بھوک کی اہمیت
تعلیمات قرآنی اور طب نبویﷺ کی روشنی میں
بھوک کی اہمیت
تعلیمات قرانی اور طب نبویﷺ کی روشنی میں۔
تحریر:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺکاہنہ نو لاہور پاکستان
جس وقت نزول قران ہورہا تھا اس وقت مسلمانوں کی اقتسادی و معاشی حالت بہت کمزور تھی،بکثرت غرباء داخل اسلام ہورہے تھے،وہ لوگ جب اپنے ابائی دین کو خیر آباد کہتے تو ساتھ میں اس سے جڑی ہر چیز کو خیر آباد کہنا ہوتا تھا ،ان میں زمین و جائیداد۔ذرائع آمدن سب ہی کچھ ہوتا تھا۔صاحب استطاعت لوگ بھی مفلوک الحالی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔فقر و فاقہ عام بات تھی۔اسلام نے ان لوگوں کو سہارا دینا تھا،ان کی حوصلہ افزائی کرنی تھی،انہیں کس کے بھروسے چھوڑا جاتا؟ اس لئے اس وقت کے جو احکامات نازل ہوئے ان پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے اس وقت کی بھوک و افلاس والی زندگی کا نقشہ سامنے آتا ہے۔ گناہوں کا کفارہ بھوکوں کو کھانا کھلانا تجویز کیا جاتا تھا۔(صفحہ 26)
{ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ} [المائدة: 89]
کہ جیسا کھانا تم گھروں میں کھاتے ہو تمہاری قسم کا کفارہ یہ ہے دس غرباء کو وہی کھانا کھلادو۔
اگر گھروں میں کچھ اناپ شناپ باتیں ہوجائیں تو اس کا کفارہ بھی غرباء کا کھانا ہے۔
{فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا} [المجادلة: 4]۔
نیک لوگوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
{وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا (8) } [الإنسان: 8، 9]
صلہ رحمی کے اوساف میں صف اول کی چیز وہی غریب کا پیٹ بھرکر کھانا قرار دیا گیا۔
{أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ (14)} [البلد: 14]
گر مناسب حج میں کوئی غلطی ہوجائے تو بھی بھوکے کو کھانا کھلانا۔
{أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ} [المائدة: 95]
بھوک اور انسانی تکالیف کا ادراک وہی کرسکتا ہے جس پر یہ گھڑیاں بیتی ہوں،نئے ہونے والے مسلمان مالی و اقتصادی لحاظ سے بہت کمزور تھے۔آج کے دور میں وہ مجبوریاں سمجھ میں نہیں آسکتیں جن سے وہ لوگ دوچار تھے۔کچھ تو ایسا تھا جسے اتنا اہم سمجھا گیا اور اسے نیکیوں کا منبع بتایا گیا۔ مختصر سے الفاظ پر مشتمل اھادیث میں دکھی انسانیت کا وہ درد سمو دیا گیا ہے جو بھی اسے سمجھ لے گا اسے انسانیت کا دکھ درد سمجھ میں آجائے گا۔
عن ابي موسى الاشعري رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اطعموا الجائع، وعودوا المريض، وفكوا العاني» . قال سفيان والعاني الاسير.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں منصور نے ان سے ابووائل نے بیان کیا، اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھوکے کو کھلاؤ پلاؤ، بیمار کی مزاج پرسی کرو اور قیدی کو چھڑاؤ۔ سفیان ثوری نے کہا کہ (حدیث میں) لفظ «عاني» سے مراد قیدی ہے۔صحيح البخاري (7/ 67)سنن أبي داود (3/ 187)
عرب کے وحشت ذدہ اور اکھڑ لوگوں میں انس پیدا کرنے اور ناداروں سے تعاون کی فضا ء کو یوں کہہ کر ترغیب دی
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ؟ قَالَ: «تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ، وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ.۔صحيح مسلم (1/ 65)
ایک آدمی نے اسلام کی خوبی کے بارہ میں سوال کیا تو رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا،(بھوکے کو)کھانا کھلائو۔ہر کسی کو سلام کرو واقف ہو یا اجنبی۔یعنی سلام کو عام کرو جاننے والوں کو تو ہر کوئی سلام کرتا ہے۔خوبی اسلام تو یہ ہے کہ بغیر پہنچان والوں کو بھی سلام کیا جائے ،تاکہ معاشرہ کی وحشت دور ہو اپنایت کی فضاء قائم ہو۔آپ اندازہ کرسکتے ہیں کتنی عسرت و تنگی کا دور ہوگا جب یہ حکم دیا گیا تھا۔
عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کی کہ اصحاب صفہ نادار مسکین لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے (اصحاب صفہ میں سے کسی) کو اپنے ساتھ لیتا جائے۔ اور جس کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہے تو وہ پانچویں یا چھٹے آدمی کو سائبان والوں میں سے اپنے ساتھ لے جائے۔صحيح البخاري (1/ 124)الجامع الصحيح للسنن والمسانيد (12/ 25)المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة (19/ 45)
ضیافۃ و مہمان نوازی عر ب لوگوں میں بہت زیادہ تھی لیکن حالات کے پیش نظر اس بارہ میں بہترین قواعد ارشاد فرمادئے کہ معاشرتی معاملات یوں ہی چلتے رہیں مگر گھریلو حالات اور دستیاب وسائل کو بہتر انداز میں تمدنی ترقی کے لئے بروئے کار لایا جاسکے۔
ابوشریح کعبی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ضیافت (مہمان نوازی) تین دین تک ہے، اور مہمان کا عطیہ (یعنی اس کے لیے پرتکلف کھانے کا انتظام کرنا) ایک دن اور ایک رات تک ہے، اس کے بعد جو کچھ اس پر خرچ کیا جائے گا وہ صدقہ ہے، مہمان کے لیے جائز نہیں کہ میزبان کے پاس (تین دن کے بعد بھی) ٹھہرا رہے جس سے اپنے میزبان کو پریشانی و مشقت میں ڈال دے“«صحیح البخاری/الأدب 31 (6019)، و 85 (6135)، والرقاق 23 (6476)، سنن ابی داود/ الأطعمة 5 (3748)، سنن ابن ماجہ/الأدب 5 (3675) (تحفة الأشراف: 2056) و موطا امام مالک/صفة النبي ﷺ 10 (22)، و مسند احمد (4/31)، و (6/384)، و سنن الدارمی/الأطعمة 11 (2078) (صحیح)
کھانے پینے کے آداب۔
کھانا کھلانا اور مہمان نوازی عربوں کی روایت تھی جسے اسلام نے خوبصورت سانچے میں ڈھالا،وہ لوگ مہمان کو ذاتی وجاہت کا ذریعہ سمجھتے تھے عمومی طورپر یہ کام صاحب ثروت لوگوں کا تھا غرباء کے لئے اس میدان میں گنجائش کم تھی۔لیکن اسلام نے اسے خوبصورت انداز میں باقی رکھا،جو میسر تھا اسی کو ثواب کے زمرے میں شامل کردیا، کھانے پینے کے آداب بتائے۔ کس طرح بیٹھنا ہے کونسے انداز ممنوع ہیں۔یک لگاکر نہ کھائیں۔کھاتے وقت تواضع اختیار کی جائے۔جب کہ اس قسم کے قواعد و ضوابط موجود نہ تھے ،لوگ نئے انداز زندگی سے اس قدر مانوس نہ تھے۔ایک آدمی نے رسول اللہﷺکو کھانے کے لئے بیٹھے ہوئے دیکھا تو سوال کردیا۔یہ کیا طریقہ ہے ؟تو ارشاد فرمایا:عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بکری ہدیہ کے طور پر بھیجی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے کھانے لگے، اس پر ایک اعرابی (دیہاتی) نے کہا: بیٹھنے کا یہ کون سا انداز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن الله جعلني عبدا كريما، ولم يجعلني جبارا عنيدا ”اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مہربان و شفیق بندہ بنایا ہے، ناکہ مغرور اور عناد رکھنے والا“ سنن أبي داود (3/ 349)شعب الإيمان (8/ 36)لأحاديث المختارة = المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما (9/ 92)
ایک مرتبہ گھر میں کسی بچے کو دیکھا جو صدقہ کی کھجور اُٹھا کر منہ میں لے گیا تھا تو آپ ﷺ نے کہا بخ بخ کہ پھینک دے یہ ہمارے لئے درست نہیں ہے ہمارے صدقہ کھانا جائز نہیں ہے [احمد۲۲۷۴۳]اسی طرح اپنے ربیب کو نبی ﷺنے ساتھ کھانا کھلایا تو اسنے درمیان میں ہاتھ ڈالا آپ ﷺ نے سمجھایا کہ برتن کے درمیان میں ہاتھ نہیں ڈالا کرتے اپنی طرف سے کھاتے ہیں اور بسم اللہ پڑھ کر کھاتے ہیں[مسلم۳۷۶۴۔ ترنذ ی ۱۷۲۱۔ابودائود۳۲۰۳ ۔مالک۱۴۳۹۔ا حمد ۹ ۰ ۳ ۴ {کھانے کے بعد کے آداب۔شکر ادا کرنا}
