیا ۔
مؤرخ شمس الدین شمس کے مطابق بہت سارے میں مجاہدین نے علی حسن خان میو کی قیادت میں گھا سیٹرا کے قریب فورڈ کی فوج سے لڑائی لڑی اور انہیں ہرا کر متھرا بھاگنے پر مجبور کر دیا۔(4)
۲۰ /مئی ۱۸۵۷ء کو پنھانا، پنگواں ہتھین ، نگینا ، نوح، فیروز پور جھر کا ، رو پڑا کا، کاما، ڈیگ، بھرت پور، دوسا اور الور کے چودھریان نے ایک مہا پنچایت کی اور بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اپنا رہنما تسلیم کیا۔( ۵)
مئی کے آخر تک تقریباً سارے میوات کے دیہات آزاد ہو چکے تھے اور ان کا نظام ان گاؤں کے چودھریان نے سنبھال لیا۔(6)
لیکن اب بھی میوات کے قصبوں میں انگریزوں کے وفادار موجود تھے اور یہاں پر حملے کی ذمہ داری صدر الدین میو نے لی۔
میووں کے جم غفیر کے ساتھ صدر الدین نے خاص طور پر خانزادے اور سرکاری افسران کو نشانہ بنایا۔ ان مجاہدین نے بڑی آسانی سے تاؤڑو، سوہنا، فیروز پور جھر کا، پنھانا اور پنگواں کو اور ان کے نظام کو اپنے قبضے میں کرلیا۔(7)
اوراسے مجاہدین کا مرکز بنایا۔ یہاں مجاہدین میں میو اور گوجر دونوں شامل تھے(9)
۔ نوح میں علی حسن خان میواتی اور بہت سارے ان کے میوسا تھیوں نے حملہ کیا مگر یہاں مقامی پولیس اور خانزادے جو انگریزوں کے وفادار تھے مجاہدین کیلئے کافی مشکلات پیدا کیں ۔ مگر میووں کی تعداد خانزادوں کے مقابلے میں کافی زیادہ تھی اس لئے کامیابی میووں کو ہی ملی اور خانزادے برُی طرح سے ہارے اور کافی تعداد میں مارے گئے ۔( 10)
نوح میں مجاہدین کی جیت نے میوات میں انگریزی حکومت کو پوری طرح ختم کر دیا۔ میوات کے لوگ آزادی پاکر کافی خوش تھے ۔ عورتیں بہادری کے گیت گاتی تھیں۔ ان گیتوں کے بول کچھ اس طرح تھے۔( 11)
میو خواتین کےبہادر ی کے گیت
کد جائیگو فرنگی یا بی رج میں سو۔
چڑیا چڑ نگلا سب مروایا ،
مورا ما رو بڑ میں سو ،
کدَ جائیگو فرنگی یابی رج میں سو”
جنگ آزادی1857 کے میو ہیروز
نصف جون ۱۸۵۷ء میں جے پور ریاست کا سیاسی ایجنٹ ڈبلیو ۔ایف۔ ایڈن چھ ہزار فوج اور سات تو پوں کے ساتھ میوات ہوتے ہوئے دہلی جارہا تھا۔ راستے میں میووں نے اسے بہت تنگ کیا۔ اس لئے ایڈن نے دہلی سے پہلے میوات کو جیتنے کو ترجیح دیا۔(13) میووں نے مہراب خان کی قیادت میں سوہنا اور تاؤڑو کے بیچ میں ایڈن کی فوج پر حملہ کیا جس میں اس کی فوج کے بہت سارے سپاہی مارے گئے ۔( ۱۴)
