- Home
- Uncategorized
- بچوں میں دانتوں ...


بچوں میں دانتوں کے امراض اور ان کا غذائی تدارک
فہرستِ مضامین
تعارف
بچوں کی دہنی صحت کی اہمیت
رپورٹ کا مقصد
حصہ اول: بچوں کے دانتوں کی صحت کی بنیادیں: نشوونما سے لے کر غذائیت تک
2.1 دودھ کے دانتوں کی اہمیت: عارضی نہیں، بنیادی
2.2 دانت نکلنے کا عمل (Teething): غلط فہمیاں اور تدارک
2.3 پیدائش سے قبل اور ابتدائی غذائیت کا کردار
حصہ دوم: بچوں میں دانتوں کے عام امراض: وجوہات، علامات اور شناخت
3.1 دانتوں کا سڑنا (Dental Caries): خاموش وبا
3.2 مسوڑھوں کی سوزش (Gingivitis): نظر انداز کیا جانے والا خطرہ
3.3 دیگر عام مسائل
دانتوں کی بے ترتیبی (Malocclusion)
دانت پیسنا (Bruxism)
دانتوں کی حساسیت (Sensitivity)
3.4 جدول: بچوں کے عام دہنی امراض کا خلاصہ
حصہ سوم: غذائیت کا دوہرا کردار: دانتوں کی تعمیر اور تحفظ
4.1 مضبوط دانتوں کے لیے ضروری غذائی اجزاء
معدنیات (کیلشیم، فاسفورس)
وٹامنز (D، C، A، K2)
4.2 دانتوں کے دشمن: نقصان دہ غذائیں اور مشروبات
بچوں میں دانتوں کے امراض اور ان کا غذائی تدارک
والدین کے لیے ایک جامع رپورٹ
بچوں کی مجموعی صحت اور نشوونما کا انحصار بہت سے عوامل پر ہوتا ہے، جن میں دہنی صحت (oral health) کو ایک بنیادی ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ اکثر والدین دانتوں کے مسائل کو محض ایک مقامی تکلیف سمجھتے ہیں، لیکن طبی تحقیقات یہ ثابت کرتی ہیں کہ منہ کی صحت پورے جسم کی صحت کا آئینہ دار ہوتی ہے۔ دانتوں میں سڑن، مسوڑھوں کی سوزش اور دیگر امراض نہ صرف بچے کے لیے شدید درد اور تکلیف کا باعث بنتے ہیں، بلکہ اس کی غذائیت، نشوونما، بولنے کی صلاحیت اور خود اعتمادی پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس جامع رپورٹ کا مقصد والدین کو بچوں میں دانتوں کے عام امراض، ان کی وجوہات، اور خاص طور پر غذائیت کے ذریعے ان کے تدارک کے بارے میں سائنسی شواہد پر مبنی معلومات فراہم کرنا ہے۔
حصہ 1: بچوں کے دانتوں کی صحت کی بنیادیں: نشوونما سے لے کر غذائیت تک
بچوں کے دانتوں کی صحت کا سفر ان کی پیدائش سے بھی پہلے شروع ہو جاتا ہے۔ اس کی بنیادوں کو سمجھنا والدین کو مستقبل کے کئی مسائل سے بچا سکتا ہے۔
دودھ کے دانتوں کی اہمیت: عارضی نہیں، بلکہ بنیادی
ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ دودھ کے دانت (Primary Teeth) چونکہ عارضی ہوتے ہیں اور آخرکار گر جاتے ہیں، اس لیے ان کی دیکھ بھال اتنی ضروری نہیں 1۔ یہ تصور نہ صرف غلط بلکہ انتہائی خطرناک بھی ہے۔ یہ سوچ والدین کے رویے پر اثرانداز ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ ابتدائی سالوں میں صفائی اور غذائی عادات پر وہ توجہ نہیں دیتے جس کی ضرورت ہوتی ہے۔ دودھ کے دانت محض عارضی نہیں، بلکہ مستقل صحت کی بنیاد ہیں۔ ان کے اہم کردار درج ذیل ہیں:
غذائیت اور ہاضمہ: بچے اپنی خوراک کو چبانے اور ہضم کرنے کے لیے ان ہی دانتوں پر انحصار کرتے ہیں 1۔
بولنے کی صلاحیت: دانت الفاظ کی واضح ادائیگی اور بول چال کی نشوونما میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں 3۔
چہرے کی ساخت: یہ جبڑے کی ہڈی کی مناسب نشوونما اور چہرے کی ساخت کو برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں 3۔
مستقل دانتوں کے لیے جگہ: ان کا سب سے اہم کام مستقل دانتوں کے لیے جگہ محفوظ رکھنا ہے 1۔ اگر دودھ کا دانت کیڑا لگنے یا کسی اور وجہ سے وقت سے پہلے گر جائے تو اس کے آس پاس کے دانت خالی جگہ کی طرف کھسکنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے مستقل دانت کے نکلنے کی جگہ تنگ ہو جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ ٹیڑھا، دوسرے دانتوں پر چڑھا ہوا یا غلط جگہ پر نکلتا ہے 5۔ اس مسئلے کے حل کے لیے بعد میں مہنگے آرتھوڈانٹک علاج (بریسس) کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
