بادشاہالتمش اور اس کے جانشینوں کا میو قوم سے تنازع

بادشاہ التمش اور اس کے جانشینوں کا میو قوم  سے تنازع

حکیم المیوات قاری محمد یونس شاہد میو

“یوں تو میو قوم صدیوں سے دہلی کے متصل علاقہ میوات میں آباد رہی۔آج بھی بہت بڑا خطہ میوات  کہلاتا ہے ۔سلطنت دہلی سے وابسطہ بادشاہوں سے میو قوم کا تناع موجود رہا ہے۔میو قوم وقت کی حکومت کی ظالمانہ و غیر منصفانہ پالیسیوں سے  انکاری رہی۔کسی بھی بیرونی فاتح کے خلاف سینہ سپر رہی۔اپنی سرزمین سے ایمان کی حدتک لگائو رکھا،یہی صفت انہیں باغی اور حکومت وقت کے خلاف برسر پیکار  قرار دیکر  ان کے ساتھ ظلم و بربریت کا جواز فراہم  کرتی رہی۔ایک دو دن کی بات نہیں ڈیڑھ ہزار سالہ دستیاب تاریخ  نےمیو قوم کا یہی رخ پیش کیا ہے اس کی تفصیل ہماری کتاب” میوات کی مزاحمت: محمد بن قاسم سے بہادر شاہ ظفر تک” میں دیکھی جاسکتی ہے)

بادشاہ التمش اور اس کے جانشینوں کے دورِ حکومت (1211-1246) میں میوات سے تنازع

حصہ اول: تنازع کی بنیاد – میوات اور ابتدائی سلطنت

سلطنتِ دہلی اور میوات کے درمیان تیرہویں صدی میں پیدا ہونے والی کشیدگی محض ایک مقامی بغاوت کا قصہ نہیں، بلکہ یہ ایک مرکزی ہوتی ہوئی شاہی طاقت اور ایک جغرافیائی طور پر محفوظ، خود مختار اور جنگجو قوم کے درمیان ناگزیر تصادم کی داستان ہے۔ اس تنازع کی جڑیں گہری تھیں اور اس کے اسباب محض وقتی اشتعال انگیزی نہیں بلکہ تزویراتی، معاشی اور سیاسی نوعیت کے تھے۔ التمش کے جانشینوں کے دور میں یہ تنازع جس شدت سے ابھرا، اس کو سمجھنے کے لیے پہلے اس خطے کی مخصوص نوعیت اور ابتدائی سلاطین کے ساتھ اس کے تعلقات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

1.1 میوات کا تزویراتی منظرنامہ: بغاوت کی ایک سرحد

میوات، جسے سلطنت کے وقائع نگاروں نے اکثر “مواسات” (یعنی شورش زدہ اور ناقابلِ رسائی علاقہ) اور “کوہ پایہ” (پہاڑی دامن) جیسے ناموں سے یاد کیا ہے، دہلی کے جنوب میں واقع ایک ایسا خطہ تھا جو اپنی جغرافیائی ساخت کی وجہ سے ہی مرکزی حکومت کے لیے ایک مستقل چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا 1۔ اراولی کے پہاڑی سلسلے، گھنے جنگلات اور دشوار گزار گھاٹیوں پر مشتمل یہ علاقہ (جس میں آج کے الور، بھرت پور، نوح اور جے پور کے کچھ حصے شامل تھے) سلطنت کی روایتی گھڑ سوار فوج کے لیے ایک انتہائی مشکل میدانِ جنگ تھا 1۔ یہ جغرافیائی خصوصیات میوؤں کو نہ صرف بیرونی حملہ آوروں کے خلاف قدرتی تحفظ فراہم کرتی تھیں بلکہ انہیں گوریلا جنگ اور اچانک حملے کرکے شاہی علاقوں میں لوٹ مار کرنے کے بعد واپس اپنے محفوظ ٹھکانوں میں پناہ لینے کا موقع بھی دیتی تھیں 1۔

تاہم، میوات محض ایک بنجر اور ناقابلِ رسائی پہاڑی علاقہ نہیں تھا۔ معاشی اعتبار سے یہ خطہ سلطنت کے لیے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ یہاں کپاس اور نیل جیسی قیمتی نقد فصلیں پیدا ہوتی تھیں، جو سلطنت کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ بن سکتی تھیں.1 اس سے بھی بڑھ کر، میوات گجرات کی خوشحال بندرگاہوں کو گنگا و جمنا کے دوآبے کے تجارتی مراکز سے ملانے والی اہم ترین تجارتی شاہراہوں پر واقع تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میوات میں کسی بھی قسم کی بدامنی یا بغاوت دہلی کی معیشت پر براہِ راست اثر انداز ہو سکتی تھی 1۔

