You are currently viewing انسانی زندگی قبل از پیدائش
انسانی زندگی قبل از پیدائش

انسانی زندگی قبل از پیدائش

انسانی زندگی قبل از پیدائش

انسانی زندگی قبل از پیدائش
انسانی زندگی قبل از پیدائش

 

انسانی زندگی قبل از پیدائش

ہم عصر معاملات
اسلام میں انسانی زندگی کے ہر مرحلے کا احترام کیا گیا ہے۔ اس گفتگو میں انسانی زندگی کے قبل از پیدائش مراحل کا اسلامی شریعت کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے۔ گذشتہ تین چار دہائیوں سے انسانی زندگی‘ جان اور روح کے معاملات کو سائنسی ترقی اور بہت سے حیاتِ طبی (Bio-medical) ترقی کے عنوانات کے حوالوں سے دیکھا گیا ہے جو انسانی زندگی‘ صحت‘ طبعی‘ نفسیاتی اور سماجی ترتیب میں نمایاں ہیں۔
یہ نوٹ کیے جانے کے قابل ہے کہ ایسے حیات طبّی معاملات فتاویٰ میں‘ کونسلوں میں‘ مذاکروں میں‘ کانفرنسوں میں زیرِ بحث لائے گئے‘ جہاں حیاتی طب کے ماہرین نے ایسے معاملات کی مبادیات‘ نشوونما‘ ممکنہ فوائد اور نقصانات ماہرینِ شریعت اور ماہرینِ قانون کے سامنے پیش کیے تاکہ وہ ان معاملات پر مکمل سائنسی معلومات اور علم کی روشنی میں شریعت کے احکامات اور رہنمائی حاصل کر سکیں۔
اس پرچے میں قبل از پیدائش انسانی زندگی کے حوالے سے مندرجہ ذیل عنوانات پر سائنسی طبی پس منظر میں گفتگو کی جائے گی تاکہ اسلامی شریعت کے نقطۂ نظر کی وضاحت کی جائے‘ جس پر ان تمام علماء نے اتفاق کیا‘ جنہوں نے ان مباحث میں شرکت کی:
۱۔ انسانی زندگی اور روح
۲۔ روح جو قرآن میں اور رسولِ مقبولﷺ کی احادیث کے مطابق بیان کی گئی ہے
۳۔ گذشتہ اور موجودہ مسلم ماہرینِ قانون کے روح اور انسانی زندگی کے بارے میں خیالات
۴۔ جنین (Fetus) میں روح کی ابتدا اور اہمیت
۵۔ ہم عصر سائنسی اور طبی مضمرات
۶۔ ضبطِ تولید
۷۔ اسقاط
۸۔ رحم سے باہر جنین بشمول قبل از پیدائش تشخیص اور علاج
۹۔ اسٹیم خلیے (Stem cells) پر تحقیق اور اس کے طبی اثرات
خلیات کے نمو پاتے ہوئے گروہ میں زندگی اور روح کے سانس لینے کی ابتدا کی اہمیت اور انسانی زندگی کے ابتدائی مراحل کو موجودہ اور سابقہ لٹریچر کے حوالے سے بیان کیا جائے گا جو ہم کو مہیا ہیں۔
میں نے شریعت کے ان خیالات اور راہنمائی کو پیش کیا ہے جو میں نے ابتدائی ماخذوں سے سمجھے ہیں۔ میں اﷲ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ اگر اس عاجزانہ کام میں اس کی شریعت کو کلی یا جزوی طور پر درست پیش نہ کیا گیا ہو تو مجھے معاف فرما دیا جائے کیونکہ یہ کسی طور پر میری شعوری کوشش نہیں ہے۔
اسلام میں انسانی زندگی کو بہت احترام دیا گیا ہے اور اس کو زندگی کی دوسری تمام اشکال سے ممیز کیا گیا ہے کیونکہ خالقِ حقیقی نے انسان کو بہت عزت اور احترام عطا کیا ہے۔
تمام مذہبی‘ فلسفیانہ اور مادی مکاتبِ فکر میں اسلام منفرد ہے کیونکہ اس نے انسانی زندگی اور روح کے بارے میں کلیت کے حوالے سے دنیا اور آخرت میں انسان کا اضافی تصور پیش کیا ہے۔
روح کیا ہے؟
مسلمان مفکرین نے صدیوں سے انسانی زندگی اور روح پر غور و فکر کیا ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں سے بہت سے دیگر حیات طبی معاملات بشمول ضبطِ تولید‘ اسقاط‘ جسم سے باہر باروری‘ جنین پر تحقیق‘ جنین بنک‘ اسٹیم خلیات پر تحقیق‘ جینیاتی انجینئرنگ جیسے معاملات پر بھی مناسب توجہ کی ہے۔
روح کی نوعیت انسانوں کو معلوم نہیں۔ ہمیں قرآن میں بھی نہیں بتایا گیا۔ اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
