تاریخ فیروز شاہی میں میواتیوں کا ذکر

تاریخ فیروز شاہی میں میواتیوں کا ذکر: ایک تاریخی جائزہ

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد  میو

ابتدایہ

“تاریخ فیروز شاہی” قرون وسطیٰ کی ہند کی تاریخ کے اہم ترین ماخذ میں سے ایک ہے، جو دہلی سلطنت کے تغلق دور پر گہری روشنی ڈالتی ہے۔ اس تاریخی دستاویز میں میواتیوں کا ذکر ان کے دہلی سلطنت کے ساتھ پیچیدہ تعلقات، ان کی جغرافیائی اہمیت، اور ان کی سماجی و سیاسی تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مطالعہ اس تاریخی دستاویز میں ایک مخصوص نسلی و جغرافیائی گروہ کے بارے میں موجود معلومات کو گہرائی سے کھوجنے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، جو نہ صرف تاریخی حقائق کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے بلکہ ریاست اور مقامی قبائل کے درمیان تعلقات کی پیچیدگیوں اور ان کے ارتقاء کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

“تاریخ فیروز شاہی” کا مختصر تعارف

“تاریخ فیروز شاہی” کے نام سے دو اہم تاریخی تصانیف موجود ہیں، جنہیں دو مختلف مصنفین نے تحریر کیا ہے، اور دونوں کا دائرہ کار مختلف ہے۔

  • ضیاء الدین برنی کی “تاریخ فیروز شاہی“: یہ کتاب سلطان بلبن کے دور کے آغاز (1266ء) سے لے کر فیروز شاہ تغلق کے ابتدائی چھ سال (1358ء تک) کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہے 。 برنی نے ان آٹھ سلاطین کے حالات قلم بند کیے جن کے واقعات کا وہ خود چشم دید گواہ تھا یا جن کے بارے میں اسے دیگر معتبر افراد سے معلومات فراہم کی گئی تھیں 。 یہ کتاب منہاج سراج جوزجانی کی “طبقات ناصری” کا ایک اہم تسلسل سمجھی جاتی ہے ۔ برنی نے 758ھ (1357ء) میں 74 سال کی عمر میں اس تاریخ کو مکمل کیا ۔  
  • شمس سراج عفیف کی “تاریخ فیروز شاہی“: اس کے برعکس، شمس سراج عفیف کی “تاریخ فیروز شاہی” خاص طور پر فیروز شاہ تغلق کے دورِ حکومت پر مرکوز ہے ۔ عفیف کے آباؤ اجداد علاء الدین خلجی اور تغلق خاندان کی خدمت میں رہے تھے ۔ یہ کتاب فیروز شاہ تغلق کے دورِ حکومت کا ایک تفصیلی احاطہ فراہم کرتی ہے اور اسے اس دور کی تاریخ لکھنے کے لیے ایک بنیادی ماخذ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دونوں کتابوں کا نام “تاریخ فیروز شاہی” ہے، لیکن ضیاء الدین برنی کا میدان وسیع ہے جبکہ سراج عفیف کا نسبتاً محدود اور فیروز شاہ کے دور پر خصوصی توجہ مرکوز ہے ۔ اس دوہری تصنیف کا وجود قرون وسطیٰ کی ہند کی تاریخ نگاری کا ایک اہم پہلو ہے۔ برنی کا کام میواتیوں کے دہلی سلطنت کے ساتھ ابتدائی اور وسیع تر تعلقات کے لیے سیاق و سباق فراہم کرتا ہے، جبکہ عفیف، فیروز شاہ پر اپنی خصوصی توجہ کی وجہ سے، اس سلطان کے دور میں میواتیوں کے بارے میں زیادہ مخصوص اور گہرائی سے معلومات فراہم کرنے کا امکان رکھتا ہے۔ اس لیے، میواتیوں کے بارے میں جامع تفہیم کے لیے دونوں ماخذ کا مطالعہ ضروری ہے۔  

میوات اور میواتی قوم کا ابتدائی تعارف

میوات کا علاقہ دہلی کے جنوب میں واقع ہے، جو اراولی پہاڑیوں کی کئی رینجز سے گھرا ہوا ہے ۔ یہ ایک ثقافتی خطہ ہے جو دہلی، آگرہ اور جے پور کے مثلث کے اندر واقع ہے ۔ اس علاقے میں برطانوی دور کے ماتھرا (متھرا) اور گڑگاؤں کے کچھ حصے، اور الور (الور) اور بھرت پور کا کافی حصہ شامل تھا ۔ میواتی زبان ہریانوی اور راجستھانی بولیوں کی ایک قسم ہے ۔  