مستقل دانتوں کا تحفظ: اگر دودھ کے دانت میں انفیکشن شدید ہو جائے اور اس کا علاج نہ کیا جائے تو یہ مسوڑھوں کے نیچے موجود مستقل دانت کے غنچے (bud) کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے، جس سے مستقل دانت کمزور، بدشکل یا خراب ساخت کے ساتھ نکلتا ہے 2۔
لہٰذا، دودھ کے دانتوں کو نظرانداز کرنا ایک ایسا بیج بونے کے مترادف ہے جس کی فصل مستقبل میں مستقل دانتوں کی خرابی، مہنگے علاج اور بچے کی خود اعتمادی میں کمی کی صورت میں کاٹنی پڑتی ہے۔
دانت نکلنے کا عمل (Teething): درد، عام غلط فہمیاں، اور محفوظ تدارک
دانت نکلنے کا عمل، جسے عام زبان میں دانت نکالنا یا پھوٹنا بھی کہتے ہیں، عموماً بچے کی 6 ماہ کی عمر میں شروع ہوتا ہے۔ تاہم، اس میں 3 سے 12 ماہ کی عمر تک کا فرق معمول کی بات ہے اور پریشانی کا باعث نہیں 6۔ اس کی عام علامات میں مسوڑھوں میں لالی اور سوجن، بچے کا چڑچڑا اور بے چین ہونا، اور ہر ٹھوس چیز کو چبانے کی شدید خواہش شامل ہیں 6۔
ایک اہم نکتہ جس پر طبی ماہرین زور دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ دانت نکلنے کے عمل سے تیز بخار یا اسہال (diarrhea) نہیں ہوتا 6۔ اگر بچے میں یہ علامات ظاہر ہوں تو یہ کسی اور بیماری کی نشاندہی ہو سکتی ہے اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
یہ مرحلہ والدین کے لیے پہلی عملی آزمائش ہے کہ وہ اپنے بچے کی دہنی صحت کے بارے میں کتنے باشعور ہیں۔ بچے کی تکلیف کو کم کرنے کے لیے فوری حل کی تلاش میں والدین اکثر آسان مگر نقصان دہ راستے اختیار کر لیتے ہیں۔ بچے کو چپ کروانے کے لیے بوتل میں میٹھے مشروبات جیسے جوس یا فارمولا دودھ دینا دانتوں کی خرابی (Baby Bottle Tooth Decay) کا باعث بن سکتا ہے 6۔ اسی طرح، بازاری کریموں اور جیلز کے استعمال سے بھی گریز کرنا چاہیے کیونکہ ان کی افادیت مشکوک ہے اور ان میں موجود بے حسی پیدا کرنے والے اجزاء بچے کے گلے کو سُن کر کے نگلنے میں دشواری پیدا کر سکتے ہیں 6۔
اس کے برعکس، محفوظ اور صحت مند طریقوں میں شامل ہیں:
بچے کو چبانے کے لیے صاف اور ٹھنڈی (منجمد نہیں) اشیاء دینا، جیسے ٹھنڈا کپڑا، ٹھنڈا چمچ، یا ٹھنڈی گاجر یا کھیرے کا ٹکڑا 8۔ منجمد (frozen) اشیاء مسوڑھوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، اس لیے ان سے پرہیز کریں 9۔
صاف انگلی سے بچے کے مسوڑھوں پر ہلکا مساج کرنا 8۔
پیدائش سے قبل اور ابتدائی غذائیت کا کردار: صحت مند دانتوں کی تعمیر ماں کے پیٹ میں
بچے کے دانتوں کی صحت کا سفر اس کی پیدائش سے بھی پہلے، ماں کے رحم میں شروع ہو جاتا ہے۔ دانتوں کے غدود حمل کے تیسرے ماہ میں ہی بننا شروع ہو جاتے ہیں 10۔ اس دوران ماں کی غذا کا براہِ راست اثر بچے کے دانتوں کی ساخت اور مضبوطی پر پڑتا ہے۔ اگر حاملہ ماں کی غذا میں کیلشیم، فاسفورس، وٹامن ڈی اور دیگر ضروری اجزاء کی کمی ہو تو بچے کے دودھ کے دانت اور مستقل دانت دونوں کی بیرونی تہہ (enamel) کمزور رہ جاتی ہے 10۔
یہ کمزور انیمل پیدائشی طور پر تیزاب کے حملے کے خلاف کم مزاحمت رکھتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بچہ جب بڑا ہو کر شکر والی غذائیں کھائے گا تو اس کے دانتوں میں کیڑا لگنے کا امکان اس بچے سے کہیں زیادہ ہو گا جس کی ماں نے حمل کے دوران متوازن غذا لی تھی۔ اس طرح دانتوں کی کمزوری محض ناقص صفائی کا نتیجہ نہیں رہتی، بلکہ ایک طرح سے “وراثتی” کمزوری بن جاتی ہے جو ماں کی غذائیت سے منتقل ہوتی ہے۔
پیدائش کے بعد، ماں کا دودھ بچے کے لیے ایک مکمل غذا ہے۔ یہ نہ صرف بہترین غذائیت فراہم کرتا ہے بلکہ دودھ چوسنے کا عمل بچے کے جبڑے کی صحیح نشوونما میں بھی مدد دیتا ہے، جس سے دانت سیدھے نکلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں 10۔ اس کے برعکس، فیڈر یا بوتل کے ذریعے بار بار میٹھے مائعات (جیسے فارمولا دودھ، جوس) دینا، خاص طور پر رات کو سوتے وقت، بچوں میں دانتوں کی شدید سڑن کا سب سے بڑا سبب ہے 2۔