’’اور وہ آپ سے روح کے بارے میں پوچھیں گے۔ کہہ دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم کے تابع ہے۔ اے انسان! تجھے بہت کم علم عطا کیا گیا ہے‘‘۔ (الاسریٰ:۸۵)
قرآن نے روح کو مختلف آیات میں بیان کیا ہے اور مفسرین نے بھی اس کے مختلف معنی بیان کیے ہیں۔ ہماری موجودہ گفتگو میں مناسب مفہوم یہ ہے کہ روح بنی نوع انسان میں سانس لیتی ہے۔
بہت سے مسلمان علماء روح کو جان سمجھتے ہیں۔ قرآن کے مترجمین (یوسف علی اور محمد اسد) نے روح کا ترجمہ کے لیے ربانی تخلیقی تحریک کا انتخاب کیا ہے۔ زندگی اور روح کے معاملات بہت سے مسلم علما کے غور و فکر کا موضوع رہے ہیں۔
اب القیوم کہتے ہیں: اگر یہ پوچھا جائے کہ کیا جنین میں روح کے سانس لینے سے پہلے ادراک اور حرکت ہوتی ہے۔ تو یہ جواب دیا گیا کہ یہ حرکت کسی نشوونما پاتے ہوئے پودے کی طرح ہوتی ہے۔ اس کی حرکت اور ادراک ارادی نہیں ہوتا۔ جب جسم میں روح سانس لیتی ہے‘ تب حرکت اور ادراک ارادی ہوتا ہے اور زندگی کے اس نباتی انداز میں شامل ہو جاتا ہے جو روح کے سانس لینے سے پہلے تھا۔
ابن حجرال عسقلانیؒ جنین میں ارادی حرکت کو روح کی موجودگی سے منسلک کرنے کی ایسی ہی توجیح کرتے ہیں۔
ابو حامد الغزالی کہتے ہیں: جنین کی زندگی کا باروری کے وقت سے ہی احترام کیا جانا چاہیے۔ اس ابتدائی زندگی کو کسی طرح نظرانداز نہ کیا جائے‘ جس سے اس کے لیے خطرہ پیدا ہو جائے حالانکہ روح بعد کے مرحلے میں پھونکی جاتی ہے۔
قرآن کے مطابق جس مرحلے میں رحم میں تشکیل پاتے ہوئے جسم میں روح سانس لیتی ہے‘ وہ نطفہ‘ نضفہ اور عَلَقہ‘ ہڈیوں کی تشکیل اور گوشت کا بننا جو ہڈیوں کو ڈھک لیتا ہے‘ اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔
’’ہم نے انسان کو مٹی کے سست سے بنایا۔ پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو ایک لوتھڑے کی شکل دی۔ پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا۔ پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں۔ پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔ پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اﷲ‘‘۔ (القرآن)
مسلم علما اور مفکرین نے تخلیق کے دوسرے عمل کو جنین میں روح کے سانس لینے سے تعبیر کیا۔
رسولِ مقبولﷺ نے اس ضمن میں کئی احادیث کے ذریعہ ہمیں مطلع کیا ہے‘ جن سے جنین میں روح کے سانس لینے کے بارے میں بہت سی معلومات ملیں۔ تاحال عام خیال یہ ہے کہ جان (روح) کی ابتدا حاملہ ہونے کے چار ماہ بعد ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں عبداﷲ ابن مسعودؓ کی حدیث بہت اہم ہے۔
’’رسولِ مقبولﷺ جو ہمیشہ سچ کہتے ہیں‘ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک اپنی ماں کے رحم میں چالیس دن تک رہا۔ پھر اسی وقت میں معلق لختہ (Hangning Clot) بنتا ہے۔ پھر اسی وقت میں گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتے ہیں جس کو چار معاملات طے کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ اس کی معاش‘ اس کا نصیب‘ اس کے اعمال اور یہ کہ وہ مفسد ہو گا یا خوش و خرم۔ پھر وہ اس میں روح پھونکتا ہے‘‘۔ (صحیح البخاری:۱۰/۱)
یہ حدیث اس حد تک معروف اور عام ہوئی کہ اس سے حاصل کردہ نتائج پوری طرح ایسے مستحکم ہو گئے کہ بہت سی دوسری مختلف شہادتیں یا تو نظرانداز کر دی گئیں یا مندرجہ بالا حدیث کی وضاحت کے طور پر بیان کی گئیں۔