میو یا میواتی فطری طور پر بہت بہادر، جنگجو اور محنتی لوگ تھے، جو راجپوت خصوصیات کے حامل تھے اور اپنی اصلیت راجپوتوں سے جوڑتے تھے ۔ انہیں صدیوں سے اپنے “غارت گر” (predatory) کردار کے لیے جانا جاتا تھا اور انہوں نے ترک، پٹھان، مغل اور برطانوی حکمرانوں کو دہلی میں کافی پریشانی دی ۔

 میواتی قوم کی شورش پسندی کی ایک وجہ حکومتی ٹیکس نظام اور میوات کی بنجر زمین بھی تھی، جس نے انہیں لوٹ مار پر مجبور کیا ۔ میواتیوں کو ہم عصر مؤرخین نے اکثر “غارت گر” یا “ڈاکو” کے طور پر پیش کیا ہے ۔ تاہم، یہ بیان ان کے کردار کی ایک سادہ تشریح ہے۔ حقیقت میں، ان کی لوٹ مار کی عادات اور شورش پسندی اکثر سخت اقتصادی حالات، حکومتی ظالمانہ ٹیکس نظام، اور قدرتی آفات جیسے قحط اور خشک سالی کے جواب میں ایک بقا کی حکمت عملی تھی۔ میوات کی بنجر زمین اور کم پیداوار نے ان کے رہائشیوں کو سخت محنت کرنے والا بنایا، اور جب وہ بھاری ٹیکس ادا کرنے سے قاصر ہوتے تو وہ کھلے عام بغاوت پر اتر آتے تھے ۔ اس طرح، ان کے اقدامات کو محض مجرمانہ سرگرمیوں کے بجائے، ریاستی دباؤ اور ماحولیاتی چیلنجوں کے خلاف مزاحمت کی ایک شکل کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔  

تاریخ فیروز شاہی کے مصنفین اور ان کے کام

“تاریخ فیروز شاہی” کے دونوں مصنفین، ضیاء الدین برنی اور شمس سراج عفیف، نے اپنے اپنے انداز میں دہلی سلطنت اور خاص طور پر فیروز شاہ تغلق کے دور کی تاریخ کو رقم کیا۔

ضیاء الدین برنی کی “تاریخ فیروز شاہی

برنی کی “تاریخ فیروز شاہی” کا دائرہ کار سلطان بلبن کے دور (1266ء) سے لے کر فیروز شاہ تغلق کے ابتدائی چھ سال (1358ء) تک پھیلا ہوا ہے ۔ یہ کتاب دہلی سلطنت کے سماجی و سیاسی تاریخ پر گہری بصیرت فراہم کرتی ہے ۔ میواتیوں کا براہ راست، تفصیلی ذکر اس کتاب میں فیروز شاہ کے دور کے حوالے سے کم ملتا ہے، کیونکہ برنی کا کام ایک وسیع تر تاریخی تناظر پیش کرتا ہے۔ تاہم، برنی کے کام کو بعد کے مؤرخین نے کثرت سے نقل کیا ہے، اور یہ فیروز شاہ کے دور کے لیے فرشتہ کے بیان کا بنیادی ماخذ ہے ۔ اس طرح، برنی کا کام میواتیوں کے دہلی سلطنت کے ساتھ ابتدائی تعلقات اور ان کے عمومی سیاق و سباق کو سمجھنے کے لیے ضروری پس منظر فراہم کرتا ہے۔  

شمس سراج عفیف کی “تاریخ فیروز شاہی

شمس سراج عفیف کی “تاریخ فیروز شاہی” فیروز شاہ تغلق کے دورِ حکومت پر مکمل طور پر مرکوز ہے ۔ عفیف نے فیروز شاہ کی عوامی فلاح و بہبود کے اقدامات اور انتظامی تفصیلات پر خاص توجہ دی ہے ۔ یہ کتاب فیروز شاہ کے دور میں میواتیوں، خاص طور پر خانزادوں، کے اسلام قبول کرنے اور ان کے سلطان کے ساتھ تعلقات کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتی ہے ۔ چونکہ عفیف کا موضوع فیروز شاہ کا دور ہے، اس لیے اس میں میواتیوں کے بارے میں براہ راست اور مخصوص تفصیلات ملنے کا امکان زیادہ ہے، خاص طور پر ان کے سرداروں کے اسلام قبول کرنے اور سلطان کے ساتھ گہرے تعلقات قائم ہونے کے واقعات ۔  