سیاسی طور پر میوات کی دہلی سے قربت اس کی سب سے بڑی تزویراتی اہمیت تھی۔ جب ترکوں نے مہرولی کو اپنا دارالسلطنت بنایا تو میوؤں نے اسے اپنی آبائی زمینوں پر ایک غاصبانہ قبضہ تصور کیا، جس نے شروع دن سے ہی دونوں کے درمیان تعلقات میں مستقل دشمنی کی بنیاد رکھ دی 1۔ دارالحکومت سے اس قدر قریب ایک سرکش اور خود مختار علاقے کا وجود سلطان کی حاکمیت اور وقار کے لیے ایک کھلی توہین کے مترادف تھا۔ میوؤں کی بغاوت کوئی دور دراز صوبے کا معاملہ نہیں تھی، بلکہ یہ شاہی طاقت کے مرکز پر ایک براہِ راست اور ذلت آمیز چیلنج تھا 1۔

ان تمام عوامل کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ میوات کے ساتھ سلطنت کا تنازع محض قانون نافذ کرنے کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ یہ سلطنت کے قیام کے ڈھانچے کا ایک لازمی اور ناگزیر نتیجہ تھا۔ یہ ایک ایسی مرکزی قوت کے مابین تصادم تھا جس کے بنیادی مقاصد اقتدار کا استحکام، تجارتی راستوں پر کنٹرول اور محصولات کی وصولی تھے، اور ایک ایسی مقامی آبادی کے درمیان جو جغرافیائی طور پر محفوظ، معاشی طور پر اہم اور سیاسی طور پر خود مختار رہنے پر مُصر تھی۔ سلطنت دہلی میوات کو نہ تو نظر انداز کر سکتی تھی اور نہ ہی آسانی سے مکمل طور پر زیرِ نگیں لا سکتی تھی۔ اسی کشمکش نے بغاوت اور تادیبی کارروائیوں کے ایک ایسے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو جنم دیا جو اگلی کئی صدیوں تک ان کے تعلقات کی پہچان بنا رہا۔

1.2 التمش کی پالیسی: ایک نازک توازن (1211-1236)

سلطان شمس الدین التمش نے، جو سلطنتِ دہلی کے حقیقی معمار سمجھے جاتے ہیں، اپنے دورِ حکومت میں میوات کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک عملی اور محتاط پالیسی اپنائی۔ اپنے حریف ترک امراء جیسے تاج الدین یلدوز اور ناصر الدین قباچہ کے خطرات سے نمٹنے اور سلطنت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے بعد، التمش نے میوات اور اس سے ملحقہ علاقوں پر اپنی حاکمیت قائم کرنے کے لیے فوجی مہمات کا آغاز کیا۔ تاریخی ذرائع اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس نے بیانہ، تھانگر اور خود میوات کے علاقوں میں کامیابیاں حاصل کیں

غلام جو ہندستان کا بادشاہ بنا

1۔ اس نے ان علاقوں میں سلطان کی اتھارٹی قائم کرنے کے لیے آگے فوجی اور انتظامی چوکیاں (اقطاعات) قائم کیں، جیسا کہ ریواڑی کا اقطاع، جو کچھ عرصے کے لیے مستقبل کے سلطان غیاث الدین بلبن کو بھی تفویض کیا گیا تھا 1۔

تاریخی حوالوں میں یہ ذکر ملتا ہے کہ ان ابتدائی مہمات کے بعد التمش کے باقی دورِ حکومت میں یہ علاقہ “نسبتاً پرامن” رہا 1۔ یہ جملہ انتہائی اہم ہے، کیونکہ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ التمش کی پالیسی مکمل تسلط یا میوؤں کو ریاستی ڈھانچے میں ضم کرنے کی بجائے انہیں قابو میں رکھنے (Containment) پر مبنی تھی۔ اس نے ایک ایسی بالادستی قائم کی جو وقتی طور پر مؤثر تھی لیکن اس کا انحصار مکمل طور پر مرکزی حکومت کی طاقت پر تھا۔ بغاوت کی صلاحیت کو ختم نہیں کیا گیا تھا، بلکہ صرف دبا دیا گیا تھا۔