حصہ 2: بچوں میں دانتوں کے عام امراض: وجوہات، علامات اور شناخت
والدین کے لیے دانتوں کے امراض کی علامات کو بروقت پہچاننا انتہائی ضروری ہے تاکہ ابتدائی مراحل میں ہی ان کا تدارک کیا جا سکے۔
2.1 دانتوں کا سڑنا (Dental Caries/Cavities): خاموش وبا
دانتوں میں کیڑا لگنا یا سڑن (جسے کیویٹی بھی کہا جاتا ہے) بچوں میں سب سے عام دائمی بیماری ہے۔ اسے محض دانت میں ایک سوراخ سمجھنا ایک سنگین غلطی ہے۔ یہ درحقیقت ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے جو متعدی اور وقت کے ساتھ بڑھنے والا ہوتا ہے 12۔
وجوہات:
غذائی عوامل: شکر اور نشاستہ سے بھرپور غذائیں جیسے کینڈی، چاکلیٹ، بسکٹ، چپس، اور خاص طور پر میٹھے مشروبات (جوس، سوڈا) منہ میں موجود نقصان دہ بیکٹیریا (مثلاً Streptococcus mutans) کے لیے خوراک کا کام کرتی ہیں 11۔ یہ بیکٹیریا ان غذاؤں کو ہضم کر کے تیزاب پیدا کرتے ہیں، جو دانتوں کی مضبوط بیرونی تہہ (enamel) سے معدنیات کو تحلیل کر دیتا ہے، جس سے دانت کمزور ہو جاتے ہیں 13۔
ناقص صفائی: روزانہ برش اور فلاس نہ کرنے سے دانتوں پر پلاک (Plaque) کی ایک چپچپی، بے رنگ تہہ جم جاتی ہے۔ یہ تہہ بیکٹیریا کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کا کام کرتی ہے اور انہیں دانت کی سطح سے چپکے رہنے میں مدد دیتی ہے 11۔
بیکٹیریا کی منتقلی: کیڑا لگانے والے یہ بیکٹیریا والدین یا دیکھ بھال کرنے والے دیگر افراد کے لعاب (saliva) کے ذریعے بچے کے منہ میں آسانی سے منتقل ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، بچے کا چمچ یا کھانا چکھنے کے لیے استعمال کرنا، یا بچے کی چوسنی (pacifier) کو اپنے منہ سے صاف کر کے اسے دینا، یہ سب بیکٹیریا کی منتقلی کا باعث بنتے ہیں 4۔
علامات کا ارتقاء:
دانتوں کی سڑن کا عمل مراحل میں ہوتا ہے، اور ہر مرحلے کی اپنی علامات ہیں:
ابتدائی مرحلہ (Demineralization): سب سے پہلی علامت دانت کی سطح پر سفید، چاک جیسے دھبوں (white spots) کا نمودار ہونا ہے 11۔ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ تیزاب کے حملے کی وجہ سے انیمل سے معدنیات (کیلشیم، فاسفورس) ضائع ہو رہی ہیں۔ یہ مرحلہ قابلِ واپسی (reversible) ہے اور اچھی صفائی اور فلورائیڈ کے استعمال سے اسے روکا جا سکتا ہے۔
درمیانی مرحلہ (Enamel Decay): اگر سڑن کا عمل جاری رہے تو یہ سفید دھبے بھورے یا سیاہ رنگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں 11۔ اس مرحلے پر انیمل میں ایک مستقل سوراخ یا کیویٹی بن جاتی ہے۔
شدید مرحلہ (Dentin and Pulp Decay): جب سڑن انیمل سے گزر کر دانت کی اندرونی اور حساس تہہ (dentin) تک پہنچ جاتی ہے، تو بچے کو ٹھنڈی، گرم یا میٹھی چیزیں کھانے پر حساسیت یا ہلکا درد محسوس ہوتا ہے 14۔ اگر اس مرحلے پر بھی علاج نہ کیا جائے تو انفیکشن دانت کے مرکزی حصے یعنی گودے (pulp) تک پہنچ جاتا ہے، جہاں اعصاب اور خون کی نالیاں ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں شدید اور مسلسل درد، مسوڑھوں میں سوجن، اور پیپ والا پھوڑا (abscess) بن سکتا ہے 11۔
یہ انفیکشن محض دانت تک محدود نہیں رہتا۔ شدید صورتوں میں یہ خون کے ذریعے جسم کے دیگر حصوں میں پھیل کر بچے کو شدید بیمار کر سکتا ہے اور اس کی مجموعی صحت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے 2۔
2.2 مسوڑھوں کی سوزش (Gingivitis): نظر انداز کیا جانے والا خطرہ
مسوڑھوں کی سوزش (گنگیوائٹس) دانتوں کی بیماری کا ابتدائی مرحلہ ہے، جس کی بنیادی وجہ دانتوں اور مسوڑھوں کے سنگم پر پلاک کا جمع ہونا ہے 17۔ بہت سے والدین برش کرتے وقت مسوڑھوں سے ہلکا سا خون آنے کو معمول کی بات سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں، جبکہ یہ درحقیقت ایک بیماری کی واضح انتباہی علامت ہے۔