سوہنا میں ولیم فورڈ ایک فوجی ٹکڑی کے ساتھ ایڈن سے آملا اور دونوں نے پلوں کی طرف کوچ کیا اور وہاں پلول اور ہوڈل میں مجاہدین کے ساتھ لمبے وقت تک ان کی لڑائی چلی -( ۱۵)
یکم جولائی ۱۸۵۷ء کو یہ لوگ دہلی گئے۔ وہاں بھی مجاہدین سے ان کی لمبی لڑائی چلی ۔(16)
اگست میں ایڈن مجبور اور لاچار ہو کر جے پور واپس لوٹ گیا(17)
لیکن وقت کب ٹھہرتا ہے۔ آخر فیصلے کی گھڑی آئی گئی جب پٹیالا ، نا بھا ، جیند اور کشمیر ریاستوں کی فوجوں نے انگریزی فوج کے ساتھ مل کر دہلی پر ۲۰ /ستمبر ۱۸۵۷ء کو دوبارہ قبضہ کر لیا۔ اس نازک وقت میں بھی میوات آزاد ہی رہا اور صمد خان اور ان کے د اما د علی حسن خان کی قیادت میں میووں نے فورڈ کو کئی شکستیں دیں۔( ۱۸)
۱۲/کتوبر ۱۸۵۷ء کو بریگیڈیئر جنرل شاورس کو ۱۵۰۰ کی فوج ۱۸ چھوٹی اور ۲ بڑی توپوں کے ساتھ میوات جیتنے کے لئے بھیجا گیا۔
یہاں شاورس کی مدد گوڑ گاؤں کا اے۔ ڈی سی ۔ کلیفورڈ کر رہا تھا۔ مجاہدین کے خلاف کلیفورڈ کے سینے میں بدلے کی آگ دہک رہی تھی کیوں کہ دہلی کے مجاہدین نے بادشاہ کے لڑکے کی موجودگی میں قلعہ کے سامنے کلیفورڈ کےبہن کے کپڑے پھاڑ کر ننگا کر کے توپ کے پہئے کے ساتھ باندھا تھا؟ اور پھر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔( 19)
انگریزوں کے میوات پر ظالم کی انتہا
کلیفورڈ نے میوات میں گاؤں کے گاؤں جلا دیے اور قتل عام کیا۔ یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں کو بھی نہیں بخشا۔ (۲۰)
لیکن جب شاورس اور کلیفورڈ نے رایسینا گاؤں پر حملہ کیا تو میواُن پر بھاری پڑے اور کلیفور، سمیت ۶۰ فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔ بعد میں گورکھا رجمنٹ شاورس اور فورڈ کی قیادت میں کامیاب ہوئی اور پورے گاؤں کو جلا کر راکھ کر دیا اور لوگوں کا بڑی بے رحمی سے قتل کیا(21 ) ۔ یہاں تک کہ دھارو ہیڑا اور تاؤڑو کے بیچ جو بھی گاؤں آئے سب کو جلا دیا( ۲۲)
سوہنا، ہمتھین اور پلول کے اطراف میں مجاہدین پر غالب ہونے کے بعد شاورس میوات کو کیپٹن ڈرمنڈ کے حوالے کر کے دہلی چلا گیا ۔( ۲۳ ) ڈرمنڈ کے اشارے پر کمایوں رجمنٹ کے ایچ ۔ گرانٹ نے گھا سیٹرا گاؤں پر حملہ بول دیا اور وہاں ایک زبرست مورچے میں ۱۶۰
میو مارے گئے لیکن میووں نے بھی اس سے پہلے مورچے میں انگریزوں کو ہرایا تھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ انہیں ننگے پاؤں جھاڑیوں پر دوڑایا تھا۔( ۲۴)
