)) ڈسٹ الرجی کے بارہ میں میرے تجربات1
عمومی طورپر الرجی کے لئے مہینوں سالوں سالوں تک دوائیں استعمال کی جاتی ہیں۔مہنگے اور لمبے چوڑے ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں ، ویکسین لگوائی جاتی ہے۔لیکن اصؒ سبب کی طرف توکہ نہیں کی جاتی،جب تک اصل سبب معلوم نہ ہو کسی معمولی بیماری یا علامت پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔دیگر امراض کی طرح الرجی بھی تین اقسام کی ہوتی ہیں۔یہی بات اس مضمون سمجھانے کی کوشش کی گئی ہےـ(حکیم قاری محمد یونس شاہد میو ////پہلی قسط
1 ڈسٹ الرجی کے بارہ میں میرے تجربات
حکیم قاری محمد یونس شاہد میو
الرجی
اس وقت اسلام آباد اور اس کے گرد ونواح میں پولن الرجی وحشی درندے کی طرح بچے بوڑھے جوان مرد و عورت بہت سے لوگوں کو اپنی لپیٹ مین لئے ہوئے۔یہ اس علاقے کی آب و ہوا ،اور جنگلی شہتوتوں کی وجہ سے بتائی جاتی ہے۔اگر عوام و خواص مین غذائی اور ادویاتی اگاہی کی مہم چلائی جائے کہ پولن الرجی سے پیدا شدہ تکالیف کو کیسے کم یاختم کیاجاسکتا ہے؟تو ادویات کے بھاری بھرکم اخرجات سے بچا جاسکتا ہے،اور دکھی انسانیت کو اس تکلیف سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔
عام زندگی میں ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلاں کوگرد(دسٹ) سے الر جی ہے گھریلو خواتیں اس میں زیادہ مبتلاء دیکھی گئی ہیں،ممکن ہے سانس کی بیماری کی سب سے بڑی وجہ یہی ہو۔ دسٹ الرجی کی سب سے نمایاں علامات درج ذیل ہیں۔جلد پر خارش کا احساس ہونا، چھینکیں آنا یا ناک کا بہنا شروع ہونا، کھانسی، ناک میں سوزش، جلد کا سرخ ہو جانا اور دمے کے دورے وغیرہ کسی کو انڈے سے الرجی ہے ،جب وہ انڈے کھاتا ہے تو طبیعت میں بے چینی کی مختلف علامات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں
کسی کے چہرے پر دانے ہیں، تو معالج کہ دیتے ہیں کہ یہ چہرے پر لگائی جانیوالی کریموں سے ہونے والی الرجی ہے ۔ بعض اوقات کسی کیڑے مکوڑے،مکھی، مچھر اورکھٹمل کے کاٹنے سے جلد سرخ اور اس پر دھڑ بن جاتے ہیں اسے بھی الرجی میں شمار کیا جا تا ہے ، کسی کوسگریٹ (دھویں)سے نفرت ہے تو وہ اپنے پاس کسی شخص کو سگریٹ پیتا برداشت نہیں کرسکتا، بلکہ لڑ پڑے گا کہ اسے بند کرو،یا پھر کسی دوسری جگہ جا کر بیٹھ جائو، کسی سے بھی پوچھ لیاجائے کہ یہ الرجی ہے کیا بلا؟ جو ہر انسان پر مختلف اشیاء کے استعال
کے نتیجے میں حملہ آور ہوتی ہے؟،عمومی طورپر اس کا واضح جواب نہیں ملتا۔
میڈیکل سائنس کی زبان میں الرجی سے مراد ہمارے جسم کا کسی ایسی چیز کے خلاف رد عمل ہے ،جوحلق سے نیچے اتر جائے ،یا سانس کے ذریعے اندر چلی جائے، یا ہماری جلد سے چھو جائے،کسی کیڑے کے کاٹنے یا ٹیکے کے ذریعہ جسم میں داخل ہوجائے، الرجی کہلاتی ہے۔
مثلا پھولوں کے زردانوں یا پولن سے اکثر افراد کو الرجی ہوتی ہےـ(اسلام آباد ،اس کے ادرد گرد کے علاقوں والوں کے لئے آج کل پولن الرجی وبال جان بنی ہوئی ہے) یہ زردانے پھولوں کے اندرونی حصہ میں پل، بڑھ کے ہوا میں شامل ہوجاتے ہیں، اس
ہوا میں سانس لینے سے، سانس کی نالی کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر علامات پیدا کر دیتے ہیں
اسی طرح بعض افراد کوکسی چیز سے جلد کی الرجی ہو جاتی ہے، الرجی پیدا کرنے والا مادہ مثلاََمٹی ، پانی، جانوروں کی کھال وغیرہ جب ان کی جلد پر گرتا ہے، تویہ مادہ جلد میں جذب ہو کر اپنے اثرات پیدا کرنا شروع کردیتا ہے، جلد کا رنگ سرخ، اس پر دانے دھپڑ اور خارش وغیرہ ہو جاتی ہے۔
قانون مفرداعضاءاور الرجی
قانون مفرد اعضاء کے تحت الرجی کوئی بیماری نہیں کیونکہ جسم انسان میں الرجی نام کا کوئی پرز ہ نہیں ہے۔تو علاج کس عضو کا کیا جائےگا ۔قانون مفرداعضاء کے تحت جس چیز سے الرجی کی علامات پیدا ہوتی ہیں،یہی مواد الرجی والے کے جسم میں پہلے سے زیاد مقدار میں موجود ہوتا ہے،انسان جب ایسی اشیاء استعمال کرتا ہے جس میںاس مادہ یا اس مزاج کا مواد زیادہ مقدار میں ہوتو