وجوہات: ناقص دہنی صفائی، وٹامن سی کی کمی، اور کچھ طبی حالتیں اس کا خطرہ بڑھا دیتی ہیں 14۔
علامات: اس کی عام علامات میں مسوڑھوں کا سرخ ہونا، سوجنا، نرم پڑ جانا، اور خاص طور پر برش کرتے یا کچھ کھاتے وقت خون بہنا شامل ہیں 14۔
نتائج: گنگیوائٹس ایک قابلِ علاج اور قابلِ واپسی حالت ہے۔ تاہم، اگر اسے نظرانداز کیا جائے تو یہ پیریڈونٹائٹس (Periodontitis) میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ یہ ایک سنگین اور ناقابلِ واپسی بیماری ہے جس میں انفیکشن مسوڑھوں سے پھیل کر اس ہڈی کو تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے جو دانتوں کو سہارا دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں دانت ڈھیلے ہو کر وقت سے پہلے گر جاتے ہیں 3۔
2.3 دیگر عام مسائل: دانتوں کی بے ترتیبی، پیسنا، اور حساسیت
دانتوں کی بے ترتیبی (Malocclusion): دانتوں کا ٹیڑھا میڑھا ہونا یا جبڑوں کا صحیح طرح سے نہ ملنا ایک عام مسئلہ ہے۔ اس کی وجوہات میں جینیاتی عوامل، انگوٹھا چوسنے کی دیرینہ عادت، یا طویل عرصے تک چوسنی کا استعمال شامل ہیں 10۔ اس سے نہ صرف چبانے اور بولنے میں دشواری ہوتی ہے بلکہ دانتوں کی صفائی بھی مشکل ہو جاتی ہے، جس سے کیویٹیز کا خطرہ بڑھ جاتا ہے 14۔
دانت پیسنا (Bruxism): نیند میں یا دن میں دانت پیسنے یا بھینچنے کی عادت بچوں میں عام ہے اور اکثر وقت کے ساتھ خود ہی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر یہ عادت برقرار رہے تو اس سے دانتوں کی سطح گھس سکتی ہے اور ان میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں 14۔
دانتوں کی حساسیت (Sensitivity): ٹھنڈی، گرم، میٹھی یا تیزابی غذائیں کھانے پر دانتوں میں تیز، چبھتی ہوئی تکلیف کا احساس ہونا حساسیت کہلاتا ہے۔ اس کی وجہ اکثر انیمل کا گھس جانا یا مسوڑھوں کا اپنی جگہ سے نیچے کھسکنا ہوتا ہے، جس سے دانت کی اندرونی حساس تہہ (dentin) بے نقاب ہو جاتی ہے 14۔
جدول 1: بچوں کے عام دہنی امراض کا خلاصہ
بیماری کا نام | اہم علامات | بنیادی وجوہات | ممکنہ نتائج (اگر علاج نہ ہو) |
دانتوں کا سڑنا (Caries) | سفید/بھورے دھبے، ٹھنڈا/گرم لگنا، درد، سوراخ | شکر والی غذائیں، ناقص صفائی، بیکٹیریا | شدید درد، انفیکشن (abscess)، دانت کا گرنا، غذائی مسائل |
مسوڑھوں کی سوزش (Gingivitis) | مسوڑھوں میں سرخی، سوجن، برش کرتے وقت خون آنا | پلاک کا جمع ہونا، ناقص صفائی | پیریڈونٹائٹس، دانتوں کو سہارا دینے والی ہڈی کا نقصان، دانتوں کا گرنا |
دانتوں کی بے ترتیبی (Malocclusion) | ٹیڑھے میڑھے دانت، اوور بائٹ، انڈر بائٹ | جینیات، انگوٹھا چوسنا، چوسنی کا استعمال | چبانے میں مشکل، صفائی میں دشواری، خود اعتمادی میں کمی |
دانتوں کی حساسیت (Sensitivity) | ٹھنڈی، گرم، میٹھی یا تیزابی اشیاء سے تکلیف | انیمل کا گھسنا، مسوڑھوں کا سکڑنا، کیویٹیز | کھانے پینے میں تکلیف، معیارِ زندگی میں کمی |
حصہ 3: غذائیت کا دوہرا کردار: دانتوں کی تعمیر اور تحفظ
غذائیت کا کردار دہنی صحت میں دوہرا ہے۔ ایک طرف، یہ مضبوط دانتوں اور مسوڑھوں کی تعمیر کے لیے خام مال فراہم کرتی ہے، اور دوسری طرف، غلط غذائی انتخاب دانتوں کی تباہی کا سب سے بڑا سبب بنتا ہے۔
3.1 مضبوط دانتوں کے لیے ضروری غذائی اجزاء: دہنی صحت کے معمار
دانتوں کی صحت کے لیے صرف کیلشیم ہی نہیں بلکہ کئی وٹامنز اور معدنیات کا ایک ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہے۔ یہ ایک ٹیم ورک کی طرح ہے؛ ایک جزو کی کمی دوسرے کی افادیت کو کم کر سکتی ہے۔
معدنیات (Minerals):
کیلشیم اور فاسفورس: یہ دانتوں اور ہڈیوں کے بنیادی تعمیراتی اجزاء ہیں۔ کیلشیم دانتوں کی بیرونی تہہ (انیمل) کو سخت اور مضبوط بناتا ہے 22۔ ان کے بہترین ذرائع میں دودھ، پنیر، دہی، پالک، بادام اور تل کے بیج شامل ہیں 22۔
