انسانی نفسیات
(Human Psychology)
اور طب نبویﷺ
تحریر
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
تعوذات کی فہرست میں سب سے طویل فہرست انسانی نفسیات سے متعلق ہے۔اس کائنات کا محور انسان ہے۔قدم قدم پر اسے بہکنے سے روکنے کا سامان مہیا کیا گیا ہے ۔ انسان اپنے فائدے کے لئے لپکتا ہے اور شرسے تحفظ کے لئے سامان مہیا کرتا ہے ۔ حسد،کینہ۔بغض۔خیانت۔بھوک۔ وغیرہ سب کیفیات انسانوں پر ہی طاری ہوتی ہیں،اسلام نے انسانی نفسیات کا لحاظ کرتے ہوئے ایک ایسا نظام ترتیب دیاہے جہاں ہر ایک کو ذمہ دار ٹہرایا ہے،اگر کوئی اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کرتا۔رزائل و خبائث طرف مائل ہوتا ہے تو اس کے سدھار کے لئے سامان ہدایت مہیا کردیا۔اگر کوئی بہت ہی زیادہ بہک جائے اور نیچ حرکتوں پر اتر آئے۔اس کا شر معاشرہ تک آپہنچے تو سمجھو اب یہ انسانی حدود پھلانگ چکا ہے۔یہ انسان پندو نصائح کی حدود پامال کرکے آگے جاچکا ہے۔اس کے شر وفساد سے خدا کی پناہ طلب کرنا ضروری ہے۔ شمار فرمالیں انسانی نفسیات سے تعلق رکھنے والی صفات اور تخریبی پہلو کس قدر نمایاں ہے ۔ قساوت قلبی،نفاق،برے اخلاق،۔حسد،کینہ،بغض۔حق تلفی۔عیب جوئی۔غیبت ،سستی،کاہلی،بزدلی ۔ قرض ،کنجوسی ،قرض،بھوک،دشمنوں کا دبائو،بھوک،نکمی عمر۔ خطرناک دشمن وغیرہ کیونکہ جب انسانی انسانی معاشرتی حدود کے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات میں اندھا ہو جاتا ہے تو اتنا خطرناک ہوجاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔اس کے عواقب و نتائج وہی جان سکتا ہے جو ان امراض کا شکار ہواہو۔
عمومی طورپر دوسروں کے شر سے پناہ کا تصور موجود ہے ۔ہادی مکرمﷺ نے تو انسانی نفسیات کو اس قدر گہرائی سے سمجھا اور سمجھایا کہ جب انسان بے راہ وری کا شکار ہوتا ہے تو اس کے اپنے اعضاء و جوارح اس کے قابو سے باہر ہوجاتے ہیں۔جلد بازی۔بلڈ پریشر،منی کا شر،زبان۔شرم گاہ۔کان،ناک،ہاتھ۔آنکھ وغیرہ کے شرور سے بھی پناہیں مذکور ہیں یعنی انسان کو تکلیف یا معاشرہ کے بگاڑ میں دوسروں کی کوتاہی یا منفی و سلبی صفات پیدا نہیں کرتیں خود راہ اعتدال سے منحرف سوچ و جذبات بھی بسااوقات بگاڑ کاسبب بن جاتے ہیںیعنی دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے افعال و کردار کا جائزہ لینا ضروری قرار دیا گیا ہے۔تنہائی میں غور کرو جس عادت یا حرکت کی وجہ سے وہ دوسروں سے نالاں ہے کہیں وہی بیماری اس کےاندر تو موجود نہیں ہے۔
معاشرتی طورپر عمومی طورپر بگاڑ کی صورت اس قسم کی ہوگئی ہے کہ ہمیں اپنی ایجابی اور دوسروں کی سلبی و منفی صفات دیکھائی دیتی ہیں اپنی یا اپنے متعلقین کی غلطیوں کی اصلاح کے بجائے تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔اصلاح کی صورت تو تب سامنے آئے جب غلطی تسلیم کی جائے۔جوقوم اپنے گناہوں پر شرمندہ ہونے کے بجائے انہیں بطور تفاکر بیان کرے یا گناہوں کی تاویلات شروع کردے اس کے سدھار کی کم امید کی جاسکتی ہے