بطیخ،تربوز
17 بطیخ،تربوز
تحریر:حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبویﷺکاہنہ نو لاہور پاکستان
مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے پنجابی میں ہندوانہ ، انگریزی میں واٹر میلین ، عربی میں بطیخ ، اور ترکی میں تاجور کہتے ہیں۔تربوز تقریباً دنیا کےہر علاقے میں پایا جاتا ہے لیکن خاص طور پر پاکستان ، ہندوستان ، ایران ،شمالی بنگال ، صوبہ سرحد اور افغانستان میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز یا خربوزہ پکی ہوئی تازہ کھجور کے ساتھ کھاتے تھے اور فرماتے تھے: ”ہم اس (کھجور) کی گرمی کو اس (تربوز) کی ٹھنڈک سے اور اس (تربوز) کی ٹھنڈک کو اس (کھجور) کی گرمی سے توڑتے ہیں“۔تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 16853)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأطعمة 36 (1843) )الآثار المروية في الأطعمة السرية لابن بشكوال (ص: 340) يرفع أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يأكل الطبيخ، أو البطيخ، بالرطب. الشك من أحمد.أخرجه أحمد 3/142 (12476) و3/143 (12487) الترمذي”، في (الشمائل) 199 قال: حدثنا إبراهيم بن يعقوب، حدثنا وهب بن جرير. و”النسائي”، في “الكبرى” 6692
تربوز۔بطیخ۔ہندوانہ۔Water malon
مشہور چیز ہے،اعصابی عضلاتی ہے۔مبرد و مسکن دافع پیاس مخرج حرارت و صفرا مدر بول ملین طبع ہے۔گھبراہٹ و بے چینی کو فائدہ دیتا ہے۔جب کثرت صفرا کی وجہ سے سر چکرانے لگے۔وساوس و جنون کی کیفیت پیدا ہوئے تو بقول أبو بكر، محمد بن زكريا الرازي (ت ٣١٣هـ) تربوز کا استعمال فائدہ مند رہتاہے(الحاوي في الطب» (1/ 326)۔تپ صفراوی سوزش بول سوزاک یرقان اسہال صفراوی میں مفید ہے ۔اس کے ساتھ چاول وغیرہ نہ کھائیں اور نہ ہی اس کے ساتھ پانی یا کوئی سیال چیز استعمال کی جائےکیونکہ ہیضہ بن سکتا ہے۔خشک کھانسی جلن دار کھانسی وغیرہ میں اعلی چیز ہے۔۔
صحت کے لئے مفید اس پھل کاغالب حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ اس میں حیاتین اور معدنی اجزاء بھی پائے جاتے ہیں۔ ماہرین تربوز کی غذائیت سے متعلق کہتے ہیں کہ اس قدرتی پھل میں 90فیصدپانی اور 10فیصدفو لاد، پوٹاشیم،سوڈیم ،کیلشیم،فاسفورس، نشاستہ اور روغنی اجزاء شامل ہیں
دنیائے اسلام کے ممتاز طبیب اور فلسفی الرئیس ابنِ سینا اپنی کتاب’’ القانون ،،میں تربوز کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’قدرت کا یہ رس دار پھل معدے میں پہنچ کر انتہائی فائدہ مند صورت اختیار کر جاتا ہے اس کے بیج جلد کے لیے انتہائی مفید ہیں اور اس کے چھلکے کا لیپ پیشانی پر کر دیا جائے تو آنکھوں کے امراض کے لیے فائدہ مند ہے
طبی قانون۔
ماہرین طب نے کچھ قوانین تجربات کی بنیاد پر بنائے،حاذقین طب کے تجربات رفتہ رفتہ قانون کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔جن پھلوں میں کھاری پن ،پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے ان کے استعمال کے متصل پانی پینا نقصان دہ ہوتا ہے۔کیونکہ جسم میں پانی کی خاص مقدار درکار ہوتی ہے۔جن پھلوں میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جیسے تربوز،خربوزہ۔کھیرا ،ککڑی وغیرہ جب کھائے جاتے تو ان کے طبعی خواص اوران میں موجود قدرتی عناصر جسم میں پانی کی زیادہ مقدار جمع کردیتے ہیں۔اگر خاص مقدار سے زیادہ پانی جمع ہوجائے تو طبیعت اسے فالتو اور بےکارسمجھ کر خارج کرنے لگتی ہے۔ان پھلوں کا کھاری پن اس اخراج کو تیز تر کردیتا ہے۔جس سے ہیضہ ،قے وغیرہ پیدا ہوجاتے ہیں۔اس لئے تربوز،خربوزہ،کھیرا وغیرہ کے ساتھ پانی پینا خطرے سے خالی نہیں ہے ۔دوسری اہم بات یہ کہ کمزور طبیعت کے لوگ ان پھلوں کو خالی پیٹ نہ کھائیں،ممکن ہے خالی پیٹ کھانے سے اسہال شروع ہوجائیں۔احتیاط بہتر ہے۔