التمش کی میوات پالیسی اس کی تزویراتی ترجیحات کا عکس تھی۔ اس کے دور میں سلطنت کو زیادہ بڑے اور وجودی خطرات کا سامنا تھا، جن میں شمال مغربی سرحد پر چنگیز خان کی قیادت میں منگولوں کے حملوں کا خوف اور دیگر حریف ترک امراء کی جانب سے اقتدار کے لیے چیلنجز سرفہرست تھے 3۔ ان بڑے خطرات کے مقابلے میں، میوات کا مسئلہ ایک دائمی، لیکن فوری نوعیت کا بحران نہیں تھا۔ لہٰذا، التمش کی حکمتِ عملی یہ معلوم ہوتی ہے کہ میوؤں کو ایک فوری خطرے کے طور پر بے اثر کر دیا جائے، وفادار اقطاع داروں کا ایک حفاظتی حصار (Buffer Zone) قائم کیا جائے، اور پھر زیادہ اہم اور فوری مسائل پر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس کے پاس نہ تو اتنے وسائل تھے اور نہ ہی یہ اس کی تزویراتی ضرورت تھی کہ وہ کوہ پایہ کے دشوار گزار علاقے میں ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ میں الجھے۔ اس نے مسئلے کو وقتی طور پر حل کر کے مستقبل پر چھوڑ دیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اس کے دور کا “امن” دراصل اس کی ذاتی طاقت، فوجی دبدبے اور سیاسی وقار کا مرہونِ منت تھا۔ یہ ایک ابلتے ہوئے برتن پر مضبوطی سے رکھے ہوئے ڈھکن کی مانند تھا، جس کا کمزور ہاتھ کے آتے ہی ہٹ جانا اور مواد کا ابل پڑنا یقینی تھا۔

حصہ دوم: جانشینی کی انارکی (1236-1246) اور میوؤں کا عروج

التمش کی وفات کے بعد دہلی میں پیدا ہونے والے سیاسی انتشار اور تخت نشینی کی کشمکش وہ واحد سب سے اہم عنصر تھا جس نے میوات کے تنازع کو ایک نئی اور خطرناک سطح پر پہنچا دیا۔ مرکزی حکومت کی کمزوری نے میوؤں کو وہ موقع فراہم کیا جس کی انہیں تلاش تھی، اور انہوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

2.1 دہلی میں طاقت کا خلا: ایک منقسم سلطنت

التمش کی وفات کے بعد اگلی دہائی (1236-1246) کا دور سلطان اور اس کے طاقتور ترک غلام امراء کے گروہ، جسے “ترکانِ چہلگانی” یا “چالیسہ” کہا جاتا ہے، کے درمیان اقتدار کی ایک تباہ کن کشمکش سے عبارت ہے 5۔ یہ امراء، جو باہمی حسد اور ذاتی خواہشات کا شکار تھے، بادشاہ کو محض ایک کٹھ پتلی بنا کر رکھنا چاہتے تھے۔ اس رسہ کشی کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے چار حکمرانوں کو معزول کیا گیا یا قتل کر دیا گیا 5۔

دربار کی تمام تر توجہ اندرونی سازشوں پر مرکوز ہو کر رہ گئی۔ امراء اپنے حریفوں کو ختم کرنے (جیسا کہ رکن الدین فیروز کے دور میں غیر ترک “تازیک” افسران کا قتلِ عام) اور تخت پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے میں مصروف تھے 5۔ اس اندرونی خلفشار کا نتیجہ صوبائی انتظامیہ اور سرحدی سلامتی سے مجرمانہ غفلت کی صورت میں نکلا۔

ریاست کی طاقت کا مظاہرہ اس کے مرکز سے ہوتا ہے۔ جب مرکز ہی دھڑے بندی اور سازشوں کا گڑھ بن جائے تو اس کی فوجی، انتظامی اور نفسیاتی طاقت کو باہر پھیلانے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔ میو، جو ایک موقع پرست اور لچکدار قوم تھے، نے دہلی کی اس کمزوری کو فوراً بھانپ لیا۔ شاہی دستوں کی گشت میں کمی، اقطاع داری نظام کے اختیار کا خاتمہ، اور کسی بھی تادیبی کارروائی کے معتبر خطرے کے نہ ہونے نے ان کے راستے کی تمام رکاوٹیں ہٹا دیں۔ اس طرح، میوات کا مسئلہ سلطنتِ دہلی کی سیاسی صحت کا ایک بہترین پیمانہ بن گیا۔ جیسے جیسے مرکز میں سلطان کا اختیار کمزور ہوتا گیا، ویسے ویسے سرحد پر میوؤں کی جرات اور طاقت میں اضافہ ہوتا گیا۔