برنی اور عفیف کی تصانیف ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔ برنی کی “تاریخ فیروز شاہی” دہلی سلطنت کے وسیع تر دور کے لیے ایک بنیادی ماخذ ہے اور میواتیوں کے بارے میں بعد کے مؤرخین کو متاثر کرتی ہے، جبکہ عفیف کی “تاریخ فیروز شاہی” خصوصی طور پر فیروز شاہ کے دور کے لیے وقف ہے اور اس دوران میواتیوں کے بارے میں مخصوص تفصیلات فراہم کرتی ہے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میواتیوں کے بارے میں معلومات کے لیے دونوں ماخذ کا مطالعہ ضروری ہے۔ برنی میواتیوں کی سلطنت کے ساتھ ابتدائی کشمکش کا پس منظر فراہم کرتا ہے، جبکہ عفیف، اپنی مخصوص توجہ کی وجہ سے، فیروز شاہ کی میواتیوں کے تئیں پالیسی اور ان کے انضمام کے بارے میں زیادہ باریک بینی سے تفصیلات پیش کرتا ہے۔ یہ تقابلی مطالعہ سوال کا ایک جامع جواب فراہم کرنے میں مدد دیتا ہے۔  

میواتی: جغرافیائی محل وقوع اور خصوصیات

میوات کا علاقہ اور اس کے باشندے، میواتی، دہلی سلطنت کی تاریخ میں ایک اہم اور مستقل عنصر رہے ہیں۔ ان کی جغرافیائی پوزیشن اور مخصوص خصوصیات نے دہلی کے حکمرانوں کے ساتھ ان کے تعلقات کو گہرا متاثر کیا۔

میوات خطے کی تفصیل

میوات کا علاقہ دہلی کے جنوب میں واقع ہے اور اراولی پہاڑیوں کی کئی رینجز سے گھرا ہوا ہے ۔ یہ ایک ثقافتی خطہ ہے جو آج کے دہلی، آگرہ اور جے پور کے مثلث کے اندر واقع ہے ۔ برطانوی دور میں اس میں متھرا اور گڑگاؤں کے کچھ حصے، اور الور اور بھرت پور کا کافی حصہ شامل تھا ۔ اس خطے کی جغرافیائی خصوصیات نے اسے مزاحمت کے لیے ایک مضبوط گڑھ بنا دیا تھا، کیونکہ اس کی پہاڑی نوعیت بیرونی حملوں کے خلاف کافی تحفظ فراہم کرتی تھی ۔  

میوات کی زمین کی خصوصیات بھی اس کے باشندوں کی زندگی پر اثر انداز ہوئیں۔ یہ علاقہ زیادہ پیداوار والی زمین نہیں رکھتا تھا، اور اس کی الکلائن مٹی نے یہاں کے رہائشیوں کو سخت محنت کرنے والا بنا دیا ۔ میوات کی اسٹریٹجک پوزیشن، جو دہلی کے قریب تھی، اسے سلطنت کے لیے ایک مستقل مسئلہ بناتی تھی، لیکن ساتھ ہی ساتھ، اس علاقے پر کنٹرول سلطنت کے استحکام کے لیے بھی انتہائی اہم تھا۔ اس مشکل جغرافیہ اور اقتصادی حالات نے میواتیوں کے “شورش پسند” رویے کو تقویت دی، جس سے وہ ایک مضبوط اور خود مختار قوت بن گئے۔  

میواتی قوم کی فطرت اور کردار

میو یا میواتی فطری طور پر بہت بہادر، جنگجو اور محنتی لوگ تھے، جو راجپوت خصوصیات کے حامل تھے اور اپنی اصلیت راجپوتوں سے جوڑتے تھے ۔ وہ آزادی، امن اور خود مختاری کے خواہاں تھے اور انہوں نے کبھی دہلی کے پڑوسی حکمرانوں سے سمجھوتہ نہیں کیا، چاہے وہ ترک، پٹھان، مغل یا برطانوی ہوں ۔ انہیں صدیوں سے اپنے “غارت گر” کردار کے لیے جانا جاتا تھا اور انہوں نے دہلی کے حکمرانوں کو کافی پریشانی دی ۔ ان کی لوٹ مار کی سرگرمیاں دہلی کی بیرونی دیواروں تک پھیل چکی تھیں، جس کی وجہ سے وہ سلطنت کے لیے ایک سنگین قانون و انتظام کا مسئلہ بن گئے تھے ۔  