نصف نومبر ۱۸۵۷ء کو ڈرمنڈ کو خبر ملی کہ گاؤں کوٹ اور روپڑا کا کے ہزاروں میو ہیتھن انگریز وفادار راجپوتوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور ان کا ارادہ پلول پر بھی حملہ کرنے کا ہے۔
اس پر ڈرمنڈ ٹو ہانا ہارسز ، ہڈسن ہارسز کو ماوں بٹالین کے ۱۰۲ فوجی کوک کی قیادت میں پہلی پنجاب انفینٹری کو لیکر رو پڑا کا روانہ ہوا۔ راستے میں اس نے بہت سارے گاؤں پر قبضہ کیا جس میں پچانکہ گوہ پر، مالپوری ، گراکسر، مالوکا ، جھانڈا وغیرہ سرفہرست تھے۔
ڈرمنڈ ۱۹ /نومبر۱۸۵۷ء کو روپڑا کا پہونچا اور وہاں ایک زبردست لڑائی ہوئی جس میں تقریباً ۳۵۰۰ میو شامل تھے۔ اس لڑائی میں میومجاہدین بڑے بہادری سے لڑے مگر ہارگئے اور تقریباً ۴۰۰ میووں کو جام شہادت پینا پڑا ۔( ۲۵ )
رو پڑا کا کے بعد بہت سارے گاؤں جس میں کھلو کا ، گھا سیٹرا، پنگواں، نائی نگلہ، نگینا وغیرہ شامل تھے انگریزوں نے نذر آتش کر دیا ۔( ۲۶)
۲۷ /نومبر ۱۸۵۷ء کو میں مجاہدین نے صدر الدین کی قیادت میں پنگواں پر حملہ بول دیا۔ انگریزوں نے فوری طور پر کیپٹن رمزے اور گوڑ گاؤں کے اے۔ڈی۔سی۔ میکفرسن کے زیر قیادت ایک گورکھا رجمنٹ بھیجا۔ دونوں افواج کی لڑائی مہوں گاؤں میں ہوئی جس میں انگریز کامیاب رہے اور صدر الدین کے بیٹے سمیت ۲۸ میو شہید ہوئے۔
پڑوس کے گاؤں سے بھی انگریزوں نے پکڑ پکڑ کر ۴۲ میووں کو قتل کر دیا۔ اس کے علاوہ شاہ پور، بائی کھیڑا ، کھیڈ لا ، چتوڑہ، نہا ر یکا، گوجر نگلا ، بہری پور ، کھیڑی وغیرہ کو نذرآتش کر دیا۔( ۲۷)
لیکن نوح میں میو مجاہدین نے چودھری ناہر خان کی قیادت میں میکفرسن کی فوج پر حملہ کر دیا اور میکفرسن کو ہلاک کر دیا۔ اس کے بدلے میں انگریزوں نے نوح پر حملہ کیا اور نوح اور پڑوس کے گاؤں کے ۵۲ میووں کے پھانسی پر چڑھا دیا۔ اس کے علاوہ ۴۲ میووں کو فیروز پور جھر کا میں اور ۱۸ کو گہلب میں پھانسی پر لٹکایا گیا۔( ۲۸ )
اگر زبانی بیان بازی پر یقین کریں تو ۲۹ نومبر ۱۸۵۷ء تک ۳۶۰۰ میووں کو شہید کیا گیا جس میں بہتوں کو دہلی بھیج کر مقدمہ چلایا گیا اور پھر پھانسی دی گئی۔ تقریبا ۱۲۰ میوؤں کو دہلی میں پھانسی دی گئی ۔( ۲۹)
1۔نگلی.16 ……
۲ نوح ١۔۔…
-۳- حسن پور …..۲۰
پڑکا…..5
۵- رايسينا ..4….
گوا کار…… 1
۷- جرولی … 1
۸ سلطان پور……۱۰
-۹- اہکھان …. ۴
۱۰ – سيوالی …..2
۱۱- گدرانا ۔….2…
۱۲ ۔ سرائے ….1.