2.2 کمزوری کا تسلسل: نااہل جانشینوں کے ادوار

رکن الدین فیروز (1236): غفلت کا دور۔ اس کا سات ماہ سے بھی کم کا دورِ حکومت عیش و عشرت اور انتظامی ذمہ داریوں سے مکمل غفلت پر مبنی تھا، جبکہ تمام اختیارات اس کی والدہ شاہ ترکان کے ہاتھ میں تھے 7۔ اس کا دور شروع ہوتے ہی صوبائی گورنروں اور خود اس کے بھائیوں کی بغاوتوں میں گھر گیا، جس کی وجہ سے میوات جیسے مسائل پر توجہ دینے کی کوئی گنجائش یا خواہش باقی نہ رہی 7۔ اس کے دور نے غفلت کی وہ بنیاد رکھی جس پر میوؤں نے اپنی طاقت کی عمارت کھڑی کی۔

رضیہ سلطانہ (1236-1240): خلفشار اور براہِ راست تصادم کا دور۔ اگرچہ رضیہ ایک قابل حکمران تھی، لیکن اس کا پورا دورِ حکومت ترک امراء کے خلاف بقا کی جنگ لڑتے ہوئے گزرا، جو اس کی جنس اور اس کی غیر ترک امراء پر مبنی طاقت کا ایک نیا مرکز بنانے کی کوششوں سے نالاں تھے 6۔ اس دور میں میوات کا خطرہ ایک نئی شکل اختیار کر گیا۔ تاریخی ذرائع یہ ریکارڈ کرتے ہیں کہ جب رضیہ نے رنتھمبور پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنی پہلی فوجی مہم بھیجی تو وہاں کے چوہان راجپوت میوؤں کے ساتھ اتحاد میں تھے۔ ان دونوں نے مل کر گوریلا جنگ کا آغاز کیا جس سے دہلی کے گرد و نواح کے علاقے بھی غیر محفوظ ہو گئے 11۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اب میو صرف الگ تھلگ لوٹ مار کرنے والے گروہ نہیں رہے تھے، بلکہ وہ سلطنت کے خلاف ایک وسیع علاقائی فوجی اتحاد کا حصہ بن چکے تھے۔ رضیہ کی درباری سیاست میں مصروفیت نے اسے اس بڑھتے ہوئے خطرے کا مؤثر جواب دینے سے روکے رکھا۔

معز الدین بہرام شاہ (1240-1242): سازشوں کا دور۔ منہاج سراج نے اسے “ایک نڈر، بے باک اور خونخوار آدمی” قرار دیا ہے 12، لیکن اس کے باوجود وہ ان امراء کے ہاتھ میں ایک کٹھ پتلی تھا جنہوں نے اسے تخت پر بٹھایا تھا۔ اس کا دور داخلی سازشوں (اس نے اپنے ہی نائب السلطنت، ایتگین کو قتل کروا دیا) اور 1241 میں منگولوں کے ایک تباہ کن حملے کی زد میں رہا جس میں لاہور کو تاراج کر دیا گیا 12۔ سلطنت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی تھی، اور میوات کا مسئلہ مکمل طور پر نظر انداز ہو چکا تھا۔

علاؤالدین مسعود شاہ (1242-1246): بے اختیاری کا دور۔ اس دور تک سلطان صرف نام کا حکمران رہ گیا تھا۔ حقیقی طاقت چالیس امراء کے ہاتھ میں تھی، جن میں مستقبل کا سلطان بلبن بطور امیرِ حاجب سب سے نمایاں شخصیت کے طور پر ابھر رہا تھا 14۔ سلطنت کا شیرازہ بکھرتا جا رہا تھا، اور بنگال، ملتان اور اُچ جیسے صوبے عملی طور پر خود مختار ہو چکے تھے 14۔ ریاست پر مکمل فالج طاری تھا، اور اس صورتحال میں میوؤں کو اپنی سرگرمیاں دہلی کے دروازوں تک بڑھانے کی کھلی چھوٹ مل گئی۔

حصہ سوم: وقائع نگاروں کی نظر میں – میو خطرے کا جائزہ

اس حصے میں بنیادی تاریخی ذرائع کا تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے، جو صارف کی فراہم کردہ عبارت میں کیے گئے دعووں کی تصدیق کرتا ہے اور وقائع نگاروں کے نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ لیتا ہے۔

3.1 دروازوں پر دہشت: منہاج سراج کا چشم دید بیان

صارف کی فراہم کردہ عبارت دراصل مؤرخ قاضی منہاج سراج جوزجانی کی مشہور تصنیف “طبقاتِ ناصری” کے بیانات کا خلاصہ ہے، جسے انہوں نے تقریباً 1260ء میں مکمل کیا 15۔ منہاج، جو ان واقعات کے چشم دید گواہ تھے، ناصر الدین محمود کے دورِ حکومت (جو اس دور کے فوراً بعد شروع ہوا) میں پیدا ہونے والی صورتحال کی ایک ہولناک تصویر پیش کرتے ہیں، جو درحقیقت التمش کے کمزور جانشینوں کے دور میں پروان چڑھی تھی۔