وٹامنز (Vitamins):
وٹامن D: یہ ایک انتہائی اہم وٹامن ہے جو جسم کو کیلشیم جذب کرنے میں مدد دیتا ہے۔ وٹامن ڈی کے بغیر خوراک میں موجود کیلشیم کا بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے اور دانتوں تک نہیں پہنچ پاتا 22۔ اس کے حصول کے بہترین ذرائع دھوپ، چربی والی مچھلی (جیسے سالمن)، انڈے اور فورٹیفائیڈ دودھ ہیں 28۔
وٹامن C: یہ مسوڑھوں کو صحت مند رکھنے، ان میں خون کی نالیوں کو مضبوط بنانے اور کولیجن (ایک قسم کی پروٹین جو مسوڑھوں کی ساخت کے لیے ضروری ہے) بنانے کے لیے لازمی ہے 22۔ اس کی کمی سے مسوڑھے کمزور ہو کر پھول جاتے ہیں اور ان سے خون بہنے لگتا ہے (اسکروی) 10۔ اس کے اچھے ذرائع میں سٹرابری، مالٹا، امرود، بروکولی اور ٹماٹر شامل ہیں 30۔
وٹامن A: یہ انیمل کی تشکیل میں مدد کرتا ہے اور منہ کے اندرونی نرم ٹشوز (mucous membranes) کو صحت مند رکھتا ہے، جس سے انفیکشن کا خطرہ کم ہوتا ہے 28۔ یہ گاجر، شکرقندی، پالک، کلیجی اور انڈوں میں پایا جاتا ہے 28۔
وٹامن K2: یہ ایک کم معروف لیکن کلیدی وٹامن ہے جو ایک “ٹریفک کنٹرولر” کا کام کرتا ہے۔ یہ کیلشیم کو خون سے نکال کر ہڈیوں اور دانتوں تک پہنچانے میں مدد دیتا ہے 29۔ اس کے ذرائع میں نرم پنیر، انڈے کی زردی، مکھن اور کلیجی شامل ہیں 29۔
3.2 دانتوں کے دشمن: نقصان دہ غذائیں اور مشروبات
دانتوں کا سب سے بڑا دشمن وہ نہیں جو واضح طور پر “جنک فوڈ” ہے، بلکہ وہ بھی ہے جو “صحت کے لبادے” میں چھپا ہوا ہے۔ والدین اکثر پیک شدہ پھلوں کے جوس، اسپورٹس ڈرنکس، اور خشک میوہ جات کو کینڈی اور سوڈا کا صحت مند متبادل سمجھتے ہیں، لیکن یہ بھی دانتوں کے لیے اتنے ہی یا بعض اوقات زیادہ نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
شکر اور نشاستہ: کینڈی، چاکلیٹ، کوکیز، کیک، اور میٹھے مشروبات میں موجود شکر دانتوں کی سڑن کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ لیکن نشاستہ دار غذائیں جیسے آلو کے چپس، پاپڑ، سفید روٹی اور کریکرز بھی اتنے ہی خطرناک ہیں۔ یہ غذائیں منہ میں جا کر سادہ شکر میں ٹوٹ جاتی ہیں، جنہیں بیکٹیریا آسانی سے تیزاب میں تبدیل کر دیتے ہیں 22۔ خطرہ صرف یہ نہیں کہ کیا کھایا گیا، بلکہ یہ بھی ہے کہ کتنی بار کھایا گیا۔ بار بار تھوڑا تھوڑا میٹھا کھانا (frequent snacking) ایک وقت میں زیادہ میٹھا کھانے سے زیادہ نقصان دہ ہے، کیونکہ یہ دانتوں کو مسلسل تیزابی حملے کی زد میں رکھتا ہے اور انہیں بحال ہونے کا موقع نہیں دیتا 18۔
چپکنے والی اور تیزابی غذائیں:
چپکنے والی غذائیں (Sticky Foods): ٹافی، کیرامل، اور خاص طور پر خشک میوہ جات جیسے کشمش دانتوں کی دراڑوں اور سطح سے چپک جاتے ہیں۔ انہیں لعاب یا پانی سے صاف کرنا مشکل ہوتا ہے، جس سے بیکٹیریا کو تیزاب بنانے کے لیے کئی گھنٹوں کا وقت مل جاتا ہے 15۔
تیزابی غذائیں (Acidic Foods): سوڈا، اسپورٹس ڈرنکس، انرجی ڈرنکس، اور ترشاوہ پھل (جیسے لیموں، مالٹا) براہ راست دانتوں کے انیمل کو کیمیائی طور پر گھلاتے ہیں، اس عمل کو “ایروژن” (erosion) کہتے ہیں۔ یہ نقصان شکر کے بغیر بھی ہوتا ہے اور دانتوں کو حساس اور کمزور بنا دیتا ہے 14۔
جدول 2: دانتوں کے لیے مفید اور مضر غذاؤں کی فہرست
دانتوں کے دوست (مفید غذائیں) | دانتوں کے دشمن (مضر غذائیں) |
دودھ، پنیر، دہی: کیلشیم، فاسفورس، کیسین | کینڈی، چاکلیٹ، ٹافی: شکر، چپکنے والی نوعیت |
کرکری سبزیاں (گاجر، کھیرا): قدرتی صفائی، لعاب میں اضافہ | میٹھے مشروبات (سوڈا، جوس، اسپورٹس ڈرنکس): شکر، تیزابیت |
پتوں والی سبزیاں (پالک، کیل): کیلشیم، وٹامنز | نشاستہ دار اسنیکس (چپس، کریکرز، سفید روٹی): سادہ شکر میں تبدیل |
سیب، سٹرابری: وٹامنز، مسوڑھوں کی ورزش | خشک میوہ جات (کشمش): شکر، چپکنے والی نوعیت |