میو کمیونٹی کی ابتداء کے بارے میں کئی نظریات موجود ہیں، لیکن وہ خود کو ہندوستانی نژاد اور آریائی برادری کی کشتریہ ذات کا حصہ مانتے ہیں، اور فخر سے بھگوان رام اور کرشن کو اپنے آباؤ اجداد قرار دیتے ہیں ۔ اپنی شناخت اور حفاظت کے لیے، میو لوگوں نے خود کو 12 گوترا اور 52 پالوں میں منظم کیا، جو راجپوتوں اور کشتریوں کی جنگجو برادریوں کے طرز پر تھا ۔ ان کی ثقافت ہندومت اور اسلام کا ایک امتزاج رہی ہے؛ اگرچہ وہ نام کے مسلمان ہیں، لیکن ان کے گاؤں کے دیوتا ہندو زمینداروں جیسے ہی ہیں، اور وہ کئی ہندو تہوار بھی مناتے ہیں، جیسے ہولی ۔  

دہلی سلطنت کے ساتھ میواتیوں کے تعلقات (فیروز شاہ سے قبل)

دہلی سلطنت کے قیام کے بعد سے ہی میوات کا علاقہ اور اس کے باشندے، میواتی، دہلی کے سلاطین کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ ان کے تعلقات کی نوعیت زیادہ تر شورش اور فوجی مہمات پر مبنی تھی۔

بلبن کے دور میں میواتیوں کی شورش اور فوجی مہمات

میو کی مزاحمت کی تاریخ 13ویں صدی کے وسط سے شروع ہوتی ہے، جب منہاج سراج کی “طبقات ناصری” میں میو کا ابتدائی ذکر ملتا ہے ۔ میواتیوں نے دہلی سلطنت کے لیے مسلسل پریشانی پیدا کی، اور ان کی لوٹ مار کی سرگرمیاں دہلی کے دروازوں تک پہنچ چکی تھیں ۔ ہم عصر مؤرخ منہاج سراج نے 1259ء میں لکھا کہ میواتی “شیطان کے لیے بھی دہشت” بن چکے تھے ۔  

سلطان ناصر الدین محمود کے وزیر اور بعد میں سلطان بننے والے الغ خان (بلبن) نے میواتیوں کی شورش کو کچلنے کے لیے کئی فوجی مہمات چلائیں۔

  • 1247ء کی مہم: بلبن نے 1247ء میں میوات پر پہلی بار حملہ کیا، جب مقامی میو سردار رانسی ران پال (عرف انت پال) نے دہلی کے ایک باغی رہنما کو پناہ دی تھی ۔ اس مہم میں بلبن کی افواج نے میواتیوں کے ساتھ ایک شدید جنگ لڑی، جس میں میواتیوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا اور باغیوں کو فرار ہونا پڑا ۔  
  • 1260ء کی مہم: بلبن نے 1260ء میں میوات کے خلاف ایک اور فوجی مہم چلائی، جہاں راجپوتوں (میواتیوں) نے شورش برپا کر رکھی تھی ۔ اس مہم میں بلبن نے میوات کو چار ماہ تک لوٹ مار اور آتش زنی کا نشانہ بنایا۔ اس کارروائی میں 10,000 سے زیادہ میواتی ہلاک ہوئے، اور 200 سرداروں کو قیدی بنایا گیا، جبکہ عام سپاہیوں کی ایک بڑی تعداد کو غلام بنا لیا گیا ۔  
  • 1265-66ء کی مہم: سلطان بننے کے بعد، بلبن نے 1265-66ء میں میوات کے خلاف اپنی تیسری بڑی مہم چلائی۔ اس مہم میں کہا جاتا ہے کہ 100,000 سے زیادہ میواتی تلوار کے گھاٹ اتارے گئے ۔ اس مہم کے بعد، دہلی شہر میواتیوں کے حملوں سے محفوظ ہو گیا ۔ بلبن نے میواتیوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے قلعے تعمیر کیے، جنگلات صاف کروائے اور 2000 پولیس چوکیاں قائم کیں تاکہ علاقے پر کنٹرول برقرار رکھا جا سکے ۔  