منہاج کی تفصیلات انتہائی واضح اور خوفناک ہیں:

  • میوؤں کی دہشت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ وہ “شیطان کے لیے بھی ایک خوف بن چکے تھے” (شیطان را نیز دہشت انگیز شدہ بودند) 1۔
  • ان کی لوٹ مار اور حملے دہلی کے مضافات اور شہر کی فصیلوں تک پہنچ چکے تھے 1۔
  • انہوں نے خاص طور پر شہر کو پانی فراہم کرنے والے ذرائع کو نشانہ بنایا۔ وہ شہر کے عظیم حوض، حوضِ شمسی پر پانی بھرنے والی خادماؤں اور سقوں (پانی بھرنے والے) پر حملہ کرتے، انہیں برہنہ کر دیتے اور ان کے کپڑے چھین کر لے جاتے 1۔ یہ تفصیل شہری نظامِ زندگی کے مکمل طور پر درہم برہم ہو جانے کی علامت ہے۔
  • خوف کا یہ عالم تھا کہ دوپہر کی نماز کے بعد دہلی کے مغربی دروازے بند کر دیے جاتے تھے، جس سے پنجاب کی طرف سفر اور تجارت کا راستہ منقطع ہو جاتا تھا 1۔

منہاج، جو سلطنت کے ایک اعلیٰ عہدیدار اور درباری مؤرخ تھے 17، میوؤں کے لیے انتہائی سخت اور تضحیک آمیز زبان استعمال کرتے ہیں۔ وہ میو سردار “ملکہ” کو ایک “مفسد” (فساد پھیلانے والا)، ایک “گبر” (کافر) قرار دیتے ہیں اور پوری قوم کے لیے زہریلے سانپوں کا استعارہ استعمال کرتے ہیں 1۔

منہاج کا بیان بیک وقت ایک تاریخی حقیقت کا ریکارڈ بھی ہے اور سیاسی پروپیگنڈے کا ایک نمونہ بھی۔ ان کی بیان کردہ گرافک تفصیلات دہلی کے اشرافیہ میں پائے جانے والے حقیقی خوف اور دہشت کی عکاسی کرتی ہیں۔ دوسری طرف، ان کی تضحیک آمیز زبان ریاست کے آئندہ شدید ترین اور سفاکانہ ردِ عمل کو جواز فراہم کرنے کا کام کرتی ہے، جس کی قیادت ان کے مربی، الغ خان (بلبن) نے کی۔ اس بیانیے کا مقصد میوؤں کو سیاسی باغی کے طور پر پیش کرنا نہیں، جن کے کچھ جائز شکوے ہو سکتے ہیں، بلکہ انہیں ایک ایسی وبا کے طور پر دکھانا ہے جسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ضروری ہے۔ یہ بیانیہ بلبن کے ہاتھوں ہونے والے قتلِ عام اور مظالم کو، جنہیں منہاج خود بھی تفصیل سے بیان کرتے ہیں، ضرورت سے زیادہ ظلم کے بجائے ایک ضروری ریاستی اقدام کے طور پر پیش کرتا ہے۔

3.2 تاریخ نویسی کا عدسہ: منہاج اور برنی کا تقابلی جائزہ

ضیاء الدین برنی، جنہوں نے اپنی “تاریخِ فیروز شاہی” تقریباً ایک صدی بعد (1357ء کے قریب) لکھی 20، میوات کے مسئلے کو ایک مختلف اور زیادہ تجزیاتی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ان کی کتاب واضح طور پر منہاج کی طبقاتِ ناصری کا تسلسل ہے 22۔

برنی میوؤں کی طاقت میں اضافے کا ذمہ دار براہِ راست التمش کی وفات کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی زوال کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ “التمش کے بڑے بیٹوں کی عیاشی اور نااہلی اور ناصر الدین کی ناتجربہ کاری” کی وجہ سے میوؤں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور وہ ایک خطرناک قوت بن گئے 1۔ برنی کے لیے، میوات کا مسئلہ ان کے وسیع تر تاریخی نظریے کی ایک عملی مثال ہے: کمزور بادشاہ انتشار (فتنہ) پیدا کرتے ہیں۔

اس طرح منہاج اور برنی کے بیانات ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ منہاج ہمیں بتاتے ہیں کہ “کیا ہوا” — یعنی میو خطرے کی خوفناک، زمینی حقیقت۔ جبکہ برنی یہ وضاحت کرتے ہیں کہ “کیوں ہوا” — یعنی حکمرانوں کی وہ اخلاقی اور سیاسی ناکامیاں جنہوں نے اس خطرے کو پنپنے کا موقع دیا۔