اس ضمن میں ہم رسولِ مقبولﷺ کی ان احادیث پر نظر ڈالیں گے جو جنین میں روح کی ابتدا کے معاملے کو مختلف انداز میں بیان کرتی ہیں۔
۱۔ یہی حدیث الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ مگر بہت موثر انداز میں امام مسلم نے بیان کی ہے۔ ’’تم میں ایک چالیس دن اپنی ماں کے رحم میں رہا۔ پھر اسی عرصے میں وہ معلق لختہ (Hanging Clot) بنتا ہے اور اسی عرصے میں گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے۔ پھر اﷲ تعالیٰ فرشتہ بھیجتے ہیں جس کو اس میں روح پھونکنے اور چار معاملات تحریر کرنے کا حکم ہوتا ہے‘‘۔ (صحیح مسلم ۲۰۶۴/۴)
۲۔ حضورِ مقبولﷺ کے صحابی حذیفہ ابن اُسید نے حدیث بیان کی: ’’فرشتہ نطفے کے قطرے میں داخل ہوتا ہے۔ اس کے چالیس یا پینتالیس دن کے بعد رحم میں ٹھہر جاتا ہے۔ فرشتہ کہتا ہے: ’’اے اﷲ! یہ مفسد ہے یا خوش و خرم‘‘ اور فرشتہ لکھتا جاتا ہے۔ پھر فرشتہ پوچھتا ہے: ’’اے اﷲ! یہ مذکر ہے یا مونث‘‘ اور وہ لکھتا ہے۔ وہ اس کے اعمال‘ اس کا نصیب اور اس کی معاش بھی لکھتا ہے۔ پھر کاغذ موڑ لیے جاتے ہیں (ریکارڈ بند کر دیا جاتا ہے)‘ جس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی‘‘۔
۳۔ حذیفہؓ نے حدیث بیان کی۔ ’’جب رحم میں نطفے کے قطرے پر بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اﷲ تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں جو اس کی شبیہ بناتا ہے اور اس کی سماعت کی‘ بصارت کی‘ جلد کی‘ گوشت اور ہڈیوں کی‘ تخلیق کی شہادت دیتا ہے۔ پھر فرشتہ پوچھتا ہے: اس کا نصیب کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ طے کرتے ہیں اور فرشتہ لکھتا جاتا ہے۔ پھر فرشتہ پوچھتا ہے: اے اﷲ! اس کا معاش کیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ معاش طے کرتے ہیں اور فرشتہ لکھتا ہے۔ پھر فرشتہ کاغذ اپنے ہاتھ میں لے کر باہر آجاتا ہے‘ جس کے بعد حکم کے مطابق جو کچھ لکھا گیا ہے‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی‘‘۔
۴۔ حذیفہؓ نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا: میں نے ان کانوں سے رسولِ مقبولﷺ کو کہتے ہوئے سنا: ’’نطفے کا قطرہ رحم میں چالیس دن ٹھہرتا ہے‘ تب اس میں فرشتہ بھیجا جاتا ہے‘‘۔
۵۔ حذیفہؓ نے حدیث بیان کی: ’’جب اﷲ تعالیٰ رحم میں کسی کی تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو چالیس دن اور چالیس راتیں گزرنے کے بعد وہاں ایک فرشتہ متعین کیا جاتا ہے۔
۶۔ ’’جب رحم میں نطفے کے قطرے پر چالیس دن یا چالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اﷲ تعالیٰ اس میں ایک فرشتہ بھیجتے ہیں جو پوچھتا ہے: اے اﷲ! اس کا نصیب کیا ہے اور فرشتے کو بتا دیا جاتا ہے‘‘۔
یہ بات اہم ہے کہ رسولِ مقبولﷺ کی آخری پانچ احادیث میں روح کے سانس لینے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ انہوں نے تخلیق کا انداز اور جنین کے نصیب کے تحریر کیے جانے کا تذکرہ کیا ہے۔ اولین دو احادیث میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ روح کے سانس لینے کے وقت نصیب تحریر کیا جاتا ہے۔ کسی ایک حدیث میں بھی دونوں کے الگ ہونے کا اشارہ نہیں ملتا۔ واضح طور پر سمجھا جاتا ہے کہ جنین کے نصیب تحریر کرنے اور روح کے سانس لینے کا وقت ایک ہی ہے۔