حضرت انس بن مالک فرماتے رسول اللہﷺ نے فرمایا اللہ اس بندے سے راضی ہوتا ہے جس نے کھانے کی چیز کھاکر شکر ادا کیا اور پینے والی چیز کو پی کر شکر ادا کیا(صحیح مسلم باب استحباب حمد اللہ3095/4مصنف ابن ابی شیبہ138/5المسند الجامع83/2)کھانا بسم اللہ سے شروع فرماتے اور آخر میں یہ دعا پڑھتے تھے الحمداللہ الذی حمداً طیباً مبارکاً فیہ غیر مکفی ولامودع ولا مستغنی عنہ ربنا اور کبھی یوں حمد فرماتے الحمداللہ الذی یطعمن من علینا فھدانا والمعمنا واسقانا وکل بلاء حسن ابلائالحمد اللہ الذی اطعم من الطعام وسقی من الشراب اکسی من العری وھدی من الضلالۃ وبصر من العمی وفضل علی کثیر ممن خلق تفضیلا الحمداللہ رب العالمین یعنی سب تعریف اللہ کے لئے ہے جو کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا ہم پر اس نے احسان کیا کہ ہمیں ہدایت دی ہمیں کھلایا اور ہمیں پلایا اور اچھی آزمائش میں ڈالا سب تعریف اللہ کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور تن ڈھانپنے کو لباس دیا اور گمراہی میں ہدایت دی دیدہ کور کو بصارت دی اور اپنی کثیر خلق پر شرف عطاء فرمایا سب تعریف اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے اور کبھی کبھی یوں پڑھا کرتے تھے الحمد اللہ الذی اطعم و سقی ومسوعنہ یعنی سب تعریف اللہ کے لئے ہیں اسنے کھلایا اور پلایا اور خالص کردیا ۔
{پینے کے آداب}
پینے کی چیزوں میں میٹھا پانی پسندیدہ تھا [احمد۱ ۷ ۹ ۲۲] بطور خاص دو روز کی مسافت سے منگوایا جاتا تھا دودھ اور دودھ ملا پانی[کچی لسی][بخاری باب الکرع فی الحوض111/7 صحیح ابن حبان ذکر اباحۃ فی القداح134/12]اور شہد کا شربت بھی رغبت سے نوش فر ماتے تھے بھی پتھر کے برتن میں کھجوریں بھگو دیں جاتی تھیں اسے سارا دن استعمال فرماتے تھے غیر نشہ آور نبیذ بھی قرین ذوق تھی اگر وقت کے ساتھ ساتھ نشہ پیدا ہونے اندیشہ پیدا ہوجاتا اسے پھنکوادیتے کیونکہ آپ ﷺ فرمان ہے میری امت میں سے بعض لوگ شراب پیئں گے لیکن اس کانام بدل کر کچھ اور رکھ دیں گے [بعد میں ایسا ہوا]میز پر بیٹھ کر کھانا کھانا ناپسند فرماتے تھے خواہ مخواہ کے لوازمات جو امراء کے دستر خوان کی زینت ہوتے ہیں خلاف مزاج تھے سونے چاندی کے برتن بھی منع فرمائے کانچ لکڑی تانبے کے برتن استعمال فرمایا کرتے تھے ہاتھ دھوکر جوتے اتار کر بیٹھتے تھے فرمایا اذ اوضع الطعام فاخلعو نعالکم فانہ اروھ الاقدا مکم [ صحیح ابن حبان 271/12 السنن الکبری للنسائی118/1مشکوۃ ص۸ ۶ ۳ ] سیدھے ہاتھ سے کھانا لیتے اپنی طرف سے لقمہ اٹھاتے [مسلم۳۷۶۴ ۔ ترنزی۷۲۱ ۱ ۔ ابودائود۳۲۰۳۔مالک۱۴۳۹۔احمد۴۳۰۹] برتن کے وسط میں ہاتھ نہ ڈالتے ٹیک لگا کر کھانا بھی خلاف معمول تھا دوزانوں یا اکڑوں بیٹھ کر کھاتے ہر لقمہ پر بسم اللہ پڑھتے [ترمزی الاطعمہ]نا پسندیدہ کھانا بغیر عیب نکالے چھوڑ دیتے تھے زیادہ گرم نہ کھا تے فرمایا گرم گرم کھانے میں برکت نہیں ہوتی کبھی کبھی پکا ہوا گوشت چھری سے کاٹ کر بھی کھایا مگر پر تکلف طریقہ پسند نہ تھا [بخاری و مسلم] کھانا ہمیشہ تین انگلیوں سے لیتے انہیں لتھڑ نے نہ دیتے آخر میں انہیں چاٹ لیا کرتے تھے [ترمذی الاطعمہ]حضرت ابی ہریرہؓ سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو آدمی کھانے سے آلودہ ہاتھوں کے ساتھ سوگیا دھوئے نہیں اسے کوئی نقصان پہنچا وہ کسی کو ذمہ دار نہ ٹہرائے سوائے اپنے نفس ہے(سنن ابی داؤد باب فی غسل الید من الطعام366/3)
”