جدول: میوات تنازع پر بنیادی تاریخی ذرائع کا تقابلی تجزیہ

یہ جدول دونوں کلیدی مؤرخین کے مختلف لیکن تکمیلی نقطہ نظر کا بصری اور تجزیاتی خلاصہ پیش کرتا ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تاریخی تفہیم مختلف تعصبات اور مقاصد کے حامل ذرائع کو ملا کر کیسے تشکیل دی جاتی ہے۔

خصوصیتمنہاج سراج (طبقاتِ ناصری)ضیاء الدین برنی (تاریخِ فیروز شاہی)
تحریر کا دورہم عصر (تقریباً 1260ء) 15ماضی کا جائزہ (تقریباً 1357ء) 20
نقطہ نظروقائع نگار؛ نتائج کا چشم دید گواہ اور حکومت کا درباری۔تجزیاتی اور اخلاقی؛ ایک سیاسی نظریہ دان جو تاریخ سے اسباب بیان کرتا ہے۔
میوؤں کی تصویر کشیایک فوری، وجودی اور شیطانی خطرہ؛ “مفسدین”، دارالحکومت کے لیے دہشت 1۔سیاسی زوال کی علامت؛ ان کی طاقت التمش کے وارثوں کی کمزوری کا براہِ راست نتیجہ ہے 1۔
مرکزی توجہمیوؤں کے حملوں اور ان کو دبانے کے لیے سفاکانہ فوجی مہمات (مثلاً الغ خان کی مہمات) کی تفصیلی، ہولناک روداد 1۔طویل مدتی پالیسی ردِ عمل اور حکمرانوں کی اخلاقی/سیاسی ناکامیاں جنہوں نے اسے ضروری بنایا (مثلاً بلبن کی تخت نشینی کے بعد کی پالیسیاں) 1۔
اقتدار سے تعلقسلطان ناصر الدین اور ان کے نائب بلبن کے منظورِ نظر؛ ان کی کتاب ان کے اقدامات کو جواز فراہم کرتی ہے 17۔اپنے آخری ایام میں دربار سے معتوب؛ ان کی کتاب مثالی حکمرانی پر ایک سبق آموز متن ہے، جو تاریخ کو اسباق کے سلسلے کے طور پر استعمال کرتی ہے 20۔

حصہ چہارم: ناگزیر ردِ عمل – بلبن کی آہنی گرفت کی تمہید

یہ آخری حصہ اس دلیل پر مبنی ہے کہ 1236 سے 1246 تک کی انارکی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے میوات کے بحران نے براہِ راست ایک بے رحم اور مضبوط حکمران کی سیاسی ضرورت پیدا کی، جس نے سلطان غیاث الدین بلبن کے دورِ حکومت کے لیے راہ ہموار کی۔

4.1 الغ خان (بلبن) کا عروج: انتشار کی پیداوار

التمش کے جانشینوں کی حکومت کرنے میں ناکامی نے طاقت کا ایک ایسا خلا پیدا کر دیا جسے ایک غیر معمولی طور پر مہتواکانکشی اور قابل امیر ہی پُر کر سکتا تھا۔ بلبن نے، الغ خان کے طور پر، علاؤالدین مسعود کے دور میں منظم طریقے سے اپنی طاقت کو مستحکم کیا، امیرِ حاجب کے عہدے پر فائز ہوا اور عملاً ریاست کا حاکم بن گیا 14۔

اپنی بڑھتی ہوئی طاقت کو قانونی حیثیت دینے اور تخت تک اپنی راہ ہموار کرنے کے لیے، بلبن کو وہ مسائل حل کرنے کی ضرورت تھی جنہیں سلطان حل کرنے سے قاصر تھے۔ میوات کا خطرہ، جو دارالحکومت کے دروازے پر ایک واضح اور ذلت آمیز ناکامی تھی، اس کے لیے بہترین موقع تھا۔ اس میں اس کی ذاتی ناراضی کا بھی عمل دخل تھا، کیونکہ ایک موقع پر میوؤں نے اس کے اپنے دستے کے اونٹ چرا لیے تھے 1۔

4.2 1249-1260 کی مہمات: سفاکانہ عروج

اگرچہ یہ مہمات تکنیکی طور پر 1236-1246 کی ٹائم لائن سے باہر ہیں، لیکن یہ اس بحران کا براہِ راست اور منطقی نتیجہ ہیں جو اس دور میں پروان چڑھا تھا۔ یہ مہمات صارف کی عبارت میں بیان کردہ میو خطرے کی شدت کا حتمی ثبوت ہیں۔ منہاج (جس کی تصدیق بعد کے مصنفین جیسے فرشتہ نے بھی کی ہے) کی تحریروں میں ان مہمات کی انتہائی بربریت کی تفصیلات موجود ہیں:

  • 1260ء میں، الغ خان نے 10,000 سپاہیوں کی فوج کے ساتھ ایک اچانک حملہ کیا اور 20 دن تک قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم رکھا 1۔
  • اس نے دہشت کی پالیسی اپنائی، ہر کٹے ہوئے سر کے بدلے ایک چاندی کا ٹنکہ اور ہر زندہ قیدی کے بدلے دو ٹنکے انعام کا اعلان کیا، جس نے اس کے سپاہیوں کو انتہائی تشدد پر اکسایا 1۔
  • گرفتار شدہ رہنما، ملکہ، 250 دیگر سرداروں کے ساتھ دہلی لایا گیا تاکہ انہیں سرِ عام سزائے موت دی جا سکے۔ منہاج ریکارڈ کرتے ہیں کہ کچھ کو ہاتھیوں کے پاؤں تلے کچل دیا گیا، کچھ کی زندہ کھالیں اتار دی گئیں، اور ان کھالوں میں بھس بھر کر شہر کے دروازوں پر لٹکا دیا گیا — یہ ریاستی طاقت کا ایک ہولناک اور عبرتناک مظاہرہ تھا 1۔

بلبن کی میوؤں کے خلاف یہ بے رحمانہ مہم محض ایک فوجی کارروائی نہیں تھی؛ یہ ایک سیاسی اعلان تھا۔ یہ کمزور سلطانوں اور منقسم اختیارات کے دور کے خاتمے اور ایک نئی، مرکزی، اور سفاکانہ طرزِ حکمرانی کے آغاز کا اشارہ تھا۔ التمش کے جانشینوں کی کمزوری نے میوؤں کو سلطنت کی حاکمیت کے تصور کو ہی چیلنج کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ بلبن سمجھتا تھا کہ محض دفاعی یا قابو میں رکھنے کی پالیسی اب کافی نہیں تھی۔ میو حملوں کے نفسیاتی اثرات کو ریاستی دہشت کے اس سے بھی بڑے نفسیاتی اثرات سے زائل کرنا ضروری تھا۔ سرِ عام دی جانے والی وحشیانہ سزائیں ایک سوچی سمجھی کارکردگی تھیں جو نہ صرف باقی ماندہ میوؤں کو بلکہ سلطنت کے اندر موجود دیگر باغی عناصر، بشمول ترک امراء، کو دہشت زدہ کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی تھیں۔ یہ اس بات کا مظاہرہ تھا کہ ایک نئی، مطلق العنان طاقت اب اقتدار میں ہے۔ لہٰذا، التمش کے جانشینوں (1236-1246) کی ناکامی نے نہ صرف بلبن کے عروج کی راہ ہموار کی، بلکہ اس نے ان “آہن و خون” کی پالیسیوں کے لیے سیاسی جواز بھی پیدا کیا جو بالآخر سلطان بننے کے بعد اس کے دورِ حکومت کی پہچان بنیں۔

نتیجہ: بغاوت اور جبر کا چکر

یہ تجزیہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ صارف کی فراہم کردہ عبارت دہلی سلطنت اور میوات کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازع کا ایک تاریخی طور پر درست اور بصیرت افروز خلاصہ پیش کرتی ہے۔ مرکزی دلیل یہ ہے کہ 1236 سے 1246 کا دور، جو التمش کے جانشینوں کی شدید کمزوری اور دہلی میں طاقت کے خلا سے عبارت تھا، وہ فیصلہ کن محرک تھا جس نے میوات کے میوؤں کو ایک مستقل، قابلِ انتظام پریشانی سے سلطنت کے مرکز کے لیے ایک سنگین تزویراتی خطرے میں تبدیل کر دیا۔ اس بے قابو ہوتی ہوئی کشیدگی نے، بدلے میں، بلبن جیسے بے رحم اور مطلق العنان حکمران کے عروج کو نہ صرف ممکن بنایا بلکہ، دہلی کی اشرافیہ کے نقطہ نظر سے، ضروری بھی بنا دیا، اور اس طرح سلطنتِ دہلی کی تاریخ میں ایک نئے اور زیادہ سفاکانہ باب کی بنیاد رکھی۔