چھ احادیث سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حمل کے ۴۰ دن کے بعد روح سانس لیتی ہے۔ بہت سے ہم عصر علما جنہوں نے ان احادیث کا مطالعہ کیا ہے‘ اس کو بار و رشدہ بیضہ‘ معلق لختہ اور بدنی ڈھیر کا مشترکہ معاملہ سمجھتے ہیں جو چالیس دن کے تین متواتر وقفوں کی بجائے چالیس دن کے ایک سیٹ میں پیش آتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:
’’ہم نے انسان کو مٹی کے سست سے بنایا۔ پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا۔ پھر اس بوند کو لوتھڑے میں تبدیل کیا۔ پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا۔ پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں۔ پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا۔ پھر اسے ایک دوسری مخلوق بنا کر کھڑا کیا۔ پس بڑا ہی بابرکت ہے اﷲ‘‘۔(المومن:۱۲۔۱۴)
یہ جنین کی نمو کے سات مدارج کی نمائندگی کرتا ہے۔
پہلا مرحلہ: مٹی سے تخلیق
اس میں آدم کی مٹی سے تخلیق مضمر ہے۔ اس معاملے کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ منویہ (Sperm) اور بیضہ (Ovam) دونوں کا ماخذ انسان کے جسم ہی ہیں جو ان غذائی مادوں سے بنتے ہیں‘ جن کا ماخذ مٹی ہی ہے۔
دوسرا مرحلہ: منویے۔ بیضے کا قطرہ
یہ جگہ (Zygote) ہے جو منویے اور بیضے کے مل جانے کا نتیجہ ہے۔ حدیث کے ان الفاظ پر بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’تمہیں اپنی تخلیق میں جمع کیا گیا ہے یا اکٹھا کیا گیا ہے۔ جس کی وضاحت اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ دونوں والدین سے نصف لون اجسام (Chromosomes) آتے ہیں اور دونوں کو بارورشدہ بیضے میں ملایا جاتا ہے۔
تیسرا مرحلہ: معلق لختہ (Hanging Clot)
یہ باروری کے تقریباً ساتویں دن بنتا ہے۔ یہ معلق لختہ باریک خملوں (Villis) کے ذریعہ رحم کی اندرونی دیوار سے چسپاں ہوتا ہے۔ یہ خملے بعد کے مراحل میں زیادہ نمو یافتہ ہو جاتے ہیں۔ اگر اس مرحلے کی کوئی تصویر بنائی جائے تو یہ معلق لختہ یا ابتدائی جنین رحم کی اندرونی دیوار میں لٹکی کسی شے کی طرح نظر آئے گا۔ بہت سے علما اس مرحلے کو انسانی نشوونما میں بہت ابتدائی مشکل سمجھتے ہیں۔ قرآن میں سورہ القلم میں کہا گیا۔ ’’اس (اﷲ تعالیٰ) نے انسان کو معلق لختے سے تخلیق کیا‘‘۔
یہ بات قابلِ فہم ہے کہ اس مرحلے سے پہلے زندگی کی ابتدائی تنصیب ایک مختلف شکل رکھتی ہے۔ ایک منویہ یا بیضے سے زندگی تشکیل نہیں پاتی کیونکہ ان میں سے کوئی ایک تنہا انسانی وجود میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح کوئی بارور شدہ بیضہ رحم کے اندر ہو یا باہر مگر نصب ہو تو بھی انسان کا وجود ممکن نہیں ہے۔ بہت سے بار و رشدہ بیضے قاذف قناۃ (Fallopian Tube) سے رحمی کیفے میں آتے ہیں اور نصب ہوئے بغیر باہر خارج ہو جاتے ہیں۔ یہ صرف چسپاں بیضہ ہے (معلق لختہ) جس کی اہمیت اور جس سے انسان کی نشوونما ہوتی ہے۔
چوتھا مرحلہ:
جنین کو عمومی طور پر تقسیم کرنے والے نشیب و فراز دکھائی دینے لگتے ہیں۔ عربی کی اصطلاح لُضفَہ سے تصور کچھ چبائی ہوئی گوشت کی بوٹی کی طرف جاتا ہے حالانکہ اس کی جسامت صرف چند ملی میٹر ہوتی ہے۔ اس مرحلے کی ابتدا تیسرے ہفتے کے آخر یا چوتھے ہفتے کی ابتدا میں ہوتی ہے۔ جنینوں کی نشوونما میں کچھ فرق بھی ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے شیرخوار بچوں کی نشوونما میں ہوتے ہیں۔
پانچواں مرحلہ: ہڈیوں کی نمو کا مرحلہ