،تو یہ مادہ حد اعتدال سے زیادہ ہو جاتا ہے،جسم اسے کام میں لانے یا قوت مدافعت اسے خارج کرنے،ٹھکانے لگانے سے عاجز آجاتی ہے،
اس سے جوعلامات پیدا ہوتی ہیں وہی الرجی کہلاتی ہیں۔ مثلا کسی مریض کوانڈوں سے الرجی ہوتی ہے، ایسےشخص کے جسم وخون میں پہلے ہی گرمی خشکی کی زیادتی ہوتی ہے،جسم میں موجود مواد یعنی گرمی خشکی کو جسم اپنی حد تک برداشت کرتا ہے لیکن جیسے ہی جسم میں یہی غیر معتدلہ مواد داخل ہوتا ہے یعنی مریض انڈہ کھاتا ہے تو فوراََ دوران خون میں جوش پیدا ہوکر الرجی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
اسی طرح اگرمریض کو چاولوں سے الرجی ہے تو ایسا مریض اعصابی تحریک میںمبتلاء ہے،گاہے بگاہے سرد موسم میں بھی اسے الرجی ہوجاتی ہے۔ٹھنڈے پانی میں ہاتھ دینے سے بھی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں۔چاول یا ٹھنڈی چیز کھاتے ہیں الرجی شروع ہوجاتی ہے ۔اعصابی سوزش کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں،انہیں علامات کو الرجی کہا جاتا ہے،یہ خودرنی الرجی بھی کہلاتی ہے،
چاولوں کا سب کو اندازہ ہوتا ہے لیکن اگر کوئی بھی اعصابی مزاج کی چیز دی جائے تو اسے الرجی شروع ہوجاتی ہے۔ یعنی الرجی ہر اس چیز سے ہوجاتی ہے جو جسم میں پہلے سے زیادہ مقدار میں موجود ہو۔
الرجی کہا ں ہوتی ہے؟
الرجی چیزوں میں نہیں ہوتی بلکہ مریض کے مزاج یا جسم میں ہوتی ہے۔مزاج و تحریک ہر ایک کے لئے جداگانہ ہوتے ہیں۔ایک تجربہ کرکے دیکھیں جس سے واضح ہوجائے گا کہ الرجی اشیاء میں نہیں ہوتی بلکہ انسانی جسم میں ہوتی ہے۔مثلاََ ایک مریض خشکی گرمی والی اشیاء جیسے انڈہ وغیرہ سے الرجک ہے،جب انڈہ کھائے گا تو اس کے جسم میں گرمی خشکی والی علامات ظاہر ہونگی،طبیعت میں بے چینی بڑھ جائے گی،جلد پر سرخ ابھار پیدا ہوجائیں گے،ٹھنڈی ہوا سے سکون محسوس ہوگا۔حبس اور کم آکسیجن والی جگہ پر سانس لینے میں دشواری ہوگی۔
اسی طرح اگر کسی کو اعصابی شوزش ہے،وہ اُبلے چاول،آئس کریم۔کیلے کا شیک،اروی،بھنڈی وغیرہ کھائے گا یا ٹھنڈے پانی میںہاٹھ ڈالے گا۔(جیسے کچھ عورتوں کو کپڑے دھوتے وقت الرجی شروع ہوجاتی ہے)یا بارش میں بھیگ جائے گا تو اس کے جسم پر درپھڑ ظاہر ہونا شروع ہوجائیںگے۔یہ الرجی رات کے وقت زیادہ تنگ کرتی ہے۔۔
تجربہ
تجربہ یہ کرنا ہے کہ۔انڈے سے الرجک مریض کو چاول کھلائیں اس کی علامات فوارا ختم ہونا شروع ہوجائیں گی۔۔آئس کریم کھلائیں،سبزیوں میں اروی،بھنڈی وغیرہ کھلائیں تو راحت ملے گی۔
اسی طرح ٹھنڈ سے الرجک مریضوں کو انڈے یا بھنا ہوا گوشت،تیز مصالحہ دار اشیاء کھلائیں فورا انہیں راحت محسوس ہوگی۔اس بحث سے معلوم ہوا کہ سارے مریضوں کو ایک ہی قسم کی الرجی نہیں ہوتی،ہر مریض کے مزاج کے مطابق الرجی ہوگی۔۔ عام طور پر جس الرجی میں جلد پر دانے درپھڑ بنتےاور جلد گرم سرخ ہو جاتی ہے قانون مفرداعضاءتو اسے غدی عضلاتی تحریک کی شدت کی علامت مانتا ہے جس کے نتیجے میں دوران خون جلد کی سطح جلدپر بڑھ کر جلد کو سرخ اور متورم کر دیتا ہے، بعد میں خارش جیسی علامات پیدا ہو جاتی ہیں ،
اگزیما بھی اسی حالت کا نام ہے، اس میں جلد کی بیرونی پرت سرخ اور گرم ہو جاتی ہے۔ ابتدا میں سوجن اور بعد میں زخم میں سے پانی رسنے لگتا ہے۔ اسی طرح پتی اچھلنا،يا چھیا کی بھی جلد کی مشہور بیماری ہے۔ جس میں جلد پر ایک یا کئی دانے بن جاتے ہیں ۔ جو دو تین گھنٹے کے بعد خود بخود ہی ختم ہو جاتے ہیں ،ان میں بعض اوقات خارش نہیں ہوتی اور بعض دفعہ خارش بھی جاتی ہے اس صورت میں بھی دوران خون تیز ہو کر جلد کی بیرونی پرت میں زیادہ آ جاتا ہے اور جلد سرخ ہو جاتی ہے۔