بلبن کی میواتیوں کے خلاف بار بار اور ظالمانہ فوجی مہمات، جن میں بڑے پیمانے پر قتل عام اور غلامی شامل تھی، یہ ظاہر کرتی ہیں کہ میواتی دہلی سلطنت کے استحکام اور سلامتی کے لیے ایک اہم اور مسلسل خطرہ تھے۔ یہ ابتدائی سلطنت کی پالیسیاں بنیادی طور پر تعزیری تھیں اور ان کا مقصد میواتیوں کو ختم کرنا تھا نہ کہ انہیں نظام میں ضم کرنا۔ اس پالیسی کی شدت یہ بتاتی ہے کہ میواتیوں نے سلطنت کے لیے ایک بڑا چیلنج کھڑا کیا تھا، اور بلبن کا مقصد ان کی شورش پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا۔

میواتیوں کی مزاحمت کی نوعیت

میواتی، دہلی سلطنت کے لیے ایک سنگین قانون و انتظام کا مسئلہ بنے ہوئے تھے ۔ وہ پہاڑی علاقے اور گھنے جنگلات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہلی کی بیرونی دیواروں تک لوٹ مار کی سرگرمیاں پھیلا چکے تھے ۔ ان کی مزاحمت کی ایک بڑی وجہ حکومتی ٹیکس نظام اور میوات کی بنجر زمین تھی، جو انہیں لوٹ مار پر مجبور کرتی تھی ۔ یہ لوگ دہلی کے حکمرانوں کے خلاف مسلسل بغاوت میں رہتے تھے، جس کی وجہ سے انہیں “ڈاکوؤں کا گروہ” قرار دیا گیا، حالانکہ جدید مورخین انہیں اکثر غیر منظم، غیر تنخواہ دار فوجوں کے طور پر دیکھتے ہیں جو حالات کی وجہ سے بغاوت پر مجبور تھے ۔  

فیروز شاہ تغلق کے دور میں میواتی اور خانزادے

فیروز شاہ تغلق کا دور میواتیوں کے ساتھ دہلی سلطنت کے تعلقات میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ فوجی جبر کے بجائے، فیروز شاہ نے انضمام اور مفاہمت کی پالیسی اپنائی۔

میواتی سرداروں کا اسلام قبول کرنا (بہادر نہر/سمر پال اور چھجو خان/سوپر پال)

فیروز شاہ تغلق کے دور میں، میواتیوں کی سیاسی حیثیت دوبارہ ابھری، جو بلبن کے دور کے بعد کافی عرصے تک دبے ہوئے تھے ۔ راجپوت سردار سمر پال (Samar Pal) اور اس کے بھائی سوپر پال (Sopar Pal) نے اسلام قبول کیا اور میوات خطے پر حکمرانی شروع کی ۔  

تاریخی روایات کے مطابق، جادون راجہ لکھن پال (Lakhan Pal) کے بیٹے کنور سمر پال اور کنور سوپر پال نے ایک شکاری مہم کے دوران صوفی بزرگ حضرت نصیر الدین محمود، روشن چراغ دہلی، سے ملاقات کی اور اسلام قبول کیا ۔ سمر پال کو نیا نام بہادر خان دیا گیا اور سوپر پال کو چھجو خان کا نام دیا گیا ۔ کچھ ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ لکھن پال اور سمیتر پال (Sumitra Pala) نے فیروز شاہ تغلق کے دور میں اسلام قبول کیا، اور فیروز شاہ نے لکھن پال کو نہر خان اور سمیتر پال کو بہادر خان کا نام دیا ۔  

اسلام قبول کرنے کی وجوہات میں اپنی جان بچانا اور سرہٹا (Sarhata) اور جھیرکا (Jhirka) کی اپنی جاگیریں دوبارہ حاصل کرنا شامل تھا، جنہیں فیروز تغلق نے دہلی میں شامل کر لیا تھا ۔ محمد مخدوم کے مطابق، خانزادوں کا میوات خطے میں اسلام قبول کرنا صوفی بزرگوں کی صحبت کی وجہ سے ہوا، خاص طور پر سلطان فیروز شاہ تغلق کے زمانے میں ۔ بہادر نہر (1360-1400)، جو پیدائشی طور پر جادو راجپوت تھا، کو خانزادہ نسل کا بانی سمجھا جاتا ہے، جو ہندوستانی تاریخ میں نمایاں ہوا ۔  