گری دار میوے (بادام): کیلشیم، پروٹین | ترشاوہ پھل (زیادہ مقدار میں): تیزابی کٹاؤ (Erosion) |
چربی والی مچھلی، انڈے: وٹامن ڈی، وٹامن K2 | الکوحل والے مشروبات: شکر، منہ کو خشک کرنا |
پانی، سبز چائے: صفائی، فلورائیڈ، اینٹی بیکٹیریل | کافی، چائے (شکر کے ساتھ): داغ، شکر |
جدول 3: دانتوں کی صحت کے لیے ضروری وٹامنز اور معدنیات
غذائی جزو | دہنی صحت میں کردار | بہترین غذائی ذرائع |
کیلشیم | انیمل اور ہڈیوں کی تعمیر اور مضبوطی | دودھ، پنیر، دہی، پالک، بادام، تل |
فاسفورس | کیلشیم کے ساتھ مل کر انیمل کو مضبوط بناتا ہے | گوشت، مچھلی، انڈے، دودھ، گری دار میوے |
وٹامن D | کیلشیم کو جذب کرنے میں مدد کرتا ہے | دھوپ، چربی والی مچھلی، انڈے کی زردی، فورٹیفائیڈ دودھ |
وٹامن C | مسوڑھوں کو صحت مند رکھتا ہے، کولیجن بناتا ہے | سٹرابری، مالٹا، بروکولی، شملہ مرچ، ٹماٹر |
وٹامن A | انیمل کی تشکیل، نرم ٹشوز کی صحت | گاجر، شکرقندی، پالک، کلیجی، انڈے |
وٹامن K2 | کیلشیم کو دانتوں تک پہنچاتا ہے | نرم پنیر، انڈے کی زردی، مکھن، کلیجی |
فلورائیڈ | انیمل کو مضبوط بناتا ہے، سڑن سے بچاتا ہے | فلورائیڈ ملا پانی، فلورائیڈ ٹوتھ پیسٹ، کچھ مچھلیاں |
حصہ 4: غذائی تدارک کا عملی منصوبہ: والدین کے لیے جامع رہنمائی
نظریاتی علم کو عملی زندگی میں ڈھالنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ یہ حصہ والدین کو روزمرہ کے لیے قابلِ عمل حکمت عملی فراہم کرتا ہے۔
دہنی صحت کی دیکھ بھال ایک جامد عمل نہیں، بلکہ یہ بچے کی عمر کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے۔ اس میں والدین کا کردار “کرنے والے” سے “سکھانے والے” اور پھر “نگران” میں تبدیل ہوتا ہے۔
4.1 عمر کے لحاظ سے غذائی اور صفائی کی حکمت عملی
شیرخوار (0-1 سال): پیدائش کے فوراً بعد سے ہر بار دودھ پلانے کے بعد ایک صاف، گیلے اور نرم کپڑے سے بچے کے مسوڑھے آہستہ سے صاف کریں 2۔ جیسے ہی پہلا دانت نظر آئے، عمر کے مطابق نرم برش اور صرف پانی سے دن میں دو بار صفائی شروع کریں 4۔ بچے کو کبھی بھی دودھ یا جوس کی بوتل منہ میں لے کر سونے نہ دیں؛ یہ “نرسنگ بوتل کیریز” کی سب سے بڑی وجہ ہے 2۔ اگر رات کو بوتل دینا ضروری ہو تو اس میں صرف سادہ پانی ڈالیں 19۔
چھوٹے بچے (1-3 سال): دن میں دو بار، صبح ناشتے کے بعد اور رات کو سونے سے پہلے، مٹر کے دانے کے برابر مقدار میں فلورائیڈ ٹوتھ پیسٹ استعمال کرتے ہوئے دانت برش کروائیں 4۔ میٹھے مشروبات اور جوس کو سختی سے محدود کریں (ایک دن میں 120-180 ملی لیٹر سے زیادہ نہیں) اور انہیں صرف کھانے کے ساتھ دیں، نہ کہ سارا دن پینے کے لیے 4۔ دن بھر تھوڑا تھوڑا کھانے کے بجائے ناشتے اور کھانوں کے اوقات مقرر کریں 4۔
پری اسکول اور اسکول جانے والے بچے (3-12 سال): اس عمر میں بچوں کو خود برش کرنے کی ترغیب دیں، لیکن یہ یاد رکھیں کہ 8 سال کی عمر تک ان میں دانتوں کی تمام سطحوں کو مؤثر طریقے سے صاف کرنے کی مہارت نہیں ہوتی۔ اس لیے والدین کو روزانہ، خاص طور پر رات کو، خود ان کے دانت دوبارہ برش کرنے چاہییں 9۔ انہیں صحت مند اور غیر صحت مند غذاؤں کے فرق کے بارے میں سکھائیں اور اسکول کے لنچ باکس میں صحت مند انتخاب شامل کریں۔
4.2 دانتوں کے لیے صحت مند کھانوں کی تیاری اور عادات
صحت مند ناشتے (Snacks): ٹافی، بسکٹ اور چپس کی بجائے بچے کو تازہ پھل (سیب، کیلے)، کچی سبزیاں (گاجر، کھیرا)، پنیر کے ٹکڑے، سخت ابلے ہوئے انڈے اور سادہ دہی جیسے ناشتے دیں 14۔
پانی کی اہمیت: پانی کو بنیادی مشروب بنائیں۔ ہر کھانے اور ناشتے کے بعد بچے کو پانی پینے کی عادت ڈالیں 14۔ یہ نہ صرف منہ سے کھانے کے ذرات کو صاف کرتا ہے بلکہ اگر آپ کے علاقے میں نلکے کے پانی میں فلورائیڈ شامل ہے، تو یہ دانتوں کو مضبوط بنانے کا ایک مفت اور مؤثر ذریعہ بھی ہے 19۔