١٣ کھیڑلی … 1
۱۴۔ سوہنا ۱۶۰۰۰۰۰۰
۱۵ کانولی … 1
۱۶ گوڑ گاؤں ۔ 7
۱۷ پلول ۱۰
میں مجاہدین کی یہ قربانی رہتی دنیا تک ہندوستان کی آزادی کی تاریخ میں یاد کی جاتی رہے گی۔
بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر میوات کے شہیدوں کے لئے مناسب حال معلوم پڑتا ہے۔
ہوئے دفن جو تھے بے کفن انہیں روتا ابرِ بہار ہے
کہ پڑھتے ہیں فرشتے فاتحہ نہ نشان ہے نہ مزار ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی و حوالے :
۱۔ عبدالشکور، تاریخ میو چھتری ، دہلی ، ۱۹۷۴ ، ص ، ۴۴۲
۲۔ کے سی ۔ یادو، ہریانہ ۔ اتہاس الیوم سنسکرتی ، حصہ ۔ ۲ نئی دہلی ، ۱۹۹۲ ،ص105
۳۔ گوڑ گاؤں ڈسٹرکٹ گز بیٹر ، چنڈ یگڑھ ، ۱۹۸۳، ص۴۰
۴ شمس الدین شمس، میوز آف انڈیا، نئی دہلی ، ۱۹۸۳ ص ۳۱ اور ۳۲
۵ ایضاً ، اور دیکھئے امر اجالا ، ۲۰ نومبر ۲۰۰۴
گوڑ گاؤں ڈسٹرکٹ گز بیٹر ، ص ، ۴۰
۷۔ ۔ بدھ پر کاش گلمپسز آف ہریانہ، کروکشیتر ۱۹۶۲۱، ص ۸۵
۹ خانزادے میووں سے ہی نکلی ایک قوم ہیں مگر وہ خود کو میووں سے زیادہ اونچا سمجھتے ہیں ۔
۱۰۔ کے ۔ سی۔ یادو، ریولٹ آف ۱۸۵۷ء اِن ہریانہ ، نئی دہلی ، ۱۹۷۷ ،
ص، ۵۸ اور دیکھئے تاریخ میو چھتری ،ص ۴۵۵ اور میوز آف انڈیا ، ص ، ۳۱۱
اا۔ تاریخ میو چھتری ، ص ، ۴۵۵
۱۳ ۔ گوڑ گاؤں ڈسٹرکٹ گز بیٹر ،ص۶۱
۱۴- امر اجالا ، ۲۰ نومبر ۲۰۰۴
-۱۵۔ گوڑ گاؤں ڈسٹرکٹ گز بیٹر ،ص ۶۲
-۱۶ ۔ پنجاب ڈسٹرکٹ گز بیٹر ، حصہ ، ۴۔ اے ، ص ، ۲۴
۱۷۔ گوڑ گاؤں ڈسٹرکٹ گز بیٹر، ص ۶۲
۱۸۔ میوز آف انڈیا ،ص ۳۲
۱۹ ۔ گوڑ گاؤں ڈسٹرکٹ گز بیٹر، ص ۶۲
۲۰ ۔ ایضا ، اور دیکھئے میودر پن، اگست ، ۱۹۹۷، ہاشم امیر علی ، دی میوز آف
میوات ، نئی دہلی ، ۱۹۷۰ ، ص ۲۸
۲۱۔ تاریخ میو چھتری ، ص ۴۵۹ اور ۴۶۰
۲۲ ۔ گوڑ گاؤں ڈسٹرکٹ گزیٹر ، ص ۶۲ اور دیکھئے امر اجالا ، ۱۵ اگست،
۲۰۰۵ اور میودر پن، اگست ۱۹۹۷
۲۳۔ ایضاً ص ۶۳
۲۴- امر اجالا ، ۲۰ نومبر ۲۰۰۴
۲۵۔ میوٹنی ریکارڈ کرسپانڈنس ، لاہور، ۱۹۱۱ ، ص ۲۲۹ اور ۲۳۰
-۲۶ – گوڑ گاؤں ، ڈسٹرکٹ گز بیٹر ، ص ۶۴
-۲۸ – امر اجالا ، ۱۵ اگست ، ۲۰۰۵ ۔
۔۲۹ – نیومیوٹا مس، یکم نومبر ، ۱۹۹۴