Works cited

  1. MEWATIS UNDER THE MAMLUK DYNASTY Pankaj Dhanger …, accessed July 20, 2025, https://www.aarhat.com/download-article/533/
  2. The Making of a Region in Medieval India: Mewat from 13 th to 18 th Centuries – Research Journal of Humanities and Social Sciences, accessed July 20, 2025, https://rjhssonline.com/HTML_Papers/Research%20Journal%20of%20Humanities%20and%20Social%20Sciences__PID__2017-8-2-4.html
  3. 14 THE DELHI SULTANATE – UNESCO, accessed July 20, 2025, https://en.unesco.org/silkroad/sites/default/files/knowledge-bank-article/vol_IVa%20silk%20road_the%20delhi%20sultanate.pdf
  4. Delhi sultanate | History, Significance, Map, & Rulers – Britannica, accessed July 20, 2025, https://www.britannica.com/place/Delhi-sultanate
  5. Successors of Iltutmish – IndiaNetzone, accessed July 20, 2025, https://www.indianetzone.com/successors_iltutmish
  6. Foundation of Delhi Sultanate: Rule of Iltutmish – History Optional for UPSC (Notes) PDF Download – EduRev, accessed July 20, 2025, https://edurev.in/t/375493/Foundation-of-Delhi-Sultanate-Rule-of-Iltutmish
  7. Ruknuddin Firuz – Wikipedia, accessed July 20, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Ruknuddin_Firuz
  8. Full text of “A Comprehensive History of India (Delhi Sultanate)” – Internet Archive, accessed July 20, 2025, https://archive.org/stream/a-comprehensive-history-of-india-delhi-sultanate/A%20Comprehensive%20History%20of%20India%20%28Delhi%20Sultanate%29_djvu.txt
  9. Razia Sultana – Google Arts & Culture, accessed July 20, 2025, https://artsandculture.google.com/story/razia-sultana-zubaan/LwXhtQqBcBO7KA?hl=en
  10. Sultana Raziya of Delhi: Pillar of Women and Queen of the Eras – Medievalists.net, accessed July 20, 2025, https://www.medievalists.net/2018/11/sultana-raziya-delhi/
  11. Razia Sultan – Wikipedia, accessed July 20, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Razia_Sultan
  12. Muizuddin Bahram, Sultan of the Mamluk Dynasty – Indian History, accessed July 20, 2025, http://deepak-indianhistory.blogspot.com/2021/05/muizuddin-bahram-sultan-of-mamluk.html
  13. Muiz ud din Bahram – Wikipedia, accessed July 20, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Muiz_ud_din_Bahram
  14. Masud Shah – Wikipedia, accessed July 20, 2025, https://en.wikipedia.org/wiki/Masud_Shah
  15. طبقات ناصری – آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا, accessed July 20, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B7%D8%A8%D9%82%D8%A7%D8%AA_%D9%86%D8%A7%D8%B5%D8%B1%DB%8C
  16. طبقات ناصری – وکیپیڈیا, accessed July 20, 2025, https://pnb.wikipedia.org/wiki/%D8%B7%D8%A8%D9%82%D8%A7%D8%AA_%D9%86%D8%A7%D8%B5%D8%B1%DB%8C
  17. قاضی منہاج سراج جوزجانی: ایک نابغۂ روزگار شخصیت – – ARY News Urdu, accessed July 20, 2025, https://urdu.arynews.tv/minhaj-i-siraj-juzjani/
  18. منہاج سراج جوزجانی – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 20, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D9%86%DB%81%D8%A7%D8%AC_%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%AC_%D8%AC%D9%88%D8%B2%D8%AC%D8%A7%D9%86%DB%8C
  19. Minhaj al-Siraj Juzjani – IndiaNetzone, accessed July 20, 2025, https://www.indianetzone.com/minhaj_alsiraj_juzjani
  20. ضیاء الدین برنی – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 20, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%B6%DB%8C%D8%A7%D8%A1_%D8%A7%D9%84%D8%AF%DB%8C%D9%86_%D8%A8%D8%B1%D9%86%DB%8C
  21. Tarikh-I Firoz Shahi: An English Translation by Ziauddin Barni | Goodreads, accessed July 20, 2025, https://www.goodreads.com/book/show/26719802-tarikh-i-firoz-shahi
  22. تاریخ فیروز شاہی (برنی) – آزاد دائرۃ المعارف – ویکیپیڈیا, accessed July 20, 2025, https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE_%D9%81%DB%8C%D8%B1%D9%88%D8%B2_%D8%B4%D8%A7%DB%81%DB%8C_(%D8%A8%D8%B1%D9%86%DB%8C)
  23. The Comparative Analysis of Firishta and Barani’s Accounts on … – ijrpr, accessed July 20, 2025, https://ijrpr.com/uploads/V4ISSUE12/IJRPR20465.pdf
  24. Full text of “Tabqaat-e-Nasiri طبقات ناصری” – Internet Archive, accessed July 20, 2025, https://archive.org/stream/Tabqaat-e-Nasiri-113926/Tabqaat-e-Nasiri-113926-WQB_djvu.txt

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Instagram