کھانے کے اوقات مقرر کرنا: بے وقت اور مسلسل کھانے (grazing) سے گریز کریں۔ دن میں 3 متوازن کھانے اور 1 سے 2 صحت مند، طے شدہ ناشتے کا معمول بنائیں۔ اس سے منہ میں لعاب کو تیزابیت کو بے اثر کرنے اور دانتوں کی قدرتی طور پر مرمت کرنے کا وقت مل جاتا ہے 36۔
4.3 غذائیت اور صفائی کا اٹوٹ رشتہ
یہ ایک خطرناک غلط فہمی ہے کہ اگر بچہ صحت مند غذا کھاتا ہے تو برش کرنے میں تھوڑی کوتاہی کی گنجائش ہے۔ یہاں تک کہ صحت مند غذائیں جیسے دودھ (لیکٹوز شوگر)، پھل (فرکٹوز شوگر) اور روٹی (نشاستہ) بھی منہ میں تیزاب پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہیں اگر وہ دانتوں پر لگی رہ جائیں۔ اچھی غذا کبھی بھی اچھی صفائی کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ اصول یہ ہے کہ کوئی بھی چیز کھانے یا پینے کے بعد (پانی کے علاوہ)، خاص طور پر میٹھی یا چپکنے والی چیز، دانتوں کو برش کرنا ضروری ہے 2۔ اگر ہر بار برش کرنا ممکن نہ ہو تو کم از کم پانی سے اچھی طرح کلی کرنا بھی کسی حد تک مددگار ثابت ہوتا ہے 13۔
جدول 4: عمر کے لحاظ سے دہنی صحت کا منصوبہ
عمر کا گروپ | غذائی تجاویز | صفائی کی حکمت عملی | ڈینٹسٹ کا کردار |
0-6 ماہ | صرف ماں کا دودھ یا فارمولا۔ شکر والے مشروبات سے مکمل پرہیز۔ | ہر فیڈ کے بعد گیلے کپڑے سے مسوڑھے صاف کریں۔ | – |
6-12 ماہ | ٹھوس غذا کا آغاز (بغیر شکر)۔ بوتل میں صرف پانی یا دودھ، جوس نہیں۔ | پہلا دانت نکلتے ہی نرم برش اور پانی سے دن میں دو بار صفائی۔ | پہلا دانت نکلنے کے 6 ماہ کے اندر یا 1 سال کی عمر تک پہلا وزٹ 38۔ |
1-3 سال | میٹھے اسنیکس اور مشروبات کو محدود کریں۔ مقررہ کھانے کے اوقات۔ | مٹر کے سائز کا فلورائیڈ ٹوتھ پیسٹ۔ والدین برش کریں۔ | ہر 6 ماہ بعد باقاعدہ چیک اپ 39۔ |
3-8 سال | صحت مند لنچ باکس۔ لیبل پڑھنا سکھائیں۔ | بچہ خود برش کرے لیکن والدین کی نگرانی اور مدد کے ساتھ۔ | فلورائیڈ ٹریٹمنٹ اور سیلنٹس (Sealants) پر مشاورت 23۔ |
8+ سال | متوازن غذا کی اہمیت اور نقصان دہ غذاؤں سے پرہیز کی عادت پختہ کرنا۔ | خود مختار برشنگ اور فلاسنگ کی عادت ڈالنا۔ | بے ترتیبی (Malocclusion) کے لیے آرتھوڈانٹک تشخیص۔ |
حصہ 5: احتیاطی تدابیر، گھریلو علاج اور پیشہ ورانہ دیکھ بھال
غذائیت اور صفائی کے ساتھ ساتھ، کچھ دیگر احتیاطی تدابیر اور پیشہ ورانہ دیکھ بھال بھی صحت مند مسکراہٹ کے لیے ناگزیر ہیں۔
5.1 دہنی صفائی کے بہترین طریقے: تکنیک اور آلات
برش کرنے کا صحیح طریقہ: عمر کے مطابق سائز کا نرم برسلز والا ٹوتھ برش استعمال کریں 9۔ دانتوں کی تمام سطحوں (باہر، اندر، اور چبانے والی سطح) پر چھوٹے گول دائروں میں نرمی سے برش کریں 9۔ خاص طور پر مسوڑھوں اور دانتوں کے سنگم پر توجہ دیں، جہاں پلاک سب سے زیادہ جمع ہوتا ہے 2۔
فلورائیڈ ٹوتھ پیسٹ: فلورائیڈ ایک قدرتی معدنیات ہے جو دانتوں کے انیمل میں دوبارہ معدنیات شامل کر کے اسے مضبوط بناتا ہے اور تیزاب کے حملے کے خلاف مزاحمت بڑھاتا ہے 3۔ 3 سال سے کم عمر بچوں کے لیے چاول کے دانے کے برابر اور 3 سے 6 سال کی عمر کے بچوں کے لیے مٹر کے سائز کے برابر مقدار استعمال کریں 4۔ بچے کو ٹوتھ پیسٹ نگلنے کے بجائے تھوکنا سکھائیں 34۔
فلاسنگ (Flossing): جیسے ہی بچے کے دو دانت آپس میں مل جائیں، ان کے درمیان کی جگہ کو روزانہ فلاس سے صاف کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ برش کے ریشے دانتوں کے درمیانی حصوں تک نہیں پہنچ سکتے، اور یہ وہ جگہ ہے جہاں اکثر کیویٹیز شروع ہوتی ہیں 14۔
5.2 دانتوں کے درد اور تکلیف کا گھریلو تدارک
دانتوں میں درد کی صورت میں فوری آرام کے لیے کچھ گھریلو علاج کیے جا سکتے ہیں، لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ علاج مسئلے کو حل نہیں کرتے، صرف عارضی طور پر علامات کو کم کرتے ہیں۔