فیروز شاہ تغلق کے ساتھ ان کے تعلقات اور میوات کی جاگیر کا عطا کیا جانا

یہ فیروز شاہ تغلق کا دور تھا، اور سلطان نے ان نو مسلم سرداروں کو میوات کی جاگیر عطا کی ۔ ایک روایت کے مطابق، کنور سمر پال نے ایک شکاری مہم کے دوران فیروز شاہ کو شیر سے بچایا، جس پر انہیں “نہر” (شیر) کا خطاب اور “خانزادہ” (گھر کا بیٹا) کا درجہ دیا گیا ۔ بہادر نہر نے کوٹلہ گاؤں میں کوٹلہ بہادر نہر قلعہ بھی تعمیر کیا ۔  

فیروز شاہ تغلق نے میواتیوں کو جاگیر عطا کرنے اور انہیں حکمران کے طور پر تسلیم کرنے کے ذریعے انہیں دہلی سلطنت کے انتظامی ڈھانچے میں ضم کیا۔ جھیرکا کا نام فیروز پور میں تبدیل ہونا اس انضمام کی علامت ہے ۔ یہ پالیسی بلبن کے ظالمانہ جبر سے ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے۔ فیروز شاہ نے ایک تاریخی طور پر باغی علاقے کو پرسکون کرنے کے لیے ایک عملی حکمت عملی اپنائی، جس میں اس کی قیادت کو فوجی اخراجات کے بجائے مذہب اور مراعات کے ذریعے اپنے ساتھ ملایا گیا۔ اس سے سلطان کو طویل مدتی وفاداری اور استحکام حاصل ہوا۔ خانزادے، اگرچہ میو کی طرح مسلمان تھے، سماجی طور پر میو سے کہیں زیادہ برتر سمجھے جاتے تھے، اور انہیں حکمران طبقہ سمجھا جاتا تھا جبکہ میو نچلے طبقے کے لوگ تھے ۔  

میواتی-سلطنت تعلقات کا تجزیہ

میواتیوں اور دہلی سلطنت کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں وقت کے ساتھ ساتھ ایک نمایاں ارتقاء دیکھا گیا۔ ابتدائی طور پر، یہ تعلقات شدید تنازعات اور فوجی مہمات پر مبنی تھے، لیکن فیروز شاہ تغلق کے دور میں یہ انضمام اور مفاہمت کی طرف مائل ہوئے۔

تنازعات سے انضمام کی طرف تبدیلی

دہلی سلطنت کے ابتدائی دور میں، خاص طور پر بلبن کے تحت، میواتیوں اور سلاطین کے درمیان تعلقات بنیادی طور پر عداوت اور فوجی مہمات پر مبنی تھے ۔ بلبن نے میواتیوں کی شورش کو کچلنے کے لیے انتہائی ظالمانہ اقدامات کیے، جن میں بڑے پیمانے پر قتل عام اور غلامی شامل تھی ۔ یہ پالیسی اس وقت کی سلطنت کی جانب سے ایک مستقل خطرے سے نمٹنے کی کوشش تھی، لیکن اس نے طویل مدتی استحکام فراہم نہیں کیا۔  

فیروز شاہ تغلق کے دور میں یہ تعلقات یکسر تبدیل ہوئے۔ سلطان نے میواتی سرداروں کو اسلام قبول کرنے اور انہیں جاگیریں عطا کرنے کے ذریعے انہیں سلطنت کے ڈھانچے میں ضم کیا ۔ یہ فیروز شاہ کی حکمرانی کا ایک عملی مظاہرہ تھا، جس میں انہوں نے ایک باغی آبادی کو وفادار رعایا اور منتظمین میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ فوجی طاقت کے مسلسل استعمال کی بجائے، فیروز شاہ نے سیاسی اور سماجی انضمام کو ترجیح دی، جس سے ایک غیر مستحکم علاقے کو مستحکم کیا جا سکا۔ اس سے میواتیوں کی سماجی حیثیت میں بھی تبدیلی آئی، خاص طور پر خانزادوں کی، جو حکمران طبقہ بن گئے ۔  