ایک ماہر کے الفاظ ملاحظہ کیجئے۔
تربوز پانی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے اور غذائی فائبر بھی اس کے ذریعے جزوبدن بنایا جاسکتا ہے، مگر اس پھل کی زیادہ مقدار کھانے سے نظام ہاضمہ کے مسائل جیسے ہیضہ، پیٹ پھولنے، گیس وغیرہ کا سامنا ہوسکتا ہے، جس کی وجہ اس میں موجود جز sorbitol ہے جو نظام ہاضمہ میں گڑبڑ کرتا ہے۔ اسی طرح لائیکوپین بھی اس مسئلے کی وجہ بن سکتا ہے۔
تربوز میںغذائیت
غذائی ماہرین کے مطابق تربوز غذائیت سے بھرپور پھل ہے جس کے 100 گرام میں 30 کیلوریز، صفر فیصد فیٹ، 112 ملی گرام پوٹاشیم ، 8 گرام کاربوہائیڈریٹس، 6 گرام شوگر، 11 فیصد وٹامن اے، 13 فیصد وٹامن سی پایا جاتا ہے جو کہ انسانی صحت کے لیے لازمی جز ہے۔
ایک دن میں تربوز کی کتنی مقدار کھانی چاہئے؟
ماہرین کے مطابق سو گرام تربوز میں 30 کیلوریز ہوتی ہیں اور چونکہ یہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے تو اسے آسانی سے آدھا کلو تک کھایا جاسکتا ہے جو کہ 150 کیلوریز کے برابر ہوتا ہے، مگر یہ بھی جان لیں کہ سو گرام تربوز میں 6 گرام مٹھاس یا شوگر ہوتی ہے تو آدھا کلو تربوز میں یہ مقدار 30 گرام تک پہنچ جائے گی
اگرچہ تربوز میں 92 فیصد پانی ہوتا ہے لیکن اس کے صحت کے لیے بہت سے فوائد ہیں اور اس کے ہر کاٹنے میں وٹامن “اے” اور “سی”، اینٹی آکسیڈنٹس اور امینو ایسڈز پائے جاتے ہیں، اور کہا جاتا ہے کہ تربوز جتنا زیادہ پختہ ہو گا، اس کی سطح اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔
اس میں لائکوپین اور بیٹا کیروٹین ہوتا ہے..
جرنل کرومیٹوگرافی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق تربوز کی چھال کے سفید حصے میں زیادہ سیٹرولین اور امینو ایسڈ ہوتا ہے جو دل میں دوران خون کو بہتر بناتا ہے اور اس طرح دل کی صحت اور حفاظت ہوتی ہے۔
تربوز کے طبی فوائد
اس کے علاوہ تربوز کے بیجوں کے فوائد ہیں جن میں میگنیشیم، پروٹین، صحت بخش چکنائی اور بی وٹامنز پائے جاتے ہیں۔یہاں تربوز کے مکمل صحت کے فوائد ہیں :1. کینسر کو روکتا ہے۔تربوز میں لائکوپین ہوتا ہے جو کہ نظام انہضام میں کینسر کی روک تھام سے منسلک ہوتا ہے۔لائکوپین انسولین نما گروتھ فیکٹر (IGF) کو کم کرکے کینسر کے خطرے کو کم کرتا ہے،
یہ ایک پروٹین جو خلیوں کی تقسیم میں مدد کرتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ اس پروٹین کی زیادہ مقدار کینسر کے امکانات کو بڑھاتی ہے۔
۔2. آنکھوں کی صحت کو بہتر بنائیںلائکوپین آنکھوں کو سوزش اور آکسیڈیٹیو نقصان سے بچانے میں مدد کرتا ہے۔ یہ ایک سوزش اور اینٹی آکسیڈینٹ مرکب کے طور پر کام کرتا ہے، جو عمر سے متعلق میکولر انحطاط کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے۔
۔3. صحت مند دل کو فروغ دیتا ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ تربوز میں لائکوپین کی زیادہ مقدار دل کی بیماری کے خطرے کو کم کرتی ہے، کیونکہ یہ خراب کولیسٹرول اور بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے۔امریکن جرنل آف ہائی بلڈ پریشر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق تربوز ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے اور موٹاپے کے شکار بالغوں میں اسے کم کرتا ہے۔
تربوز میں سائٹرولین نامی امینو ایسڈ بھی پایا جاتا ہے جو جسم میں نائٹرک آکسائیڈ کی سطح کو بڑھاتا ہے، جو بلڈ پریشر کو کم کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔
۔4. پٹھوں کے درد کو کم کرتا ہے۔تربوز اس میں زیادہ سائٹرولین مواد کی وجہ سے پٹھوں کے درد کو کم کرتا ہے۔اس کے علاوہ تربوز کا جوس پینے سے کھلاڑیوں میں خون کی گردش بہتر ہوتی ہے۔
