بانٹوگا تو بڑھو گا
بانٹوگا تو بڑھو گا۔
لکھاری
حکیم المیوات
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
منتظم اعلی سعد طبیہ کالج برائے فروغ طب نبوی کاہنہ نولاہور
نبیﷺ کی سیرت میں غور کرو تو پتو چلے گو کہ آپ کی سخاوت بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہی۔خودسادہ اور دنیاوی لحاظ سے معمولی زندگی گززارے ہا۔لیکن حاجت مندن کولپ لپ بھرکے دیوے ہا۔
بانٹن کو جو ہنر ہے وائے بہت کم لوگ جاناہاں۔کیونکہ خوشی تو بانٹن سو ای ملے ہے۔ای بات نہ بھولنی چاہے کہ کہ دولت کی کوئی بھی قسم اور صورت ہوئے بانٹن سو اور تقسیم کرن سو بڑھا ہاں، جب انسان بانٹنو شروع کردیوے ہے تو ای دولت خواہ مادی ہوئے یا ہنر و شعور کی صورت میں ہوئے،جب تقسیم کری جاوے ہے تو بہت ملوک اور جاذب نظر دکھائی دیوے ہے،یا کی خووبصورتی میں گھنو اضافہ ہوجاوے ہے۔تم دوسران کا دلن میں وائی وقت گھر کرسکو ہو جب تم انن نے اپنی خوشی اورہنر میں شریک کروگا۔
وے دولت اور خزانہ جن میں دوسرا شریک نہ کراجاواں،تقسیم نہ کرا جاواں،ان کی کوئی بھی صورت ہوسکے ہے مادی ہوواں یا روحانی وا گلاب کا پھول کی طرح ہاں جو ایک جگہ میں دَھرو دَھرو مرجھا جائے۔یا وا پانی کاذخیرہ کی سی جو ایک جگہ میں کھڑو کھڑو سرانڈ مارن لگ جائے۔جب کائی بھی چیز اے فطری انداز میں استعمال نہ کروگا تو وامیں خرابی پیدا ہوجائے گی۔جب کوئی چیز خلق خدا سو دُبکالی جائے تو قانون فطرت ہے وامیں سو برکت اٹھالی جاوے ہے ۔دَھری دَھری چیز موت کو سبب ہے۔تازہ کھانو زندگی کو سبب ہے وائی کھانا اے دُبکاکے دھر دیو تو وامین تعفن و سڑاند پیدا ہوجائے گی۔واکی بدبو سو پئے ٹہرنو بھی مشکل ہوجائے گو۔یہی وا نعمت کی موت ہوئے گی۔یا حقیقت کو اطلاق انسان کی مادی ملکیتن پے بھی ہووے ہے اور مادی جسم کا سیلز (باڈی سیلز)پے بھی ہووے ہے۔
قران کریم نے جنت کی نہرن کو ذکر کرو ہے۔دودھ شہد پانی۔شراب وغیرہ۔یا پانی کی نہر کی خاصیت ای بیان کری گئی ہے۔کہ
مَّثَلُ ٱلْجَنَّةِ ٱلَّتِى وُعِدَ ٱلْمُتَّقُونَ ۖ فِيهَآ أَنْهَٰرٌ مِّن مَّآءٍ غَيْرِ ءَاسِنٍۢ وَأَنْهَٰرٌ مِّن لَّبَنٍۢ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُۥ وَأَنْهَٰرٌ مِّنْ خَمْرٍۢ لَّذَّةٍۢ لِّلشَّٰرِبِينَ وَأَنْهَٰرٌ مِّنْ عَسَلٍۢ مُّصَفًّى ۖ وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٰتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ ۖ كَمَنْ هُوَ خَٰلِدٌ فِى ٱلنَّارِ وَسُقُواْ مَآءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَآءَهُمْ۔(سورہ محمد)
کارخانہ قدرت میں کوئی بھی چیز ٹہری ہوئی /رکی ہوئی نہ ہے۔معمولی سو معمولی ذرہ میں بھی حرکت موجود ہے ہماری آنکھ دیکھ سکاں ۔یا نہ دیکھ سکاں،کیونکہ ہماری نظر کو دائرہ محدود ہے۔جب بھی کائی چیز کی حرکت ختم ہوجاوے ہے تو اُو مر جاوے ہے۔خوشی اور رزق بھی یا قانون میں شامل ہاں۔۔
جن انسان گھنو سیانو بنے ہے تو قانون قدرت حرکت میں آوے ہے۔دولت مند عہدہ دار/ہنر مند جاپے جا قسم کی بھی کوئی دولت ہوئے۔اگر بانٹن لگ جائے گو تو واکے پَر نکل آنگا۔واکی اُڑان شروع ہوجائے گی۔اگر روک بیٹھ جائوگا تووامیں تعفن و سڑاند مارن لگ جائے گی۔اگر یا کائنات میں رہنو ہے تو قانون قدرت کے ماتحت رہنو پڑے گو ،نہیں تو قدرت فنا کے گھاٹ اتار دئے گی۔۔
زیادہ تو پتو نہ ہے۔لیکن انسان ایک حدسو گھنو نہ جی سکے ہے۔دولت/ہنر ۔زر /زمین بے تحاشا جمع کرسکے ہے۔لیکن زندگی سو زیادہ نہ جی سکے ہے۔ چاہے دنیا بھر کی دولت اکٹھی کرلئے لیکن ایک ہسانس بھی زیادہ نہ لے سکے۔کیونکہ پیدا کرن والان نے جنتو کچھ لکھو ہے واسو گھنو نہ مل سکےگو۔ہماری دولت جب تک ای کام آسکے ہے جب تک سانس چل رو ہے، جیسے ای سانس بند ہویو۔سونا مانٹی سب برابر ہوجانگا۔۔صرف نام باقی اورزندہ رہ سکے ہے۔یاکی صورت صرف یہی ہے کہ تم لوگن کو خوشی بانٹو اُن کا دکھ دردن میں شرکت کرو/وے تم کو اضافی زندگی دینگا۔
ہر کائی کی خواہش رہوے ہے کہ واکو نام ہوئے۔واکی پاگ اونچی رہے۔یا نام اور پاگ کے مارےپتو ہے کتنا جتن کرنا پڑا ہاں۔دوسران نے اپنے خوشی شریک کرن سو پتو ہے زندگی کیسے ملے؟یاکی مثال سخی لوگن کی زندگی میں دکھائی دیوے ہے۔ہم لوگ کائی بھی سخی دھنوان کی زندگی کو مطالعہ کراں قانون ان کو اضافی زندگی دیوے ہے۔یاکائنات میں زندہ وہی گو جو قانون قدرت کی پیروی کرے گو۔او مسلمان ہوئے غیر مسلم سو کوئی فرق نہ پڑے ہے۔مثلا صحابہ کرام سب اعلی ہاں لیکن حضرت عثمان کی سخاوت کو تذکرہ الگ ای کرو جاوے ہے۔
لاہور کی مثال لے لئیو کہا سر گنگا رام/دیال سنگھ سبن سو گھنا امیر ہا؟ ایسی بات نہ ہے ان سو بھی زیادہ دولتیئا موجود ہا لیکن انن نے بانٹو،یاماری انن نے آج بھی جانا ہاں۔مسلمان امیرن نےاپنی دولت دُبکا کے راکھی ان کانامن نے بھی کوئی نہ جانے ہے۔زندہ رہنو چاہوتو بانٹن کو ہنر سیکھ لئیو۔تم نے کوئی نہ مار سکے ہے
3/جنوری2022 پروز پیر۔
////////////////////