پانچویں مرحلے میں ابتدائی حلقے (Somites) نمودار ہڈیوں کے ابتدائی سروں کا آغاز چھٹے ہفتے میں ہوتا ہے۔ بالائی بازو زیریں بازو سے پہلے نمودار ہو جاتا ہے۔ ہڈیوں کی تخلیق کے بارے میں سورہ بقرہ کی آیت۲۵۹ پر توجہ کرنا بہت اہم ہے۔ فرمایا: ’’اور ہڈیوں کو دیکھو۔ ہم نے ان کو کیسے بنایا اور کیسے گوشت سے ڈھک دیا‘‘۔ اگر ہڈیوں کی تشکیل کا مرحلہ خوردبین سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نوکیلے حصوں کی مسلسل تشکیل ہو رہی ہے۔ یہ ایک اور ربانی نشانی ہے۔
چھٹا مرحلہ: گوشت کا مرحلہ (عضلات)
پانچویں مرحلے کے چند دن بعد چھٹے ہفتے میں فقروں (Vertebrae) کے گرد ابتدائی عضلات کا آغاز ہوتا ہے۔ اور ساتویں ہفتے میں ان کے آخری حصوں کے گرد عضلات بنتے ہیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ نے ایک وحی کے ذریعہ بتایا ہے کہ ہڈیاں کیسے تشکیل پاتی ہیں اور کیسے عضلات ان کو ڈھکتے ہیں۔
چھٹا ہفتہ شروع ہوتے ہی بیرونی اور اندرونی دونوں اعضا بننے لگتے ہیں اور ساتواں ہفتہ ختم ہونے پر یا آٹھواں ہفتہ شروع ہونے پر مکمل ہو جاتے ہیں۔
ساتواں مرحلہ:
ساتویں درجے کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ ’’تب ہم نے اُسے ایک نئی شکل میں تخلیق کیا‘‘۔ بہت سے علما اور مفکرین ساتویں ہفتے کے آخری حصے کو روح یا جان کی ابتدا سے تعبیر کرتے ہیں۔ کچھ اور ہم عصر علما اس دن کا قطعی تعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب روح نے جنین میں سانس لیا۔ قرآنی آیات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مندرجہ بالا احادیث اور طبی اور سائنسی ترقی کے پیشِ نظر وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ روح کے حصول کے بعد جنین میں ہلکی سی تبدیلی ہوتی ہے‘ اس کے لیے کم از کم ۴۰ راتیں (یا دنوں) کا اور زیادہ سے زیادہ پینتالیس راتوں (یا دنوں) کا تعین کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں تیسری اور پانچویں حدیث کے مطابق بار و رشدہ بیضے کی رحم میں نصب ہونے کے ۴۰ دنوں کے بعد روح کی ابتدا ہوتی ہے۔ چوتھی اور چھٹی حدیث کے مطابق باروری کی بیالیس راتوں کے بعد روح کے سانس لینے کی ابتدا ہوتی ہے۔ اب یہ سائنسی طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ بارورشدہ بیضے کو رحم کے اندرونی دیوار میں نصب ہونے کے لیے ۷ دن درکار ہوتے ہیں جو معلق لختے کی ابتدا کے مرحلے سے مماثل ہیں۔
اگر ہم تیسری حدیث کے بیالیس دنوں میں یہ سات دن جوڑ لیں اور اگر ہم جنین کی نمو کی شرح کو ذہن میں رکھیں اور اس حدیث پر بھی توجہ دیں‘ جس میں ۴۵ دن بیان کیے گئے ہیں تو روح باروری کے ۴۷ یا ۵۲ دنوں کے درمیان شروع ہوتی ہے۔
اس مرحلے پر ہم طبی سائنس کے کارکنان جنینیات (Embryology) میں نئی معلومات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے کی پوزیشن میں ہیں‘ جن میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ جنین چھٹے ہفتے کے آخر میں نمو کے ایک اہم مرحلے میں ہوتا ہے۔ بہرحال ہمیں یہ کہنا ہے کہ کچھ علما کی رائے اب بھی یہی ہے کہ روح کی ابتدا باروری کے ۱۲۰ دن کے بعد ہوتی ہے۔
حیات طبی معاملات کے مضمرات
حیات طبی معاملات بہت سے مباحث اور قانونی فیصلوں کا سبب رہے ہیں۔ اب ہمارے پاس فقہ‘ طبی مذاکروں‘ فتاوی کونسلوں اور مسلم علما اور مفکرین کی مطبوعات کا خزانہ موجود ہے۔

Hakeem Qari Younas

Assalam-O-Alaikum, I am Hakeem Qari Muhammad Younas Shahid Meyo I am the founder of the Tibb4all website. I have created a website to promote education in Pakistan. And to help the people in their Life.

Leave a Reply