۔5. دمہ کو روکتا ہے۔تربوز وٹامن سی کا ایک بہترین ذریعہ ہے، جو دمہ کی بیماری کے خطرے کو کم کرتا ہے۔مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ وٹامن سی میں سوزش اور اینٹی آکسیڈنٹ خصوصیات ہوتی ہیں، اسی لیے دمہ میں مبتلا شخص کے جسم میں وٹامن سی کی سطح کم ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ دمہ کی علامات کا شکار ہوتا ہے۔
6۔چربی کم کرنے میں مددگار
تربوز انسانی جسم کی زائد چربی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے اس میں موجود امینوایسڈز کیلوریز جلانے میں مدد دیتے ہیںجسم میں پانی کی مقدار مناسب سطح پر رکھنے خصوصاً توند سے نجات میں کامیابی کے لیے تربوز کا استعمال مفید قرار دیاجاتا ہے۔ تربوز کا جوس جسم کو ہائیڈریٹ رکھتا ہے۔ماہرین پیٹ کی چربی کم کرنے کے لئے خاص طور اس مشروب کے استعمال کا مشورہ دیتے ہیں۔تربوز میںموجو د خاص سیلز ایسی سرگرمیوںکو کنٹرول کرتا ہےجو جسم پر چربی بننے کا سبب بنتی ہیں۔
تربوز کے بیجوں کے طبی فوائد
۔ماہرین کے مطابق ان بیجوں میں غذائی اجزاء کے ساتھ ساتھ مختلف صحت بخش فوائد بھی ہیں۔ طب کی مشہور اصطلاح چہار مغز ،ان چار مغزوں میں تربوز کا مغز بھی شامل ہے(1.مغز تخم خربوزہ۔2.مغز تخم تربوز۔3.مغز تخم خیار(کھیرا)،4.مغز تخم کدو، )۔ ماہرین کے مطابق تربوز کے بیج پروٹین سے مالا مال ہوتے ہیں۔ان بیجوں میں اہم معدنیات،فاسفورس،آئرن،پوٹاشیم،سوڈیم،کاپر،مینگینزاور زنک شامل ہوتے ہیں اب اگلی دفعہ جب بھی آپ تربوز کھائیں تو اسے بیجوں سمیت کھائیں یا بیج نہیں کھاسکتے تو اسکے بیج دھوکر ،سکھاکر سنبھال کررکھ لیں۔تربوز کے بیج میں پروٹین وافر مقدار میں پایاجاتاہے۔جو لوگ علیحدہ سے پروٹین نہیں لے پاتے تو وہ ان بیجوں کے ذریعے پروٹین کی صحیح مقدار لے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدیم مصری لوگ۔تربوز کی اہمیت
جب گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو لوگ اپنے آپ کو تروتازہ کرنے کے لیے تربوز جیسے موسمی پھلوں کا سہارا لیتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ سائنسدانوں کے مطابق یہ عادت کوئی نئی نہیں ہے بلکہ ہزاروں سال پہلے فرعونوں میں پھیل چکی ہے۔حیاتیات میں مہارت حاصل کرنے والے جریدے ” میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، قدیم مصری ہمارے دور میں مشہور تربوز کھاتے تھے۔اس “کھانے کی عادت” کی تصدیق موسم گرما کے پھلوں کے پتوں کے ڈی این اے کے تجزیے سے ہوئی، جو 1876 میں ایک فرعونی مقبرے کے قریب سے ملے تھے۔محققین نے وضاحت کی کہ انھوں نے جو تجزیے کیے ان سے یہ بات سامنے آئی کہ اس کا تعلق ایک ایسے پھل سے ہے جس میں سیاہ بیجوں کے علاوہ ایک سرخ مادہ بھی ہوتا ہے، جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ قدیم مصری پھل اور خربوزے اگاتے تھے۔
وہ ماسک جس میں فرعونی بادشاہ توتنخمون کو دفن کیا گیا تھا۔سائنسدانوں نے فرعونوں کے زیر استعمال “صحرا شیشے” کا معمہ حل کر لیا۔پھل کے پتے 19ویں صدی میں نظریہ ارتقاء قائم کرنے والے سائنسدان چارلس ڈارون کے دوست ماہر نباتات جوزف ہوکر کے آرکائیوز سے حاصل کیے گئے تھے۔سائنسی اعداد و شمار سے معلوم نہیں ہوتا کہ ہزاروں سال پہلے فرعون کتنے تربوز کھاتے تھے لیکن محققین کا خیال ہے کہ یہ اس تربوز سے ملتا جلتا ہے جسے ہم ان دنوں کھاتے ہیں محققین کا خیال ہے کہ اس دور میں تربوز کی کاشت سوڈان میں شروع ہوئی اور پھر دریائے نیل کے کنارے پھیل گئی، جو اس خطے کو عبور کر کے مصر تک پہنچتی
ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