نمکین پانی کے غرارے: ایک گلاس نیم گرم پانی میں آدھا چائے کا چمچ نمک ملا کر غرارے کرنا سوزش کو کم کرتا ہے اور قدرتی طور پر جراثیم کش کا کام کرتا ہے 40۔
لونگ کا تیل: لونگ میں یوجینول (eugenol) نامی قدرتی جزو ہوتا ہے جو درد کو کم کرنے (analgesic) اور اینٹی بیکٹیریل خصوصیات رکھتا ہے۔ روئی کے چھوٹے سے ٹکڑے پر ایک قطرہ لگا کر متاثرہ دانت پر کچھ دیر کے لیے رکھا جا سکتا ہے 12۔
ٹھنڈی ٹکور (Cold Compress): اگر چہرے پر سوجن ہو تو گال کے باہر متاثرہ جگہ پر کپڑے میں لپیٹ کر برف کا پیک 15-20 منٹ کے لیے رکھنے سے سوجن اور درد میں عارضی آرام ملتا ہے 40۔
اہم نوٹ: یہ تمام علاج عارضی ہیں۔ اگر بچے کو دانت میں درد ہو جو 24 گھنٹے سے زیادہ رہے، یا اس کے ساتھ بخار، چہرے پر سوجن، یا نگلنے میں دشواری ہو، تو یہ ایک سنگین انفیکشن کی علامت ہو سکتی ہے اور دانتوں کے ڈاکٹر سے فوری رابطہ کرنا ناگزیر ہے 20۔
5.3 دانتوں کے ڈاکٹر سے باقاعدہ معائنہ: روک تھام کا سب سے مؤثر ہتھیار
بہت سے والدین اور بچے دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جانے سے ڈرتے ہیں اور اسے صرف درد یا ایمرجنسی سے منسلک کرتے ہیں۔ اس تاثر کو بدلنا ضروری ہے۔ باقاعدگی سے چیک اپ کا مقصد بیماری کا علاج نہیں، بلکہ بیماری کو ہونے سے روکنا ہے۔
پہلا معائنہ: امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرک ڈینٹسٹری (AAPD) تجویز کرتی ہے کہ بچے کا پہلا ڈینٹل معائنہ اس کی پہلی سالگرہ تک یا پہلا دانت نکلنے کے 6 ماہ کے اندر ہو جانا چاہیے 3۔
باقاعدگی کی اہمیت: اس کے بعد، ہر 6 ماہ بعد باقاعدہ معائنہ کروانا چاہیے۔ اس سے مسائل کو ان کے ابتدائی مراحل میں ہی پکڑا جا سکتا ہے، جب ان کا علاج آسان، کم تکلیف دہ اور کم خرچ ہوتا ہے 19۔ جب بچہ صحت مند حالت میں چیک اپ کے لیے جاتا ہے، تو اس کا تجربہ مثبت رہتا ہے (صرف صفائی اور معائنہ)۔ اس سے بچے کا ڈاکٹر پر اعتماد قائم ہوتا ہے اور دانتوں کے علاج سے متعلق خوف پیدا نہیں ہوتا 43۔ اس کے برعکس، اگر پہلا دورہ ہی شدید درد کی حالت میں ہو، تو وہ تکلیف دہ تجربہ ہمیشہ کے لیے خوف سے منسلک ہو جاتا ہے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ دانتوں کے ڈاکٹر کے معائنے کو ایک مثبت اور معمول کی سرگرمی کے طور پر پیش کریں۔ یہ بچے کی ذہنی صحت اور مستقبل میں دہنی صحت کے لیے اس کے رویے پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ یہ “علاج” سے “دیکھ بھال” کی طرف ایک اہم ذہنی تبدیلی ہے۔
نتیجہ
بچوں کی دہنی صحت ان کی مجموعی فلاح و بہبود کا ایک لازمی جزو ہے۔ اس کی بنیاد پیدائش سے بھی پہلے ماں کی غذائیت سے رکھی جاتی ہے اور ابتدائی سالوں میں اپنائی گئی عادات زندگی بھر ساتھ رہتی ہیں۔ دانتوں کے امراض، خاص طور پر دانتوں کا سڑنا، محض ایک مقامی مسئلہ نہیں بلکہ ایک دائمی اور متعدی بیماری ہے جس کے اثرات بچے کی غذائیت، نشوونما اور مجموعی صحت پر مرتب ہوتے ہیں۔
اس کا تدارک ایک کثیر جہتی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے جس کے دو بنیادی ستون ہیں: متوازن غذائیت اور مؤثر صفائی۔ والدین کو نہ صرف شکر اور نشاستہ سے بھرپور غذاؤں سے پرہیز کرنا چاہیے بلکہ دانتوں کی تعمیر کے لیے ضروری وٹامنز اور معدنیات (جیسے کیلشیم، وٹامن ڈی، اور وٹامن سی) سے بھرپور غذاؤں کو بھی بچے کی خوراک کا حصہ بنانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ، عمر کے مطابق صحیح طریقے سے برش اور فلاس کرنے کی عادت ڈالنا اور دانتوں کے ڈاکٹر سے باقاعدہ معائنہ کروانا روک تھام کے عمل کو مکمل کرتا ہے۔ والدین بااختیار ہو کر اور علم کی بنیاد پر فیصلے کر کے اپنے بچوں کو نہ صرف تکلیف دہ بیماریوں سے بچا سکتے ہیں بلکہ انہیں زندگی بھر کے لیے ایک صحت مند اور پُراعتماد مسکراہٹ کا تحفہ بھی دے سکتے ہیں۔ططططططططططططططططططططططططططططططططططط