فیروز شاہ کی میواتیوں کے تئیں پالیسی

فیروز شاہ کی پالیسی کا مقصد میوات کے علاقے کو کنٹرول میں لانا تھا، لیکن فوجی طاقت کے بجائے سیاسی اور سماجی انضمام کے ذریعے۔ اس پالیسی میں میواتی سرداروں کو جاگیریں اور القاب دینا شامل تھا، جس سے انہیں سلطنت کے وفادار اتحادیوں میں تبدیل کیا جا سکے ۔ جھیرکا کا نام فیروز پور میں تبدیل ہونا اس نئے انضمام اور شاہی اختیار کی علامت ہے۔ یہ پالیسی بعد میں اکبر کی پالیسیوں سے مماثلت رکھتی ہے، جس نے میو قبائل کو انتظامی خدمات میں شامل کیا، جیسے کہ ڈاک میورا (پوسٹ کیریئرز) اور خدمتیا (جاسوس اور محل کے محافظ) ۔ یہ حکمت عملی ظاہر کرتی ہے کہ فیروز شاہ نے علاقائی طاقت کے توازن اور مستقل تنازعہ پر تعاون کے طویل مدتی فوائد کو زیادہ گہرائی سے سمجھا تھا۔  

اسلام قبول کرنے کے سماجی و سیاسی اثرات

میواتی سرداروں کا اسلام قبول کرنا، خاص طور پر سمر پال (بہادر نہر) اور سوپر پال (چھجو خان) کا، ان کے لیے سیاسی طاقت اور جاگیریں حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بنا ۔ اس سے خانزادہ خاندان کا عروج ہوا، جسے میوات کی جاگیر عطا کی گئی، اور وہ دہلی سلطنت کے وفادار حکمران بن گئے ۔ خانزادوں نے میوات میں اسلامی ثقافت کو متعارف کرایا، مساجد اور مقبرے تعمیر کیے، اور اسلامی قانون (شریعت) کو نافذ کیا ۔  

تاہم، میو کمیونٹی کی ثقافت ہندومت اور اسلام کا ایک امتزاج رہی، جس میں ہندو رسم و رواج اور تہوار بھی شامل تھے ۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انضمام ایک تدریجی اور پیچیدہ عمل تھا، نہ کہ فوری یا مکمل ثقافتی تبدیلی۔ خانزادے سماجی طور پر میو سے برتر سمجھے جاتے تھے، حالانکہ دونوں مسلمان تھے ۔  

جدول 1: فیروز شاہ تغلق کے دور میں میواتی سردار اور ان کا انضمام

سردار کا نام (پہلے کا نام / اسلام قبول کرنے کے بعد کا نام)راجپوت قبیلہاسلام قبول کرنے کا سال (اگر دستیاب ہو)اسلام قبول کرنے کی وجہفیروز شاہ تغلق کا ردعمل (عطا کردہ جاگیر / لقب)اہم کردار / اثرات
سمر پال / بہادر خان (بہادر نہر)جادون راجپوت1355ء (تخمینہ)صوفی اثر، سیاسی فوائد، جان بچانا، جاگیریں حاصل کرنامیوات کی جاگیر عطا کی گئی، “نہر” کا خطاب، “خانزادہ” کا درجہخانزادہ نسل کے بانی، میوات کے حکمران، کوٹلہ بہادر نہر قلعہ تعمیر کیا
سوپر پال / چھجو خانجادون راجپوت1355ء (تخمینہ)صوفی اثر، سیاسی فوائد، جان بچانا، جاگیریں حاصل کرنامیوات کی جاگیر عطا کی گئیمیوات کے حکمران، خانزادہ خاندان کا حصہ
لکھن پال / نہر خانجادون راجپوتفیروز شاہ تغلق کا دورجاگیریں حاصل کرنانہر خان کا نام دیا گیاخانزادہ خاندان کے آباؤ اجداد میں سے
سمیتر پال / بہادر خانجادون راجپوتفیروز شاہ تغلق کا دورجاگیریں حاصل کرنابہادر خان کا نام دیا گیاخانزادہ خاندان کے آباؤ اجداد میں سے

جدول 2: دہلی سلطنت کے ساتھ میواتیوں کے تعلقات کا ارتقاء (مختلف سلاطین کے ادوار)

سلطان کا دورسلطان کا ناممیواتیوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیتاہم واقعات / مہمات (سال اور تفصیل)میواتیوں کا ردعمل / حیثیت
بلبن سے قبل (13ویں صدی کا وسط)مختلف سلاطینشورش، قانون و انتظام کا مسئلہمیواتیوں کی لوٹ مار دہلی کے دروازوں تکباغی، “شیطان کے لیے بھی دہشت”
1247ء-1266ءالغ خان (بلبن)شدید فوجی مہمات، جبر و استبداد1247ء: رانسی ران پال کے خلاف مہم ؛ 1260ء: شورش کچلنے کے لیے چار ماہ کی لوٹ مار، 10,000 ہلاک، 200 سردار قیدی ؛ 1265-66ء: سلطان بننے کے بعد بڑی مہم، 100,000 ہلاک ؛ قلعے، پولیس چوکیاں قائمشدید مزاحمت، بھاری جانی و مالی نقصان، عارضی طور پر دبا دیے گئے
فیروز شاہ تغلق کا دور (1351ء-1388ء)فیروز شاہ تغلقانضمام، مفاہمت، جاگیریں عطا کرنامیواتی سرداروں (سمر پال/بہادر نہر، سوپر پال/چھجو خان) کا اسلام قبول کرنا ؛ انہیں میوات کی جاگیر عطا کی گئی ؛ جھیرکا کا نام فیروز پور رکھا گیاخانزادہ خاندان کا عروج، سلطان کے وفادار حکمران، نیم خود مختار حیثیت

نتیجہ فکر

“تاریخ فیروز شاہی” (برنی اور عفیف دونوں کی تصانیف) میں میواتیوں کا ذکر دہلی سلطنت کے ساتھ ان کے تعلقات کی ایک ارتقائی تصویر پیش کرتا ہے۔ ابتدائی طور پر، میواتی ایک جنگجو اور شورش پسند قوم کے طور پر پیش کیے گئے، جو دہلی کے لیے ایک مسلسل خطرہ تھے ۔ بلبن کے دور میں ان کے خلاف شدید فوجی مہمات چلائی گئیں، جن کا مقصد انہیں مکمل طور پر کچلنا تھا ۔  

تاہم، فیروز شاہ تغلق کے دور میں ایک اہم تبدیلی آئی، جب سلطان نے فوجی کارروائیوں کے بجائے انضمام کی پالیسی اپنائی۔ اس پالیسی کے تحت میواتی سرداروں، خاص طور پر سمر پال (بہادر نہر) اور سوپر پال (چھجو خان) کا اسلام قبول کرنا، صوفی بزرگوں کے اثر اور سیاسی فوائد کے حصول کے لیے ایک اہم واقعہ تھا ۔ اس کے نتیجے میں خانزادہ خاندان کا عروج ہوا، جسے میوات کی جاگیر عطا کی گئی، اور وہ دہلی سلطنت کے وفادار حکمران بن گئے ۔  

برنی کی “تاریخ فیروز شاہی” میواتیوں کی شورش پسندی اور دہلی سلطنت کے ساتھ ان کے ابتدائی تنازعات کا عمومی سیاق و سباق فراہم کرتی ہے، جو بلبن کے دور تک پھیلا ہوا ہے ۔ اس کے برعکس، عفیف کی “تاریخ فیروز شاہی” فیروز شاہ تغلق کے دور میں میواتیوں کے انضمام، ان کے اسلام قبول کرنے اور خانزادہ خاندان کے قیام کے بارے میں زیادہ تفصیلی اور مخصوص معلومات فراہم کرتی ہے ۔ لہٰذا، دونوں کتابیں ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں: برنی پس منظر فراہم کرتا ہے، جبکہ عفیف فیروز شاہ کے دور میں میواتیوں کے ساتھ تعلقات کی گہرائی میں جاتا ہے۔  

“تاریخ فیروز شاہی” اور دیگر معاون ماخذ سے میواتی-سلطنت تعلقات کا یہ بیان ریاستی پالیسی کے ارتقاء کو واضح کرتا ہے۔ یہ ابتدائی دور کی تعزیری، اکثر نسل کشی پر مبنی، فوجی مہمات (بلبن کا دور) سے ایک زیادہ نفیس حکمت عملی کی طرف بڑھتا ہے جس میں سیاسی اور مذہبی انضمام (فیروز شاہ کا دور) شامل تھا ۔ یہ ارتقاء اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سلطنت نے اپنی ماضی کی ناکامیوں سے سبق سیکھا اور طویل مدتی استحکام اور حکمت عملی کے لحاظ سے اہم لیکن مشکل علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنی حکمرانی کو ڈھالا۔ فیروز شاہ کی پالیسی نے مستقل جنگ کے بجائے مقامی قیادت کو شامل کر کے وفاداری اور استحکام حاصل کرنے کی کوشش کی، جو بعد کی ہندوستانی سلطنتوں کے لیے ایک اہم مثال بنی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Instagram